منگنی ٹوٹنے کے بعد چھوٹے بھائی کا نکاح اور امام کی اقتدا کا حکم
ماخوذ : فتاویٰ محمدیہ، ج۱، ص۴۳۱

سوال

ایک امام مسجد نے اپنے بیٹے کی منگنی کی، اس وقت لڑکا نابالغ تھا۔ جب وہ بالغ ہوا تو اس نے اس رشتہ کو لینے سے صاف انکار کر دیا۔ بعد ازاں، امام مسجد (یعنی لڑکے کے والد) اور لڑکی کے والدین نے اتفاق کیا کہ لڑکے کے چھوٹے بھائی کے ساتھ اس لڑکی کا نکاح کر دیا جائے۔ لڑکی اور لڑکے کا چھوٹا بھائی بھی اس پر راضی ہیں۔ لیکن کچھ مقتدیوں نے امام مسجد پر الزام لگایا کہ چونکہ امام نے وعدہ خلافی کی ہے، اس لیے ان کی اقتدا میں نمازیں ادا نہیں ہوتیں۔
اب سوال یہ ہے:

➊ کیا بڑے بھائی کی منگیتر سے چھوٹے بھائی کا نکاح جائز ہے؟
➋ کیا ایسے امام کی اقتدا جائز ہے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نکاح اور منگنی میں فرق

سوال کے مطابق واضح رہے کہ:

◄ صرف نسبت اور انتخاب رشتہ (منگنی) کو نکاح نہیں کہا جا سکتا۔
◄ نکاح ایک شرعی عقد ہے، جیسا کہ امام ابن حجر عسقلانیؒ نے فتح الباری، شرح بخاری، کتاب النکاح کے آغاز میں لکھا ہے:

وَفِي الشَّرْعِ حَقِيقَةٌ فِي الْعَقْدِ مَجَازٌ فِي الْوَطْءِ عَلَى الصَّحِيحِ وَالْحُجَّةُ فِي ذَلِكَ كَثْرَةُ وُرُودِهِ فِي الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ الخ
(فتح الباري: ص۱۴، ج۹، طبع مصر)

امام ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ شریعت محمدی ﷺ میں نکاح کا اصل معنی عقد ہے، جبکہ وطی (جماع) کو نکاح کہنا مجاز ہے۔

شرعی عقد وہ ہے جو:

◈ مہر کی تعیین کے ساتھ،
◈ دو عادل گواہوں کی موجودگی میں،
◈ ولی کی اجازت کے بعد،
◈ ایجاب و قبول کے ذریعے منعقد ہو۔
یہ سب ارکان مکمل نہ ہوں تو شرعی نکاح نہیں ہوتا۔

فقہاء کی وضاحت

* ہدایہ میں فقیہ مرغینانی لکھتے ہیں:

النکاح ینعقد بالایجاب والقبول بلفظین یعبربھما عن الماضی لأن الصیغة وإن کانت لأخبار وُضعا فقد جعلت للانشاء شرعا دفعا للحاجة
(ھداية: کتاب النکاح، ص۲۸۵، ج۱)

* شرح وقایہ میں ہے:

ھو عقد موضوع للملک المتعة ای حل إستمتاع الرجل من المرأة فالعقد ھو ربط أجزاء التصرف ای الایجاب والقبول شرعا۔ انما قلنا ھذا لأن الشرع یعتبر الایجاب والقبول أرکان عقد النکاح لا امور خارجية کالشرائط
(شرح وقاية: ص۴، ربع ثانی)

ان حوالوں سے معلوم ہوا کہ نکاح ایک ایجاب و قبول پر مبنی عقد ہے، محض وعدہ یا منگنی نکاح کے درجے میں نہیں آتی۔

نتیجہ

◄ چونکہ بڑے بھائی نے نکاح کرنے سے انکار کر دیا ہے، اور منگنی شرعاً نکاح نہیں ہے، اس لیے چھوٹے بھائی کا اس لڑکی سے نکاح بالکل جائز اور شرعی ہے۔
◄ اس میں کوئی قباحت نہیں۔

وعدہ خلافی اور گناہ

◈ انکار کرنے والے بڑے بھائی نے وعدہ خلافی کی ہے، جو کہ کبیرہ گناہ ہے۔
◈ اس نے ایک لڑکی کو بلا وجہ معاشرے میں پریشان کیا، یہ ظلم ہے۔
◈ البتہ اگر اس کے پاس معقول وجہ تھی تو معاملہ مختلف ہے۔

امام مسجد پر الزام

سوال کی عبارت کے مطابق:

◄ لڑکے کے والد (امام صاحب) اور لڑکی کے والدین نے باہمی اتفاق سے چھوٹے بیٹے کا نکاح طے کیا۔
◄ اس سے ظاہر ہے کہ لڑکی کے والدین کو یقین ہے کہ امام صاحب اپنے بڑے بیٹے کے انکار میں شریک نہیں۔
◄ ورنہ وہ دوبارہ اسی خاندان میں رشتہ نہ دیتے۔

لہٰذا:
◈ امام صاحب کو وعدہ خلافی کا الزام دینا درست نہیں۔
◈ بلکہ اس سے واضح ہے کہ وہ اپنے بیٹے کے غلط اقدام سے ناراض ہیں۔

شریعت میں اصول

اسلام میں بیٹے کے جرم کی سزا باپ کو یا باپ کے جرم کی سزا بیٹے کو نہیں دی جا سکتی:

* عن ابن عباس قال قال رسول اللہﷺ:
لا یَقَامُ الْحُدُوْدُ فِیْ الْمَسَاجِدِ وَلا یُقَادُ بِالولد الوالد
(رواه الترمذی، الدارمی، مشکوة: ص۳، ج۲)

* عن ابی رمثة قال:
أَمَا إِنَّهُ لَا يَجْنِي عَلَيْكَ، وَلَا تَجْنِي عَلَيْهِ
(رواه ابو داؤد، النسائی، مشکوة: ص۳۰۱، ج۲)

اقتدا کا حکم

◈ امام ایسا ہونا چاہیے جو صحیح العقیدہ اور باعمل مسلمان ہو۔
مشکوٰۃ شریف میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

قال رسول اللہﷺ: الصلوة واجبة عَلَیکُمْ خَلْفَ کُلِّ مُسْلِمٍ بَرًّا أَوْ كَانَ فَاجرا وإن عَمِلَ الْكَبَائِرَ
(رواه ابو داؤد، مشکوة: ص۱۰۰، ج۱)

یعنی:
◈ ہر مسلمان امام کے پیچھے نماز پڑھنی چاہیے، خواہ وہ نیک ہو یا فاسق۔
◈ البتہ ایسے شخص کو امام بنانا درست نہیں جو فسق و فجور میں مشہور ہو۔

لیکن امام صاحب تو اس معاملے میں بے گناہ ہیں، اس لیے ان کے پیچھے نماز پڑھنا ان شاء اللہ بالکل جائز ہے۔

فیصلہ

➊ صرف منگنی سے نکاح شرعی منعقد نہیں ہوتا۔
➋ بڑے بھائی کے انکار کے بعد چھوٹے بھائی کا اس لڑکی سے نکاح کرنا بالکل جائز اور شرعی ہے۔
➌ امام صاحب وعدہ خلافی کے ذمہ دار نہیں، لہٰذا ان کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے