"منکر روایت” اور "منکر الحدیث” میں فرق
ماخوذ: فتاوی امن پوری از شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری

سوال:

اگر کسی راوی کے بارے میں کہا جائے کہ روى المناكير تو کیا وہ مطلقاً ضعیف ہوگا؟

جواب:

محض منکر روایت بیان کرنے سے راوی مطلقاً ضعیف نہیں ہوتا کہ اس کی کوئی روایت قبول نہ کی جائے، البتہ اگر منکر روایات بکثرت ہوں اور اسے منکر الحدیث کہا جانے لگے، تو وہ راوی ضعیف ہو جاتا ہے۔
❀ حافظ ابن دقیق العید رحمہ اللہ (702ھ) فرماتے ہیں:
روى أحاديث مناكير لا يقتضي بمجرده ترك روايته حتى تكثر المناكير فى روايته، وينتهى إلى أن يقال فيه: المنكر الحديث
منکر احادیث بیان کرنے سے راوی کی ہر روایت ترک کرنا لازم نہیں آتا، البتہ اگر اس کی منکر روایات بکثرت ہوں، یہاں تک کہ اسے منکر الحدیث کہا گیا ہو، تو اس کی روایات ترک کر دی جائیں گی۔
(شرح الإلمام: 247/3)
❀ حافظ سخاوی رحمہ اللہ (902ھ) فرماتے ہیں:
إن منكر الحديث وصف فى الرجل يستحق به الترك لحديثه، والعبارة الأخرى لا تقتضي الديمومة
منکر الحدیث ہونا ایسا وصف ہے، جس بنا پر راوی کی ہر حدیث کو ترک کیا جائے گا، جبکہ دوسری عبارت روى المناكير ہمیشہ روایت کو ترک کرنے کا تقاضا نہیں کرتی۔
(فتح المغيث: 130/2)
❀ حافظ ذہبی رحمہ اللہ (748ھ) فرماتے ہیں:
ما كل من روى المناكير يضعف
منکر احادیث بیان کرنے والے ہر راوی کو ضعیف نہیں کہا جائے گا۔
(میزان الاعتدال: 118/1)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے