منصب قضا کی حرص و طلب حرام ہے
➊ حضرت عبد الرحمٰن بن سمره رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے انہیں حکم دیا کہ :
لا تسأل الإمارة فإنك إن أعطيتها من غير مسألة أعنت عليها وإن أعطيتها عن مسألة وكلت إليها
”امارت کا سوال نہ کرو اور اگر تمہیں بغیر مانگنے کے مل جائے تو تمہاری اس پر مدد کی جائے گی اور اگر طلب کرنے پر دی جائے تو تم اس کے حوالے کر دیے جاؤ گے ۔“
[بخارى: 6622 ، كتاب الأيمان والنذور: باب قول الله تعالى لا يؤاخذكم الله باللغو ، مسلم: 1652 ، نسائي: 225/8 ، ابو داود: 2929 ، ترمذي: 1529 ، احمد: 62/5 ، عبد الرزاق: 20654 ، أبو يعلى: 1516 ، طبراني اوسط: 37/1 ، بيهقي: 100/10 ، الحلية لأبي نعيم: 161/7 ، دارمي: 186/2 ، ابن الجارود: 998]
➋ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إنكم ستحرصون على الإمارة وستكون ندامة يوم القيامة فنعمت المرضعة و بئست الفاطمة
”تم لوگ لازماََ حکومت کی حرص و خواہش کرو گے اور وہ قیامت کے روز باعث ندامت ہو گی ۔ پس اچھی ہے دودھ پلانے والی ماں اور بری ہے دودھ چھڑانے والی ماں ۔“
[بخاري: 7148 ، كتاب الأحكام: باب ما يكره من الحرص على الإمارة]
”دودھ پلانے والی“ سے مراد دنیا میں حکومت کرتے ہوئے مال و دولت ، جاہ و منصب ، عزت و کرامت ، حکم کا نفاذ ، لوگوں کو دبا کر رکھنا اور دیگر مختلف فوائد ہیں ۔ ”دودھ چھڑانے والی“ سے مراد قیامت کے روز کا وہ تاوان ہے جو امارت کی وجہ سے انسان پر ہو گا ۔
[نيل الأوطار: 349/5]
جس روایت میں ہے کہ ”جسے بلا طلب جبرا حکومت دی جائے اس کی مدد میں ایک فرشتہ نازل ہو کر اس کی رہنمائی کرتا ہے ۔“ وہ ضعیف ہے ۔
[ضعيف: الضعيفة: 296/3 ، 1154]
(شوکانیؒ ) فرماتے ہیں کہ ایک روایت میں یہ لفظ بھی ہیں:
لا تتمنين الإمارة
”تم ہرگز امارت کی تمنا مت کرو ۔“
[نيل الأوطار: 348/5]
(ابن حجرؒ) حکومت طلب کرنے کی ممانعت سے حکومت کی تمنا کرنے کی ممانعت زیادہ بلیغ ہے ۔
[فتح البارى: 19/15]
ایک اشکال اور اس کا جواب
اگر حکومت کی حرص و طلب حرام ہے تو انبیاء نے ایسا کیوں کیا؟
➊ حضرت یوسف علیہ السلام نے کہا:
اجْعَلْنِي عَلَىٰ خَزَائِنِ الْأَرْضِ [يوسف: 55]
”مجھے زمین کے خزانوں کا والی بنا دیجیے ۔“
➋ حضرت سلیمان علیہ السلام نے کہا:
وَهَبْ لِي مُلْكًا لَّا يَنبَغِي لِأَحَدٍ مِّن بَعْدِي [ص: 35]
” (اے اللہ ! ) مجھے ایسی بادشاہت عطا فرما جو میرے بعد کسی کو حاصل نہ ہو ۔“
اس کا جواب یوں دیا گیا ہے:
➊ انبیاء کو قابل یقین حد تک یہ وثوق تھا کہ وہ گناہوں سے باز رہیں گے ۔
➋ جو مسائل ہماری شریعت میں ثابت ہیں ضروری نہیں کہ وہ اس سے پچھلی شریعتوں میں بھی ثابت ہوں ۔ عین ممکن ہے حضرت یوسف علیہ السلام کی شریعت میں امارت طلب کرنا جائز ہو ۔
اور حضرت سلیمان علیہ السلام کا سوال محل نزاع ہے ہی نہیں کیونکہ اختلاف تو مخلوق سے سوال کرنے میں ہے نہ کہ خالق سے اور حضرت سلیمان علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے سوال کیا ہے ۔
➌ یہ بھی احتمال موجود ہے کہ طلب امارت کی ممانعت انبیاء کے علاوہ دوسروں کے لیے ہو ۔
[نيل الأوطار: 348/5]