موت کا اعلان کرنا اور نوحہ کرنا حرام ہے
النعي سے مراد موت کی اطلاع دینا یا اعلان کرنا ہے ۔
[القاموس المحيط: ص / 1726 ، النهاية لابن الأثير: 85/5 – 86]
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
ان النبى صلى الله عليه وسلم كان ينهى عن النعي
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم موت کے لیے (کھلے عام ) اعلان کرنے سے منع فرمایا کرتے تھے ۔“
[حسن: صحيح ترمذي: 786 ، كتاب الجنائز: باب ما جاء فى كراهية النعي ، ترمذى: 986 ، أحمد: 406/5 ، ابن ماجة: 1476 ، بيهقى: 74/4 ، ابن أبى شيبة: 274/3]
واضح رہے کہ جس نعي سے شریعت نے منع کیا ہے وہ اہل جاہلیت کا طریقہ ہے ، جس کی صورت یہ تھی کہ لوگ موت کی اطلاع دینے والوں کو بھیجتے جو گھروں کے دروازوں اور بازاروں میں اعلان کرتے (اس میں نوحہ ہوتا اور اس کے ساتھ میت کے افعال حمیدہ کا بیان ہوتا ) جیسا کہ حافظ ابن حجرؒ نے یہی تفصیل بیان کی ہے۔
[فتح الباري: 453/3]
علاوہ ازیں محض کسی کی وفات کی اطلاع دینا مباح و درست ہے اور اس کے دلائل حسب ذیل ہیں:
➊ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی کی وفات کی اطلاع دی ۔
[بخاري: 1333 ، كتاب الجنائز: باب التكبير على الجنازة أربعا ، مسلم: 951]
➋ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں جھاڑو دینے والی خاتون کے متعلق فرمایا:
آفلا كنتم آذنتموني
”تم نے مجھے اطلاع کیوں نہ دی۔“
[بخاري: 1337 ، كتاب الجنائز: باب الصلاة على القير بعد ما يدفن]
➌ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ موتہ میں شہید ہونے والے تین افراد کی اطلاع دی ۔
[بخاري: 4262 ، كتاب المغازى: باب غزوة مؤته من أرض الشام]
(ابن عربیؒ ) احادیث کے مجموعے سے تین حالتیں اخذ کی جا سکتی ہیں:
① گھر والوں ، ساتھیوں اور اہل اصلاح کو اطلاع دینا سنت ہے۔
② مفاخرت (تکبر وریاء) کے لیے بڑی جماعت کو دعوت دینا مکروہ ہے۔
③ ایسی اطلاع جس میں نوحہ یا اسکی مثل کوئی کام ہو حرام ہے۔
[عارضة الأحوذى: 206/4]
(البانیؒ) جاہلیت کے طریقے کے مشابہ نہ ہو تو وفات کی اطلاع دینا جائز ہے۔
[أحكام الجنائز: ص: 45]
نوحہ کرنے سے مراد یہ ہے کہ مرنے والے کے اوصاف و شمائل کو گن گن کر بلند آواز سے بیان کرنا اور رونا پیٹنا اور اچھے اور عمدہ کارناموں کو یاد کر کے چیخ و پکار کرنا۔
[سبل السلام: 776/2]
➊ حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ :
أخذ علينا رسول الله أن لا ننوح
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعت کے موقع پر ہم سے یہ عہد لیا تھا کہ ہم نوحہ نہیں کریں گی ۔“
[بخاري: 1306 ، كتاب الجنائز: باب ما ينهى من النوح والبكاء والزجر على ذلك ، مسلم: 936 ، أبو داود: 3127]
➋ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں اس سے بری ہوں جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بری ہیں:
فان رسول الله برئ من الصالقة والحالقة والشاقة
”اور بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مصیبت کے وقت اونچی آواز نکالنے والی ، پریشانی کے وقت اپنے سر کے بال منڈوانے والی اور آفت کے وقت اپنے کپڑے پھاڑنے والی عورت سے بری ہیں ۔“
[مسلم: 104 ، كتاب الإيمان: باب تحريم ضرب الخدود ، بخارى: 1296 ، أبو داود: 3130 ، نسائي: 20/4]
صالقۂ ، حالقہ اور شاقہ کا ترجمہ امام ابن اثیرؒ کی کتاب جامع الاصول سے لیا گیا ہے۔
[جامع الأصول: 104/11]
➌ حضرت ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ :
النائحة إذا لم تتب قبل موتها تقام يوم القيمة وعليهـا سـربـال مـن قطران ودرع من جرب
”نوحہ کرنے والی عورت اگر اپنی موت سے پہلے توبہ نہیں کرے گی تو روز قیامت اس حال میں اٹھائی جائے گی کہ اس پر گندھک کا کُرتا اور خارش کی قمیض ہو گی ۔“
[مسلم: 934 ، كتاب الجنائز: باب التشديد فى اليناحة ، أحمد: 342/5]