مقروض کا صدقہ و زکوٰۃ کا حکم اور شرعی ذمہ داریاں
ماخوذ: فتاویٰ ارکان اسلام

سوال

کیا مقروض سے صدقہ ساقط ہو جاتا ہے؟
کیا مقروض کا صدقہ کرنا جائز ہے؟
مقروض سے کون سے شرعی حقوق ساقط ہوتے ہیں؟

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صدقہ کرنے کا شرعی حکم:

✿ صدقہ کرنا شریعت کی نظر میں ایک پسندیدہ عمل ہے اور یہ اللہ کے بندوں پر احسان کرنے کا ذریعہ ہے۔

✿ جب صدقہ درست طریقے سے کیا جائے تو انسان کو اس کا اجر ملتا ہے۔

✿ قیامت کے دن ہر شخص اپنے صدقے کے سائے میں ہوگا۔

✿ صدقہ ہر حال میں قابلِ قبول ہوتا ہے، خواہ انسان قرض دار ہو یا نہ ہو، بشرطیکہ:

◈ صدقہ اخلاص کے ساتھ صرف اللہ عزوجل کے لیے کیا گیا ہو۔

◈ صدقہ حلال کمائی سے کیا گیا ہو۔

◈ صدقہ ایسی جگہ پر خرچ کیا جائے جو شریعت کے مطابق ہو۔

صدقہ کرنے کی شرائط اور عقلی تقاضے:

✿ صدقہ کے لیے یہ شرط نہیں ہے کہ انسان پر قرض نہ ہو۔

✿ تاہم، اگر قرض انسان کے تمام مال کے برابر ہو، تو عقل و حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ انسان صدقہ نہ کرے۔

◈ صدقہ مستحب (پسندیدہ) عمل ہے، واجب نہیں۔

◈ قرض کی ادائیگی واجب ہے، اور واجب عمل کو نفل پر مقدم رکھا جاتا ہے۔

✿ لہٰذا، ایسے شخص کو پہلے اپنے قرض کی ادائیگی کرنی چاہیے، اس کے بعد صدقہ و خیرات کرے۔

اہلِ علم کا اختلاف:

✿ کچھ علماء کا کہنا ہے کہ اگر کسی شخص پر اس کے تمام مال کے برابر قرض ہو، تو اس کا صدقہ کرنا جائز نہیں کیونکہ:

◈ اس سے قرض خواہ کو نقصان پہنچتا ہے۔

◈ واجب قرض ادا نہ کرنے کی صورت میں شرعاً ذمے داری باقی رہتی ہے۔

✿ بعض علماء کہتے ہیں کہ ایسی صورت میں صدقہ کرنا جائز تو ہے، لیکن افضل نہیں۔

خلاصہ: اگر کسی کے ذمہ اس کے تمام مال کے برابر قرض ہو، تو اسے صدقہ نہیں کرنا چاہیے جب تک کہ وہ قرض ادا نہ کر دے، کیونکہ واجب عمل (قرض کی ادائیگی) نفل (صدقہ) سے مقدم ہے۔

مقروض کے لیے ساقط شرعی حقوق:

1. حج:

✿ مقروض شخص پر حج واجب نہیں ہے جب تک کہ وہ اپنا قرض ادا نہ کر دے۔

2. زکوٰۃ کے بارے میں اختلاف:

✿ علماء کے درمیان اس بات میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ زکوٰۃ قرض دار سے ساقط ہوتی ہے یا نہیں:

پہلا موقف:

✿ کچھ علماء کہتے ہیں کہ:

◈ قرض کی موجودگی میں زکوٰۃ ساقط ہو جائے گی، چاہے مال ظاہر ہو یا غیر ظاہر۔

دوسرا موقف:

✿ بعض علماء کے مطابق:

◈ زکوٰۃ ساقط نہیں ہوتی، بلکہ قرض دار کو پورے مال کی زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی، چاہے قرض نصاب کو کم کرتا ہو۔

تیسرا موقف:

✿ کچھ علماء نے اس میں تفریق کی ہے:

◈ اگر مال "اموال باطنہ” میں سے ہو (جیسے نقدی، تجارتی سامان)، تو قرض کی بنا پر زکوٰۃ ساقط ہو جائے گی۔

◈ لیکن اگر مال "اموال ظاہرہ” (مثلاً: مویشی، زمین کی پیداوار) سے تعلق رکھتا ہو، تو زکوٰۃ ساقط نہیں ہوگی۔

راجح (درست ترین) رائے:

✿ میرے نزدیک صحیح بات یہی ہے کہ زکوٰۃ ساقط نہیں ہوتی، چاہے مال ظاہر ہو یا باطن۔

✿ جس شخص کے پاس اتنا مال ہو کہ زکوٰۃ واجب ہو جائے، اسے زکوٰۃ ادا کرنا لازم ہے، خواہ اس پر قرض ہی کیوں نہ ہو۔

✿ اس لیے کہ:

◈ زکوٰۃ مال میں واجب ہے۔

◈ جبکہ قرض انسان کے ذمے واجب ہوتا ہے۔

◈ دونوں کی جگہ اور نوعیت مختلف ہے، لہٰذا ان میں کوئی تعارض نہیں۔

شرعی دلائل:

قرآن مجید میں فرمایا گیا:

﴿خُذ مِن أَمولِهِم صَدَقَةً تُطَهِّرُهُم وَتُزَكّيهِم بِها وَصَلِّ عَلَيهِم إِنَّ صَلوتَكَ سَكَنٌ لَهُم وَاللَّهُ سَميعٌ عَليمٌ ﴿١٠٣﴾… سورة التوبة

’’ان کے مال میں سے زکوٰۃ قبول کر لو کہ اس سے تم ان کو (ظاہر میں بھی) پاک اور (باطن میں بھی) پاکیزہ کرتے ہو۔ اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لیے موجب تسکین ہے اور اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔‘‘

نبی کریم ﷺ کی حدیث:

«أَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللّٰهَ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ صَدَقَةً فِی أَمْوَالِهِمْ تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ وَتُرَدُّ عَلَی فُقَرَائِهِمْ»

(صحيح البخاري، الزکاة، باب وجوب الزکاة، ح: ۱۳۹۵ وصحيح مسلم، الايمان، باب الدعاء الی الشهادتين وشرائع الاسلام، ح: ۱۹)

’’ان کو معلوم کرا دو کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے مالوں میں زکوٰۃ کو فرض قرار دیا ہے، جو ان کے دولت مندوں سے لے کر ان کے فقیروں میں تقسیم کر دی جائے گی۔‘‘

نتیجہ:

✿ زکوٰۃ اور قرض ایک دوسرے کے متعارض نہیں ہیں۔

✿ قرض انسان کے ذمے واجب ہے، جبکہ زکوٰۃ اس کے مال میں واجب ہے۔

✿ دونوں کی ادائیگی اپنی اپنی جگہ لازم ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1