مواقیت حج: پانچ مقامات اور ان کی تفصیل شرعی دلائل سے
ماخوذ : فتاویٰ ارکان اسلام

سوال

جگہ کے اعتبار سے حج کے مواقیت کون سے ہیں؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جگہ کے اعتبار سے حج کے پانچ مقررہ مواقیت ہیں، جن کی تفصیل درج ذیل ہے:

1. ذوالحلیفہ

  • اس مقام کو آج کل "ابیار علی” کہا جاتا ہے۔
  • یہ مدینہ منورہ کے قریب واقع ہے اور مکہ مکرمہ سے تقریباً دس مراحل کے فاصلے پر ہے۔
  • یہ مکہ کے لحاظ سے سب سے دور واقع میقات ہے۔
  • یہ میقات اہلِ مدینہ اور ان کے راستے سے آنے والوں کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔

2. جحفہ

  • یہ ایک پرانا گاؤں ہے جو شام سے مکہ کے راستے میں واقع تھا۔
  • جحفہ اور مکہ کے درمیان کا فاصلہ تقریباً تین مراحل کا ہے۔
  • چونکہ اب یہ گاؤں غیر آباد ہو چکا ہے، اس لیے لوگ اس کے متبادل کے طور پر رابغ سے احرام باندھتے ہیں۔

3. یلملم

  • یہ ایک پہاڑ یا مقام ہے جو یمن سے مکہ مکرمہ آنے کے راستے میں واقع ہے۔
  • آج کل اسے "سعدیہ” کے نام سے جانا جاتا ہے۔
  • یلملم اور مکہ کے درمیان کا فاصلہ تقریباً دو مراحل ہے۔

4. قرن المنازل

  • یہ ایک پہاڑ ہے جو نجد سے مکہ کے راستے میں آتا ہے۔
  • آج کل اس مقام کو "السیل الکبیر” کہا جاتا ہے۔
  • مکہ اور قرن المنازل کے درمیان کا فاصلہ بھی تقریباً دو مراحل ہے۔

5. ذاتِ عِرق

  • یہ مقام عراق سے مکہ کی جانب آنے والے راستے میں واقع ہے۔
  • اس کا مکہ سے فاصلہ بھی تقریباً دو مراحل پر مشتمل ہے۔

احادیث و اقوال کی روشنی میں وضاحت

  • ان میں سے چار مواقیت: ذوالحلیفہ، جحفہ، یلملم، اور قرن المنازل کو رسول اللہ ﷺ نے خود مقرر فرمایا ہے۔
  • اس کی تصدیق اہلِ سنن نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت سے کی ہے۔

ذاتِ عرق کی تعیین

    • ذاتِ عرق کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے میقات مقرر فرمایا، جب اہل کوفہ و بصرہ نے ان سے عرض کیا:

"امیرالمومنین! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل نجد کے لیے قرن کو میقات مقرر فرمایا ہے اور یہ ہمارے راستے سے بہت دور ہے۔”

    • حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

"تم یہ دیکھو کہ اس کے بالمقابل تمہارے راستے میں کون سا مقام ہے۔”

شرعی اصول کے مطابق حکم

  • اگر ذاتِ عرق کی تعیین نبی کریم ﷺ سے ثابت ہو جائے تو معاملہ بالکل واضح ہے۔
  • اگر نہ بھی ہو تو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی سنت سے یہ ثابت ہے۔
  • آپ ان خلفائے راشدین میں سے ہیں جن کی اتباع کا ہمیں حکم دیا گیا ہے۔
  • اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں کئی مقامات پر ان کی رائے کے مطابق احکام نازل فرمائے۔

فقہی قیاس اور موجودہ دور میں اس کا فائدہ

  • اگر کسی شخص کا گزر کسی میقات کے قریب سے ہو، تو وہاں سے احرام باندھنا لازم ہے۔
  • اگر وہ کسی ایسے مقام سے گزرے جو کسی میقات کے بالمقابل ہو، تو شرعی حکم وہی ہوگا جیسے وہ اصل میقات کے قریب سے گزر رہا ہو۔
  • حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ اجتہاد آج کے دور میں بھی بے حد مفید ہے، خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جو ہوائی جہاز کے ذریعے مکہ مکرمہ آتے ہیں۔

موجودہ دور کی عملی مثال

  • اگر کوئی شخص حج یا عمرہ کے ارادے سے ہوائی جہاز کے ذریعے سفر کر رہا ہو، تو جب جہاز کسی میقات کے اوپر سے گزرے، تو وہیں سے احرام باندھنا ضروری ہے۔
  • جدہ پہنچنے تک احرام کو مؤخر کرنا جائز نہیں، جیسا کہ آج کل بہت سے لوگ کرتے ہیں۔
  • اس میں کوئی فرق نہیں کہ آپ زمین پر ہوں، فضا میں ہوں یا سمندر میں ہوں۔

مزید وضاحت

  • اسی لیے جو لوگ بحری جہاز سے آتے ہیں، جب وہ یلملم یا رابغ کے بالمقابل آتے ہیں، تو وہیں سے احرام باندھ لیتے ہیں۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1