منکرین عذاب قبر کے چند بناوٹی اصولوں کا جائزہ
اس باب میں فاضل صاحب اور ان کے بڑوں کے چند بناوٹی اور من گھڑت اصولوں کا جائزہ پیش کیا جائے گا، ان شاء اللہ ۔ کیوں کہ فاضل صاحب نے اپنے 36 صفحات کے کتابچے کے مختلف صفحات پر یہی اصول بیان کر کے صفحات کو سیاہ اور وقت کا ضیاع کیا ہے۔
پہلا اصول:
صرف وہی احادیث و آثار صحیح تسلیم کیے جائیں گے جو قرآن کے مطابق ہوں۔
الجواب بعون الوهاب:
فاضل صاحب کے اس اصول کا مفہوم یہ ہے کہ جو احادیث و آثار قرآن کے مطابق نہیں وہ تسلیم نہیں کیے جائیں گے۔
یہ اصول درج ذیل وجوہات کی بنا پر باطل و مردود ہے۔
① قرآن مجید یا کسی بھی صحیح حدیث میں یہ اصول نہیں بتایا گیا کہ جو حدیث قرآن کے مطابق ہو وہ تسلیم کر لو اور جو قرآن کے مطابق نہ ہو اسے رد کر دو۔
اس اصول کی دلیل میں عموماً یہ روایت پیش کی جاتی ہے۔
ما اتاكم عنى فاعرضوه على كتاب الله وان خالف كتاب الله فلم اقله .
”تمہارے پاس میری کوئی حدیث آئے تو اسے کتاب اللہ ( قرآن ) پر پیش کرو اور اگر وہ کتاب اللہ کے مخالف ہو تو وہ میری حدیث نہیں۔“
اس روایت کے متعلق شیخ الحدیث ابوانس محمد یحیی گوندلوی حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
محدثین کرام نے ان کی اس روایت کی تحقیق کی تو اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ روایت حدیث نہیں بلکہ ان حضرات کی گھڑی ہوئی ہے، امام عبدالرحمن بن مہدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”اس حدیث کو زنادقہ اور خوارج نے گھڑا ہے۔ “
امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
اہل علم کے نزدیک یہ حدیث رسول درست نہیں۔
(جامع بيان العلم وفضله، ص: 190)
امام شافعی رحمہ اللہ فر ماتے ہیں:
”اس حدیث کو کسی ایسے راوی نے روایت نہیں کیا جس کی روایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی چھوٹے یا بڑے امر میں ثابت ہوتی ہو ۔ “
(ارشاد الفحول، ص: 31 )
علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
یہ روایت تمام علمائے حدیث کے نزدیک مختلف اور گھڑی ہوئی ہے۔
(الحديث حجة في نفسه في العقائد والاحكام، ص: 22)
ان ائمہ ناقدین ومحققین کی آراء سے واضح ہے کہ یہ روایت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمودہ نہیں بلکہ کسی زندیق کی گھڑی ہوئی ہے۔
اس روایت کے من گھڑت ہونے کی بین دلیل خود اس روایت کا مضمون ہے، یہی وجہ ہے کہ علمائے کرام نے اس روایت کو جب کتاب اللہ پر پیش کیا تو اسے من گھڑت پایا ، جیسا کہ امام ابن عبد البر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اہل علم نے کہا کہ ہم ہر چیز سے پہلے اسے کتاب اللہ پر پیش کرتے ہیں اور اسی پر اعتماد کرتے ہیں، چناں چہ جب ہم نے اسے کتاب اللہ پر پیش کیا تو اسے کتاب اللہ کے مخالف پایا، کیوں کہ ہم نے کتاب اللہ میں یہ نہیں پایا کہ تم وہی حدیث قبول کرو جو کتاب اللہ کے موافق ہو بلکہ کتاب اللہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا مطلق حکم دیتی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت سے ہر حالت میں ڈراتی ہے۔
(جامع بيان العلم، ج:2، ص: 190)
امام شوکانی رحمہ اللہ ناقل ہیں کہ ایک جماعت نے جب اس موضوع حدیث کو کتاب اللہ پر پیش کیا تو اسے کتاب اللہ کے خلاف پایا ، اس لیے کہ ہم نے کتاب اللہ کو پایا ہے کہ وہ ہمیں حکم کرتی ہے۔
﴿وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا﴾
”اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمھیں جو دے اسے پکڑ لو اور جس سے منع کرے اس سے باز آ جاؤ۔ “
(59-الحشر:7)
نیز یہ کہ
﴿قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ﴾
”کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اطاعت کرو۔ “
(3-آل عمران:31)
مزید فرمایا:
﴿مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ﴾ (4-النساء:80)
”جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی ۔ “
(ارشاد الفحول، ص: 31 )
یہ آیات اور اس مضمون کی دیگر متعدد آیات، حدیث رسول کی شرعی حیثیت کو واضح کرتی ہیں کہ رسول الل صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت بھی بلا قید اور غیر مشروط ہے، جس طرح اللہ تعالیٰ کی اطاعت بلاقید و شرط ہے، مذکورہ آخری آیت کریمہ پر غور کریں تو واضح ہو جائے گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو کسی اعتبار سے مشروط کرنا دراصل اللہ کی اطاعت کو مشروط کرنا ہے، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت بعینہ، اللہ کی اطاعت ہے۔
روایت گھڑنے والوں کے پیش نظر مستقل طور پر سنت نبوی کی تشریعی حیثیت کا انکار ہے، ان کے نزدیک سنت سے مستقلاً نہ تو احکام ثابت ہوتے ہیں اور نہ عقیدہ میں حجت ہے بلکہ اس کی حجیت قرآن کریم کی محتاج ہے۔ اگر وہ قرآن کے موافق ہے تو قابل حجت ورنہ رد کر دی جائے گی۔
یہ نظریہ اگر چہ قدیم ہے جس کو محد ثین کرام رحمہ اللہ نے مسترد کر دیا تھا لیکن آج پھر اس نظریے کا احیاء پورے شدومد سے کیا جارہا ہے۔ خصوصاً اس کے لیے تجدد پسند اور نام نہاد روشن خیال حضرات کا انتخاب کیا جاتا ہے اور ان کو باور کروایا جاتا ہے کہ جو حدیث قرآن کے خلاف ہو، خواہ اس کی سند اعلیٰ درجے کی صحیح ہو، وہ حدیث صحیح نہیں ہو سکتی اور جو حدیث قرآن کے موافق ہو اس کی سند کی تحقیق کی بھی ضرورت نہیں ، اس کی صحت کے لیے بس اتنا ہی کافی ہے کہ وہ قرآن کے موافق ہے۔ بہت سے حضرات زنادقہ کے اس نظریے کی تشہیر کر رہے ہیں ، وہ چند احادیث کو لیتے ہیں اور پھر نو جوانوں کے سامنے پیش کر کے کہتے ہیں، دیکھو! یہ حدیث تو فلاں آیت کے خلاف ہے۔
ان کا انداز بڑا پرکشش اور سحر انگیز ہوتا ہے، جس سے بعض مدارس دینیہ کے خام خیال حضرات بھی متاثر ہورہے ہیں، راقم الحروف کو یاد ہے کہ ایک دفعہ ڈاکٹر مسعود الدین عثمانی ہمارے گاؤں گوندلاں والا تشریف لائے ، راقم الحروف کی ان سے فتنہ قبر کے موضوع پر گفتگو ہوئی ، میں نے کہا:
محترم ڈاکٹر صاحب ! آپ کا صحیح بخاری کے بارے میں کیا خیال ہے؟
انھوں نے فرمایا: اس کی جو احادیث قرآن کریم کے خلاف نہیں ہیں ، میں انھیں تسلیم کرتا ہوں۔
میں نے جواباً عرض کیا: ڈاکٹر صاحب ! آپ بخاری شریف میں سے کسی ایک حدیث کی نشاندہی فرمائیں جو قرآن کریم کے خلاف ہو لیکن موصوف نے اس بارے میں خاموشی اختیار کر لی اور اس کا کوئی جواب نہ دیا۔ (والله على ما أقول شهيد)
حدیث کا انکار باطل اور گمراہ فرقوں کی مجبوری رہا ہے اس لیے کہ یہ ان کے باطل نظریات کے درمیان ایک بڑی رکاوٹ ہے، قرآن کریم کے اجمال سے یہ حضرات فائدہ اٹھاتے ہوئے اس میں تشکیک پیدا کرتے ہیں، لیکن حدیث کے ہوتے ہوئے ان کی تشکیک چندان موثر نہیں ہوتی، کیوں کہ حدیث قرآن کی تفسیر کر دیتی ہے، جس سے ان کی تشکیک هباء منثورا ہوکر رہ جاتی ہے۔
(هفت روزه الاعتصام ، ص : 13، 14۔ ج: 57، ش: 12)
② کیا کوئی صحیح حدیث قرآن کے خلاف ہو سکتی ہے؟ ہر گز نہیں ۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہو اور قرآن مجید کے خلاف ہو، اور پھر یہ بھی ممکن نہیں کہ جس ہستی پر قرآن مجید نازل ہوا ہو وہ خود ہی قرآن کے مخالف باتیں کرے۔
③ جو حدیث قرآن کے مطابق ہو اس کو تسلیم کرنے کا کیا فائدہ؟ اس کی عوض میں تو قرآن ہی کافی ہے۔ قرآن کو اپنی تائید کے لیے کسی حدیث کی کیا ضرورت؟
④ منکرین عذاب قبر کا یہ اصول کہ جو احادیث قرآن کے مطابق ہوں گی وہ تسلیم کریں گے ، یہ قرآن کی کسی آیت کے مطابق ہے؟
⑤ یہ اصول گھڑنے والے کیا بتا سکتے ہیں کہ نماز فجر کے دو، ظہر عصر کے چار چار، مغرب کے تین اور عشاء کے چار فرض قرآن کی کس آیت کے مطابق ہیں، جب کہ تمام مسلمانوں کا ان پر اجماع ہے۔ نیز جن احادیث میں نمازوں کی رکعات کی تعداد بتائی گئی ہے وہ منکرین کے نزدیک صحیح بھی ہیں یا غلط؟ اگر صحیح ہیں تو وہ کس آیت کے مطابق ہیں اور اگر غلط ہیں تو وہ کس آیت کے مخالف ہیں؟
⑥ یہ بھی یادر ہے کہ قرآن کے مخالف ہونا اور بات ہے، قرآن کے شارح ہونا اور بات ہے۔ قرآن کہے کہ دن ہے اور حدیث کہے کہ دو پہر ہے تو یہ مخالفت نہیں ہوگی ، کیوں کہ دو پہر بھی دن ہی کا حصہ ہے، یا اگر قرآن خاموش ہو اور حدیث کہے کہ دو پہر ہے تو اسے بھی خلاف قرآن نہیں کہا جائے گا کیوں کہ مخالفت تو تب تھی کہ ایک طرف سے نفی ہوتی اور دوسری طرف سے اسی چیز کا اثبات ہوتا ، مثلاً قرآن کہتا ہے کہ قبر میں عذاب نہیں ہوگا اور حدیث کہتی کہ قبر میں عذاب ہوگا تو یہ مخالفت تھی مگر ایسا نہیں ہے، قرآن نے کہیں بھی عذاب قبر کی نفی نہیں کی ۔
⑦ یاد رہے کہ قرآن کے احکام کے ساتھ سنت کے احکام تین طرح سے آتے ہیں ۔
● حدیث کا حکم بھی ویسا ہی ہوتا ہے جیسا قرآن کا حکم ہوتا ہے۔ مثلاً قرآن کہتا ہے:
﴿وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ﴾
”اور تمہیں جو کچھ رسول دے، لے لو، اور جس سے روکے ، رُک جاؤ ، اور اللہ تعالٰی سے ڈرتے رہا کرو، یقینا اللہ تعالیٰ سخت عذاب دینے والا ہے۔ “
(59-الحشر:7)
حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
دعونى ماتركتكم، إنما هلك من كان قبلكم بسؤالهم واختلافهم على أنبيا عهم، فإذا نهيتكم عن شيء فاجتنبوه، وإذا امرتكم بأمر فاتوا منه ما استطعتم
”جب تک میں تم سے یکسور ہوں تم بھی مجھے چھوڑ دو ( اور سوالات وغیرہ نہ کرو ) کیوں کہ تم سے پہلے کی امتیں اپنے (غیر ضروری ) سوال اور انبیاء کے سامنے اختلاف کی وجہ سے تباہ ہو گئیں، پس جب میں تمھیں کسی چیز سے روکوں تو تم بھی اس سے پر ہیز کر داورجب میں تمھیں کسی بات کا حکم دوں تو بجالاؤ جس حد تک تم میں طاقت ہو۔“
(بخاری، کتاب الاعتصام، باب الاقتدار بسنن رسول الله ﷺ، رقم: 7288 )
اس حدیث میں یہ بتایا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر حکم پر چلنے کی پوری کوشش کرو اور آپ جس بات سے منع کریں اس سے باز رہنے کی پوری کروشش کرو۔
قرآن کہتا ہے:
﴿مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ﴾
”جو کوئی رسول کی اطاعت کرے ( در حقیقت ) اس نے اللہ کی اطاعت کی۔ “
(4-النساء:80)
حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من أطاعني فقد اطاع الله، ومن عصاني فقد عصى الله
” جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی ، اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی۔ “
(بخاری، کتاب الاحكام، باب قول الله تعالى اطيعوا الله واطيعوا الرسول واولى الأمر منكم، رقم: 7137)
اس حدیث میں بھی یہی وضاحت کی گئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت در حقیقت اللہ ہی کی اطاعت ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نا فرمانی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہے۔
● حدیث کا حکم قرآنی احکام کی تفسیر وتشریح کرتا ہے۔ مثلا قرآن کا حکم ہے:
﴿وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ﴾
”اور نماز قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو۔ “
(2-البقرة:110)
احادیث میں نماز کا مکمل طریقہ، کہ وہ کیسے ادا کرنی ہے اور کتنی ادا کرنی ہے وغیرہ، بیان کیا گیا ہے، ایسے ہی زکوۃ کے متعلق بیان کیا گیا ہے کہ کتنی دینی ہے اور کب دینی ہے وغیرہ۔
قرآن کا حکم ہے:
﴿وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ﴾
” اور حج اور عمرہ کو اللہ ہی کے لیے پورا کرو۔“
(2-البقرة:196)
حج اور عمرہ کیسے ادا کرنا ہے؟ اور کس مہینے میں ادا کرنا ہے؟ یہ سب حدیث ہی سے پتا چلے گا۔(قس على ذلك)
● حدیث میں کوئی ایسا حکم ہوتا ہے جس کے متعلق قرآن خاموش ہوتا ہے، جیسے میت کو غسل دینا، بچہ کا عقیقہ کرنا وغیرہ۔
یا کسی ایسی چیز کو حرام بتایا گیا ہوتا ہے جس کے متعلق قرآن خاموش ہوتا ہے، جیسے پھوپی اور بھتیجی ، یا خالہ اور بھانجی کو بیک وقت نکاح میں رکھنا حرام قرار دیا گیا ہے۔
(بخاری، کتاب النکاح، باب لا ينكح المرأة على عمتها، رقم: 5109،5108 )
اس طرح کی بے شمار امثلہ موجود ہیں کہ جہاں قرآن خاموش ہوتا ہے لیکن حدیث آکر کسی کام کے کرنے کا حکم دیتی ہے یا اس سے روکتی ہے، مگر منکرین حدیث و عذاب قبر ان تمام کو قرآن کے خلاف بتاتے ہیں، افسوس ہے ان کے علم پر اور ان کی سوچ پر ۔
خلاف کیسے کہتے ہیں؟ یہ ہم پیچھے بیان کر آئے ہیں ۔ جس مسئلہ میں قرآن خاموش ہو اور حدیث آکر حکم دے، یا رو کے، اُسے قرآن کے خلاف نہیں کہیں گے بلکہ قرآن کی منشاء قرار دیں گے ، اسی لیے تو قرآن نے بار بار رسول اللہ کی اطاعت واتباع کا حکم دیا ہے۔
⑧ یہ کیسے پتہ چلے گا کہ فلاں حدیث قرآن مجید کے مطابق اور فلاں قرآن مجید کے مخالف ہے، اس کا فیصلہ کون کرے گا؟ کیا ہر انسان کی عقل برابر ہے؟ نیز کیا یہی اصول قرآن پر بھی فٹ کیا جا سکتا ہے؟ مثلاً اگر قرآن ہی کی ایک آیت دوسری آیت کے مخالف آ جائے، تو کیا اسے بھی رد کیا جائے گا۔ جیسے قرآن نے ایک جگہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرمایا:
﴿إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ ۚ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ﴾
”بے شک آپ جسے چاہیں، ہدایت نہیں دے سکتے ، بلکہ اللہ تعالیٰ ہی جسے چاہے ہدایت دیتا ہے، ہدایت والوں سے وہی خوب آگاہ ہے۔“
(28-القصص:56)
جب کہ دوسری جگہ فرمایا:
﴿وَإِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ﴾
”اور بے شک آپ البتہ ہدایت دیتے ہیں سیدھے راستے کی طرف۔ “
(42-الشورى:52)
کیا یہاں دونوں آیات بظاہر ایک دوسری کے مخالف نہیں ؟
اسی طرح سورۃ النساء میں فرمایا :
﴿وَإِن تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا هَٰذِهِ مِنْ عِندِ اللَّهِ ۖ وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَقُولُوا هَٰذِهِ مِنْ عِندِكَ ۚ قُلْ كُلٌّ مِّنْ عِندِ اللَّهِ ۖ فَمَالِ هَٰؤُلَاءِ الْقَوْمِ لَا يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثًا﴾
”اور اگر انھیں کوئی بھلائی ملتی ہے تو کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے اور اگر انھیں کوئی برائی پہنچتی ہے تو کہہ اٹھتے ہیں کہ یہ تیری طرف سے ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں کہہ دیں! کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ انھیں کیا ہو گیا ہے کہ کوئی بات سمجھنے کے بھی قریب نہیں۔“
(4-النساء:78)
اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ بھلائی اور برائی دونوں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں۔ مگر اس سے اگلی آیت میں کیا فرمایا:
﴿مَّا أَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللَّهِ ۖ وَمَا أَصَابَكَ مِن سَيِّئَةٍ فَمِن نَّفْسِكَ﴾
” آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو بھی بھلائی ملتی ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور جو برائی پہنچتی ہے وہ آپ کے اپنے نفس کی طرف سے ہے۔ “
(4-النساء:79)
سورت الشوریٰ میں فرمایا :
﴿وَمَا أَصَابَكُم مِّن مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَن كَثِيرٍ﴾
”اور تمہیں جو کچھ مصیبتیں پہنچتی ہیں وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کے کرتوت کا بدلہ ہیں اور وہ تو بہت سی باتوں سے درگز ر فرما دیتا ہے۔“
(42-الشورى:30)
یہاں یہ بتایا گیا ہے کہ بھلائی اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب کہ برائی تمہارے اپنے کرتوتوں کا نتیجہ ہوتا ہے، کیا یہاں قرآن مجید کا بظاہر بعض حصہ بعض کے مخالف نہیں؟
اسی طرح سورۃ الحجر میں فرمایا:
﴿فَوَرَبِّكَ لَنَسْأَلَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ﴾
”تیرے رب کی قسم ! ہم ان سب سے ضرور ( ان کے اعمال کے متعلق ) سوال کریں گے ۔ “
(15-الحجر:92)
جب کہ سورۃ الرحمن میں فرمایا:
﴿فَيَوْمَئِذٍ لَّا يُسْأَلُ عَن ذَنبِهِ إِنسٌ وَلَا جَانٌّ﴾
”اس دن جن وانس سے ان کے گناہ کے متعلق سوال نہ ہوگا۔ “
(55-الرحمن:39)
ہمارا ایمان ہے کہ قرآن مجید میں اختلاف نہیں لہذا ہم ایسے مقامات پر تاویل کے ذریعے تطبیق پیدا کر لیتے ہیں، اور جو لوگ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ قرآن اور صاحب قرآن صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل میں تضاد نہیں ہوسکتا، اگر وہ ایسے مقامات پر تطبیق پیدا کرلیں تو ان پر اعتراض چہ معنی دارد۔
قرآن میں کہیں بھی عذاب قبر کا انکار نہیں ، قرآن تو عذاب قبر کو برحق بتاتا ہے۔ دیکھیں اسی کتاب کا دوسرا باب۔
آخر میں فاضل صاحب سمیت تمام منکرین سے ہم ایک بات پوچھتے ہیں کہ آج تک آپ لوگوں نے کیوں نہ حدیث کا کوئی ایسا مجموعہ تیار کیا جو سراسر قرآن سے مطابقت رکھتی ہوں یا کیوں نہ آج تک کوئی ایسا مجموعہ آپ حضرات کی طرف سے منظر عام پر آیا جس میں ان احادیث کو جمع کیا ہوتا جو قرآن کے خلاف تھیں۔
کیا ہی اچھا ہوتا کہ آپ اس قسم کا کارنامہ سرانجام دے کر امت پر یہ احسان کر دیتے ، کہ بھئی ! صرف یہ احادیث قرآن سے مطابقت رکھتی ہیں ، صرف انھیں ہی تسلیم کیا جائے ، یا یہ کہ بھئی! ان احادیث سے بچنا یہ قرآن سے ٹکراتی ہیں۔ کیا کوئی آج تک ایسا کام آپ لوگوں نے سرانجام دیا ہے یا فقط لوگوں کو دھوکا دینے کے لیے اس قسم کے اعتراضات کی مشین لگا رکھی ہے؟
کیا آپ ایسی احادیث کی تعداد بتا سکتے ہیں جو قرآن سے مطابقت رکھتی ہوں ۔ یا کیا ایسی احادیث کی تعداد بتا سکتے ہیں جو قرآن سے ٹکراتی ہوں؟
دوسرا اصول:
احادیث عقل کے خلاف ہیں۔
جواب:
① اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو عقل دی ہے، خواہ وہ مسلمان ہو یا عیسائی، یہودی ،سکھ ، ہندویا کیمونسٹ ہو، ہر کسی کے پاس کچھ نہ کچھ عقل ضرور ہے اور پھر ہر کسی کا یہ دعوی ہے کہ اس کی عقل باقی تمام عقول سے اعلیٰ ہے، اب معلوم یہ کرنا ہے کہ کس کی عقل کا اعتبار کیا جائے؟ کیوں کہ تمام لوگوں کی عقلیں ایک جیسی تو نہیں، ہر کسی کی عقل مختلف ہے، کوئی بات کسی کی عقل میں جلد آ جاتی ہے، کسی کی عقل میں دیر سے آتی ہے، اور کسی کی عقل میں آتی ہی نہیں ، اور پھر ہمارے پاس کوئی ایسا آلہ بھی نہیں کہ جس کے ذریعے سے کسی ایک عقل کو متعین کر لیا جائے کہ جو بات اس عقل کے مطابق ہوگی صرف وہی درست ہوگی اور جو اس عقل کے خلاف ہوگی وہ غلط شمار کی جائے گی ، ہاں البتہ ایک عقل ایسی ہے جسے میزان بنایا جاسکتا ہے اور وہ ہے سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عقل ۔ اب جو بات بھی حدیث رسول سے ثابت ہو جائے وہ عقل کے خلاف نہیں ہوسکتی، کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عقل تمام انسانوں کی عقلوں سے اعلیٰ ہے۔ اب جب کہ احادیث اعلیٰ عقل کے مطابق ہیں تو اگر وہ کسی کی عقل میں نہ آئیں تو وہ عقل نہیں بلکہ کم عقلی ہے۔
② انسان کی عقل انتہائی محدود ہے جب کہ یہ کائنات لا محدود ہے لہذا اس کائنات کی ہر چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا عقل کے بس میں نہیں ۔ اس عقل کی مثال آنکھ کی طرح ہے اور وحی الہی کی مثال سورج کی مانند ۔ آنکھ کے لیے ضروری ہے کہ وہ سورج کے تابع رہ کر اس کی روشنی سے فائدہ اٹھائے ۔ آنکھ کے لیے یہ جائز ہی نہیں کہ وہ مکمل نظام شمسی یا اس کے کسی ایک جز پر اعتراضات اٹھائے اور اس میں کیڑے نکالنے شروع کر دے، کیوں کہ آنکھ اگر نظام شمسی کے بعض اجزا کا ادراک کر لیتی ہے تو اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ وہ مکمل نظام شمسی کا ادراک کر سکتی ہے۔ کیوں کہ مکمل نظام شمسی کا ادراک کرنا آنکھ کے بس کا روگ نہیں ۔
③ وحی عقل کے تابع نہیں بلکہ عقل وحی کے تابع ہے، جب عقل کو وحی کے تابع کریں گے تو یہی عقل خالق کائنات پر بے پناہ ایمان ویقین کا سبب بنے گی لیکن اگر اس عقل کو وحی سے بے نیاز کر دیا، شتر بے مہار چھوڑ دیا، تو پھر سوائے گمراہی وضلالت کے اور کچھ نہیں ملے گا۔
◈ عقل کا دائرہ کار
مولا نا عبد الرحمن کیلانی رحمہ اللہ علیہ رقمطراز ہیں :
بلاشبہ دین کے انتخاب کے بارے میں عقل کو حق دیا گیا ہے کہ وہ اس کے اصول و مبادیات کی جانچ اور تحقیق کرے پھر چاہے تو اسے قبول کرے اور چاہے تو رد کر دے کیوں کہ دین کے اختیار کرنے میں کوئی مجبوری نہیں لیکن دین کو قبول کرنے کے بعد عقل کو ہرگز یہ حق نہیں دیا گیا کہ وہ اس کے اہم اور بنیادی عقائد ونظریات، جو وحی کی صورت میں اسے ملے ہیں ۔ پر ہی ہاتھ صاف کرنا شروع کر دے، بلکہ اسے اب وحی کے تابع ہو کر چلنا چاہیے اور یہ اتباع اندھی عقیدت کے طور پر نہیں بلکہ علی وجہ البصیرت ہونا چاہیے۔ لہذا ہمارے خیال میں عقل کے کام مندرجہ ذیل قسم کے ہونے چاہئیں ۔
● وحی کے بیان کردہ اصول و احکام کے اسرار اور حکمتوں کی توضیح و تشریح۔
● احکام کے نفاذ کے عملی طریقوں پر زمانہ کے حالات کے مطابق غور کرنا اور پیش آمدہ رکاوٹوں کو دور کرنا ۔ مثلاً : وحی نے اگر سود کو حرام کر دیا ہے تو عقل کا کام یہ ہونا چاہیے کہ وحی کی حدود کے اندر اس کو ختم کرنے کے لیے حل پیش کرے۔ پھر اگر عقل سود یا اس کی بعض شکلوں کو حرام سمجھنے کے بجائے اس کو حلال بنانے کے حیلے سوچنے لگے تو عقل کے استعمال کا یہ رخ قطعاً صحیح قرار نہیں دیا جاسکتا کیوں کہ یہ بات طے شدہ ہے کہ نص یا کتاب وسنت کے واضح احکام کی موجودگی میں اجتہاد بالفاظ دیگر عقل کا استعمال قطعاً حرام ہے۔
●موجودہ دور کے نظریات کے مقابلہ میں وحی کے نظریات کی برتری ثابت کرنا اور ان کو مدلل طور پر پیش کرنا، اور اگر موجودہ نظریات سے عقل خود مرعوب ہو کر وحی میں کانٹ چھانٹ اور اس کی دور از کار تاویلات کر کے اس کے واضح مفہوم کو بگاڑنے کی کوشش کرے گی تو اس کا یہ کام دین میں تحریف شمار کیا جائے گا۔
● تحریف شدہ ادیان پر اسلام کی برتری اور فوقیت کو دلائل سے ثابت کرنا اور بیرونی حملوں کا دفاع کرنا۔
● نفس و آفاق کی وہ آیات جن میں غور وفکر کی دعوت دی گئی ہے۔ ان میں تحقیق وتفتیش کر کے انھیں آگے بڑھانا اور ان سے مطلوبہ فوائد حاصل کرنا۔
یہ اور اس جیسے کئی دوسرے کام ہیں جن میں عقل سے کام لیا جا سکتا ہے۔ اسی لیے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر سے فرمایا کہ اعلان کر دیجیے کہ
﴿قُلْ هَٰذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللَّهِ ۚ عَلَىٰ بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي ۖ وَسُبْحَانَ اللَّهِ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ﴾ (12-يوسف:108)
” کہہ دیجیے کہ میرا راستہ تو یہ ہے کہ میں اور میرے پیرو کار خدا کی طرف سمجھ بوجھ کی بنیاد پر دعوت دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ پاک ہے اور میں مشرکوں سے نہیں ۔“
(آئینه پرویزیت، ص: 64)
④ قبر کی زندگی کا ادراک عقل کے بس کا روگ نہیں کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں دماغ اور حواس خسمہ صرف مادی دنیا سے رابطہ اور کام لینے کے لیے دیے ہیں، جب کہ غائب (حالات قبر وغیرہ) کے حقائق کا علم مادیات سے بالا تر وحی الہی سے متعلق ہے۔ اس لیے عقل جو ہر چیز کو تجربہ کے ذریعے جاننا چاہتی ہے وہ عالم غیب کے حقائق کو نہیں سمجھ سکتی ، اس کی وجہ ایک یہ بھی ہے کہ دماغ اور عقل انسان کی پوری حقیقت نہیں بلکہ گل کا ایک جز ہے۔ جز کے لیے ممکن نہیں کہ وہ گل کا احاطہ کر سکے ، یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے دریا قطرے میں نہیں سما سکتا۔ جیسے قطرے کے لیے سمندر کوسمجھنا ممکن ہے ایسے ہی ہماری چھوٹی سی عقل کے لیے عالم غیب کو سمجھنا مشکل ہے، اس لیے بہتر یہی ہے کہ ہم قبر کی زندگی کو یونہی تسلیم کر لیں جیسے ہمارے خالق و مالک نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ہمیں بتایا ہے۔ قطرے کے لیے عقل مندی یہی ہے کہ وہ سمندر کی وسعت کو تسلیم کرے۔
⑤ عالم برزخ کا ہماری عقل میں نہ آنے کی بات کوئی عجیب و غریب نہیں ، اس کائنات میں سینکڑوں اشیاء ایسی ہیں جن کا آج سے چند صدیاں قبل عقل میں آنا تو درکنار ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے، مثلاً ہم یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ہزاروں میل دور بیٹھا ہوا ایک انسان دوسرے انسان سے براہِ راست گفتگو کر سکے گا، مگر آہستہ آہستہ وقت نے بتا دیا کہ ایسا ممکن ہے، چناں چہ آج ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کے ایک کونے پر بیٹھا ہوا انسان فقط لہروں کے ذریعے سے دوسرے کونے پر بیٹھے ہوئے انسان سے براہِ راست آمنے سامنے باتیں کر رہا ہے۔
⑥ چلو کچھ دیر کے لیے مان لیا کہ عذاب قبر کے متعلق جو احادیث آئی ہیں وہ عقل کے خلاف ہیں۔ اس وجہ سے وہ مردود ہیں، تو کیا قرآن مجید کی بھی جو بات عقل کے خلاف ہوگی وہ مردود ہوگی؟ کیا کسی ثابت شدہ چیز کا محض عقل کے احاطہ میں نہ آنے کی وجہ سے انکار کیا جا سکتا ہے؟
عقل تو کہتی ہے کہ اگر کسی با وضو شخص کی ریح خارج ہو جائے یا وہ پیشاب، پاخانہ کرے تو وہ صرف اپنے اسی حصے کو دھوئے جہاں سے یہ چیزیں خارج ہوتی ہے، باقی اعضاء وضو کو دھونے کی ضرورت نہیں کیا یہ ٹھیک ہے؟ کیا اس سے نماز ہو جائے گی ؟
ہمارے شیخ حافظ ثناء اللہ مدنی حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
اسلام اللہ رب العالمین کا نازل کردہ دستور حیات ہے، اولاد آدم پر واجب ہے کہ اس کی جملہ جزئیات کو من وعن تسلیم کر کے عباد الرحمن ہونے کی شہادت صرف دل سے دیں تاکہ دنیا و آخرت کی فلاح و بہبود سے ہمکنار ہوں ۔ بندوں کا کام اس کی شریعت میں کیڑے نکالنا نہیں بلکہ عقل سلیم کو صحیح نہج پر رکھنا ان کی اہم ذمہ داری ہے اور یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ آدمی مکمل طور پر اپنے آپ کو کتاب وسنت کے تابع کر دے، ان میں کج روی اختیار کرنا ملحدین کی امتیازی علامت ہے ، انسانی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ جن لوگوں نے محض عقل پر انحصار کر کے شریعت کا فہم حاصل کرنے کی سعی کی وہ دور کی گمراہی میں جاگرے، اہل اعتزال سے کون واقف نہیں ، سب سے پہلے انھوں نے عقل کے گھوڑے دوڑانے کی کوشش کی جس کے نتیجہ میں ماورائی عقل جملہ امور کے انکاری ہو گئے معجزات، کرامات کے علاوہ عذاب قبر اور احوال برزخ کا صاف صاف انکار کر دیا، حالاں کہ یہ وہ امور ہیں جو صحیح نصوص سے ثابت ہیں، جن میں سے کسی کی تاویل یا انکار کی مجال نہیں۔
آگے مزید فرماتے ہیں:
متفق علیہ مسائل اور احوال برزخ و دوزخ پر رائے زنی کرنا گمراہی کا دروازہ کھولنا ہے جو ایک خطر ناک کھیل ہے۔
(هفت روزه الاعتصام جلد 55 شماره: 40، ص: 17،16)
تیسرا اصول:
تجربہ و مشاہدہ میں درست ہوں۔
جواب:
① اس اعتراض کا مطلب بھی واضح ہے کہ عذاب قبر یا اس کے متعلق جو احادیث وارد ہوئی ہیں وہ عالم تجربہ اور مشاہدات کے خلاف ہیں۔ یادر ہے کہ برزخ کے واقعات کو تجربات اور مشاہدات پر قیاس کرنا سراسر گمراہی اور جہالت ہے، ناطق وحی جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب اور خالق کائنات کی ہمہ گیر قدرت کا انکار صریح ہے، انسان دنیا میں صرف انہی چیزوں کا مشاہدہ کر سکتا ہے جن کا تعلق اس دنیا سے ہے، لیکن جن چیزوں کا تعلق اس دنیا سے نہیں بلکہ کسی اور دنیا ( مثلاً برزخ، آخرت) سے ہے تو وہ کسی کی سمجھ میں نہیں آسکتی، ان کی حقیقت کا علم اس وقت ہوگا جب اس دنیا میں جائے گا۔ مثلاً : جب بچہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے، اگر اسے بتایا جائے کہ تو ایک ایسی دنیا میں جانے والا ہے جہاں ہزاروں میل بلند و بالا ، وسیع وعریض، آسمان ہے، حد نگاہ تک پھیلی ہوئی زمین ہے، اور پھر اس دنیا میں جب تو جائے گا تو تیرا قد بھی چھ سات فٹ تک بڑھ جائے گا ، وہاں دنیا میں تجھے دکھ تکلیفیں بھی پہنچیں گی اور تجھے نعمتیں بھی ملیں گی ، تو اس وقت یہ تمام چیزیں اس کی سمجھ میں نہیں آئیں گی، کیوں کہ اس کا کبھی اس دنیا سے واسطہ نہیں پڑا، اس نے تو فقط اس چھوٹی سی دنیا کا ہی مشاہدہ کیا ہے جہاں وہ رہ رہا ہے، جب وہ اس دنیا میں آئے گا تبھی اسے ان چیزوں کی حقیقتوں کا علم ہوگا۔
② اگر تجربہ اور مشاہدہ کی بنا پر ایمان لانا ہے پھر آپ کا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی باتوں پر تو ایمان نہ ہوا بلکہ تجربہ پر ایمان ہوا، کیوں کہ اگر تجربہ درست نہ ہوتا تو آپ نے تسلیم ہی نہیں کرنا تھا، نیز تجربے اور مشاہدے کی بنا پر ایمان لانا اور اس کے بغیر ایمان نہ لا نا ایمان بالغیب نہیں جس کا ہمیں اللہ نے حکم دیا ہے۔
جس طرح جنت اور جہنم پر بغیر دیکھے، بغیر کسی تجربے اور مشاہدے کے ایمان لانا ضروری ہے ایسے ہی برزخی زندگی پر ایمان لانا ضروری ہے۔ تعجب ہے ان لوگوں پر کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں اپنے تجربات و مشاہدات کو کتنی اہمیت دیتے ہیں۔
③ مٹی کی خاصیت ہے کہ جو چیز اس میں دفن کر دی جائے وہ اسے کھا جاتی ہے، دفن کی ہوئی چیز گل سٹر جاتی ہے خواہ وہ چیز جاندار ہو یا بے جان ۔ مثلاً : اگر آپ لوہے کو مٹی میں دفن کر دیں کچھ دنوں بعد دیکھیں تو آپ کو وہ لوہا اپنی اصلی شکل سے بدلا ہوا نظر آئے گا، وہ گل چکا ہوگا، اسے زنگ لگا ہوا ہوگا ، یا وہ بالکل ہی مٹی بن چکا ہوگا ۔ اسی طرح اگر گڑھا کھود کر اس میں کسی زندہ انسان یا حیوان کو گاڑ دیا جائے اس کا صرف منہ یا جسم کا کچھ حصہ باہر رہنے دیں کہ جس سے وہ زندہ رہ سکے تو آپ دیکھیں گے کہ چند ہی دنوں میں زمین میں گاڑھا ہوا حصہ گل جائے گا، اس سے بدبو آنے لگے گی۔ معلوم ہوا کہ مٹی زندہ اور مردہ کی تمیز نہیں کرتی ، اس کی خاصیت ہی یہ ہے کہ جو بھی اس میں دفن ہوگا اسے وہ ختم کر دے گی لیکن کئی مرتبہ ہمارے مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ مردے کو زمین میں دفن ہوئے عرصہ بیت چکا لیکن مٹی نے اس کے جسم کو نہ کھایا اور نہ ہی گلنے دیا بلکہ حیرت انگیز بات یہ کہ جسم بالکل ویسا ہی تھا جیسا دفن کرتے وقت تھا اور جسم میں بدبو آنے کی بجائے خوشبو آرہی تھی اس قسم کے بیسیوں واقعات ہیں ، چند ایک ہم پیش کرتے ہیں:
واقعہ ① :
سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب جنگ احد کا وقت قریب آیا تو مجھے میرے باپ عبد اللہ نے رات کو بلا کر کہا کہ مجھے ایسا دکھائی دیتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سب سے پہلا مقتول میں ہی ہوں گا، اور دیکھو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا دوسرا کوئی مجھے تم سے زیادہ عزیز نہیں ہے۔ میں مقروض ہوں اس لیے تم میرا قرض ادا کر دینا اور اپنی بہنوں سے اچھا سلوک کرنا، چناں چہ جب صبح ہوئی تو سب سے پہلے میرے والد ہی شہید ہوئے ، قبر میں آپ کے ساتھ میں نے ایک دوسرے شخص کو بھی دفن کر دیا تھا لیکن میرا دل مطمئن نہیں تھا کہ انھیں کسی دوسرے آدمی کے ساتھ یونہی قبر میں رہنے دوں، چناں چہ چھ ماہ بعد میں نے ان کی لاش کو قبر سے نکالا۔ دیکھا تو صرف کان وہ بھی تھوڑا سا گلنے کے سوا باقی سارا جسم اسی طرح تھا جیسے دفن کیا گیا تھا۔
(بخاری، کتاب الجنائز، باب هل يخرج الميت من القبر واللحد لعلة، رقم: 1351)
واقعہ ② :
حضرت عبدالرحمن بن ابی صعصہ بیان کرتے ہیں کہ عمرو بن الجموح اور عبد اللہ بن عمرو انصاری سلمی رضی اللہ عنہما جو کہ غزوہ احد میں شہید ہوئے تھے، ان کی قبر کو پانی کے بہاؤ نے اکھیڑ دیا تھا کیوں کہ ان کی قبر پانی کے بہت قریب تھی اور وہ دونوں ایک ہی قبر میں دفن تھے ، تو جب ان کی قبر کھودی گئی تاکہ ان کی لاشیں نکال کر کسی اور جگہ دفن کر دی جائیں، دیکھا تو ان کی لاشیں بالکل ویسی ہی تھیں جیسے وہ شہید ہوئے تھے، اس طرح معلوم ہوتا تھا کہ جیسے وہ کل شہید ہوئے ہوں، ان میں سے ایک شخص کو جب زخم لگا تھا تو اس نے ہاتھ اپنے زخم پر رکھ لیا تھا جب ان کو دفن کرنے لگے تو ہاتھ کو وہاں سے اٹھانا چاہا مگر ہاتھ پھر وہیں آلگا ( جہاں زخم تھا ) ، جب ان کی لاشیں کھودیں تو غزوہ احد کو چھیالیس برس گزر چکے تھے ۔
(الموطأ لا امام مالك، كتاب الجهاد، باب الدفن في قبر واحد من ضرورة رقم : 1023)
واقعہ ③ :
پاکستان کے نامور ایٹمی سائنسدان انجینئر سلطان بشیر محمود ستارۂ امتیاز اپنی کتاب ”قیامت اور حیات بعد الموت“ میں اسی قسم کا ایک واقعہ لکھتے ہیں: ”پاکستان انسٹیٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے سائنس دان ڈاکٹر محمد رفیق ۔۔ جواب فوت ہو چکے ہیں۔۔ نے 1982ء میں حلفیہ مجھے بتایا کہ 1980ء کی بارشوں میں سیلاب کا پانی ان کے گاؤں کے قبرستان کو بہا کر لے گیا۔ سیلاب کے اس ریلے میں ایک بزرگ کی لاش بھی تھی جو ایسے محفوظ پائی گئی جیسے اسی دن مرا ہو، حالاں کہ اللہ کا وہ صالح بندہ چالیس پچاس سال پہلے فوت ہوا تھا۔
(قیامت اور حیات بعد الموت، ص: 407)
واقعہ ④ :
قاری نعیم الحق نعیم رحمہ اللہ نامور علماء اہل حدیث میں سے تھے، آپ انتہائی سادہ مزاج ، شریف الطبع ہونے کے ساتھ ساتھ عالم باعمل بھی تھے ۔ 30 / جنوری 1999ء کو ٹرین سے اترتے ہوئے پائدان میں پاؤں الجھنے کی وجہ سے ٹرین تلے آکر خالق حقیقی کو جاملے ۔ وفات کے تقریباً پانچ ماہ بعد محترم قاری صاحب کی قبر بارشوں کی وجہ سے بیٹھ گئی ، لوگوں نے دیکھا کہ آپ کا کفن اور جسم بالکل سلامت تھا، آنکھوں کے بال اور داڑھی اسی حالت میں تھی ،سر کے زخم پر رکھی ہوئی روئی بھی اسی طرح موجود تھی ۔
(هفت روزه الاعتصام، جلد : 56، شماره: 31، ص: 27 )
الاعتصام میں یہ واقعہ محترم قاری صاحب کی لخت جگر میمونہ نعیم نے بیان کیا تھا، جب کہ میں نے مزید تحقیق کے لیے الاعتصام کے مدیر حافظ عبد الوحید حفظہ اللہ.. جو کہ قاری صاحب کے شاگرد خاص بھی ہیں … سے پوچھا انھوں نے بھی اس واقعہ کی تصدیق کی ۔
واقعہ ⑤ :
راقم کے ایک کزن جن کا نام حافظ محمد شریف بھٹوی تھا۔ آپ ضلع اوکاڑہ کے معروف گاؤں ”بھٹہ محبت“ کے رہنے والے تھے، آج سے تقریباً پچپیس (25) سال قبل فوت ہوئے تھے ، آپ سکول ٹیچر تھے، انتہائی سادہ مزاج ، شریف الطبع اور تہجد گزار تھے، کافی عرصہ بیمار رہے، بالآخر اسی بیماری میں فوت ہو گئے ، وفات کے تقریباً دو (2) سال بعد (غالباً 1982ء) آپ کی قبر کسی وجہ سے بیٹھ گئی ، آپ کے بھائیوں کو علم ہوا تو وہ قبر درست کرنے کے لیے گئے، وہاں آ کر جب انھوں نے دیکھا تو ششدر رہ گئے ۔ کیوں کہ دو سال کا عرصہ بیت جانے کے باوجود آپ کا کفن بالکل سفید، کوئی داغ دھبہ نہیں لگا ہوا تھا، جسم بھی بالکل سلامت ، یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے ابھی دفن کیے گئے ہیں، بڑے بھائی نے آپ کا سر پکڑ کر چہرے کا رخ دوسری طرف کرنا چاہا تو منہ پر ہاتھ لگنے سے داڑھی کے چند بال اکھڑ گئے ، جب کہ چہرے کا رخ اس طرح آسانی سے دوسری طرف ہو گیا کہ جیسے سوئے ہوئے آدمی کا چہرہ دوسری طرف کیا جاتا ہے اور وہ آسانی سے دوسری جانب مڑ جاتا ہے۔ یہ واقعہ میری والدہ ، خالہ، خالہ کے بیٹوں نے مجھے بتایا ہے۔
” فتوحات“ اہل حدیث میں لکھا ہے کہ حافظ عبدالقادر روپڑی رحمہ اللہ کی تدفین کے بعد آپ کی قبر سے کچھ عرصہ تک فردوسی خوشبوئیں آتی رہیں ۔ معتمد علیہ عوام اور مستند علماء نے آپ کی قبر پر مٹی کا ہر طرح کیمیکل تجربہ کیا، بالآخر سب نے یہ اقرار کیا کہ یہ خوشبو دنیاوی خوشبو سے بالا تر جنتی خوشبو ہے ۔
(میزان مناظره: 44/1)
یہ اور اس طرح کے کئی ایسے واقعات ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عذاب قبر ایک حقیقت ہے تفصیل کے لیے ”احوال القبور لابن رجب، شرح الصدور للسيوطي، التذكرة لامام قرطبی“ دیکھیں۔
ايك مشهور اعتراض:
قرآن مجید میں انسان کی چار حالتوں، دوموتوں اور دوزندگیوں کا ذکر ہے۔
جواب:
① منکرین عذاب قبر کا یہ بڑا مشہور اعتراض ہے کہ دو موتیں یعنی ایک دنیا میں آنے سے پہلے کا جو عرصہ ہے اور دوسری اس زندگی کے بعد جو موت آئے گی ۔ اسی طرح دو زندگیاں ، ایک جو ہم بسر کر رہے ہیں اور دوسری آخرت کی۔ اس کے لیے وہ عموماً آیت ﴿ثُمَّ إِنَّكُم بَعْدَ ذَٰلِكَ لَمَيِّتُونَ . ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ تُبْعَثُونَ.﴾ ”اس کے بعد پھر تم سب یقیناً مر جانے والے ہو، پھر قیامت کے دن بلاشبہ تم سب اٹھائے جاؤ گے ۔“ (23-المؤمنون:15،16) پیش کرتے ہیں۔
یادر ہے کہ یہ اور اس طرح کی دوسری آیات میں قیامت کے دن دوبارہ جی اٹھنے سے مراد عام زندگی ہے نہ کہ خاص زندگی ۔ یعنی تمام اگلے پچھلے انسان زندہ کر کے میدان محشر میں جمع کیے جائیں گے۔
یہ بات بجا ہے کہ قرآن مجید میں موت کے بعد قیامت سے پہلے اس طرح کی عام اور سب لوگوں کی زندگی کا ذکر نہیں ہے اور نہ ہی کسی مسلمان کا یہ عقیدہ ہے کہ قیامت سے قبل ایسی کوئی عام زندگی ہوگی ۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ اس سے قبل کوئی خاص زندگی نہیں۔ اس خاص زندگی کی کئی ایک امثلہ قرآن مجید میں موجود ہیں ۔ مثلاً :
مثال ① :
﴿وَإِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا فَادَّارَأْتُمْ فِيهَا ۖ وَاللَّهُ مُخْرِجٌ مَّا كُنتُمْ تَكْتُمُونَ. فَقُلْنَا اضْرِبُوهُ بِبَعْضِهَا ۚ كَذَٰلِكَ يُحْيِي اللَّهُ الْمَوْتَىٰ وَيُرِيكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ.﴾
”اور جب تم نے ایک شخص کو قتل کر ڈالا پھر اس میں اختلاف کرنے لگے، اور تمہاری پوشیدگی کواللہ تعالی ظاہر کرنے والا تھا۔ ہم نے کہا کہ اس (گائے ) کا ایک ٹکڑا مقتول کے جسم پر لگا دو ( وہ جی اٹھے گا) اسی طرح اللہ مردوں کو زندہ کر کے تمہیں تمہاری عقل مندی کے لیے اپنی نشانیاں دکھاتا ہے۔ “
(2-البقرة:72،73)
مثال ② :
﴿أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ خَرَجُوا مِن دِيَارِهِمْ وَهُمْ أُلُوفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ فَقَالَ لَهُمُ اللَّهُ مُوتُوا ثُمَّ أَحْيَاهُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُونَ﴾
”کیا آپ نے ان لوگوں کے حال پر بھی غور کیا ہے جو موت کے ڈر سے اپنے گھروں سے نکل گئے ، حالاں کہ وہ ہزاروں کی تعداد میں تھے۔اللہ تعالیٰ نے انھیں کہا مرجاؤ (چنانچہ وہ راستے میں ہی مر گئے ) پھر اللہ تعالیٰ نے انھیں دوبارہ زندہ کر دیا، اور اللہ تو یقیناً لوگوں پر بڑا فضل کرنے والا ہے لیکن لوگوں کی اکثریت ایسی ہے جواللہ کا شکر ادا نہیں کرتی۔ “
(2-البقرة:243)
مثال ③ :
﴿أَوْ كَالَّذِي مَرَّ عَلَىٰ قَرْيَةٍ وَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَىٰ عُرُوشِهَا قَالَ أَنَّىٰ يُحْيِي هَٰذِهِ اللَّهُ بَعْدَ مَوْتِهَا ۖ فَأَمَاتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ ۖ قَالَ كَمْ لَبِثْتَ ۖ قَالَ لَبِثْتُ يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ ۖ قَالَ بَل لَّبِثْتَ مِائَةَ عَامٍ فَانظُرْ إِلَىٰ طَعَامِكَ وَشَرَابِكَ لَمْ يَتَسَنَّهْ ۖ وَانظُرْ إِلَىٰ حِمَارِكَ وَلِنَجْعَلَكَ آيَةً لِّلنَّاسِ ۖ وَانظُرْ إِلَى الْعِظَامِ كَيْفَ نُنشِزُهَا ثُمَّ نَكْسُوهَا لَحْمًا ۚ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ قَالَ أَعْلَمُ أَنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ﴾
”یا ( اس شخص کے حال پر غور کیا ہے ) جو ایک بستی کے قریب سے گزرا اور وہ بستی اپنی چھتوں پر گری پڑی تھی ، وہ کہنے لگا! اس بستی کی موت کے بعد دوبارہ اللہ اسے کیسے زندگی دے گا؟ (یعنی آباد کرے گا ) اس پر اللہ نے اسے سوسال تک موت کی نیند سلا دیا۔ پھر اسے زندہ کر کے اس سے پوچھا! بھلا کتنی مدت تم یہاں پڑے رہے؟ وہ بولا کہ یہی بس ایک دن یا اس کا کچھ حصہ ٹھہرا رہا ہوں گا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: بات یوں نہیں بلکہ تم یہاں سو سال پڑے رہے ہو۔ اچھا اب اپنے کھانے اور پینے کی چیزوں کی طرف دیکھو یہ ابھی تک باسی نہیں ہوئیں اور اپنے گدھے کی طرف بھی دیکھو (اس کا پنجر تک بوسیدہ ہو چکا ہے ) اور یہ ہم نے اس لیے کیا ہے کہ تجھے لوگوں کے لیے ایک معجزہ بنادیں (کہ جو شخص سو برس بیشتر مر چکا تھا وہ دوبارہ زندہ ہو کر آ گیا ) اور اب گدھے کی ہڈیوں کی طرف دیکھو کہ ہم کیسے انہیں جوڑتے ، اٹھاتے اور اس پر گوشت چڑھا دیتے ہیں۔ جب یہ سب باتیں واضح ہو گئیں تو وہ کہنے لگا! اب مجھے خوب معلوم ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ “
(2-البقرة:259)
مثال ④ :
﴿وَإِذْ قُلْتُمْ يَا مُوسَىٰ لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّىٰ نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً فَأَخَذَتْكُمُ الصَّاعِقَةُ وَأَنتُمْ تَنظُرُونَ ۔ ثُمَّ بَعَثْنَاكُم مِّن بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ۔﴾
”اور (وہ واقعہ بھی یاد کرو) جب تم نے کہا اے موسیٰ! جب تک اللہ کو ہم علانیہ نہ دیکھ لیں، تمہاری بات نہیں مانیں گے، پھر تمہارے دیکھتے ہی دیکھتے تم پر بجلی گری (جس نے تمہیں ختم کر دیا ) پھر تمہاری موت کے بعد ہم نے تمہیں زندہ کر کے اٹھایا کہ شاید اب ہی تم شکر گزار بن جاؤ۔“
(2-البقرة:56،55)
② قرآن مجید میں دومستقل زندگیوں کا ذکر ہے۔ مستقل زندگی یہ ہے کہ روح با قاعدہ جسم میں داخل ہو کر پورے بدن میں تصرف کرے تو یہ صورت یا تو دنیا کی زندگی میں ہوتی ہے اور یا آخرت میں ہوگی۔ لہذا مستقل زندگیاں دوہی ہیں ایک دنیا کی اور دوسری آخرت کی۔ عالم قبر اور برزخ کا معاملہ ایسا نہیں ہے، وہاں تو جسم اور روح میں جدائی ہے، جسم زیر زمین قبر میں عذاب سے دوچار ہو رہا ہے، جب کہ روح عذاب جہنم میں مبتلا ہے۔ عالم برزخ کو شاید اسی وجہ سے آخرت کی زندگی کا مقدمہ کہا جاتا ہے۔