مقدمہ کتاب نور العینین فی اثبات رفع یدین
یہ اقتباس محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمه الله کی کتاب نور العینین فی اثبات رفع الیدین عند الرکوع و بعدہ فی الصلٰوۃ سے ماخوذ ہے۔

مقدمہ

ہمارے امام اعظم سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک سنت رفع الیدین کے خلاف اس پرفتن دور میں بعض اہل الرائے والا ہواء نے چند کتابچے اور کتابیں لکھی ہیں۔ بے شمار دسیسہ کاریوں، شعبدہ بازیوں اور مغالطہ دہیوں کے علاوہ انھوں نے صحیحین اور محدثین کا مرتبہ و عزت گھٹانے کی نامسعود اور قابل مذمت کوشش بھی کی ہے حالانکہ ان کی یہ ساری کوششیں مکڑی کے جالے سے بھی زیادہ کمزور اور فضول ہیں۔
(دیوبندیوں اور بریلویوں کے معتمد علیہ) شاہ ولی اللہ الدہلوی فرماتے ہیں:
صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے بارے میں تمام محدثین متفق ہیں کہ ان کی تمام کی تمام متصل اور مرفوع احادیث یقیناً صحیح ہیں۔ یہ دونوں کتابیں اپنے مصنفین تک بالتواتر پہنچی ہیں جو ان کی عظمت نہ کرے وہ بدعتی ہے، جو مسلمانوں کی راہ کے خلاف چلتا ہے۔ (حجۃ اللہ البالغہ ص 242 مترجم: مولوی عبدالحق حقانی)
مگر معلوم تھا کہ ایک ایسا دور آنے والا ہے جب مسلمانوں کی راہ کے خلاف چلنے والے بدعتی صحیحین (بخاری و مسلم) کی احادیث اور راویوں پر اندھا دھند حملے کریں گے۔
مثلاً سرفراز صفدر صاحب دیوبندی (حیاتی) نے صحیحین کے بعض درج ذیل راویوں پر عمل جراحی چلایا ہے:
نام راوی کتاب جس کا راوی ہے سرفراز صفدر کی کتاب
➊ مکحول صحیح مسلم احسن الکلام (86/2)
➋ العلاء بن الحارث صحیح مسلم احسن الکلام (85/2)
➌ ولید بن مسلم صحیح بخاری و صحیح مسلم احسن الکلام (85/2)
➍ سعید بن عامر صحیح بخاری و صحیح مسلم احسن الکلام (132/17)
➎ العلاء بن عبد الرحمن صحیح مسلم احسن الکلام (245/1)
تفصیل کے لیے مولانا ارشاد الحق اثری کی مایہ ناز کتاب ”توضیح الکلام“ کا مطالعہ کریں۔ حبیب اللہ ڈیروی دیوبندی نے بھی صحیحین کے راویوں پر تیشہ چلایا ہے۔ مثلاً:
نام راوی کتاب جس کا راوی ہے حبیب اللہ ڈیروی کی کتاب
➊ ابن جریج بخاری و مسلم نور الصباح مقدمہ (ص 18)
➋ ولید بن مسلم بخاری و مسلم نور الصباح (ص 181)
➌ یحیی بن ایوب الغافقی المصری بخاری و مسلم نور الصباح (ص 221)
یہ لوگ سادہ لوح مسلمانوں میں صحیحین کی عزت میں کمی کی کوشش کریں گے مگر چاند کی طرف تھوکنے والے کا تھوک اس کے منہ پر ہی پڑتا ہے۔ ان شاء اللہ ان بدعتیوں کی یہ کوششیں بالکل ہی رائیگاں جائیں گی۔
صحیح بخاری کی امت اسلامیہ میں جو پذیرائی ہوئی اس کا اندازہ ترجمان دیوبند القاسم کے درج ذیل بیان سے بھی صاف طور پر واضح ہو جاتا ہے:
در صحیح بخاری عجیب شان کی کتاب ہے اور اسے اللہ نے عجیب و غریب مقبولیت بخشی ہے۔ ہر عالم و عامی قرآن کے بعد جب نظر اٹھاتا ہے تو صحیح بخاری پر سب سے پہلے نظر پڑتی ہے۔ تقریباً ایک ہزار سال سے دنیائے اسلام میں اس کتاب کو کتاب اللہ کے بعد جو فوقیت اور مرجعیت حاصل رہی ہے اس کی وجہ سے اس کی بھاری بھر کم حیثیت اور اس کے مؤلف کی عظیم شخصیت اسلامی تاریخ پر چھا گئی۔ (القاسم اکتوبر 1961ء ص 33 بحوالہ اللمحات ج 1 ص 32)
اور مزید لکھتے ہیں: ”امام بخاری کی دینی خدمت علمی ثقاہت اور شان و جلالت کی بدولت ان کی شخصیت ایک ایسا مرعوب کن تاریخی باب بن گئی جس کی سلوٹوں میں بہت سی اہم علمی و دینی خدمات کا طول و عرض اور متعدد جلیل القدر شخصیتوں کا قد و قامت دبا ہوا محسوس ہوتا ہے۔“ (القاسم شمارہ مذکورہ بحوالہ اللمحات الیمانی انوار الباری من الظلمات ج 1 ص 32، 33)
یہ ایک مخالف کا اعتراف حقیقت ہے، ظاہر ہے کہ صحیح بخاری و صحیح مسلم کے خلاف ان بدعتیوں کا لکھنا خود ان کی شرمندگی اور جگ ہنسائی کا باعث بن رہا ہے۔
انوار الباری کے غالی مصنف (جو ماشاء اللہ دیوبندی ہیں) اپنی کتاب کی جلد 2 کے صفحہ 52 پر اعتراف کرتے ہیں:
خلاصہ یہ کہ امام بخاری کی شخصیت اتنی بلند و برتر ہے کہ ہم نے یا ہم سے قبل دوسروں نے ان پر یا ان کی صحیح بخاری و دیگر تالیفات پر جتنا نقد کیا ہے اگر اس سے دس گنا مزید بھی تنقید کی جائے تو اس تمام سے بھی امام بخاری کی بلند شخصیت یا صحیح بخاری کی عظمت مجروح نہیں ہو سکتی۔ (بحوالہ شمس الضحی بجواب نور الصباح فی ترک رفع الیدین بعد الافتتاح ص 28)
عرض ہے کہ حبیب اللہ ڈیروی صاحب (حیاتی دیوبندی) نے اپنے پیش رووں کی کورانہ تقلید میں کچھ زیادہ ہی سرگرمی دکھائی ہے۔ ان کی کتاب ”نور الصباح فی ترک رفع الیدین بعد الافتتاح“ اس سلسلے میں میرے پیش نظر ہے۔ اس کتاب کا مدلل اور مسکت جواب حکیم محمود سلفی صاحب نے ”شمس الضحی“ نامی کتاب میں دے دیا ہے جس میں انھوں نے ڈیروی صاحب کی چیرہ دستیاں اور مغالطات قارئین کرام کے سامنے بے نقاب کر دیئے ہیں تا کہ عام لوگوں پر اس ادیب کی حقیقت واضح ہو جائے۔
چونکہ رفع الیدین کے مسئلہ پر میری یہ کتاب ایک مستقل تصنیف ہے جس میں جمہور محدثین کی تحقیقات کے مطابق اس مسئلے کا غیر جانب دارانہ جائزہ لیا گیا ہے لہذا میں نے یہ مناسب سمجھا کہ اس کتاب کے مقدمہ میں مختصراً ڈیروی صاحب کے چند مغالطات اور کذب بیانیوں کا جائزہ قارئین کے سامنے پیش کر دیا جائے تا کہ جو زندہ رہے وہ دلیل دیکھ کر جیئے اور جسے مرنا ہے وہ دلیل دیکھ کر مرے۔

① پہلا مغالطہ

ڈیروی صاحب لکھتے ہیں:
عثمان بن الحکم الجذامی ضعیف ہے، ابن حجر فرماتے ہیں: له أوهام (تقریب) اس کی روایتوں میں غلطیاں ہیں اور علامہ ذہبی رحمہ اللہ میزان ص 32 ج 3 میں فرماتے ہیں: ليس بالقوي کہ یہ راوی قوی نہیں ہے۔ (نور الصباح، مقدمہ طبع دوم 19 بترقیمی نمبر 15)
جواب: یہ سارا بیان غلط ہے۔
➊ عثمان بن الحکم کو کسی نے بھی ضعیف نہیں کہا۔
➋ حافظ ابن حجر کی بات آدھی نقل کی گئی ہے، ان کا پورا کلام آگے آ رہا ہے۔ اوہام سے کون پاک ہے؟ اس روایت میں ان کا وہم ثابت کریں تو اور بات ہے ورنہ صرف لہ اوہام کی وجہ سے ایک صدوق راوی کی روایت کو کیوں کر رد کیا جا سکتا ہے؟
➌ امام ذہبی نے عثمان مذکور کو ليس بالقوي نہیں کہا بلکہ میزان کے بعض نسخوں میں ہے کہ ابو عمر نے کہا ہے (ج 3 ص 32) یہ ابو عمر (یہاں) غیر متعین ہے اور اس عبارت کی صحت بھی مشکوک ہے۔ تیسرے یہ کہ القوی نہ ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ قوی بھی نہیں ہے۔ واللہ اعلم!
عثمان بن الحکم الجذامی المصری کو امام احمد بن صالح المصری نے ثقہ قرار دیا ہے (تہذیب التہذیب 102/7) ابن یونس مؤرخ مصری نے کہا کہ وہ فقیہ اور متدین تھا (ایضاً) ابن حبان نے ثقہ قرار دیا ہے (کتاب الثقات 452/8) ابن ابی مریم نے کہا: كان من خيار الناس (صحیح ابن خزیمہ 1/345) ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں اس سے استدلال کیا۔ (ایضاً) (نیز دیکھیں لسان المیزان 1/227) ابن حجر نے کہا: صدوق له أوهام (التقریب ص 233)
ان کے مقابلے میں ابو حاتم نے فرمایا: ليس بالمتين، ليس بالمتقن (تہذیب التہذیب و میزان الاعتدال) ابو عمر نے کہا: ليس بالقوي (میزان الاعتدال 32/3)
معلوم ہوا کہ عثمان بن الحکم جمہور کے نزدیک ثقہ اور صدوق ہے لہذا اسے خود بخود بغیر قوی دلیل کے ضعیف قرار دینا علم و انصاف کا خون کر دینے کے مترادف ہے۔ یاد رہے کہ عثمان مذکور حدیث ابی ہریرہ میں منفرد نہیں بلکہ یحیی بن ایوب نے اس کی متابعت کر رکھی ہے۔

② دوسرا مغالطہ

ڈیروی صاحب نے لکھا ہے کہ
حضرت امام شافعی جب حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی قبر کی زیارت کے لیے پہنچے تو وہاں نمازوں میں رفع الیدین چھوڑ دیا تھا کسی نے امام شافعی رحمہ اللہ سے اس کی وجہ پوچھی تو فرمایا: اس قبر والے سے حیاء آتی ہے۔ (نور الصباح ص 29)
جواب: یہ واقعہ جعلی اور سفید جھوٹ ہے۔ شاہ رفیع الدین کا کسی واقعہ کو بغیر سند کے نقل کر دینا اس واقعہ کی صحت کی دلیل نہیں ہے۔ شاہ رفیع الدین اور امام شافعی کے درمیان کئی سو سال کا فاصلہ ہے جس میں مسافروں کی گردنیں بھی ٹوٹ جاتی ہیں۔
ڈیروی صاحب کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس واقعہ کی مکمل اور مفصل سند پیش کریں تا کہ راویوں کا صدق و کذب معلوم ہو جائے۔ اسناد دین میں سے ہیں اور بغیر سند کے کسی کی بات کی ذرہ برابر بھی حیثیت نہیں ہے۔
بحمد للہ ابھی تک ڈیروی صاحب یا ان کے کسی ساتھی نے اس واقعہ کی سند پیش نہیں کی ہے (1420ھ) جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اس من گھڑت واقعہ کی ان لوگوں کے پاس کوئی سند موجود نہیں ہے۔ (1427ھ!)

③ تیسرا مغالطہ

ڈیروی صاحب نے کہا:
حضرت امام ابو حنیفہ… رفع الیدین کرنے والوں کو منع کرتے تھے۔ چنانچہ حافظ ابن حجر لسان المیزان ج 2 ص 322 میں لکھتے ہیں: قتیبہ فرماتے ہیں کہ میں نے ابو مقاتل کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ میں نے امام ابو حنیفہ کے پہلو میں نماز پڑھی اور میں رفع الیدین کرتا رہا۔ جب امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے سلام پھیرا تو کہا کہ اے ابو مقاتل شاید کہ تو سیکھے والوں سے ہے۔ (نور الصباح ص 31)
جواب: آپ لسان المیزان کا مذکورہ صفحہ نکالیں، وہاں لکھا ہے کہ قتیبہ نے اس قصہ کے راوی ابو مقاتل کو بہت کمزور قرار دیا ہے۔ ابن مہدی نے کذاب کہا، حافظ سلیمانی نے کہا: یہ حدیث بناتا تھا، وکیع نے اسے کذاب کہا، ابو سعید النقاش اور الحاکم نے کہا: اس نے موضوع احادیث بیان کی ہیں۔ (لسان المیزان 322/2، 323 ملخصاً)
قارئین کرام خود فیصلہ کریں کہ ایک کذاب و وضاع کی روایت پر ڈیروی صاحب اپنے دعویٰ کی بنیاد رکھ رہے ہیں، کیا یہ ظلم نہیں ہے؟
دوسرے یہ کہ اس عبارت سے صاف معلوم نہیں ہوتا کہ امام صاحب نے ابو مقاتل کو رفع الیدین سے منع کیا تھا۔ (ابو مقاتل کے لیے دیکھئے تحقیقی مقالات 364/3)

④ چوتھا مغالطہ

مزید لکھتے ہیں:
حضرت امام شعبی رحمہ اللہ بھی ترک رفع الیدین کرتے تھے۔ عن اشعث عن الشعبي (کتاب ڈیروی ص 45)
جواب: اشعث سے مراد اشعث بن سوار الکندی الکوفی ہے۔
دلیل:وہ عامر الشعبی کا شاگرد ہے۔ (تہذیب الکمال للمزی 265/3)
اشعث بن سوار مختلف فیہ راوی ہے۔ اسے درج ذیل ائمہ حدیث نے ضعیف اور مجروح قرار دیا:
● احمد بن حنبل ● ابو زرعہ ● نسائی ● دارقطنی ● ابن حبان ● ابن سعد ● العجلی ● عثمان بن ابی شیبہ ● بندار ● اور ابو داود وغیرہم ابن معین نے ایک دفعہ ثقہ اور دوسری دفعہ ضعیف کہا لہذا ان کے دونوں قول ساقط ہو گئے۔ (ملاحظہ ہو تہذیب التہذیب ج 1 ص 309، 308)
صحیح مسلم میں اس کی روایات متابعہ ہیں۔ حافظ ابن حجر نے تقریب التہذیب میں فیصلہ کیا ہے کہ (اشعث بن سوار) ضعیف ہے۔

⑤ پانچواں مغالطہ

ڈیروی صاحب تحریر کرتے ہیں:
حضرت اسود بن یزید رحمہ اللہ التابعی اور حضرت علقمہ التابعی دونوں ترک رفع الیدین کرتے تھے۔ (کتاب ڈیروی ص 47 طبع دوم 1406ھ)
جواب: اس کی سند ڈیروی صاحب نے اس طرح لکھی ہے:
عن جابر عن الأسود و علقمه
جابر سے مراد جابر بن یزید الجعفی الکوفی ہے۔
دلیل:جابر جعفی شریک بن عبد اللہ کا استاد ہے۔ (تہذیب الکمال 466/4ط)
اور یہ روایت اس سے شریک نے بیان کی ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 1/237)
جابر الجعفی مختلف فیہ راوی ہے۔ بعض نے اس کی توثیق کی ہے۔ زائدہ نے کہا: اللہ کی قسم یہ جھوٹا تھا اور رجعت علی پر ایمان رکھتا تھا۔ امام ابو حنیفہ نے کہا: میں نے اس سے زیادہ جھوٹا کوئی نہیں دیکھا۔ نسائی نے کہا: متروک الحدیث ہے۔ جوز جانی نے کہا: کذاب ہے۔ زائدہ نے مزید بتایا کہ رافضی تھا اور اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتا تھا۔ (رضی اللہ عنہم اجمعین) سعید بن جبیر تابعی نے اسے جھوٹا قرار دیا۔ احمد بن خداش نے اللہ کی قسم کھا کر کہا کہ جھوٹ بولتا تھا۔ ابن حبان نے کہا کہ سبائی تھا (عبد اللہ بن سبا یہودی کا ایجنٹ تھا) (ملخصاً من تہذیب التہذیب 44/2-41)
حافظ ابن حجر عسقلانی نے فرمایا: ”ضعیف رافضی“ یہ ضعیف (اور) رافضی ہے۔ (تقریب التہذیب: 878)
اس ضعیف و کذاب و مدلس رافضی کی روایت سے ڈیروی صاحب استدلال کر رہے ہیں۔ کیا یہ کذب نوازی نہیں ہے؟

⑥ چھٹا مغالطہ

ڈیروی صاحب نے کہا: ”حضرت امام حسن بن زیاد رحمہ اللہ اور حضرت امام زفر رحمہ اللہ بھی رفع الیدین نہ کرتے تھے۔ (نور الصباح ص 33)
جناب ڈیروی صاحب کے (ممدوح) ”حضرت الامام“ (حسن بن زیاد اللؤلؤی) کا مختصر تعارف پیش خدمت ہے:

حسن بن زیاد اللؤلؤی:

ابن معین نے کہا: کذاب ہے۔ محمد بن عبد اللہ بن نمیر نے کہا: ابن جریج پر جھوٹ بولتا ہے۔ ابو داود نے کہا: کذاب غیر ثقہ ہے۔ محمد بن رافع النیسابوری نے کہا: یہ شخص امام سے پہلے سر اٹھاتا تھا اور امام سے پہلے سجدہ کرتا تھا۔ حسن الحلوانی نے بتایا کہ میں نے اسے دیکھا اس نے سجدہ کی حالت میں ایک لڑکے کا بوسہ لیا۔ ابو ثور نے کہا: میں نے اس سے زیادہ جھوٹا نہیں دیکھا، نماز کی حالت میں وہ ایک نو عمر لڑکے جس کی داڑھی مونچھ نہیں تھی، کے رخسار پر ہاتھ پھیرتا تھا۔ یزید بن ہارون نے تعجب سے کہا: کیا یہ مسلمان ہے؟ اسامہ اسے خبیث کہتے تھے۔ یعقوب بن سفیان، عقیلی اور الساجی نے کہا: کذاب ہے۔ (ملخصاً من لسان المیزان 208، 209/2)
ایسا گندا شخص ڈیروی صاحب کا ”حضرت امام“ ہے۔
[تنبيہ: حسن بن زياد اللؤلؤي كے بارے ميں تفصيلي اور تحقيقي مضمون كے ليے ديكهئے تحقيقي مقالات 2/337-340۔]

⑦ ساتواں مغالطہ

ڈیروی صاحب لکھتے ہیں:
امام ہیثم بن عدی رحمہ اللہ بھی فرماتے ہیں کہ حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ 38ھ میں فوت ہوئے دیکھئے البدایہ والنہایہ ج 8 ص 68 (نور الصباح ص 207)
جواب: ڈیروی صاحب کے امام ہیثم بن عدی کا مختصر تعارف درج ذیل ہے:

ہیثم بن عدی:

بخاری نے کہا: ليس بثقة كان يكذب ۔ ابو داود نے کہا: كذاب نسائی وغیرہ نے کہا: متروك الحديث (میزان الاعتدال 324/4)
عجلی نے کہا: کذاب ہے، میں نے اسے دیکھا ہے۔ ابو حاتم نے کہا: متروک الحدیث ہے۔ الساجی نے کہا: وہ جھوٹ بولتا تھا۔ (لسان المیزان 253/6 ط دار الفکر بیروت) حافظ ہیثمی نے کہا: كذاب (مجمع الزوائد 10/1)
غرض اس کذاب شخص کو ڈیروی صاحب نے اپنا امام قرار دیا ہے۔
تنبیہ: ہیثم بن عدی کے قول کو حافظ ابن کثیر نے ”زعم“ کہہ کر ذکر کیا ہے اور ”وہذا غریب“ کہہ کر اس کے غلط و باطل ہونے کی طرف اشارہ کر دیا ہے۔ (البدایہ والنہایہ 70/8)

⑧ آٹھواں مغالطہ

ڈیروی صاحب نے لکھا ہے:
ابن جریج ایک راوی ہے جس نے نوے عورتوں سے متعہ و زنا کیا تھا۔ (تذکرۃ الحفاظ للذہبی رحمہ اللہ وغیرہ) ایسے راوی کی روایت کو عبدالرشید انصاری نے الرسائل میں بار بار لکھ کر مسلمانوں کو دھوکا دیا ہے کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: دیکھئے الرسائل۔ (نور الصباح، مقدمہ ص 18 بترقیمی)
جواب: ڈیروی صاحب نے اپنی اسی کتاب کے صفحہ 22 پر ابن جریج کی روایت کو بطور حجت پیش کیا ہے۔ لکھتے ہیں:
”رفع الیدین کے چھوٹ جانے یا چھوڑ دینے سے نماز کا اعادہ لازم نہیں۔ حضرت عطا بن ابی رباح کا فتویٰ ملاحظہ ہو۔ عبد الرزاق عن ابن جريج قال قلت لعطاء ابن جریج رحمہ اللہ فرماتے ہیں
معلوم ہوا کہ خود ڈیروی صاحب مسلمانوں کو دھوکا دے رہے ہیں۔ ایک راوی پر سخت جرح کرتے ہیں اور پھر اسی کی روایت کو بطور حجت پیش کرتے ہیں۔ اس پر طرہ یہ کہ اپنی کتاب کے صفحہ 222 پر لکھتے ہیں:
اس کی سند میں ابن جریج راوی واقع ہے جو کہ ثقہ ہے مگر سخت قسم کا مدلس ہے۔
لہذا عبد الرشید انصاری (صاحب) بے چارے پر الزام تراشی کس لیے ہے؟
ابن جریج صحاح ستہ کا مرکزی راوی ہے۔ ابن معین، ابن سعد، ابن حبان اور العجلی نے کہا: ثقہ ہے، احمد بن حنبل وغیرہ نے اس کی تعریف کی ہے۔ (التہذیب 357/6 تا 360)
حافظ ذہبی نے کہا: ثقة حافظ (سیر اعلام النبلاء 332/6)
رہا متعہ کا مسئلہ تو یہ کئی لحاظ سے مردود ہے:
➊ اس کی مکمل سند پیش کی جائے۔
➋ حافظ ذہبی سے ابن جریج تک سند نا معلوم ہے۔
➌ اگر یہ ثابت بھی ہو جائے تو اسے ابن جریج کی اجتہادی غلطی تصور کیا جائے گا۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی متعہ کا جواز مروی ہے اور اکابر صحابہ نے ان پر اس مسئلہ میں سخت تنقید کی ہے۔
(تفصیل کے لیے صحیح مسلم مع شرح النووی 184/9، 190، 188 کا مطالعہ کریں)
یاد رہے کہ متعہ حرام ہے اور اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت تک حرام قرار دیا ہے لہذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں ہر شخص کا فتویٰ مردود ہے۔
➍ اگر بطور تنزل ابن جریج سے اس مسئلہ کو ثابت بھی مان لیا جائے تو بقول حافظ ابن حجر صحیح ابی عوانہ میں ابن جریج کا رجوع کرنا ثابت ہے۔ (فتح الباری ج 9 ص 173، الخيص الحبير 160/3)
رجوع کرنے والے کے خلاف پروپیگنڈا جاری رکھنا دیوبندیوں کی کسی عدالت کا انصاف ہے؟
تنبیہ: تذکرۃ الحفاظ وغیرہ میں زنا کا لفظ بالکل نہیں ہے۔ یہ لفظ ڈیروی صاحب نے اپنی طرف سے گھڑ کر بڑھا دیا ہے۔ تذکرۃ الحفاظ اور سیر اعلام النبلاء میں حافظ ذہبی نے ”تزوج“ (نکاح کیا) کے الفاظ لکھے ہیں۔ (سیر اعلام النبلاء 331/6)

⑨ نواں مغالطہ

ڈیروی صاحب مزید لکھتے ہیں:
مثلاً مسند ابی حنیفہ ج 1 ص 355 میں جو روایت آئی ہے اس میں بھی عاصم بن کلیب رحمہ اللہ نہیں بلکہ اس کی سند اس طرح ہے۔ ابو حنيفه عن حماد عن ابراهيم عن الأسود ان عبد الله ابن مسعود رضي الله عنه (نور الصباح ص 79)
جواب : مسند ابی حنیفہ محمد بن محمود الخوارزمی (متوفی 665ھ) کی جمع کردہ ہے۔ الخوارزمی کی عدالت و ثقاہت نا معلوم ہے۔ اس نے یہ روایت ابو محمد البخاری عن رجاء بن عبد اللہ النہشلی عن شقیق بن ابراہیم عن ابی حنیفہ کی سند کے ساتھ ذکر کی ہے۔ (ج 1 ص 355)
ابو محمد عبد اللہ بن محمد بن یعقوب الحارثی البخاری (متوفی 30ھ) کا تعارف مشخص وضع حدیث کے ساتھ متہم ہے۔ (ملاحظہ فرمائیں الکشف الحثیث عمن رمی بوضع الحدیث لبرہان الدین الحلبی ص 248)
ابو احمد الحافظ اور امام حاکم نے بتایا کہ وہ حدیث بناتا تھا۔ (کتاب القراءت للبیہقی ص 154، دوسرا نسخ ص 178 ح 388 وسنده صحیح)
ابو سعید الرواس نے کہا: اس پر وضع حدیث کا الزام ہے۔
احمد السلیمانی کی بات کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ سند اور متن دونوں گھڑتا تھا۔ ابو زرعہ احمد بن الحسین الرازی نے کہا ضعیف ہے۔ خلیلی نے اسے کمزور اور مدلس قرار دیا ہے۔ خطیب نے بھی جرح کی ہے۔ (دیکھئے لسان المیزان 349، 348/3)
کسی نے بھی اس شخص کی توثیق نہیں کی لہذا ایسے شخص کی تمام روایات موضوعات اور مردود ہیں۔ حافظ ذہبی دیوان الضعفاء والمتروکین میں ابو محمد الحارثی کو ذکر کر کے لکھتے ہیں: يأتي بعجائب واهية وہ عجیب (اور) کمزور روایتیں لاتا ہے۔ (ص 76 رقم 2297)
اس کا استاد رجاء النہشلی نامعلوم ہے اور شقیق بن ابراہیم بھی متکلم فیہ ہے۔
حافظ ذہبی نے کہا: لا يحتج به (دیوان الضعفاء ص 145 رقم 1896)
خلاصہ یہ کہ یہ روایت موضوع ہے۔
تنبیہ: میری تحقیق کے مطابق ”جامع المسانید“ میں الخوارزمی سے امام ابو حنیفہ تک ایک روایت بھی باسند صحیح یا حسن ثابت نہیں ہے، جسے اس بات سے اختلاف ہے وہ صرف ایک سند ہی پیش کر دے جو جمہور کے نزدیک صحیح یا حسن ہو۔ واللہ اعلم وعلمہ أتم (1410ھ)
[ابھی تک کسی شخص نے ایک بھی صحیح سند پیش نہیں کی۔ (1420ھ والحمد للہ 1427ھ!) ابو محمد الحارثی کے بارے میں مفصل تحقیق کے لیے دیکھئے تحقیقی مقالات 235/5 تا 244]

⑩ دسواں مغالطہ

ڈیروی صاحب آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے لکھتے ہیں:
محمد بن ابی لیلی… پھر بھی جمہور کے ہاں وہ صدوق اور ثقہ ہے۔ (ص 164)
جواب: آپ اس کتاب میں ملاحظہ فرمائیں گے (ص 89) کہ ابن ابی لیلی کو اکتیس (31) سے زیادہ محدثین و علماء نے ضعیف وغیرہ قرار دیا ہے اور صرف سات (7) سے اس کی توثیق ملتی ہے۔ اکتیس (31) کی بات جمہور ہے یا سات (7) کی؟
محمد بن طاہر المقدسی فرماتے ہیں: اس کے ضعیف ہونے پر اجماع ہے۔ (تذکرۃ الموضوعات ص 90، 24)
غالباً یہ اجماع المقدسی کے زمانے میں ہوا ہوگا۔ واللہ اعلم
انور شاہ کاشمیری دیوبندی نے کہا: فهو ضعيف عندي كما ذهب إليه الجمهور
(ابن ابی لیلی میرے نزدیک ضعیف ہے جیسا کہ جمہور نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔) (فیض الباری ج 3 ص 168)
آپ فیصلہ کریں کہ کاشمیری صاحب کی بات سچ ہے یا ڈیروی صاحب کا دعویٰ جمہوریت جھوٹ ہے؟
بوصیری نے کہا: هو محمد بن عبد الرحمن بن أبى ليلى ضعفه الجمهور
وہ محمد بن عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ ہے، اسے جمہور نے ضعیف قرار دیا ہے۔ (زوائد ابن ماجہ 854)

⑪ گیارہواں مغالطہ

صفحہ 180 پر ڈیروی صاحب نے سوار بن مصعب کی ایک روایت پیش کی ہے اور لکھا ہے: غیر مقلدین حضرات کے محمد بن اسحاق کذاب اور دجال کی روایت سے تو کسی طرح یہ کم نہیں ہے۔
جواب: سب سے پہلے سوار بن مصعب کا تعارف ملاحظہ فرمائیں:
یحیی نے کہا:ليس بشئي بخاری نے کہا: منكر الحديث (کہا جاتا ہے کہ) ابو داود نے کہا: ليس بثقة نسائی وغیرہ نے کہا: متروك الحديث. (میزان الاعتدال 246/2)
احمد بن حنبل، ابو حاتم اور ابو نعیم اصبہانی نے کہا: متروك الحديث. (لسان المیزان 154/3، کتاب الضعفاء لابی نعیم رقم 94)
ابو عبد اللہ الحاکم نے بتایا کہ اس نے عطیہ بن سعد سے موضوعات بیان کی ہیں اور وہ متروك الحديث بمرة یعنی بالکل متروک الحدیث ہے۔ (المدخل للحاکم ص 146 رقم 78)
اس کی یہ روایت بھی عطیہ سے ہے لہذا موضوع ہے۔
ابن عدی نے کہا: هو ضعيف. (لسان المیزان 154/3)
دارقطنی نے کہا: متروك الحديث (کتاب الضعفاء والمتروکین لابن الجوزی 31/2)
ہیثمی نے کہا: متروك (مجمع الزوائد 1/163)
حافظ ابن حبان نے فرمایا: كان ممن يأتى بالمناكير عن المشاهير حتى يسبق (إلى) القلب أنه كان المتعمد لها (المجر وحین 356/1)
اسے کسی نے بھی ثقہ یا صدوق وغیرہ نہیں کہا لہذا وہ بالا جماع ضعیف و متروک ہے۔ اس کے برعکس امام محمد بن اسحاق بن یسار التابعی رحمہ اللہ صحیح مسلم وغیرہ کے راوی ہیں۔ انھیں درج ذیل علماء نے ثقہ و صدوق صحیح الحدیث یا حسن الحدیث وغیرہ قرار دیا ہے: امام بخاری ،سفیان بن عیینه ،زہری،ابن مبارک ، شعبہ، علی بن المدینی، احمد ،یحیی بن معین، ابن حبان، عجلی، الذہلی، البوشنجی، الحاکم، ابن خزیمہ، ابو زرعہ الرازی، ابن البرقی، ابو زرعہ الدمشقی، ابن عدی، ابن سعد، الخلیلی، ابن نمیر، الترمذی، البیہقی، الخطابی، ابن حزم، المندری، الذہبی، محمد بن نصر الفراء، ابن قیم، السبکی، الہیشمی، حافظ ابن حجر عسقلانی، ابن حجر مکی( مبتدع)، خفاجی، ابن علان، السخاوی، ابن کثیر، القرطبی، شوکانی، نواب صدیق حسن خاں، احمد شاکر، عبد الرحمن مبارک پوری، شمس الحق عظیم آبادی، بشیر احمد سہسوانی، ابن ہمام حنفی، عینی حنفی، زیلعی حنفی، ملاعلی قاری حنفی، عبد الحی لکھنوی حنفی، سلام اللہ حنفی، شارح منیہ، امیر علی حنفی، نیموی حنفی، انور شاہ کاشمیری دیوبندی، محمد یوسف بنوری دیوبندی، محمد ادریس کاندہلوی دیوبندی، ظفر احمد عثمانی دیوبندی، خلیل احمد سہارنپوری دیوبندی، کوثری، ابو غدہ الکوثری (تحقیق کے لیے ملاحظہ فرمائیں توضیح الکلام ج 1 ص 265 تا 293)
ان کے علاوہ: شیخ الاسلام ابن تیمیہ، ابن خلکان، السیوطی ، السہیلی ، نور محمد ملتانی، ابن عبد البر ، احمد رضا خاں بریلوی ، اور محمد حسن وغیرہ نے بھی اسے ثقہ و صدوق قرار دیا ہے۔ (حوالہ مذکورہ) طحاوی حنفی نے معانی الآثار میں اس کی ایک حدیث کے بارے میں فهذا حديث متصل الإسناد صحيح کہا ہے۔ (شرح معانی الآثار ج 2 ص 208 کتاب الحجة في فتح رسول اللهﷺ مکۃعنوۃ، دوسرا نسخه 22/3)
تبلیغی جماعت کے شیخ الحدیث محمد ذکریا صاحب نے بھی تبلیغی نصاب، فضائل ذکر صفحہ 595/117 پر محمد بن اسحاق کو ”ثقہ مدلس“ تسلیم کیا ہے۔
توضیح الکلام طبع جدید چورانوے (94) علماء کے نام باحوالہ لکھے ہوئے ہیں جن سے محمد بن اسحاق کی توثیق و تعریف مروی ہے۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ محمد بن اسحاق کو جمہور علماء ثقہ و صدوق قرار دیتے ہیں۔
علامہ زیلعی حنفی لکھتے ہیں:
وابن إسحاق الأكثر على توثيقه و ممن وثقه البخاري
ابن اسحاق کو اکثر نے ثقہ کہا ہے اور توثیق کرنے والوں میں امام بخاری بھی ہیں۔ (نصب الرایہ 7/4)
علامہ عینی حنفی لکھتے ہیں: ”إن ابن إسحاق من الثقات الكبار عند الجمهور“
کہ جمہور کے نزدیک ابن اسحاق بڑے ثقات میں سے ہیں۔ (عمدۃ القاری 270/7)
محمد ادریس کاندہلوی دیوبندی لکھتے ہیں:
جمہور علماء نے اس کی توثیق کی ہے۔ (سیرت المصطفیٰ ج 1 ص 76)
علامہ سہیلی فرماتے ہیں: ثبت فى الحديث عند أكثر العلماء
اکثر علماء کے نزدیک وہ حدیث میں ثبت (ثقہ) ہیں۔ (الروض الأنف ج 1 ص 4)
مؤرخ ابن خلکان نے لکھا ہے: كان ثبتا فى الحديث عند أكثر العلماء
یعنی وہ حدیث میں اکثر علماء کے نزدیک ثبت (ثقہ) ہیں۔ (وفیات الأعیان 612/1)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اپنے فتاویٰ میں فرماتے ہیں:
و ابن إسحاق إذا قال حدثني فهو ثقة عند أهل الحديث
اور ابن اسحاق اگر سماع کی تصریح کریں تو وہ اہل الحدیث کے نزدیک ثقہ ہیں۔ (فتاوی ابن تیمیہ ج 33 ص85)
اور مزید لکھتے ہیں:
إذا قال حدثني فحديثه صحيح عند أهل الحديث
وہ سماع کی تصریح کرے تو اہل حدیث (محدثین) کے نزدیک اس کی حدیث صحیح ہے۔ (فتاوی ابن تیمیہ ج 33 ص 86) (ملخصاً من توضیح الکلام)
غرض جمہور علماء محمد بن اسحاق کو ثقہ کہتے ہیں مگر سرفراز صفدر اینڈ پارٹی برابر ”کذاب کذاب“ کی رٹ لگا رہی ہے۔ (نیز دیکھئے تحقیقی مقالات 274/3)
تنبیہ: فاتحہ خلف الامام کے مسئلہ کا دارو مدار محمد بن اسحاق پر ہرگز نہیں ہے۔ دیگر بہت سی صحیح احادیث اس مسئلہ پر نص قطعی ہیں۔ مثلاً ابو قلابہ تابعی کی حدیث عن انس (اس کی سند بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح ہے) اور محمد بن ابی عائشہ التابعی عن رجل من اصحاب النبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (اس کی سند مسلم کی شرط پر صحیح ہے) نافع بن محمود التابعی جوکہ ثقہ عند الجمہور ہیں، کی حدیث (اکثر محدثین کی شرط پر صحیح یا حسن ہے) وغیرہ
تفصیل کے لیے مولانا ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ کی لاجواب کتاب ”توضیح الکلام فی وجوب القراءۃ خلف الامام“ جلد اول اور راقم الحروف کی کتاب” الکواکب الدریۃ فی وجوب الفاتحۃ خلف الامام فی الجہریہ “کا مطالعہ فرمائیں۔
مختصر یہ کہ ڈیروی صاحب نے اپنی اس کتاب میں علم و انصاف کا خون کیا ہے۔اپنی کتاب کے صفحہ 154 پر ڈیروی صاحب نے باب باندھا ہے:
”حضرت امام بخاری کی بے چینی“
اور پھر امام المحدثین و امام الفقہاء: بخاری رحمہ اللہ پر اپنی جہالت کی وجہ سے تنقید کی ہے۔ حالانکہ (ہماری تحقیق کے مطابق) امام بخاری نے عبد اللہ بن ادریس کی روایت کو سفیان ثوری کی روایت پر کئی وجہ سے ترجیح دی ہے:
➊ سفیان ثوری مدلس ہیں اور ابن ادریس مدلس نہیں ہیں۔
➋ ابن اور لیس بالا جماع ثقہ ہیں۔
➌ ایک جماعت ان کی متابع ہے۔
➍ ابن ادریس کی روایت کے صحیح ہونے پر محدثین کا اتفاق ہے۔
➎ ثوری کی روایت کو جمہور علماء نے ضعیف و معلول قرار دیا ہے۔
➏ بعض علماء نے بتایا ہے کہ ثوری کو اس روایت میں وہم ہوا ہے۔
آپ فیصلہ کریں کہ ان وجوہات کی روشنی میں اگر ابن ادریس کی روایت کو ثوری کی روایت پر ترجیح دی جائے تو کون سے قاعدے کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔
محمد بن جابر کے مقابلے میں امام بخاری نے سفیان ثوری کی روایت کو جو ترجیح دی ہے تو اس کی بھی کئی وجوہ ہیں:
➊ ثوری ثقہ مدلس ہیں جب کہ محمد بن جابر ضعیف متروک اور مختلط ہے۔
➋ محمد بن جابر کی اس روایت پر دیگر محدثین نے بھی سخت جرح کی ہے۔
➌ ثوری کی معنوی متابعت حفص، مغیرہ اور حصین وغیرہ نے بھی کی ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج 1 ص 236 و غیرہ)
لہذا امام بخاری کا فیصلہ بالکل صحیح ہے مگر ڈیروی صاحب کی بے چینی نا قابل فہم ہے۔ جو شخص اپنی کتاب کے صفحہ 224 پر حجاج بن ارطاۃ کو ضعیف، مدلس، کثیر الخطاء اور متروک الحدیث کہتا ہو اور اپنی اسی کتاب کے صفحہ 167، 168 پر اسی حجاج بن ارطاۃ کی روایت کو پیش کر کے اسے صحیح حدیث قرار دیتا ہو علمی دنیا میں اس کا کیا مقام ہو سکتا ہے؟
[ياد رہے كہ مسند احمد 3/4 ميں اس كے بعد والي جو روايت ہے اس كا حجاج كي حديث سے كوئي تعلق نهيں بلكہ وه تشهد كے بارے ميں ہے۔ دليل يہ ہے كہ مسند حميدي ج 2 من 387 رقم 879 ميں سفيان كي يہ روايت موجود ہے جس ميں يدعو فى الصلوة هكذا كے الفاظ ہيں۔ سفيان بن عيينہ نے زياد بن سعد سے صرف يہي ايک روايت ياد ركهي ہے جو تشهد كے بارے ميں ہے۔ نيز ملاحظہ فرمائيں مجمع الزوائد 2/101]

غیر جانب دارانہ تحقیق

قارئین کرام! اس کتاب (نور العینین فی اثبات مسئلۃ رفع الیدین) میں اصول کو سختی کے ساتھ مد نظر رکھا گیا ہے۔ راویوں کی توثیق و تضعیف اور کسی حدیث کی تصحیح و تضعیف میں جمہور محدثین کی تحقیقات کو لازمی ترجیح دی گئی ہے۔ جو روایت جمہور علمائے مسلمین کی تحقیق کے مطابق صحیح یا حسن ہے اسے صحیح یا حسن تسلیم کر کے استدلال کیا گیا ہے اور جو روایت علمائے مسلمین کے نزدیک ضعیف و منکر وغیرہ ہے اسے ضعیف و منکر وغیرہ قرار دے کر رد کر دیا گیا ہے۔ اسماء الرجال کے میدان میں خواہشات نفسانیہ کو مدنظر بالکل نہیں رکھا گیا۔ مثلاً: رفع الیدین کے حق میں دو روایتوں کو پیش نہیں کیا گیا۔

① سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث

یہ حدیث امام حاکم کی کتاب معرفۃ علوم الحدیث ص 121 پر موجود ہے۔ اس کے سارے راوی ثقہ ہیں مگر علت یہ ہے کہ ابو الزبیر سے جابر رضی اللہ عنہ سے ”عن“ کے ساتھ روایت کر رہے ہیں۔ ابو الزبیر جمہور محدثین کی تحقیق کے مطابق مدلس ہیں لہذا ان کی یہ معنعن روایت ضعیف ہے۔
[اس تحقیق کے کافی عرصہ بعد ابو العباس محمد بن اسحاق الثقفی السراج النیسابوری کی المسند (قلمی مصور) میں ابو الزبیر کے سماع کی تصریح مل گئی۔ (ص 25)
لہذا یہ حدیث بھی صحیح ہے۔ والحمد للہ مصنف]
امام بیہقی جو غالباً ابو الزبیر کو مدلس تسلیم نہیں کرتے، ابو الزبیر کی اس روایت کو الخلافیات میں ”هو حديث صحيح“ کہتے ہیں۔
امام حاکم بھی ابو الزبیر کا مدلس ہونا تسلیم نہیں کرتے۔ (معرفۃ علوم الحدیث ص 34)

② سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے منسوب حدیث

یہ حدیث امام ابو یعلی الموصلی کی مسند (ج 6 ص 424، 425 رقم 3793) میں موجود ہے۔ اس کے سارے راوی ثقہ ہیں۔ اس میں علت یہ ہے کہ حمید الطویل اسے سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے ”عن“ کے ساتھ روایت کر رہے ہیں۔ حمید الطویل مدلس ہیں لہذا ان کی یہ معنعن روایت ضعیف ہے۔ بعض علماء حمید کے عنعنہ کو بھی صحیح تسلیم کرتے ہیں۔ اس لیے ابن خزیمہ نے یہ حدیث اپنی صحیح میں روایت کی ہے۔ (دیکھئے التلخیص الحبیر ج 1 ص 219)
ابن الملقن نے البدر المنیر میں کہا: ”إسناده صحيح على شرط الشيخين“ ابن دقیق العید نے الامام میں کہا: ”رجاله رجال الصحيحين“ (جلاء العینین الشیخ بدیع الدین راشدی ص 41 مع حاشیۃ الشیخ فیض الرحمن الثوری رحمہما اللہ تعالیٰ)
صحیح بات یہ ہے کہ حمید الطویل کی سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے معنعن حدیث بھی صحیح ہوتی ہے۔ (دیکھئے تحقیقی مقالات 215/5)
لہذا یہ روایت بھی صحیح ہے۔ والحمد للہ
بعض لوگوں نے سجدوں میں رفع الیدین کی (ضعیف) روایات پیش کر کے یہ دھوکا دینے کی کوشش کی ہے کہ رفع الیدین منسوخ ہے۔
➊ سجدوں میں باسند صحیح رفع الیدین ثابت نہیں ہے۔
➋ ہم یہ نہیں کہتے کہ یہ رفع الیدین منسوخ ہے بلکہ ہم اس لیے نہیں کرتے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سجدوں میں رفع الیدین نہیں کرتے تھے۔ جیسا کہ صحیحین وغیرہما کی صحیح صریح روایات سے ثابت ہے۔ رکوع والے رفع الیدین کے خلاف صحیح صریح ایک روایت بھی نہیں ہے۔
➌ حافظ ابن حجر نے الدرایہ فی تخریج احادیث الہدایہ ص 152 پر اس قیاس کی زبر دست تردید کی ہے اور اسے نص کے مقابلے میں فاسد قرار دیا ہے اور بتایا ہے کہ بعض علماء ہر اونچ نیچ (سجدوں) میں بھی رفع الیدین کرتے رہے ہیں۔
حافظ صاحب کا یہ جواب اجماع کے موہوم دعوئی کی تردید کے لیے کافی ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے