منزل پر پڑاؤ، گھر میں داخل ہوتے اور نکلتے وقت کی نماز بدعت ہے
یہ اقتباس شیخ غلام مصطفیٰ ظہیر امن پوری کی کتاب غیر مسنون نفلی نمازیں سے ماخوذ ہے۔

منزل پر پڑاؤ، گھر میں داخل ہوتے اور نکلتے وقت کی نماز :

منزل پر پڑاؤ یا گھر میں داخل ہوتے وقت بطور خاص نماز ثابت نہیں، لہذا جو چیز دین میں ثابت نہ ہو، وہ بدعت ہے۔ اس سلسلہ میں روایات پر تحقیقی تبصرہ پیش خدمت ہے:

دلیل نمبر: 1

سیدنا فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا نزل منزلا فى سفر، أو دخل بيته لم يجلس حتى يركع ركعتين.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں پڑاؤ ڈالتے یا گھر میں داخل ہوتے، تو بیٹھنے سے پہلے دو رکعتیں پڑھتے تھے۔
(المعجم الكبير للطبراني: 300/18، ح: 770، مسند الشاميين للطبراني: 2176)

اس روایت کی اسنادی حیثیت:

جھوٹی روایت ہے:
➊ محمد بن عمر واقدی متروک و کذاب ہے۔
❀ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ضعفه الجمهور
جمہور نے ضعیف قرار دیا ہے۔
(مجمع الزوائد: 255/3)
❀ حافظ ابن ملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
قد ضعفه الجمهور.
جمہور نے ضعیف کہا ہے۔
(البدر المنير: 324/5)
❀ امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
عندي ممن يضع الحديث.
میری تحقیق میں وضاع ہے۔
(الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 21/8، وسنده صحيح)
امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ (الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم: 21/8)، امام مسلم رحمہ اللہ (الکنی والاسماء: 1952)، امام نسائی رحمہ اللہ (الضعفاء والمتروكون: 557) نے متروک الحدیث قرار دیا ہے۔
❀ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
متروك الحديث، تركه أحمد وابن نمير وابن المبارك وإسماعيل بن زكريا.
متروک الحدیث ہے، امام احمد، امام ابن نمیر، امام عبد اللہ بن مبارک اور امام اسماعیل بن زکریا نے چھوڑ دیا تھا۔
(الضعفاء الكبير للعقيلي: 107/4، وسنده صحيح)
امام ابو زرعہ رازی، امام ابن عدی، امام ابن حبان، امام جوزجانی، امام دار قطنی رحمہم اللہ وغیرہ نے ضعیف کہا ہے۔
❀ امام محمد بن بشار بندار رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ما رأيت أكذب شفتين من الواقدي.
میں نے واقدی سے بڑا جھوٹا نہیں دیکھا۔
(تاريخ بغداد للخطيب: 14/3، وسنده صحيح)
➋ اس کا استاذ حارثہ بن ابی عمران مجہول ہے۔
اسے امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ (الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم: 256/3) اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ (میزان الاعتدال: 446/1) نے مجہول کہا ہے۔
➌ امام طبرانی رحمہ اللہ کے استاذ حسین بن احمد بن یونس اہوازی کو صرف امام ابن حبان رحمہ اللہ نے الثقات: 214/9 میں ذکر کیا ہے، لہذا مجہول الحال ہے۔

دلیل نمبر: 2

❀ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
إذا دخلت منزلك فصل ركعتين تمنعانك مدخل السوء، وإذا خرجت من منزلك فصل ركعتين تمنعانك مخرج السوء.
گھر میں داخل ہوں، تو دو رکعت ادا کریں، وہ اندرونی برائی سے محفوظ رکھیں گی، اسی طرح گھر سے نکلیں، تو دو رکعت ادا کریں، وہ بیرونی نقصان سے بچائیں گی۔
(مسند البزار كشف الأستار: 746)

اس روایت کی اسنادی حیثیت:

روایت ضعیف ہے۔
➊ بکر بن عمر و معافری مجہول الحال ہے۔
❀ حافظ ابن قطان فاسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لا تعلم عدالته.
اس کی عدالت معلوم نہیں۔
(بيان الوهم والإيهام: 69/4)
صحیح بخاری میں اس کی روایت متابعت میں ہے۔
➋ بکر بن عمر و معافری کا شک ہے۔
➌ یحیی بن ایوب غافقی کے اوہام ہیں۔

دلیل نمبر: 3

مطعم بن مقدام رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ما خلف عبد على أهله أفضل من ركعتين يركعهما عندهم حين يريد السفر
سفر پر جاتے ہوئے دو رکعت سے بہتر متاع اہل خانہ کے لئے چھوڑ جانے کو کچھ نہیں۔
(مصنف ابن أبي شيبة: 424/1، ح: 4879)

اس روایت کی اسنادی حیثیت:

مرسل یا معضل ہے۔
مطعم بن مقدام تابعی ہیں، براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کر رہے ہیں۔
❀ حافظ سخاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
سنده معضل أو مرسل.
سند مرسل یا معضل ہے۔
(الابتهاج بأذكار المسافر والحاج، ص 25)

دلیل نمبر: 4

سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ما استخلف عبد فى أهله من خليفة أحب إلى الله عز وجل من أربع ركعات يصليهن العبد فى بيته إذا شد عليه ثياب سفره.
جس نے رخت سفر باندھا، گھر میں چار رکعت ادا کیں اور نکل دیا، تو اس نے اپنے گھر میں ان رکعات کے علاوہ اللہ کے ہاں زیادہ محبوب خلیفہ نہیں چھوڑا۔(مكارم الأخلاق للخرائطي: 789)

اس روایت کی اسنادی حیثیت:

سند ضعیف ہے۔
➊ معافی بن محمد
➋ اور سعید بن مرتاش نامعلوم ہیں۔
معافی کی متابعت نصر بن باب ضعیف نے کی ہے۔
❀ حافظ عراقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فيه من لا يعرف.
اس میں نامعلوم راوی ہیں۔
(المغني عن حمل الأسفار: 723/1)

دلیل نمبر: 5

موسیٰ بن ابی موسیٰ اشعری رحمہ اللہ سے مروی ہے:
إن ابن عباس قدم من سفر فصلى فى بيته ركعتين على طنفسة.
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سفر سے واپس آئے، تو گھر میں چٹائی پر دو رکعت ادا کیں۔
(مصنف ابن أبي شيبة: 82/2، التاريخ الكبير للبخاري: 287/7)

اس روایت کی اسنادی حیثیت:

سند ضعیف ہے، مقاتل بن بشیر عجلی مجہول الحال ہے، اسے صرف امام ابن حبان رحمہ اللہ نے الثقات: 509/7 میں ذکر کیا ہے۔
❀ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لا يعرف.
غیر معروف ہے۔
(میزان الاعتدال: 171/4)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے