منزل سے کوچ کرتے وقت کی نماز
منزل سے کوچ کرتے وقت دو رکعت ادا کرنا ثابت نہیں، بلکہ بدعت ہے۔ اس سلسلہ میں مروی روایات کا تحقیقی جائزہ ملاحظہ ہو:
دلیل نمبر (1)
❀ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
إن النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا نزل منزلا، لم يرتحل منه حتى يصلي ركعتين، أو يودع المنزل بركعتين
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پڑاؤ ڈالتے تو کوچ سے پہلے دو رکعتیں ادا فرماتے۔“
(سنن الدارمي : 2681، المعجم الأوسط للطبراني : 3441، الأوسط لابن المنذر : 245/5)
اس روایت کی اسنادی حیثیت:
سند ضعیف ہے۔ عثمان بن سعد کا تب ”ضعیف“ ہے۔
➊ امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے ضعیف کہا ہے۔
(الكامل لابن عدي : 169/5، وسنده حسن)
❀ نیز ليس بذاك کہا ہے۔
(تاريخ يحيى بن معين برواية الدوري : 3599)
❀ امام ابن نمیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ليس بذاك
”ضعیف ہے۔“
(الجرح والتعديل لابن أبي حاتم : 153/6)
❀ امام ابوزرعہ رازی رحمہ اللہ نے دلین (کمزور) کہا ہے۔
(الجرح والتعديل لابن أبي حاتم : 153/6)
❀ امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
كان ممن لا يمير شيخه من شيخ غيره ويحدث بما لا يدري ويجيب فيما يسأل، فلا يجوز الاحتجاج به
”ان لوگوں میں سے تھا، جو اپنے اور دوسروں کے شیوخ میں فرق نہیں کر سکتے، ایسی روایتیں بیان کر دیتا تھا، جنہیں وہ خود بھی نہیں جانتا تھا اور ہر سوال کا جواب دے ڈالتا تھا، لہذا اس سے دلیل پکڑنی جائز نہیں۔“
(كتاب المجروحين : 96/2)
❀ امام نسائی رحمہ اللہ نے ليس بالقوي کہا ہے۔
(الضعفاء والمتروكون، ص 167)
❀ امام دارمی رحمہ اللہ نے ضعیف کہا ہے۔
(سنن الدارمي : 2681)
❀ امام یحیی بن سعید قطان رحمہ اللہ کے پاس اس کا تذکرہ ہوا، تو انہوں نے اس کی روایت پر تعجب کیا۔
(كتاب المجروحين لابن حبان : 96/2)
❀ امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
هو حسن الحديث مع ضعفه يكتب حديثه
”ضعیف ہونے کے باوجود حسن الحدیث ہے اور اس کی روایت لکھی جائے گی۔“
(الكامل في ضعفاء الرجال : 170/5)
❀ امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ليس بالقوي.
قوی نہیں۔
(السنن الكبرى : 347/1)
❀ حافظ ابن قطاس فاسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
عثمان ھذا یضعف
عثمان كو ضعيف كہا گيا ہے.
(بیان الوھم والا یھام : 604/3)
امام ابن الجارود، امام ابن شاہین ، امام ساجی ، امام عقیلی اور ابو العرب رحمہ اللہ نے ضعفاء میں ذکر کیا ہے۔
دلیل نمبر (2)
قال ابن أبى حاتم: حدثنا أبي، حدثنا أبو الربيع الزهراني، حدثنا حماد بن زيد، حدثنا أيوب، عن سعيد بن جبير، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا نزل منزلا لم يرتحل حتى يصلي فيه، فلما كانت غزوة تبوك بلغه أن عبد الله بن أبى ابن سلول قال: ليخرجن الأعز منها الأذل فارتحل قبل أن ينزل آخر النهار، وقيل لعبد الله بن أبى انت النبى صلى الله عليه وسلم حتى يستغفر لك، فأنزل الله: إذا جاءك المنافقون، قالوا إلى قوله: وإذا قيل لهم تعالوا يستغفر لكم
سعید بن جبیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب پڑاؤ ڈالتے، تو کوچ کرنے سے پہلے دو رکعت ادا کرتے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو غزوہ تبوک میں خبر پہنچی کہ عبداللہ بن ابی ابن سلول نے کہا ہے: ہم عزت مند ان حقیروں کو مدینہ سے نکال دیں گے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دن کے آخری حصہ میں پڑاؤ ڈالنے سے پہلے ہی کوچ کر لیا، تو عبداللہ بن ابی ابن سلول سے کہا گیا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی غلطی کی معافی مانگ، تو اللہ تعالیٰ نے آیت نازل فرمادی: ﴿إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ قَالُوا﴾ مرسل ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔
(تفسیر ابن کثیر: 127/8، بتحقيق سلامة)
اس روایت کی اسنادی حیثیت:
سعید بن جبیر رحمہ اللہ تابعی براہ راست نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کر رہے ہیں، محدثین کے نزدیک مرسل روایت ضعیف ہوتی ہے۔
❀ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
هذا إسناد صحيح إلى سعيد بن جبير، وقوله: إن ذلك كان فى غزوة تبوك، فيه نظر، بل ليس بجيد، فإن عبد الله بن أبى ابن سلول لم يكن ممن خرج فى غزوة تبوك، بل رجع بطائفة من الجيش، وإنما المشهور عند أصحاب المغازي والسير أن ذلك كان فى غزوة المريسيع، وهى غزوة بني المصطلق.
سعيد بن جبير رحمہ اللہ تک تو اس کی سند صحیح ہے، رہا راوی کا قول کہ یہ واقعہ غزوہ تبوک کا ہے، یہ صحیح نہیں، کیوں کہ عبداللہ بن ابی بن سلول تو اس غزوہ میں تھا ہی نہیں، بل کہ وہ تو اپنا لشکر لے کر پلٹ آیا تھا، اہل سیر و مغازی کے نزدیک تو یہ مشہور ہے کہ یہ واقعہ غزوہ مریسیع یعنی غزوہ بنو مصطلق کا ہے۔
(تفسير ابن كثير: 127/8، بتحقيق سلامة)
الحاصل:
یہ کہنا کہ مسجد نبوی چھوڑتے وقت دو وداعی رکعت ادا کرے گا، قطعاً درست نہیں، بلکہ یہ بدعت ہے۔