سوال
مقروض پر زکوة کا کیا حکم ہے؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
✿ اگر کسی شخص پر قرض ہے اور اس کے پاس نقد رقم میں سے ایک ہزار روپے موجود ہیں، جبکہ اس پر قرضہ پانچ سو روپے کا ہے، تو اس کو سب سے پہلے قرضہ ادا کرنا ہوگا۔
✿ قرض ادا کرنے کے بعد جو رقم بچے گی (اس مثال میں پانچ سو روپے)، اس پر سال گزرنے کے بعد زکوة فرض ہوگی۔
✿ یعنی ساڑھے باون روپے پر زکوة واجب ہے، جو کل رقم کا چالیسواں حصہ ہے۔
✿ ساڑھے باون روپے کا چالیسواں حصہ 1.8 روپے (ڈیڑھ روپے کے قریب) بنتا ہے۔
✿ اسی طرح، اگر ایک ہزار روپے میں سے پانچ سو روپے قرض میں چلے گئے تو باقی پانچ سو پر حساب لگایا جائے گا اور اس کا چالیسواں حصہ ادا کیا جائے گا (بشرطیکہ ان پر پورا سال گزر جائے)۔
گندم یا پیداوار کی صورت میں
✿ اگر ایک ہزار روپے نقدی کے بجائے کسی کے پاس پچاس من گندم ہے، جس کی فی من قیمت بیس روپے ہے (یعنی کل قیمت ایک ہزار روپے) اور اس پر پانچ سو روپے قرض بھی ہے، تو اس کا حکم الگ ہوگا۔
✿ اس معاملے میں پہلے زکوة ادا کی جائے گی اور قرض الگ رہے گا۔
✿ کھیتی باڑی کے اخراجات جیسے:
◄ بیج کا خرچ،
◄ بیلوں یا جانوروں کی محنت،
◄ ہاریوں کی مزدوری،
◄ کھاد کے اخراجات،
یہ سب لازمی ہیں اور الگ نہیں کیے جائیں گے۔
البتہ کھیتی کو پانی پلانے کے اخراجات کے بارے میں شریعت نے رعایت دی ہے:
✿ اگر زمین کو پانی دینے میں کم محنت اور خرچ آتا ہے، تو اس کی پیداوار پر عشر (دسواں حصہ) دینا واجب ہے۔
✿ اور اگر زمین کو پانی پلانے میں سخت محنت اور زیادہ خرچ ہوتا ہے، تو اس کی پیداوار پر نصف عشر (بیسواں حصہ) دینا ہے۔
مثالیں
✿ وہ زمینیں جو بارش کے پانی سے آباد ہوں، ان کی پیداوار پر عشر (دسواں حصہ) ہے، کیونکہ ان کو سیراب کرنے میں خاص محنت نہیں لگتی۔
✿ وہ زمینیں جو پانی کھینچ کر یا مشقت سے سیراب کی جائیں، ان پر نصف عشر (بیسواں حصہ) ہے۔
✿ ہمارے ملک میں چھوٹی نہروں، واٹر کورسز، یا ٹیوب ویل کے ذریعے سیراب ہونے والی زمینیں سب نصف عشر کی فہرست میں آتی ہیں۔
✿ اگرچہ ان میں زیادہ مشقت نہیں لیکن چونکہ ان پر ٹیکس اور آبیانہ وغیرہ لگتا ہے، اس لیے شریعت نے سہولت دی ہے کہ ان پر نصف عشر واجب ہے۔
نتیجہ
✿ اگر کسی شخص کو کھیتی سے پچاس من گندم حاصل ہوئی ہے تو اس پر نصف عشر یعنی ڈھائی من گندم دینا واجب ہے۔
✿ باقی ساڑھے سینتالیس من اس کی مرضی ہے: چاہے رکھے یا خرچ کرے۔
✿ زکوة صرف ڈھائی من ہی واجب ہوگی۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب