سوال
کیا ایام تشریق کی راتیں منیٰ میں گزارنا ضروری ہے؟ اگر کسی نے ایسا نہ کیا ہو تو اس پر کیا کفارہ ہے؟ اس دفعہ پاکستانیوں کے خیمے منیٰ سے باہر مزدلفہ میں تھے۔
جواب
جمہور فقہاء کے مطابق ایام تشریق (11، 12، اور 13 ذوالحجہ) کی راتیں منیٰ میں گزارنا واجب ہے۔ اگر کوئی شخص بغیر عذر کے منیٰ میں رات بسر نہ کرے تو اس پر دم (ایک جانور کی قربانی) واجب ہو جاتی ہے۔ جمہور فقہاء کا کہنا ہے کہ رات کا زیادہ حصہ منیٰ میں گزارنا ضروری ہے
【الموسوعۃ الفقھیۃ، جلد 17، صفحہ 58】
منیٰ میں رات بسر نہ کرنے کی تفصیل:
1. عذر کی بنا پر منیٰ میں رات نہ گزارنا:
عذر کی مثالیں: بیماری، جگہ نہ ملنے کی وجہ سے یا کسی شرعی عذر کی بنا پر۔
شیخ ابن باز رحمہ اللہ کا فتویٰ: اگر کوئی شخص منیٰ میں ایام تشریق کی راتیں کسی عذر کی وجہ سے گزارنے کی استطاعت نہ رکھے، تو اس پر کوئی کفارہ لازم نہیں آتا۔ جیسا کہ قرآن کا حکم ہے:
"اللہ سے اتنا ڈرو جتنا تمہارے بس میں ہے”
【التغابن:16】
شرعی عذر کی مثالیں: پانی پلانے والے، چرواہے، یا ایسے لوگ جو ان کے کام میں شامل ہوں۔
2. بغیر کسی عذر کے منیٰ میں رات نہ گزارنا:
شیخ ابن باز رحمہ اللہ کا فتویٰ: جو شخص بغیر کسی شرعی عذر کے منیٰ میں ایام تشریق کی راتیں نہ گزارے، اس پر دم واجب ہو جاتا ہے۔ علماء کے مطابق منیٰ میں رات گزارنا حج کے واجبات میں شامل ہے، اور اس کو ترک کرنے پر کفارہ لازم آتا ہے۔
دم کا ثبوت:
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت ہے:
"جس نے کوئی عمل ترک کر دیا یا بھول گیا، تو اسے چاہیے کہ وہ قربانی کرے۔”
کفارہ کا طریقہ:
دم کے طور پر ایک جانور مکّہ میں ذبح کیا جائے گا اور اس کا گوشت مکّہ کے فقراء اور مساکین میں تقسیم کیا جائے گا
【مجموع فتاویٰ شیخ ابن باز، جلد 5، صفحہ 182؛ فتاویٰ اللجنۃ الدائمہ، جلد 11، صفحہ 281】
پاکستانی خیمے مزدلفہ میں ہونے کا معاملہ:
اگر اس سال پاکستانی حاجیوں کے خیمے منیٰ کی بجائے مزدلفہ میں تھے، اور انہیں منیٰ میں خیمہ نہ ملنے یا کسی اور انتظامی مجبوری کی وجہ سے وہاں ٹھہرنے کا موقع نہ ملا، تو یہ ان کے لیے شرعی عذر شمار ہوگا۔ اس صورت میں ان پر کوئی کفارہ لازم نہیں ہوگا کیونکہ یہ ان کی استطاعت سے باہر کا معاملہ تھا۔
لیکن اگر کوئی حاجی جان بوجھ کر بغیر کسی مجبوری یا شرعی عذر کے منیٰ میں رات نہ گزارے، تو پھر اس پر کفارہ (دم) لازم آئے گا۔