مقدمہ کتاب فاتحہ خلف الامام از شیخ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ
یہ اقتباس شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کی کتاب مسئلہ فاتحہ خلفُ الامام سے ماخوذ ہے۔

إن الحمد لله نحمده ، من يهده الله فلا مضل له ومن يضلل فلا هادي له ، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له و (أشهد) أن محمدا عبده ورسوله. أما بعد فإن خير الحديث كتاب الله وخير الهدي هدي محمد ( صلى الله عليه وسلم ) وشر الأمور محدثاتها وكل بدعة ضلالة وقال صلى الله عليه وسلم : (وإياكم محدثات الأمور فإن كل محدثة بدعة وكل بدعة ضلالة.)
دین اسلام میں کلمہ توحید کے بعد دوسرا رکن نماز ہے، قیامت کے دن ( امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ) سب سے پہلے نماز کے بارے میں سوال ہوگا ۔ اگر نماز صحیح ہوئی تو بندہ کامیاب ہو گیا اور اگر فاسد نکلی تو پھر ذلت اور نقصان مقدر ہے۔
(ابوداود 866، ابن ماجه ح 1429، حاکم 263،263/1، احمد 377٫5،10365٫4، الا وائل للطبرانی ح 23)
متواتر احادیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص نماز میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی ۔
( جزء القراءت للبخاری ح2)
یہ ارشاد نبوی عام ہے اس میں مرد ، عورت، امام ، مقتدی اور منفر دسب شامل ہیں۔ اس کے باوجود بعض لوگ دن رات فاتحہ خلف الامام کی مخالفت پر کمر بستہ ہیں حالانکہ مقتدی کے بارے میں صریح اور متواتر احادیث موجود ہیں جیسا کہ اس کتاب میں ثابت کیا گیا ہے۔
مخالفین فاتحہ خلف الامام کے نزدیک امام اور منفرد پر بھی پوری نماز میں سورہ فاتحہ فرض نہیں ہے لیکن وہ اپنے اس مسلک کو عوام کے سامنے بیان کرنے سے شرماتے ہیں۔
اردو مارکیٹ میں فاتحہ خلف الامام کے خلاف جو کچھ لٹریچر موجود ہے آٹھ حصوں پر منقسم ہے:
➊ مرد و د روایات
➋ غیر صریح اور غیر متعلق دلائل جن میں فاتحہ خلف الامام کا ذکر نہیں ہے۔
➌ تناقضات
➍ خیانتیں
➎ محدثین کی توہین
➏ گھٹیا اور بازاری زبان
➐ جہالتیں
➑ اکاذیب

مرد و دروایات

1 : كل صلوة لا يقرأ فيها بأم الكتاب فهي خداج الاوراء الإمام

ہر وہ نماز جس میں اُمّ‌الکتاب (سورۂ فاتحہ) نہ پڑھی جائے وہ ناقص ہے، مگر یہ کہ آدمی امام کے پیچھے ہو۔

(کتاب القراءت اللبیہقی ص 136، احسن الکلام 294/2ط دوم تحقیق مسئلہ فاتحہ خلف الامام از بشیر احمد ص 420،41 مجموعه رسائل از اوکاڑوی 1/44، 47)
حالانکہ یہ روایت مردود ہے ۔ کتاب القراءت میں ہی اس پر شدید جرح موجود ہے نیز اس کا ایک بنیادی راوی ابوسعید محمد بن جعفر الخصیب الہروی نا معلوم ہے۔
2 : عن ابن عباس قال : قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم : كل صلوة لا يقرأ فيها : بفاتحة الكتاب فلا صلوة له إلا وراء الإمام

ابن عباسؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر وہ نماز جس میں فاتحةُ الکتاب نہ پڑھی جائے، اس کی نماز نہیں ہوتی، مگر امام کے پیچھے (مقتدی کی)۔

(کتاب القراءت ص 147، قراءة خلف الامام از قاری چن محمد دیو بندی ص 20)
حالانکہ یہ روایت موضوع ہے جیسا کہ اس کتاب کے باب اول کے آخر میں آرہا ہے (ص 77) اس کی سند کے چار راوی نا معلوم ہیں اور خودسید نا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے فاتحہ خلف الا مام بسند صحیح ثابت ہے۔
(كتاب القراء للبیہقى من 4 17ح وقال : هذا إسناد صحيح ، لاغبار عليه )
3: عن بلال قال : أمرني رسول الله له أن لا أقرأ خلف الإمام

بلالؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ میں امام کے پیچھے قراءت نہ کروں۔

(کتاب القراءت ص 135، قراة خلف الامام ص 20)
یہ روایت بھی موضوع ہے ، اس میں اسماعیل بن الفضل کذاب ہے ، دیکھئے کتب الرجال اور اسی کتاب کے باب اول کا آخری حصہ (ص 78) ۔
4 : خاتمۃ الکلام کے مصنف فقیر اللہ دیو بندی نے اپنی کتاب کے (ص 386) پر احمد بن الصلت الحمانی ، اور (ص 387) پر احمد بن عطیہ کی سند سے دو اقوال پیش کئے ہیں ، احمد بن الصلت اور احمد بن عطیہ مذکور ایک ہی شخص ہے اور اس کے کذاب و مردو دالروایہ ہونے پر اجماع ہے۔
(دیکھئے میزان الاعتدال ار140 ترجمه: 555 لسان المیزان 408/1 ترجمعه 838)

غیر صریح اور غیر متعلق دلائل

وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا لعلكم ترحمون

اور جب قرآن کی تلاوت کی جائے تو اسے غور سے سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔

(احسن الکلام ار90 مجموعه رسائل 4281، قراۃ خلف الامام ص 8 ، تدقیق الکلام از عبد القدیر دیو بندی 391 و إذا فراً فانصتوا الدلائل السنية ص 106، از محمد امان اللہ ابو بکر محمد کریم اللہ ۔ اسی کتاب کا اردو ترجمہ ص 88 ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ نماز ص 145، از مفتی جمیل احمد نذیری ، نماز پیغمبر ص 138، از محمد الیاس فیصل، نماز مسنون ص 336 از صوفی عبد الحمید سواتی )
حالانکہ درج بالا آیت کریمہ میں نہ امام کا ذکر ہے اور نہ مقتدی کا ، اسی طرح اس میں سورہ فاتحہ کا بھی ذکر نہیں ہے بلکہ یہ آیت مشرکین کے رد میں نازل ہوئی ہے۔
( تفسیر قرطبی1/121)
ثانی الذکر حدیث (174/1، 62٫404) میں فاتحہ خلف الامام کا ذکر نہیں۔ خود اس کے رادی سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ جہری اور سری دونوں نمازوں میں فاتحہ خلف الامام کے قائل و فاعل تھے ۔ (دیکھئے فصل ثانی ) لہذا یہ حدیث ماعدا الفاتحہ پر محمول یا منسوخ ہے ۔ اس قسم کے غیر صریح اور غیر متعلق دلائل کو فاتحہ خلف الامام کے خلاف پیش کرنا انتہائی مذموم حرکت ہے، کیونکہ فاتحہ کی تخصیص صریح و صحیح دلائل سے ثابت ہے اور اصول میں یہ مقرر ہے کہ خاص عام پر مقدم ہوتا ہے۔

تناقضات

خاتمۃ الکلام کے مصنف نے (ص 335) پر طبرانی کی ایک روایت سے استدلال کیا اور پھر (ص 1338) پر خود ہی اسے ضعیف قرار دیا۔ اس قسم کی کئی مثالیں موجود ہیں۔

خیانتیں

سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے ایک روایت فاتحہ خلف الامام کی صراحت کے ساتھ ثابت ہے جبکہ متعدد مخالفین سورہ فاتحہ خلف الامام نے اس حدیث کا صرف پہلا حصہ نقل کر کے فاتحہ کی ممانعت ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، دیکھئے مجموعہ رسائل (36/1)۔ حالانکہ متعدد ثقہ راویوں نے اس حدیث میں فاتحہ خلف الامام کا استثنا بھی بطور جزم ذکر کیا ہے لہذا صرف آدھی حدیث نقل کرنا عظیم خیانت ہے۔ یہ پوری حدیث آگے آرہی ہے۔

محدثین کی تو ہین

مانعین فاتحہ خلف الامام نے مسلکی تعصب کی وجہ سے محدثین کی توہین کا ارتکاب بھی کیا ہے۔ مثلاً امام بیہقی کی عدالت، امامت ، امانت اور جلالت پر اجماع ہے ، حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
هو الحافظ العلامة الثبت ، شيخ الإسلام
(سیر اعلام المقبل ، : 163/18)
فقیر اللہ دیو بندی خاتمۃ الکلام” میں لکھتا ہے : ”حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب وہ حدیث جس کی بنیاد پر امام بیہقی نے یہ رام کہانی گھڑی ہے ۔ (ص290) فقیر اللہ مذکور کی جہالت کے بارے میں دیکھئے ”جہالتیں“۔
عبدالقدیر صاحب نے تدقیق الکلام (1/97 ) میں امام بیہقی کے خلاف باب باندھا ہے۔ زکریا صاحب تبلیغی دیو بندی فرماتے ہیں:
ان محدثين كا ظلم سنو
( تقریر ترمذی 103/3)
محدثین کے خلاف یہ ساری دشمنی صرف پارٹی بازی اور فرقہ واریت پر مبنی ہے حالانکہ محدثین کی حیثیت دین اسلام کے پاسبانوں کی ہے۔
امام احمد بن سنان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ليس فى الدنيا مبتدع إلا وهو يبغض أهل الحديث
دنیا میں جتنے بھی بدعتی ہیں وہ سب اہل الحدیث (محدثین ) سے بغض رکھتے ہیں ۔
(عقيدة السلف رشیخ الاسلام الصابونی ص 102علامات اہل المبدع وسندہ صحیح)

گھٹیا اور بازاری زبان

مثلاً عبد القدیر صاحب لکھتے ہیں : اس بات کو مصنف خیر الکلام شیر مادر سمجھ کر پی گئے ہیں اور ان کے بڑھاپے میں شیر خوار ہونے پر زیادہ تعجب ہے۔
( تدقیق الکلام 170/1)
شیخ الاسلام ، حجتہ الاسلام ، شیخ القرآن والحديث ، الامام الثقة المتقن الحجه المحدث، الفقية الأصولی محمد گوندلوی رحمہ اللہ تو خیر سے جماعت محدثین میں سے ہیں ۔ صاحب تدقیق تو اپنے ہی ایک ہم مسلک (لیکن معتدل ) بھائی علامہ سندھی رحمہ اللہ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ” اندھا اور بہرہ بنا دیا“۔
( تدقیق الکلام ح1س 205)
یعنی علامہ سندھی رحمہ اللہ اندھے اور بہرے تھے۔ إنا لله وإنا إليه راجعون

جہالتیں

حسین احمد ( مدنی) ٹانڈوی ،مشہور صحابی سید نا عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرماتے ہیں: ”کیونکہ بعض کے راوی عبادہ ہیں جو مدلس ہیں “
(توضیح الترمذی ص 436 ، 437 ، واللفظ للا خیر مطبوعہ مدنی بک ڈپو۔ مدنی نگر کلکتہ51)
سید نا عبادہ رضی اللہ عنہ کو مدلس کہنا بہت بڑی جہالت ہے۔ فقیر اللہ دیوبندی خاتمۃ الکلام میں متعدد مقامات پر شیخ ناصر الدین البانی کو مرحوم لکھتے ہیں ۔
(دیکھئے ص 231، 182، 180،179،19 233 236، 366،346،343، 320،319،254، 236)
حالانکہ شیخ البانی بفضل اللہ بقید حیات ہیں اور اردن میں ان سے رابطہ بھی ممکن ہے۔
( یہ 1997ء کی بات ہے، اب شیخ البانی رحمہ اللہ وفات پاچکے ہیں آپ کی وفات 22 جمادی الثانیه 1420ھ بمطابق اکتوبر 1999ء عمان اردن میں ہوئی ، رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ )

اکاذیب

فاتحہ خلف الامام کے خلاف جملہ کتب کا ایک بڑا حصہ اکاذیب وافتراءات پر مشتمل ہے۔ مثلاً :
1: سرفراز خان صفدر صاحب احسن الکلام میں سولہویں حدیث کے تحت لکھتے ہیں :
”امام محمد فرماتے ہیں کہ ہم سے اسرائیل نے بیان کیا کہ وہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے موسیٰ بن ابی عائشہ نے بیان کیا ، وہ عبداللہ بن شداد سے اور وہ حضرت جابر سے روایت کرتے ہیں ۔ “
( 1/280، بحوالہ موطا محمد بن الحسن الشیبانی)
حالانکہ موطا مذکور میں جابر رضی اللہ عنہ کا واسطہ موجود نہیں ہے۔
2 : سرفراز خان صفدر صاحب، امام محمد بن اسحاق بن یسار کے بارے میں لکھتے ہیں: لیکن محدثین اور ارباب جرح و تعدیل کا تقریباً پچانوے فیصدی گروہ اس بات پر متفق ہے کہ روایت حدیث میں اور خاص طور پر سنن اور احکام میں ان کی روایت کسی طرح بھی حجت نہیں ہو سکتی اور اس لحاظ سے ان کی روایت کا وجود اور عدم بالکل برابر ہے۔ (70/2)
درج بالا سارا بیان کذب و افترا پر مبنی ہے ۔ محمد بن اسحاق رحمہ اللہ کو جمہور نے ثقہ و صدوق قرار دیا ہے۔
اس کا اعتراف حنفیوں کے امام عینی وغیرہ نے بھی کیا ہے، نیز دیکھئے نور العینین فی مسئلہ رفع الیدین طبع کراچی۔
(ص 28، 29، 30 وطبع جدید ص 42، 45)
3 : حبیب الرحمن صدیقی کاندہلوی اپنے رسالہ فاتحہ خلف الامام میں لکھتے ہیں :
امام بیہقی نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
من ادرك الركوع مع الإمام فقد ادرك الركعة
جس نے امام کے ساتھ رکوع پایا اس نے رکعت پالی۔
(سنن الكبرى 90/4) (ص10، الطبع اول)
حالانکہ ان الفاظ کے ساتھ یہ حدیث نہ تو السنن الکبری میں موجود ہے اور نہ حدیث کی کسی دوسری کتاب میں ۔
محقق اہل حدیث جناب مولانا خواجہ محمد قاسم رحمہ اللہ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
حالانکہ سرے سے یہ حدیث ہی کوئی نہیں ہے۔
( قد قامت اصلو پس 132 اول جس 278 دوم )
لہذا معلوم ہوا کہ کاندہلوی ہی اس حدیث کے وضع کرنے کے ساتھ متہم ہے۔
4 : متعدد مانعین فاتحہ خلف الامام نے صحیح مسلم ( 174/1 ح 62٫404) کی ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ والی طویل حدیث کے متن میں وإذا قرأ فأنصتوا کے الفاظ شامل کر کے اردو دان طبقہ کے سامنے پیش کئے ہیں، مثلا دیکھئے۔
احسن الکلام (189/1) مجموعہ رسائل (27/1) فاتحہ خلف الامام ص 4، قراءة خلف الامام ص 11 وغیرہ ۔
حالانکہ یہ الفاظ اصل متن میں قطعاً شامل نہیں ہیں بلکہ دوسری سند کے ساتھ ایک علیحدہ ٹکڑے کی صورت میں لکھے ہوئے ہیں۔
دیکھئے صحیح مسلم(174/1 ح 404)
5 : عبدالقدیر دیو بندی صاحب لکھتے ہیں:
قال فى التقريب نافع بن محمود بن الربيع مجهول من الثالثة
( تدقیق الکلام 2/ 48)
اس کلام کی وقت تو اللہ ہی جانتا ہے، تا ہم تقریب میں مجہول کا لفظ قطعا موجود نہیں ہے۔
6: قاری چن محمد صاحب دعوی کرتے ہیں کہ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
من كان له امام فقراة الإمام له قراة
(موطا امام مالک) ( قرآة خلف الامام ص 32)
حالانکہ یہ روایت موطا امام مالک میں قطعاً موجود نہیں ہے۔ قاری صاحب کے اس رسالہ کے رد میں راقم الحروف نے ایک مضمون نور الظلام لکھا تھا۔ اس کے بعد فریقین کے درمیان خط کتابت کچھ عرصہ جاری رہی جس میں قاری صاحب نے مذکورہ بالا حوالے کی صحت پر اصرار کیا اور یہ دعوئی بھی کیا کہ کا تب کی غلطی نہیں ہے، جب محترم نثار احمد صاحب اور محترم طارق الشافعی نے ان سے اس سلسلہ میں ملاقات کی تو ان دونوں کے سامنے زبانی اس بات کا اقرار کیا کہ یہ حوالہ غلط ہے، یہ ساری کارروائی ہمارے ریکارڈ میں محفوظ ہے۔
7 : چن محمد صاحب مزید لکھتے ہیں:
❀ حضرت ابوسعید الخدری فرماتے ہیں :
لا صلوة الابفاتحة الكتاب وما تيسر
کہ فاتحہ اور ما تیسر کے بغیر نماز نہیں ہوتی ۔
(ابوداود 118) ( قرآۃ خلف الامام ص 32)
یہ روایت ان الفاظ کے ساتھ سنن ابی داود میں قطعاً موجود نہیں ہے ، قاری صاحب نے اس قسم کے اور بھی کئی غلط حوالے لکھے ہیں جن کی تفصیل ”نور الظلام“ میں درج ہے۔
راقم الحروف نے قاری صاحب کے رسالہ کا مفصل جواب نورا الظلام فى مسئلة الفاتحة خلف الإمام کے نام سے لکھا ہے جو ابھی تک غیر مطبوع ہے، يسر الله لنا طبعه۔
غرض اس قسم کے متعدد ا کا ذیب و افتراءات ان کتابوں میں موجود ہیں جو فاتحہ خلف الامام کے خلاف لکھی گئی ہیں حالانکہ جھوٹ بولنا کبیرہ گناہ ہے ، بلکہ اس کی حرمت پر دیگر ادیان عالم بھی متفق ہیں ۔ ہماری یہ مختصر کتاب ان آٹھ برائیوں سے پاک ہے جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ والحمد للہ ، اس کتاب میں صرف ان احادیث سے حجت پکڑی گئی ہے جو ہر لحاظ سے صحیح یا حسن ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں کتاب وسنت پر ثابت قدم رکھے اور کتاب وسنت پر ہی ہمارا خاتمہ ہو۔ آمين يارب العالمين وما علينا إلا البلاغ
(1997)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے