موجودہ نرخ سے زیادہ نرخ پر ادھار بیع کا حکم
تحریر : فتاویٰ سعودی فتویٰ کمیٹی

موجودہ نرخ سے زیادہ نرخ پر ادھار بیع کا حکم
یہ ا کثر علما کے نزدیک جائز ہے۔ اس کی دلیل یہ آیت مبارکہ ہے۔
«يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنتُم بِدَيْنٍ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوهُ» [البقرة: 282]
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! جب آپس میں ایک مقرر مدت تک قرض کا لین دین کرو تو اسے لکھ لو۔“
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے یہ شرط نہیں لگائی کہ ادھار خرید و فروخت موجودہ نرخ کے مطابق ہو۔
نیز یہ فرمان نبوی بھی اس کے جواز کی دلیل ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے اور وہاں کے لوگ پھلوں میں سال دو سال کے لیے بیع سلم کیا کرتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ جو (ادھار بیع) کرتا ہے تو معلوم وزن، معلوم باپ اور معلوم مدت تک کے لیے کرے۔“ [سنن الترمذي، رقم الحديث 1311]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہ شرط نہیں لگائی کہ وہ موجودہ نرخ کے مطابق ہو۔ حاکم اور بیہقی نے جید سند کے ساتھ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے یہ روایت بیان کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں لشکر تیار کرنے کا حکم دیا، اوٹ ختم ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ زکاۃ کے اونٹ آنے تک دو اونٹوں کے بدلے ایک اونٹ خرید لیں۔ [سنن أبى داود، رقم الحديث 2823]
اس مفہوم کے بہت سارے دلائل ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ادھار تجارت اس کے بغیر درست انداز میں ہو بھی نہیں سکتی کیونکہ تاجر کے لیے بھی عموماً یہ ممکن نہیں ہوتاکہ وہ ادھار چیز موجودہ نرخ پر بیچ سکے، اس کا اس کو بہت زیادہ خسارہ ہو سکتا ہے، اس طرح بیچنے والا نفع کما لیتا ہے، جبکہ خریدار مہلت اور آسانی سے فائدہ اٹھا لیتا ہے، کیونکہ ہر شخص اپنی ضرورت کی چیز موجودہ قیمت پر خریدنے کی طاقت نہیں رکھتا، اگر ادھار لین دین میں زیادہ لینے سے منع کر دیا جائے تو اس کا معاشرے کو نقصان پہنچے گا۔ شریعت مصالح اور مفادات کے حصول اور تکمیل کے لیے اور مفاسد اور نقصانات کی بیخ کنی اور انہیں کم کرنے کے لیے آئی ہے، اس جواب کا تعلق اس چیز کے ساتھ ہے، جسے انسان اپنے
استعمال اور خود فائدہ اٹھانے کے لیے خریدتا ہے۔
لیکن اگر کوئی خریدار اپنی کسی ضرورت کے لیے مثلاً: قرض ادا کرنے کے لیے، گھر تعمیر کرنے کے لیے یا پھر شادی وغیرہ کرنے کے لیے کوئی چیز ادھار خریدتا ہے تاکہ اسے نقد بیچ کر پیسے حاصل کر لے، اگر خریدار یہ معاملہ اس ارادے کے ساتھ کرے تو اس کے جائز ہونے کے متعلق علماء کرام میں اختلاف ہے، اسے فقہاء کی اصطلاح میں ’’ تورق“ اور عوام کی زبان میں ”وعدہ“ کہا جاتا ہے۔
اس کے متعلق راجح قول جواز کا ہے، اور گزشتہ عموی دلائل کی بنا پر ہم بھی اس کے جائز ہونے کا فتوی دیتے ہیں کیونکہ معاملات میں جواز اور اباحت اصل ہے، ماسوائے اس کے جس کے ممنوع ہونے کی کوئی خاص دلیل ہو، نیز اس کی ضرورت بھی بہت زیادہ پیش آتی ہے، اور ضرورت مند انسان کو اس کی ضرورت پوری کرنے کے لیے ا کثر اوقات کوئی قرض دیتا ہے نہ خیرات، لہٰذا ایسی حالت میں اسے اس معاملے کی شدید ضرورت ہوتی ہے تاکہ جو قرض وغیرہ کا بوجھ اسے مشقت میں ڈالے ہوئے ہے اس سے اپنی جان چھڑائے، لیکن اگر کسی انسان کے لیے اس سے بچنا اور اپنی ضرورت میں اعتدال قائم رکھنا ممکن ہوتا آنکہ اللہ تعالیٰ اس کے لیے کوئی آسانی پیدا کر دے تو یہ بہر حال زیادہ بہتر اور محتاط ہے۔
یہاں اس بات پر خبر دار کرنا بھی ضروری ہے کہ فروخت کرنے والے کے لیے وہ سامان فروخت کرناجائز نہیں جو اس کے قبضے میں نہ آیا ہو بلکہ وہ اس وقت تک ان تاجروں کی ملکیت ہی میں رہے گا جب تک وہ اسے اپنے گھر یا بازار وغیرہ میں منتقل نہ کر لے کیونکہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ وہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اندازے کے ساتھ خوراک خرید لیتے تو آپ ہماری طرف کسی آدمی کو یہ حکم دے کر بھیجتے کہ ہم اسے اس وقت تک نہ بیچیں جب تک اپنے گھروں میں منتقل نہ کر لیں۔ [سنن النسائي، رقم الحديث 4608]
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں سے سامان خریدا جاتا ہے اسے وہیں بیچنے سے منع فرمایا حتی کہ تاجر اسے اپنے گھروں میں سمیٹ نہ لیں۔ [سنن أبى داود، رقم الحديث 3499]
حضرت حکیم بن حزام سے مروی ہے کہ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے پاس کوئی آدمی کوئی چیز خریدنے کے لیے آئے اور وہ میرے پاس نہ ہو تو کیا میں اس کا سودا کر لوں، پھر اسے جا کر خرید لوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو تیرے پاس نہیں اسے نہ بیچ۔ [سنن أبى داود، رقم الحديث 3503]
احمد، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے اسے صحیح سند کے ساتھ بیان کیا ہے۔
[ابن باز: مجموع الفتاوي و المقالات: 97/19]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: