منصبِ قضا پر اجرت لینے کا حکم
تحریر: عمران ایوب لاہوری

منصبِ قضا پر اجرت لینے کا حکم
منصبِ قضا پر اجرت لینا جائز ہے جبکہ حد سے تجاوز نہ ہو ۔
➊ قاضی شریح عہدہ قضا پر اجرت لیتے تھے ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ (یتیم کا ) نگران اپنے کام کے مطابق خرچہ لے گا اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ، اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی (خلیفہ ہونے پر ) بیت المال سے بقدر کفایت تنخواہ لی تھی ۔
[بخاري: قبل الحديث / 7163 ، كتاب الأحكام: باب رزق الحكام والعاملين]
➋ حضرت عبد اللہ بن سعدی رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں جب ان کے پاس گئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا کیا مجھ سے جو کہا گیا ہے وہ صحیح ہے کہ تمہیں لوگوں کے کام سپرد کیے جاتے ہیں اور جب اس کی تنخواہ دی جاتی ہے تو تم اسے لینا ناپسند کرتے ہو ۔ (عبد اللہ بن سعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ) یہ صحیح ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا تمہارا اس سے مقصد کیا ہے؟ میں نے کہا کہ میرے پاس گھوڑے اور غلام ہیں اور میں خوشحال ہوں اور میں چاہتا ہوں کہ میری تنخواہ مسلمانوں پر صدقہ ہو جائے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا ایسا نہ کرو کیونکہ میں نے بھی اسی کا ارادہ کیا تھا جس کا تم نے ارادہ کیا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے عطا فرماتے تو میں کہہ دیتا کہ اسے مجھ سے زیادہ ضرورت مند کو عنایت کر دیجیے ۔ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک بار مال عطا کیا اور میں نے وہی بات دہرائی کہ اسے ایسے شخص کو دے دیجیے جو اس کا مجھ سے زیادہ حاجت مند ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
خذه فتموله وتصدق به فما جآء ك من هذا المال وأنت غير مشرف ولا سائل فخذه وإلا فلا تتبعه نفسك
”اسے پکڑو اور اس کا مالک بننے کے بعد اسے صدقہ کرو ۔ یہ مال تمہیں جب اس طرح ملے کہ تم اس کے نہ خواہش مند ہو اور نہ تم نے اسے مانگا ہو تو اسے لے لیا کرو اور اگر اس طرح نہ ملے تو اس کے پیچھے نہ لگا کرو ۔“
[بخاري: 7163 ، كتاب الأحكام: باب رزق الحكام والعاملين عليها]
(ابن حزمؒ ) عہدۂ قضا پر رزق (اجرت) لینا جائز ہے ۔
[المحلى بالآثار: 536/8]
(صدیق حسن خانؒ ) بقدر ضرورت بیت المال سے اجرت لینا اس قاضی کے لیے جائز ہے جو لوگوں کے اموال سے اجتناب کرتا ہو اور حرص و طمع نہ رکھتا ہو ۔
[الروضة الندية: 539/2]
(جمہور ) بقدر کفایت حکومت و قضا کی تنخواہ لینا جائز ہے ۔
[فتح البارى: 518/16]
(ابو علی کرابیسیؒ ) قاضی کے لیے قضا پر اجرت لینے میں کوئی حرج نہیں ۔
[أيضا]
(ابن حجرؒ ) مجھے فقہا کے مابین اس مسئلہ کے متعلق کسی اختلاف کا علم نہیں ۔
[أيضا]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے