منکرین عذاب قبر کے متعلق علماء کرام کی آراء
یہ اقتباش شیخ محمد ارشد کمال کی کتاب عذاب قبر کتاب و سنت کی روشنی میں سے ماخوذ ہے۔

منکرین عذاب قبر کے متعلق علماء کرام کی آراء

اس باب میں نامور علماء کرام ومفتیان عظام کی آراء سے قارئین کو مطلع کیا جارہا ہے۔ تاکہ انھیں منکرین عذاب قبر کے متعلق علماء کی آراء سے آگاہی ہو سکے۔ اس سلسلے میں، میں نے نامور علماء کو خطوط لکھے جن میں سے بعض کے جوابات بذریعہ ڈاک مجھ تک پہنچے، بعض نے جماعتی رسائل میں جوابات دیے، جب کہ بعض سے میں نے بالمشافہ مل کر جوابات حاصل کیے۔ مگر اس کے باوجود بھی کئی علماء ایسے ہیں جن کی طرف سے فی الحال مجھے کوئی جواب نہیں ملا جس کی دو ہی وجہیں ہو سکتی ہیں، یا تو ان تک میرا خط پہنچا ہی نہیں یا پھر وہ اپنی گونا گو مصروفیات کی بنا پر تا حال جواب نہیں لکھ سکے۔ بہر حال میں ان تمام علماء کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں جنہوں نے اپنی بے حد مصروفیات کے باوجود میرے خطوط کے جوابات دے کر میری حوصلہ افزائی کی۔(علماء کی آراء قارئین کرام کے علم میں اضافے کے لیے بیان کر رہے ہیں، میرا ہر عالم کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ مصنف) فجزاهم الله احسن الجزاء

◈ الشيخ عبد الرحمن ضیاء (شیخ الحدیث جامعہ ابن تیمیہ ، رائے ونڈ روڈ ۔ لاہور) حفظہ اللہ کی رائے

یادر ہے کہ شرح عقیدہ طحاویہ میں ہے:
قد تواترت الأخبار عن رسول الله صلى الله عليه وسلم فى تبوت عذاب القبر ونعيمه لمن كان لذلك أهلا، وسؤال الملكين فيجب اعتقاد ذلك والإيمان به ولا نتكلم فى كيفيته
یعنی عذاب قبر اور قبر کی نعمتوں کے متعلق نیز قبر میں سوال کے متعلق ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے متواتر احادیث مروی ہیں، اس لیے ان کا اعتقاد رکھنا واجب ہے، اور ان پر ایمان لا نا بھی واجب ہے اور ہم ان کی کیفیت کے متعلق بحث نہیں کر سکتے ۔
ص: 450
متواتر احادیث کا انکار کرنے والے شخص میں اگر تکفیر کے موانع میں سے کوئی مانع نہیں پایا جاتا تو اسے کافر کہا جاسکتا ہے۔ یعنی وہ شخص جاہل نہ ہو ، مطلب یہ کہ اس کو ان احادیث کے بارے میں آگاہ کر دیا گیا ہو۔ اور اس کے پاس کوئی حجت وشبہ باقی نہ رہے مثلاً : وہ عذاب قبر ارضی کی برزخی قبر سے تاویل نہ کرتا ہو بلکہ وہ محض انکار ہی کرتا ہو ، تو ایسا شخص لا محالہ کفر کی حد تک پہنچ جاتا ہے۔
کفر کے 35 ۔ اسباب ہیں جو فتاوی دین خالص جلد 3 ص : 8 تا 15 میں لکھے ہوئے ہیں اور شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ نے بھی اپنی کتاب ” مجالس شهر رمضان“ ص: 127 پر ان میں سے بعض اسباب لکھے ہیں، جو مسئلہ قطعی دلائل سے ثابت ہو اور اس پر علماء کا اجماع بھی ہو جائے اس کا منکر کفر کی حد تک جا پہنچتا ہے مثلاً : شراب، زنا یا چوری کو حلال کہنے والا، نماز ، زکوۃ، روزہ کا انکار کرنے والا، یا دین کا مذاق اڑانے والا ، عذاب قبر کا منکر بھی اسی زمرہ میں ہے کیوں کہ اس کے دلائل بھی متواتر ہیں اور اہل سنت کا اجماع بھی ہے جیسا کہ عذاب قبر کے متعلق علامہ ابن ابی العز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
يكون للنفس والبدن باتفاق اهل السنة والجماعة
کہ عذاب قبر روح اور بدن دونوں کو ہوتا ہے اس پر اہل سنت والجماعت کا اتفاق ہے۔
(شرح عقیدہ طحاويه، ص: 451)
اور موت کے بعد قیامت کے دن سے پہلے عذاب کا ذکر قرآن میں بھی ہے دیکھیے :
(الذاريات: 45، 47 غافر: 47،45، توبه: 101)
اور پھر قرآن وحدیث سے ثابت ہے کہ انسان مرنے کے بعد قیامت تک زمین میں ٹھہرتا ہے۔ مثلاً: ﴿كَمْ لَبِثْتُمْ فِي الْأَرْضِ عَدَدَ سِنِينَ﴾ [المؤمنون] اور حدیث میں ہے: يقال للارض التنمي عليه زمین کو کہا جاتا ہے اس پر مل جا۔( ترمذی) نیز ﴿مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَىٰ﴾ [طه] آپ نے جس شخص کے متعلق سوال کیا ہے وہ اگر ان متواتر احادیث کو جھوٹا اور من گھڑت کہتا ہے اور عذاب قبر کاکلی طور پر منکر ہے، ان احادیث کا علم ہوتے ہوئے بھی اگر اپنے غلط موقف پر اڑا ہوا ہے تو ایسا شخص بھی کفر میں داخل ہو جاتا ہے۔
(كتبه عبد الرحمن ضياء)

◈ الشیخ ارشاد الحق اثری (مصنف کتب کثیره ، استاذ العلماء محقق شہیر، رئیس ادارة العلوم الاثریہ، فیصل آباد) حفظہ اللہ کی رائے

منکرین عذاب قبر کے بارے میں آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ حضرات بدعتی ہیں صحیح احادیث کی تضعیف و تاویل میں ان سے خطا ہوئی ہے، یہ نا کارہ انھیں دائرہ اسلام سے خارج نہیں سمجھتا۔ معتزلہ بھی عذاب قبر کے منکر تھے، حضرات محدثین کرام انھیں بھی کافر نہیں بلکہ بدعتی ہی سمجھتے تھے ۔ هذا ما عندي والله سبحانه وتعالى اعلم بالصواب

◈ الشیخ مبشر احمد ربانی ( مناظر و مفتی اسلام، مصنف کتب کثیرہ محقق شہیر، رئیس مرکز ام القری سبزہ زار لاہور )حفظہ اللہ کی رائے

معاد و قیامت اور اس کے جمیع متعلقات پر ایمان لانا ہر صاحب ایمان پر واجب اور ضروری ہے اور ان کا انکار کفر ہے، اخروی امور کی پہلی منزل قبر ہے اور اس قبر میں عذاب اور حق تعالیٰ کی نعمتوں کے ادراک پر احادیث متواترہ دلیل ہیں اور کتب عقائد ان کے تذکرے سے مالا مال ہیں، اور گمراہ وگمراہ گر کی ضلالت و جہالت ان امور میں نا قابل اعتماد ہیں، ان گمراہ گروں اور آئمہ مصلین کی ہلاکت و گمراہی کا عظیم سبب، علوم دینیہ وشرعیہ کی قلت ہے اور سلف صالحین کے منہج سے بعد و دوری ہے۔ رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے علامات قیامت اور امارات ساعۃ ذکر فرماتے ہوئے فرمایا ہے:
من اشراط الساعة ان يقل العلم، ويظهر الجهل، ويظهر الزنا وتكثر النساء، ويقل الرجال حتى يكون لخمسين امرأة القيم الواحد
”علامات قیامت میں سے علم کی کمی، جہالت وزنا کا غالب ہونا، عورتوں کی کثرت مردوں کی کمی حتی کہ پچاس عورتوں پر ایک نگران ہو گا ۔ “
صحيح البخاری، کتاب العلم، باب رفع العلم وظهور الجهل، رقم: 81
اسی طرح ایک اور حدیث میں رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
وان الله لا يقبض العلم انتزاعا ينتزعه من العباد ولكن يقبض العلم بقبض العلماء، حتى اذا لم يبق عالم اتخذ الناس روسا جهالا، فسئلوا فافتوا بغير علم فضلوا واضلوا
اللہ تعالیٰ یقینا علم بندوں سے چھین کر قبض نہیں کرتا لیکن وہ علماء کو قبض کر کے علم قبض کرتا ہے۔ یہاں تک کہ جب کوئی عالم باقی نہ رہے گا، لوگ جاہلوں کو سردار بنالیں گے، ان سے مسئلے پوچھے جائیں گے، وہ علم کے بغیر فتوی دیں گے، خود بھی گمراہ اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے ۔
صحيح البخاری، کتاب العلم باب كيف يقبض العلم، رقم:100
ان احادیث صحیحہ صریحہ سے واضح ہو گیا کہ لوگوں کی گمراہی کا باعث شرعی علم سے یتیمی ہے اور جن لوگوں نے اصحاب الحدیث کے ہاں زانوئے تلمذ طے کر کے علم حاصل نہیں کیا وہ گمراہی کے دہانے پر پہنچ گئے۔
یاد رہے کہ اسلام کے بنیادی عقائد میں سے عذاب قبر اور اس کی نعمتوں کا اثبات ہے جواحادیث متواترہ میں بیان کیا گیا ہے۔
صاحب شرح عقیدہ طحاویہ رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
وقد تواترت الاخبار عن رسول الله الله فى ثبوت عذاب القبر ونعيمه لمن كان لذلك اهلا وسؤال الملكين، فيجب اعتقاد ثبوت ذلك والايمان به ولا نتكلم فى كيفيه اذ ليس للعقل وقوف على كيفيته، لكونه لا عهد له به فى هذه الدار والشرع لا ياتي بما يحيله العقول ولكنه قدياتى بما تحار فيه العقول فان عود الروح الى الجسد ليس على الوجه المعهود فى الدنيا بل تعاد الروح اليه اعادة غير الاعادة الما لوفة فى الدنيا
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عذاب قبر کے ثبوت اور اس کی نعمتیں ان لوگوں کے لیے جوان کے اہل ہیں، کے بارے میں متواتر احادیث مروی ہیں، اسی طرح دو فرشتوں کا قبر میں سوال کرنا، اس کے ثبوت پر عقیدہ رکھنا اور ایمان لانا واجب ہے۔ اور ہم اس کی کیفیت پر کلام نہیں کرتے اس لیے کہ ان امور پر واقفیت رکھنا عقل کا کام نہیں ہے، اس لیے کہ اس دنیا میں اس کا عہد نہیں ہے، اور شریعت ایسے امور نہیں لاتی جو عقلاً محال ہوں ، شرع ایسے امور لاتی ہے جس میں عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ روح کا جسم کی طرف لوٹنا اس طرح نہیں ہے جیسے دنیا میں جسم کے اندر لوٹائی جاتی ہے۔ بلکہ روح کا اعادہ دنیا کے اندر اعادے کی طرح نہیں ہے۔
شرح العقيدة الطحاوية: 609/2 بتحقيق شعيب الارناؤط وعبد الله بن عبد المحسن التركي، مطبوعه مؤسسة الرسالة
اسی طرح علامہ مرتضیٰ زبیدی نے لقط اللائي المتناثره في الاحاديث المتواترہ، رقم: 63 علامہ سیوطی نے قطف الازهار المتناثره في الاخبار الــمــواتــره، رقم: 109 میں عذاب قبر اور سوال الملکین کو متواتر قرار دیا ہے۔ ان احادیث متواترہ میں سے براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی مفصل حدیث بھی ہے جسے بے شمار ائمہ نے کتب عقائد میں عذاب قبر کے اثبات کے لیے پیش کیا ہے۔ جن کا اختصار سے تذکرہ درج ذیل ہے۔
مسند احمد (18534) ابن ابی شیبه (310/3، 374، 380، 382، 10 / 194)، کتاب الزهد لهناد (339)، زوائد مروزی علی الزهد لابن مبارک (1219) الرد على الجهمية للدار می (ص: 29) ابوداؤد (4753)، تفسیر طبری (20764)، تهذيب الآثار (721) التوحيد لابن خزيمه (ص: 119) اتحاف المهرة (2/ 459)، الشريعة للآجرى (ص: 367، 370)، الايمان لابن منده (1064)، مستدرک حاکم (371 ,38) شرح اصول اعتقاد اهل السنة (2140)، اثبات عذاب القبر للبيهقى ( 21 ،44) شعب الایمان (395)، ابن ماجه (1548، 1949)، نسائی (2003)، المصنف لعبد الرزاق (580/3، 582) مسند طیالسی (753)، المعجم الاوسط للطبرانی (3523 7413) مسند الرویانی (392)، تفسیر ابن ابی حاتم (8465) التذكره للقرطبي (119) تاریخ دمشق (268/23، 269) اس حدیث کو امام حاکم، امام ذہبی ، امام منذری، امام بیہقی ، امام قرطبی، امام ابن قیم اور علامہ البانی رحمہ اللہ وغیر ہم نے صحیح قرار دیا ہے، اور بڑے بڑے آئمہ حدیث نے عقائد کی کتابوں میں ذکر کر کے اس سے عذاب قبر کے عقیدہ پر حجت پکڑی ہے۔
یہ حدیث بالکل صحیح ثابت ہے۔ صاحب شرح العقيدة الطحاویہ فرماتے ہیں:
وذهب الى موجب هذا الحديث جميع اهل السنة والحديث وله شواهد من الصحيح
اس حدیث کے موجب و مصداق کی طرف تمام اہل السنہ والجماعت گئے ہیں اور صحیح میں اس کے شواہد بھی ہیں۔
2 / 607 (المصدر السابق )
امام ابو عبد الله محمد بن اسحاق بن محمد بن یحیی المعروف ابن مندہ الاصبہانی المتوفى (395ھ) فرماتے ہیں:
هذا الاسناد متصل مشهور رواه جماعة عن البراء، وكذلك رواه عدة عن الاعمش، وعن المنهال بن عمرو، والمنهال اخرج عنه البخارى ما تفرد به وزاذ ان اخرج عنه مسلم وهو ثابت على اسم الجماعة، وروى هذا الحديث عن جابر وابي هريرة وابي سعيد وانس بن مالك و عائشه رضي الله عنهم
یہ سند متصل مشہور ہے، محدثین کی ایک جماعت نے اسے براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے، اور اس طرح کئی ایک نے اسے اعمش اور منہال بن عمرو سے روایت کیا ہے۔ منہال سے امام بخاری نے وہ روایت بیان کی ہے جس میں اس کا تفرد ہے، اور زاذان سے مسلم نے روایت نکالی ہے، اور یہ حدیث جابر، ابو ہریرہ، ابوسعید، انس بن مالک اور عائشہ رضی اللہ عنہم سے بھی مروی ہے۔
کتاب الایمان، ص : 575 ، رقم: 1064 – بتحقيق أيمن صالح شعبان مطبوعه دار الكتب العلمية بيروت
علامہ آجری نے” الشریعہ“ میں اس حدیث پر یوں باب باندھا ہے۔
”التصديق والايمان بعذاب القبر “عذاب قبر کی تصدیق اور اس پر ایمان کا بیان ۔
پھر اس کے بعد عذاب قبر کے متعلقہ احادیث بیان کیں اور فرمایا: ما اسو حال من كذب بهذه الاحاديث لقد ضل ضلالا بعيدا، وخسر خسرانا مبينا
”جس شخص نے ان احادیث کو جھٹلایا وہ کس قدر برے حال والا ہے، وہ تو یقیناً بہت دور بھٹک گیا اور واضح نقصان اٹھانے والا بن گیا۔ “
الشريعه: 2/ 186
علامہ ابوبکر احمد بن علی الرازی رقمطراز ہیں:
واعلم ان سوال منكر ونكير للميت فى القبر عن ربه ودينه، حق لو رود الاحاديث عن النبى الله صلى الله عليه وسلم
یقین کر لو! کہ منکر و نکیر کا میت سے قبر میں اس کے رب اور اس کے دین کے بارے میں سوال کرنا حق ہے، اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے احادیث مروی ہے۔
شرح بدء الامالی، ص:353
پھر اس کے بعد احادیث ذکر کر کے لکھتے ہیں:
واعلم ان عذاب القبر لكفار ولمن كان مستحقا من المؤمنين حق، والانعام لاهل الطاعات، وبهم ايصال اللذات وارواحهم وابدانهم فى الراحات بذلك عند اهل السنة والجماعة حق، يخلف الله فى القبر فى الميت ضرب الحياة بقدر ما يتألم به، ان كان كافرا، ويتلذذ بالاكرام ان كان مومنا
یقین کر لو! کہ کفار اور اہل ایمان میں سے جو عذاب قبر کے مستحق ہوئے ان کے لیے قبر میں عذاب حق ہے، اور اطاعت والے لوگوں کے لیے انعامات ، ایصال لذات اور ان کی روحوں اور جسموں میں راحت و اطمینان ہونا اہل السنہ والجماعت کے نزدیک برحق ہے۔ اور قبر میں میت کے اندرحیات کی وہ قسم پیدا کرتا ہے کہ اگر کافر ہو تو درد محسوس کرتا ہے اور اگر مومن ہو تو عزت و اکرام کی لذت پاتا ہے۔
شرح بدء الامالی، ص: 355
علامہ محمد بن احمد السفارینی رقمطراز ہیں:
وعذاب القبر واحياء الموتى فى قبورهم، ومساء لة منكر ونكير لهم ثابت وواجب القول به وانه يعذب بعد ان ترد الروح اليه فعذاب القبر حق
عذاب قبر اور قبروں میں مردوں کو زندہ کرنا اور منکر نکیر کا ان سے سوال کرنا ثابت ہے، اور اس کا قائل ہونا واجب ہے، اور اعادہ روح کے بعد اس کو عذاب دیا جاتا ہے، سو عذاب قبر حق ہے۔
لوائح الانوار السنيه : 2/ 150
امام عبد الغنی المقدسی فرماتے ہیں :
والايمان بعذاب القبر حق، وفرض لازم، رواه عن النبى صلى الله عليه وسلم على بن ابي طالب، وابو ايوب وزيد بن ثابت، وانس بن مالك، وابوهريرة، وابوبكرة، وابو رافع، وعثمان بن ابي العاص، عبد الله بن عباس، وجابر بن عبد الله، وعائشه زوج النبى صلى الله عليه وسلم واختها اسماء، وغيرهم، وكذالك الايمان بمساء لة منكر ونكير
عذاب قبر پر ایمان لانا حق اور فرض لازم ہے، اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سیدنا علی، ابوایوب، زید، انس ،ابو ہریرہ ، ابوبکرة ، ابورافع ، عثمان، عبد اللہ بن عباس، جابر، عائشہ زوجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی بہن اسماء رضی اللہ عنہم نے روایت کیا ہے، اسی طرح منکر و نکیر کے سوال کرنے پر ایمان لانا واجب وضروری ہے۔
الاقتصاد في الاعتقاد: 172 تا 175
اس مختصر سی توضیح سے معلوم ہوا کہ عذاب قبر اور منکر و نکیر کے سوال بالکل حق اور فرض لازم ہیں، تمام ائمہ اہل السنہ والجماعہ اس کے قائل ہیں، اس کا انکار صرف معتزلہ اور ان کے حواریوں نے کیا ہے۔
امام ابوالحسن الاشعری رقمطراز ہیں ۔
واختلفوا فى عذاب القبر، فمنهم من نفاه وهم المعتزلة والخوارج، ومنهم من اثبته، وهم أكثر اهل الاسلام
مقالات الاسلاميين: 116/4
عذاب قبر کے متعلق اختلاف کی نوعیت یہ ہے کہ معتزلہ اور خوارج نے اس کا انکار کیا ہے، اہل اسلام کی اکثریت اس کی قائل ہے۔ نیز دیکھیں لوائح الانوار السنية ولواقح الأفكار السنية: 150/2
یہ تھیں نصوص شرعیہ اور آئمہ اہل سنت کے مختصر اقوال جو اس عقیدہ جازمہ پر دال ہیں۔ جو لوگ قرآن کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقوال و افعال اور تقریرات کے بالکلیہ منکر ہیں وہ دائرہ اسلام سے خارج ہیں، اور اسی طرح جو لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ کئی ایک احادیث کے منکر ہوں، اور ان کا استہزاء کرتے ہوں، تو وہ بھی دائرہ اسلام سے نکل جاتے ہیں اس لیے کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ پر نازل کردہ شریعت پر ایمان لانے کا حکم ہے، اور وہ اس نازل شدہ شریعت کا انکار داستہزا کرتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کردہ احادیث منزل من اللہ ہیں ، جیسا کہ صحیح البخاری، کتاب العلم، باب حفظ العلم، رقم: 118 سے معلوم ہوتا ہے۔ یہی وجہ کہ غلام احمد پرویز اور اس کی ڈگر پر چلنے والے لوگوں کے بارے میں کئی ایک آئمہ حدیث و مفتیان شرع اور منبر و محراب کے وارثین نے کفر کا فتوی دیا ہے۔ جس کی تفصیل ماہنامہ محدث اشاعت خاص فتنہ انکار حدیث ص: 109 تا 114 میں موجود ہے۔
اور جو لوگ علم حدیث سے نابلد ہیں اور ان کے معانی ومفاہیم سے اچھی طرح واقف نہیں ہیں، یا نفسانی خواہش و آراء کے پیچھے لگ کر نصوص کی تاویل کرتے ہیں، تو ایسے لوگ فاسق و فاجر اور ظالم ہیں ، ان کی تکفیر نہیں کی جائے گی ۔ معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ سے مروی فرقوں والی حدیث کی شرح میں امام خطابی فرماتے ہیں:
وفيه ان المتأول لا يخرج من الملة وان اخطا فى تأوله
” بلاشبہ تاویل کرنے والا ملت اسلامیہ سے خارج نہیں ہوگا ، اگر چہ اس نے اپنی تاویل میں خطا کی ہو۔ “
معالم السنن للخطابي مع مختصر سنن ابی داود 4/7 تحت، رقم: 4429
امام بخاری نے صحيح البخارى، كتاب الادب، باب من اكفر اخاه بغير تاويل فهو كما قال اور باب من لم ير اكفار من قال ذلك متاولا او جاهلا، اور کتاب استتابة المرتدين والمعاندين وقتالهم، باب ما جاء فى المتاولين میں بھی یہی بات سمجھائی ہے۔ مزید تفصیل کے لیے فتح الباری 12/ 514/10،304 ، 10/ 515 وغیرہ شروحات حدیث ملاحظہ ہوں۔
بہر کیف جو شخص احادیث ثابتہ صحیحہ کا منکر اور ان کا استہزاء کرتا ہے تو اس پر علماء نے فتوئی كفر عائد کیا ہے۔ امام محمد بن اسحاق بن خزیمہ رحمہ اللہ کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
اصل الجهم الانكار بعذاب القبر وبقول القرآن مخلوق، فمن قال هذا فهو مبتدع، ضال، واجمع اهل العلم من اهل السنة ان القرآن كلام الله غير مخلوق، وان عذاب القبر حق، وسوال منكر ونكير حق، فمن قال غيره فهو كافر
”جہم کی اصل (تعریف) یہ ہے کہ وہ عذاب قبر کے منکر ہیں اور قرآن کو مخلوق کہتے ہیں پس جس کسی نے بھی یہ بات کہی وہ بدعتی ہے، گمراہ ہے، اور تمام اہل علم کا اہل سنت میں سے اس بات پر اجماع ہے کہ قرآن اللہ کی کلام ہے، نہ کہ مخلوق ، اور یقین کر لو کہ عذاب قبر حق ہے اور منکر و نکیر کے سوال بھی حق ہیں، پس جس کسی نے اس کے علاوہ کہا سو وہ کافر ہے۔ “
كتاب التوحيد، ص: 33، طبع مصر : 1937
اور جومؤول یا جاہل ہے تو اس کی تکفیر نہیں کی بلکہ تجمیل وتفسیق کی ہے۔
هذا ما عندى والله اعلم بالصواب وعلمه اتم واكمل
(ابوالحسن مبشر احمد ربانی عفا اللہ عنہ)

◈ حافظ صلاح الدین یوسف (مؤلف تغییر احسن البیان، مصنف کتب کثیره، مدیر شعبه تحقیق و تالیف و ترجمه دار السلام، لاہور ) حفظہ اللہ کی رائے

قرآن وحدیث سے ثابت مسلّمات اسلامیہ کا انکار بلاشبہ کفر تک پہنچا دینے والا عمل ہے، اور عذاب قبر کا مسئلہ بھی اجتماعی اور قرآن وحدیث سے ثابت ہے۔ بنابریں اس عقیدے کے منکر کا ایمان شدید خطرے میں ہے، اسے اس عقیدہ فاسدہ سے فورا توبہ کر لینی چاہیے۔ تاہم کوئی فرقہ اس قسم کے مسلمات کے انکار کو اپنا امتیاز بنا لیتا ہے تو اس کو سمجھانے کی کوشش کرنی چاہیے ، پھر بھی وہ نہ سمجھے تو فتوی بازی کی بجائے اسے اس کے حال پر چھوڑ دینا چاہیے۔ عالم اسلام میں متعدد فرقے ہیں جو کفریہ اور شرکیہ عقائد کے حامل ہیں ، اور دن بدن اس قسم کے فرقوں میں اضافہ ہی ہورہا ہے ، ہماری ذمہ داری صرف یہی ہے کہ کفریہ اور شرکیہ عقیدوں کی وضاحت اور ان کے حاملین کی اصلاح کی کوشش کرتے رہیں۔ باقی معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔ بہر حال ایسے لوگوں کا خاتمہ بالا یمان یقینا مشکوک ہے ۔ هـــداهـــم الـلـه تعالى واعاذنا ( والسلام صلاح الدین یوسف )

◈ شیخ الحدیث عبداللہ امجد چھتوی (شیخ الحدیث مركز الدعوة السلفیہ ستیانہ بنگلہ ، فیصل آباد) حفظہ اللہ کی رائے

عذاب برزخ برحق اور ایمانی جز ہے جس کا قطعی منکر واقعی دائرہ اسلام سے خارج ہے چناںچہ ارشاد باری تعالی ہے:
﴿مِمَّا خَطِيْٓــٴٰـتِهِمْ اُغْرِقُوْا فَاُدْخِلُوْا نَارًا﴾ [سورة نوح]
﴿اَلنَّارُ يُعْرَضُوْنَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَّ عَشِيًّا﴾ [سورة المؤمن]
➌ نیز سورۃ انعام آیت 94 ملاحظہ کریں۔
اسی طرح متعدد احادیث صحیحہ سے عذاب برزخ متحقق و متعین ہے۔ لہذا ان کا صریح انکار کفر اور خروج از دائرہ اسلام ہے، مگر کوئی صریح انکار نہ کرے اور اس کی تاویلات کر کے مؤولین میں شامل ہو جائے تو اس پر کفر کا فتویٰ لگانے سے پر ہیز کریں۔ اجمالاً عذاب وثواب قبر پر ایمان لانا ضروری ہے اس کی تفصیل میں جانا کہ عذاب وثواب صرف روح کو ہوتا ہے یا روح کے ساتھ جسم کو بھی۔ اس کی تفصیل کے ہم شرعاً مکلف نہیں ہیں ۔ مگر جو لوگ ان کے سامنے کوئی مانع موجود ہیں تو آج کل سائنس کی ترقی نے ان سب موانع کا ازالہ کر دیا ہے۔ مثلاً : گاڑی چاند پر پہنچی ہوئی ہے اور اس کا کنٹرولر زمین پر بیٹھا ہوا ہے، اتنے بعد اور فاصلے کے باوجود اس کا مسلسل رابطہ اس گاڑی کے ساتھ قائم ہے، تو کیا اللہ تعالٰی روح اور جسم کے بعد کے باوجود ان کے درمیان رابطہ قائم کرنے کی قدرت نہیں رکھتا؟ ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی ﴿عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ﴾ ہے۔ والسلام : (عبداللہ امجد ستیانہ بنگلہ، فیصل آباد )

◈ حافظ عبدالوہاب روپڑی (فاضل ام القری مکہ مکرمہ سعودی عرب، نائب شیخ الحدیث جامعہ اہل حدیث ، لاہور ) حفظہ اللہ کی رائے

فتنہ انکار حدیث تاریخ اسلام میں سب سے پہلے دوسری صدی ہجری و آٹھویں صدی عیسوی میں خوارج اور معتزلہ نے شروع کیا، کیوں کہ خوارج جن انتہا پسندانہ نظریات کے حامل تھے ، سنت یعنی حدیث کو قبول کرنے کی وجہ سے ان کی بلند و بالا عمارت زمین بوس ہو جاتی اسی لیے وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی اکثریت کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیتے اور ان کے قتل کے درپے رہتے ، اس بنا پر انھوں نے سنت یعنی حدیث کو ماننے سے انکار کر دیا۔ اسی طرح معتزلہ نے یونانی فلسفہ سے مرعوب ہو کر حدیث کی حجیت سے انکار کر دیا، کیوں کہ انھوں نے فلسفہ کے نام پر آنے والی ہر چیز کو عقل کا تقاضا سمجھتے ہوئے احادیث کی تاویل کی ، تاکہ اس کو فلسفہ کے ہم آہنگ کر دیا جائے ، جب ان کو اس بات میں ناکامی ہوئی تو انھوں نے حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو نا قابل حجت قرار دے دیا، اس کے بعد انیسویں صدی عیسوی میں ہندوستان سے مسلمانوں کو اقتدار سے محروم ہونا پڑا اور ان کی معیشت کی کمر ٹوٹی ، تو فاتح قوم نے اپنے عقائد اور نظریات مسلمانوں پر مسلط کیے جن سے بعض مسلمانوں نے مرعوب ہو کر ایسے نظریات اور روشن خیال تصور کرتے ہوئے قرآن مجید کو ہی صرف دین اسلام کا ماخذ قرار دیا، کیوں کہ حدیث رسول ان کی خواہشات کی تکمیل میں حائل تھی، انھوں نے تکمیل خواہشات کے لیے حدیث رسول کا انکار کیا، حالاں کہ حدیث رسول کی حجیت قرآنِ مجید سے ثابت ہے قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿وَ مَاۤ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُۚ-وَ مَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا﴾
”جس چیز کا حکم تم کو سول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دیں اس پر عمل کرو، اور جس سے روکیں اس سے رک جاؤ۔ “
اب رسول جس چیز کا حکم دے گا وہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور سنت رسول مقبول ہے۔ ﴿وَ مَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيْمًا﴾ جس نے اللہ تعالیٰ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی پس تحقیق وہ کامیاب ہو گیا ، بہت بڑا کامیاب ہونا ۔ اسی طرح قرآن مجید میں ﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ لَا تَوَلَّوْا عَنْهُ وَ اَنْتُمْ تَسْمَعُوْنَ﴾ اے ایمان والو! تم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو، تم سنتے اور جانتے ہو، اس سے رو گردانی مت کرو۔
رسول الل صلی اللہ علیہ وسلم جو حکم دیں اس کی تعمیل کرنا اور جس پر عمل کریں اس پر عمل کرنا اطاعت ہے اور یہی چیز سنت اور حدیث کے نام سے موسوم ہے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ کی اطاعت مستقل ہے اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت بھی مستقل حیثیت رکھتی ہے۔ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی مستقل حیثیت اسی وقت ہو سکتی ہے جب حدیث کو قرآن کی طرح حجت ماننا جائے ورنہ اطاعت رسول کو مستقل حیثیت قرار نہیں دیا جاسکتا کیوں کہ اللہ تعالٰی فرماتے ہیں: ﴿فَلْيَحْذَرِ الَّذِيْنَ يُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِهٖۤ اَنْ تُصِيْبَهُمْ فِتْنَةٌ اَوْ يُصِيْبَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ﴾
”جو لوگ حکم رسول کی مخالفت کرتے ہیں انھیں ڈرنا چاہیے کہ کہیں ان پر کوئی آفت نہ آ جائے ، یا ان کو کوئی دردناک عذاب پہنچے ۔“ [النور]
یہاں حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے انکار پر دردناک عذاب سے ڈرایا گیا ہے۔ گویا قرآن اور حدیث لازم وملزوم ہیں، ان میں سے ایک کا انکار کرنے سے دوسرے کا انکار لازم آئے گا۔ ان دونوں میں سے کسی ایک کا کلی طور پر انکار کرنے والا دائرہ اسلام سے خارج ہوگا۔ اسی طرح عذاب قبر بھی قرآنی نص اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔ نص قرآنی ﴿يُثَبِّتُ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَ فِي الْاٰخِرَةِۚ-وَ يُضِلُّ اللّٰهُ الظّٰلِمِيْنَ وَ يَفْعَلُ اللّٰهُ مَا يَشَآءُ﴾ ” ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ پکی بات کے ساتھ دنیا اور آخرت کی زندگی میں مضبوط رکھتا ہے۔ “
صاحب تفسیر خازن علامہ علاؤ الدین علی بن محمد فرماتے ہیں:
فى الحيوة الدنيا يعنى فى القبر عند السوال وفى الاخرة يعني يوم القيمة عند البعث والحساب، وهذا القول واضح، ويدل عليها ما روى عن البراء بن عازب قال سمعت رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم يقول: ان المسلم اذا سئل فى القبر يشهد ان لا اله الا الله وان محمدا رسول الله فذلك ﴿يُثَبِّتُ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَ فِي الْاٰخِرَةِ وَ يُضِلُّ اللّٰهُ الظّٰلِمِيْنَ وَ يَفْعَلُ اللّٰهُ مَا يَشَآءُ﴾ قال نزلت فى عذاب القبر
قرآن کریم میں في الحيوة الدنيا سے قبر میں سوال کا وقت اور آخرت سے مراد قیامت کے روز دوبارہ اٹھایا جانا اور حساب و کتاب کا ہونا مراد ہے، اور یہ قول بڑا واضح ہے، اور اس میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں ، اس پر حضرت براء بن عازب کی روایت دلالت کرتی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: جب مسلمان سے قبر میں سوال کیا جاتا ہے تو وہ گواہی دیتا ہے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ، اسی چیز پر یہ قرآنی آیت یعنی ﴿يُثَبِّتُ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَ فِي الْاٰخِرَةِ وَ يُضِلُّ اللّٰهُ الظّٰلِمِيْنَ وَ يَفْعَلُ اللّٰهُ مَا يَشَآءُ﴾ دلالت کرتی ہے اور یہ آیت عذاب قبر کے متعلق نازل ہوئی۔
تفسير الخازن، جلد 3، ص : 34
اسی طرح اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿اَلنَّارُ يُعْرَضُوْنَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَّ عَشِيًّاۚ-وَ يَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ اَدْخِلُوْۤا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ﴾
آل فرعون کو صبح اور شام کے وقت آگ پر پیش کیا جاتا ہے۔ قیامت تک وہ سخت عذاب قبر عذاب میں رہیں گے۔
قال ابن مسعود ارواح آل فرعون فى اجواف طيور سود يعرضون على النار كل يوم مرتين تغدو وتروح الى النار، ويقال يا آل فرعون هذه منازلكم حتى تقوم الساعة، وقيل تعرض روح كل كافر على النار بكرة وعشيا ما دامت الدنيا
” ابن مسعود رضی اللہ فرماتے ہیں: آل فرعون کی روحیں سیاہ پرندوں کے پیٹوں میں، جو ہر روز دو مرتبہ آگ پر پیش کی جاتی ہیں، ان کو کہا جاتا ہے: اے آل فرعون ! قیامت کے قائم ہونے تک تمہاری یہی جگہ ہے۔ صبح اور شام کافر کی روح کو آگ پر پیش کیا جاتا ہے جب تک دنیا قائم رہے گی ۔ “
اس آیت کے بعد صاحب تفسیر خازن فرماتے ہیں:
ويستدل بهذه الاية على اثبات عذاب القبر یہ آیت عذاب قبر کے اثبات پر دلالت کرتی ہے۔
حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے نص” مشکوۃ باب اثبات عذاب القبر“ فصل اول میں ہے:
عن النبى صلى الله عليه وسلم قال يثبت الله الذين امنوا بالقول الثابت، نزلت فى عذاب القبر، يقال له من ربك فيقول ربي الله و نبي محمد
رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: يثبت الله الذين امنوا بالقول الثابت عذاب قبر کے متعلق نازل ہوئی، انسان کو کہا جاتا ہے، تیرا رب کون ہے؟ وہ کہتا ہے: میرا رب اللہ اور میرا نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔
عذاب قبر قرآن اور حدیث کی نصوص سے ثابت ہے جس کا انکار کرنا قرآنی نصوص اور حدیث رسول کا انکار ہے۔
➊ اب ہم فی نفسہ مسئلہ کی طرف آتے ہیں۔ عذاب قبر کے منکرین دو طرح کے ہیں۔ بعض تو وہ ہیں جو کلیتہ قرآنی نصوص اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کرتے ہیں ، وہ تو دائرہ اسلام سے خارج ہیں ۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿وَالَّذِينَ كَفَرُوا فَتَعْسًا لَّهُمْ وَأَضَلَّ أَعْمَالَهُمْ. ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَرِهُوا مَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأَحْبَطَ أَعْمَالَهُمْ﴾ ‎.
” جن لوگوں نے کفر کیا ان کے لیے ہلاکت ہو اور ان کے اعمال ضائع ہو گئے ، انھوں نے اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ چیز کو نا پسند جانا ، پس اللہ تعالیٰ نے ان کے اعمال بھی ضائع کر دیے۔“
ایمان کا تعلق بھی عمل سے ہے اور اللہ تعالی کی نازل کردہ وحی سے نفرت کرنے اور اس کا انکار کرنے سے ایمان سلامت نہیں رہتا، ضائع ہو جاتا ہے۔ انسان دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔
➋ جوقرآنی نصوص اور احادیث رسول کا کلی طور پر انکار تو نہیں کرتے لیکن ان کی غلط تاویل کرتے ہیں ان کو کا فر نہیں کہہ سکتے ، ان کو فاسق ، فاجر ،گمراہ وغیرہ کہا جاسکتا ہے۔
هفت روزه تنظیم اهلحدیث، ج: 49 ، ش: 19، ص: 7،6

◈ ایک نامعلوم عالم( یہ خط مجھے 8/2005/ 5 کو ملا جس پر میرا سوال بھی درج ہے اور ساتھ اس کا جواب بھی۔ مگر یہ معلوم نہیں کہ یہ جواب کسی عالم کی طرف سے دیا گیا ہے۔) کی رائے

عذاب قبر کتاب وسنت کے بے شمار دلائل سے ثابت ہے، یہی وجہ ہے کہ اہل سنت کا اس پر اجماع ہے، عقلی طور پر بھی اسے تسلیم کرنے میں کوئی امر مانع نہیں ہے ۔ عذاب قبر کے بارے میں احادیث اس قدر کثرت سے ثابت ہیں کہ کئی ایک محدثین کے بقول یہ حد تواتر تک پہنچی ہوئی ہے، لہذا اگر یہ احادیث صحیح نہیں تو پھر دین کی کوئی بات بھی صحیح نہیں ہے۔ ماضی میں بعض ملحدین زندیقوں، خوارج اور بعض معتزلہ نے یہ دعوی کیا تھا کہ قرآنِ مجید میں عذاب قبر کا ذکر نہیں ہے بلکہ اس کا ذکر صرف اخبار آحاد میں ہے۔ علمائے سلف نے بحمد اللہ ان کی مضبوط و محکم دلائل کے ساتھ بھر پور تردید کی ہے۔ تفصیل کے لیے امام ابن قیم کی کتاب الروح کا مطالعہ فرمائیں۔ قرآنِ مجید میں ارشاد باری تعالی ہے:
﴿اَلنَّارُ يُعْرَضُوْنَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَّ عَشِيًّاۚ-وَ يَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ اَدْخِلُوْۤا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ﴾
”آتش (جہنم) کہ صبح و شام اس کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں اور جس روز قیامت بر پا ہوگی ( حکم ہوگا ) فرعون والوں کو سخت عذاب میں داخل کرو۔“
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں اس آیت کریمہ کے تحت لکھا ہے:
وهذا الآية اصل كبير فى استدلال اهل السنة على عذاب البرزخ فى القبور
اہل سنت کے نزدیک قبروں میں عذاب برزخ کے استدلال کے لیے یہ آیت کریمہ ایک بہت بڑی دلیل ہے۔ بہر حال قرآن مجید اور بہت سی احادیث مبارکہ… مشکوۃ شریف کے باب” اثبات عذاب القبر“ میں پندرہ احادیث مذکور ہیں۔۔ سے عذاب قبر ثابت ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے ہمیں اس سے محفوظ رکھے۔
جو شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احادیث مبارکہ کا انکار کرے وہ بلاشبہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ والله اعلم بالصواب

◈ شیخ الحدیث ابوانس محمد یحیی گوندلوی (شارح ترندی، ابن ماجہ، مصنف کتب کثیرہ، شیخ الحدیث جامعہ تعلیم القرآن والحدیث سا ہو والہ، سیالکوٹ ) کی رائے

اس میں ذرہ برابر شک اور تر درد نہیں کہ قبر میں صاحب ایمان کا جنت کی بعض نعمتوں سے مستفید ہوتا، اور فاسق اور فاجر کا مختلف انواع عذاب وسزا سے اذیت اٹھانا بالکل حق ہے، جس کی تائید قرآن کریم اور احادیث صحیحہ سے ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام اہل سنت دور صحابہ کرام سے لے کر آج تک … اس کے برحق ہونے کے قائل چلے آرہے ہیں، اور یہ اہل سنت والجماعت کا اتفاقی عقیدہ ہے جس میں اصولاً کبھی اختلاف واقع نہیں ہوا۔
ہاں البتہ معتزلہ اور بعض دیگر بدعتی اور گمراہ فرقوں نے جیسے بہت سے اسلامی عقائد و احکام کا انکار کیا تھا ان کے ساتھ انھوں نے عذاب قبر کا بھی انکار کیا ہے، ان کے انکار کی وجہ توبین ہے کہ وہ اسلامی عقائد کو نصوص کے بجائے اپنی عقل پر پر کھتے تھے ، گووہ کتاب وسنت پر عمل کے داعی تو تھے لیکن عملاً معاملہ اس کے برعکس تھا، وہ نصوص کو عقل پر پر کھتے تھے عقل کو نصوص پر نہیں ۔ گویا کہ ان کے ہاں معیار اور میزان عقل تھا کتاب وسنت نہیں ۔ انھوں نے اپنی عقل کو تحفظ دینے کی خاطر چند اصول وضع کر رکھے تھے جن سے وہ بہانہ بنا کر اپنے عقائد کے خلاف آمدہ صریح نصوص کا انکار کر دیتے ۔ کتاب اللہ کا چوں کہ صریحاً انکار ممکن نہیں تھا، کیوں کہ اس سے تو ایک مسلمان کی نظر میں بھی وہ دائرہ اسلام سے خارج تصور ہو سکتے تھے، اس لیے انھوں نے نامناسب تاویلات کا دروازہ کھولا اور اس دروازے سے داخل ہو کر وہ کتاب اللہ کا انکار کر دیتے لیکن انکار کا طریقہ اتنا پرکشش ہوتا کہ بڑے بڑوں کی عقلیں حیرت زدہ رہ جاتیں۔ حدیث کے انکار کے لیے تو ایک آسان راستہ اختیار کیا کہ كل حديث يخالف كتاب الله فهو مردود ہر وہ حدیث جو کتاب اللہ کے خلاف ہو، وہ مردود اور نا قابل قبول ہے۔ یہ اصول کیا تھا ان کے عقائد کے لیے ایک ڈھارس ہے، ہر وہ حدیث جو ان کو اپنے نظریہ کے خلاف نظر آتی اسے فورا کتاب اللہ کے خلاف قرار دے کر رد کر دیا اور پھر مطمئن ہو گئے کہ ہم نے اس حدیث کو ٹھکرا کر حق کا تحفظ کیا ہے۔ ان کے اس اصول میں کتنی قباحتیں ہیں ان کی تفصیل بیان کرنے کا محل نہیں ، ہاں جو صاحب تفصیل چاہتے ہیں وہ ہمارا مقالہ” قرآن و حدیث میں تعارض نہیں“ ملاحظہ فرمائیں۔
عذاب قبر کے انکار کی وجہ بھی ان کا یہی اصول ہے کہ وہ حیات برزخیہ کو تسلیم نہیں کرتے ، کیوں کہ اسے وہ ماوراء العقل تصور کرتے ہیں، اور پھر اپنے اس ناقص تخیل کو بعض آیات کا سہارا مہیا کرتے ہیں جن میں مرنے کے بعد پھر دوبارہ قیامت کو اٹھائے جانے کا ذکر ہے، حالاں کہ عالم برزخ عالم اخروی سے جدا ہے، جس کی اپنی مستقل حیثیت ہے، جیسا کہ عالم دنیا ہے اس کی اپنی ایک مستقل حیثیت ہے۔
ہمارے دور کے وہ احباب جو قبر میں جزا وسزا کے قائل نہیں ہیں یہ بھی اپنے سابقہ دور حضرات کے نقش قدم پر چلتے ہیں۔ جو اعتراضات متقدمین منکرین کرتے تھے یہ حضرات بھی انھیں اعتراضات کو نیا جامہ پہنا کر پیش کر رہے ہیں، البتہ ان میں ایک یہ خوبی بھی پیدا ہو چکی ہے کہ یہ احادیث کا صرف انکار ہی نہیں بلکہ ان سے استہزاء بھی کرتے ہیں۔
کراچی میں مجلس احباب کے نام سے مختلف عناوین کے نام سے طبع شدہ بعض رسائل راقم تک پہنچے ہیں، جن کے ٹائٹل اور عنوان اتنے پر کشش ہیں کہ آدمی دیکھتے ہی ورطہ حیرت میں پڑ جاتا ہے۔ لیکن جب انھیں پڑھا جائے تو اکثر رسائل کی تان یہاں ہی آکر ٹوٹتی ہے کہ عذاب قبر ایک افسانہ ہے جسے مولویوں نے زیب داستان کے لیے گھڑا ہے۔
اس مختصر جواب میں ان رسائل پر بحث مقصود نہیں ، ان شاء اللہ تفصیلی جائزہ کسی دوسری مجلس میں پیش کریں گے، البتہ اتنی گزارش ضرور کر دیتے ہیں کہ ان رسائل کا انداز فکر سلف صالحین کے فکر سے بالکل جدا ہے، بلکہ ان کو جاہل یا پھر دائرہ اسلام سے خارج کرنے کے مترادف ہے۔

◈ اہل سنت اور عذاب

عہد صحابہ سے لے کر آج تک کوئی عالم ایسا نہیں ہوا جو کتاب وسنت کو حجت مانتا ہو اور اپنی رائے اور قیاس کو کتاب وسنت کے تابع سمجھتا ہو تو اس نے عذاب قبر کا انکار کیا ہو۔ انکار ممکن بھی کیسے ہو سکتا ہے جب کہ کتاب وسنت کے صریح دلائل اس بارہ میں دو پہر کے سورج سے بھی زیادہ چمکدار اور روشن ہیں۔ ملاحظہ ہو قرآن کریم سورت الانعام آیت نمبر: 94 95، سورت الانفال آیت نمبر 50 51 ۔ اور سورت الغافر آیت نمبر: 45، 46۔
سورت الغافر کی آیات میں فرمایا:
﴿وَ حَاقَ بِاٰلِ فِرْعَوْنَ سُوْٓءُ الْعَذَابِ. اَلنَّارُ يُعْرَضُوْنَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَّ عَشِيًّاۚ-وَ يَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ اَدْخِلُوْۤا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ.﴾
” آل فرعون کو برے عذاب نے گھیر لیا۔ یہ صبح اور شام کے وقت آگ پر پیش کیے جاتے ہیں، اور قیامت کے دن ( کہا جائے گا ) آل فرعون کو سخت عذاب میں داخل کرو ۔“
اس آیت نے واضح کر دیا کہ آل فرعون کو عذاب نے اپنی گرفت میں لے لیا تھا اور وہ ہ آج تک آگ کے اسی عذاب میں مبتلا ہیں۔ تو یہ آیت عذاب قبر پر دو طرح سے دلالت کرتی ہے۔
اولاً : حاق ماضی کا صیغہ ہے جو زمانہ ماضی میں وقوع ہونے پر دلالت کرتا ہے، اور يعرضون فعل مضارع ہے جو زمانہ حال پر دال ہے، یہاں حال سے استقبال مراد نہیں لیا ؟ جا سکتا اس لیے کہ زمانہ استقبال کی حالت ويوم تقوم الساعة میں ظاہر ہو رہی ہے جس کا معنی یہ ہے کہ دنیا میں آل فرعون کو آگ کے جس عذاب نے گھیرا ہے وہ ہے تو عذاب ہے لیکن آخرت کے عذاب کے مقابلہ میں ہلکا ہے، اور جب قیامت کا دن ہوگا تو پھر ان کو سخت عذاب میں داخل کیا جائے گا۔ جس سے ظاہر ہے کہ یہ دو عذاب ہیں جو زمانہ اور کیفیت کے لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ اگر دونوں کو ایک سمجھا جائے تو پھر قرآن کے اسلوب کی نفی لازم آئے گی اور واؤ جو ترتیب کے لیے آتی ہے وہ بے فائدہ ہو کر رہ جائے گی۔
ثانياً: خود آیت کے الفاظ غدوا و عشيا کے دلالت کرتے ہیں کہ یہ دو عذاب ہیں جن کا زمانہ بھی الگ الگ ہے، اس لیے کہ قیامت میں غدو اور عشی یعنی رات اور دن کا دنیاوی نظام نہیں ہو گا۔
عذاب قبر کے اثبات میں احادیث تو بلاشبہ متواتر ہیں۔ حدیث کی معتبر کوئی ایسی کتاب نہیں جس میں اس بارہ میں صحیح احادیث منقول نہ ہوں، اگر ان تمام احادیث کو یکجا کیا جائے تو بلاشبہ ایک ضخیم کتاب تیار ہو جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ آئمہ محدثین نے اس بارہ میں مروی احادیث کو متواتر قرار دیا ہے۔ سعودی عرب کے فتاوى ”الـلـجـنـة الدائمة للبحوث العلمية والافتاء“ کو بھی عذاب قبر کے بارہ میں ایک تفصیلی استفسار موصول ہوا جس کا فتوی اللجنتہ نے تقریباً (11) صفحات میں بڑا مفصل جواب دیا جو نہایت قابل مراجعت ہے۔ اس میں فرماتے ہیں:
قد تواترت الاخبار عن رسول الله صلى الله عليه وسلم فى ثبوت سوال الميت فى قبره، وثبوت نعيمه فيه او عذابه حسب عقيدته وعمله بما لا يدع مجالا للشك فى ذلك، ولم يوت عن الصحابة رضى الله عنهم فى ثبوت ذلك ،خلاف، ولذا قال بثبوته اهل السنة والجماعة .
اور تحقیق قبر میں میت سے سوال اور حسب عقیدہ و عمل اس کی نعمتوں اور عذاب کے ثبوت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے متواتر احادیث منقول ہیں، اس بارہ میں شک کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی، کسی ایک صحابی سے بھی اس کے خلاف کچھ منقول نہیں ( بلکہ تمام صحابہ کرام اس مسئلہ میں متفق تھے ) اسی بنا پر اہل سنت و الجماعت اس مسئلہ کو تسلیم کرتے ہیں۔
امام نووی شارح صحیح مسلم فرماتے ہیں:
تظاهرت به الاحاديث الصحيحة عن النبى علم من رواية جماعة من الصحابة فى مواطن كثيرة ، ولا يمتنع فى العقل ان يعيد الله تعالى الحياة فى جزء من الجسم، ويعذبه، واذا لم يمنعه العقل، وورد الشرع به، وجب قبوله واعتقاده
اس بارہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی احادیث بڑی ظاہر اور واضح ہیں جن کو بہت سے۔ مقامات پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت نے روایت کیا ہے۔ یہ بات عقل کے خلاف نہیں کہ اللہ تعالیٰ جسم کے کسی جز میں زندگی لوٹائے اور اسے عذاب اور سزادے، جب یہ عقلاً ممنوع نہیں تو بلاشبہ شرع بھی اسی کے اثبات میں وارد ہوئی ہے جس کا قبول کرنا اور اس کے مطابق عقیدہ رکھنا واجب ہے۔
شرح نووی علی مسلم، ص: 386، ج: 2
ملا علی قاری حنفی شارح مشکوۃ المصابیح فرماتے ہیں:
ان اهل الحق اتفقوا على ان الله تعالى يخلق فى الميت نوع حياة فى القبر قدر ما يتألم او يتلذذ
”تمام اہل حق کا اتفاق ہے کہ اللہ تعالیٰ قبر میں ، میت میں اس حد تک زندگی کی کوئی نوع پیدا کرتا ہے جس سے میت تکلیف محسوس کرتی ہے یا لذت حاصل کرتی ہے۔ “
شرح الفقه الاكبر ، ص: 120، طبع کراچی
علامہ طحاوی فرماتے ہیں:
وبعذاب القبر لمن كان له اهلا وسوال منكر ونكير فى قبره عن ربه ودينه ونبيه على ما جاءت به الاخبار عن رسول الله الا الله وعن الصحابة رضوان الله عليهم
جو شخص عذاب کا اہل ہو اس کو قبر میں عذاب ہونے پر عقیدہ رکھنا، اسی طرح منکر اور نکیر کا مرنے والے سے اس کے رب، دین اور نبی کے بارہ میں سوال کرنے کا عقیدہ رکھنا، کیوں کہ اس بارہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے متعدد احادیث مروی اور ماثور ہیں۔
شرح العقيدة الطحاويه، ص: 196
عقیدہ طحاویہ کے شارح، مسند احمد ص: 287 ج: 4 وابوداؤد حدیث: 4753 کی ایک طویل حدیث جس میں میت میں روح کا لوٹایا جانا اور فرشتوں کا اس سے سوال کرنا مذکور ہے، کے بعد فرماتے ہیں:
ذهب الى موجب هذا الحديث جميع اهل السنة والحديث
تمام اہل سنت اور اہل حدیث کا بھی موقف اور مذہب وہی ہے جو کچھ اس حدیث میں بیان ہوا ہے۔
ص: 398
نیز فرماتے ہیں:
وقد تواترت الاخبار عن رسول الله صلى الله عليه وسلم فى ثبوت عذاب القبر ونعيمه لمن كان لذلك اهلا، وسوال الملكين فيجب اعتقاد ثبوت ذلك والايمان به، ولا نتكلم فى كيفيته اذ ليس للعقل وقوف على كيفيته لكونه لا عهد له به فى هذا الدار والشرع لا ياني بما تحيله العقول، ولكنه قد ياتي بما تحار فيه العقول فان عود الروح الى الجسد ليس على الوجه المعهود فى الدنيا بل تعاد الروح اليه اعادة غير الاعادة المالوفة فى الدنيا
عذاب قبر اور اس کی نعمتوں کے ثبوت میں جو اس کا اہل ہو، اسی طرح فرشتوں کا میت سے سوال کے ثبوت میں رسول اللہ سے متواتر احادیث مروی ہیں ، جن کے ثبوت کا عقیدہ اور ان پر ایمان رکھنا واجب ہے، ( عذاب یا نعمت کیسے ہوتی ہے؟ ) اس کی کیفیت کے بارہ میں کلام جائز نہیں کیوں کہ اس کی کیفیت کا ادارک عقل سے باہر ہے، اس لیے کہ اس جہاں سے (مرنے سے پہلے ) کوئی واسطہ نہیں پڑتا ( کہ اس کی کیفیت معلوم ہو سکے ) شرع میں کوئی بات ایسی نہیں جسے عقل محال سمجھے۔ ہاں بسا اوقات شریعت کوئی ایسا حکم بیان کرتی ہے جس میں عقلیں حیران رہ جاتی ہیں۔ قبر میں روح کا جسم میں لوٹانا ایسے نہیں جیسا کہ دنیا میں جسم میں روح ہوتا ہے بلکہ اسے ایسے طریقے سے لوٹایا جاتا ہے جو دنیا میں غیر مالوف ہے۔
شرح عقیده طحاويه، ص: 399
اس تمام بحث سے واضح ہوا کہ عذاب قبر کا ثبوت قرآن وحدیث کے واضح نصوص سے ہے اور یہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تمام آئمہ اہل سنت کا عقیدہ ہے، اس میں کوئی اختلاف نہیں۔ ان نصوص کا انکار کرنا خطرہ سے خالی نہیں ہے کیوں کہ اس سے قرآن وحدیث کے متعدد نصوص کا انکار لازم آتا ہے۔ اگر یہ انکار جہالت یا نا مناسب تاویل کی بنا پر ہے تو یہ بھی جائز نہیں ، اگر انکار حق کے ٹھکرانے اور اھواء پر ہے کہ حق واضح ہونے کے باوجود عقلی، خود فریبی اور اپنے غلط موقف پر بلا وجہ اصرار ہے تو ایسا شخص قرآن وحدیث کے نصوص کا منکر ہونے کی وجہ سے دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ اللہ کریم فرماتے ہیں:
﴿قُلْ اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَۚ-فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْكٰفِرِيْنَ﴾
” کہہ دو تم اللہ اور رسول کی اطاعت کرو، پس اگر تم پھر جاؤ تو بلاشبہ اللہ تعالیٰ کافروں کو پسند نہیں فرماتے ۔ “
03 آل عمران: 32
اس آیت کریمہ نے واضح کر دیا کہ اللہ تعالیٰ ( قرآن کریم ) اور رسول اللہ (احادیث صحیحہ ) کی اطاعت لازم ہے، جو اس سے منحرف ہوتا ہے اس کا شمار کفار میں سے ہوتا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنا عقیدہ اور عمل کتاب وسنت کے موافق اپنانے کی توفیق دے اسی میں ہماری نجات اور بھلائی ہے۔
والله الموفق بالصواب
(کتبہ ابوانس محمد یحیی گوندلوی 2 ستمبر 2005ء )
(مدیر جامعہ تعلیم القرآن والحدیث سا ہووالہ، سیالکوٹ )

◈ حافظ زبیر علی زئی (محقق شہیر، مصنف کتب کثیرہ ، مدیر ماہ نامہ الحدیث حضر و ضلع اٹک ) حفظہ اللہ کی رائے

وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته ….. اما بعد!
جو شخص عذاب کا مستحق ہے، اسے قبر میں عذاب دیا جاتا ہے (اعاذنا الله منها) یہ عقیدہ قرآن مجید، احادیث متواترہ، اجماع اور آثار سلف صالحین سے ثابت ہے۔ دیکھیے عذاب القبر للبيهقى ص: 1 تا 158 وعام كتب عقائد اہل سنت ۔ والحمد لله
اس عقیدہ صحیحہ کا انکار کرنے والے دو شخص میں :
➊ کافر ، جو قرآن وحدیث کا منکر ہے۔
➋ سخت گمراه، (ضال وفضل، بدعتی )جو احادیث متواترہ اور اجماع کا بذریعہ تاویلات باطلہ مخالف ہے۔
جو شخص تمام احادیث صحیحہ کو بغیر کسی تاویل کے جھوٹی اور من گھڑت قرار دیتا ہے۔ ایسا شخص ملحد ، زندیق، بے دین اور کفر کا داعی ہے۔ ایسے شخص کو مسلمان کہنا احادیث صحیحہ ومتواترہ کے ساتھ مذاق کے مترادف ہے۔ وما علينا الا البلاغ
حررہ: حافظ زبیر علی زئی ، مدرستہ اہل الحدیث ، حضر و ضلع اٹک ، 9 ذوالحجہ 1426ھ

◈ مفتی شیر محمد علوی (مفتی جامعه اشرفيه لاهور ) حفظہ اللہ کی رائے

قبر کی راحت اور اس کا عذاب قرآن پاک اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہے، اور اہل سنت والجماعت کا اس پر اجماع ہے، البتہ معتزلہ جو کہ ایک گمراہ فرقہ ہے وہ اس کا انکار کرتا ہے۔ اس لیے اہل سنت والجماعت کے اکابر نے اس کو گمراہ قرار دیا ہے، اور چوں کہ اس فرقہ کا انکار تاویل کی وجہ سے ہے اس لیے اکابر نے اس فرقے کو کافر کہنے میں احتیاط سے کام لیا ہے مگر گمراہ ، بہر حال ہے اور اہل سنت و الجماعت اہل حق ، سے خارج ہے۔ والله اعلم بالصواب
الجواب الصحيح : مفتی حمید اللہ علوی
(رئیس دارالافتاء جامعہ اشرفیہ، لاہور )

◈ مفتی ابو احمد نور محمد تونسوی قادری کی رائے

عذاب قبر یعنی قبر کی زندگی ۔ آیات بینہ اور احادیث متواترہ سے ثابت ہے، اور اسی پر اجماع امت مستزاد ہے۔ اسی لیے علماء اہل سنت والجماعۃ نے اس عقیدہ کو ضروریات دین میں سے شمار کیا ہے۔ اور اس عقیدہ کے منکر کو کافرقرار دیا ہے۔ چناں چہ علامہ طاہر ابن احمد الحفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ولا يجوز الصلواة خلف من ينكر شفاعة النبى علم، وينكر الكرام الكاتبين، وعذاب القبر، كذا من ينكر الروئة، لانه كافر
یعنی جو شخص حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کا منکر ہو اس کے پیچھے نماز جائز نہیں ہے۔ اور اسی طرح جو شخص کراماً کاتبین اور عذاب قبر اور روئیت باری تعالیٰ کا منکر ہے، اس کے پیچھے نماز جائز نہیں ہے۔ کیوں کہ وہ کافر ہے۔
خلاصة الفتاوى، ج: 1، ص: 149
محقق ابن ہمام محمد ابن عبد الواحد احنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ولا يجوز الصلوة خلف منكر الشفاعة، والرؤية، وعذاب القبر والكرام الكاتبين لانه كافر لتوارث هذه الامور من الشارع صلى الله عليه وسلم
” یعنی شفاعت، روئیت باری تعالٰی ، عذاب قبر، اور کراماً کانتین، کے منکر کے پیچھے نماز جائز نہیں ہے، کیوں کہ وہ کافر ہے۔ اس لیے کہ یہ امور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے تواتر کے ساتھ ثابت ہیں۔ “
فتح القدير، ج: 1، ص : 247
علامہ عبدالشکور سالمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فاما عذاب القبر لـلـمـؤمـنـيـن من الجائزات، وللكافرين من الواجبات والله تعالى يقول ﴿اَلنَّارُ يُعْرَضُوْنَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَّ عَشِيًّاۚ﴾ يعني فرعون وقومه دل انه كان صحيح فى اى موضع وعلى اى ضع وعلى اى حال ومن انكر هذا يصير كافر
یعنی عذاب قبر مومنین کے لیے جائز اور کافروں کے لیے واجب ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان : کہ فرعون اور اس کی قوم صبح و شام آگ پر پیش کی جاتی ہے۔ یہ ارشاد دلالت کرتا ہے کہ عذاب صحیح ہے۔ جس جگہ میں ہو اور جس حالت میں ہو ۔ جو اس کا منکر ہو وہ کافر ہے۔
والله اعلم تمهيد، ص : 125
بحر العلوم مولانا عبدالعلی صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
منكر الشفاعة لاهل الكبائر، والروية، وعذاب القبر، وكرام الكاتبين كافر
” یعنی اہل کبائر کے لیے شفاعت کا منکر ، روئیت باری تعالیٰ کا منکر ، عذاب قبر کا منکر ، اور کراماً کاتبین کا منکر کافر ہے۔ “
رسائل بحر العلوم، ص: 99
(مفتی ابو احمد صاحب کی رائے ان کی کتاب ” قبر کی زندگی “ سے نقل کی گئی ہے۔ مصنف )
فتاوی عالمگیر یہ ج نمبر :2، ص: 301 میں بھی عذاب قبر کے منکر کو کافرلکھا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے