ذاتی مخالفت و عداوت خواہ کسی سے بھی ہو اگر حدود آشنا نہ رہے تو نہ صرف یہ کہ وہ انسان کے دین و ایمان اور اخلاق و کردار کیلئے فتنہ بن جاتی ہے بلکہ ذنوب و معاصی کی ہر حد کو پھاند نے پر اکسائے رکھتی ہے اور آدمی جھوٹ، بددیانتی، بہتان تراشی، تهمت طرازی، تعصب و جنبہ داری اور حسد و کینہ جیسے اخلاقی رذائل میں اس قدر پختہ اور شدید ہو جاتا ہے کہ عدل و انصاف کا دامن تھامے ، جادۂ حق پر قائم رہنا اس کیلئے ناممکن ہو جاتا ہے۔
یہ ذاتی رقابت و د همئی ضروری نہیں کہ جب مال اور حب جاہ ہی کی بنیاد پر ہو ، مادی فوائد اور حتی لذائذ سے بالاتر، کسی فکری اختلاف اور علمی رقابت کی بنیاد پر بھی ہو سکتی ہے۔ پھر اگر یہ اختلاف ورقابت للہ فی اللہ نہ ہو تو رذائل کی وادی میں مسلسل بھٹکتے رہنا ہی اس کا مقدر بن جاتا ہے اور نفس کو ضلالت و غوایت کار استہ اس قدر مرغوب ہو جاتا ہے کہ کسی اور راستے پر چل کر اسے اطمینان قلب ہی نہیں ملتا ایسے شخص کی مثال پھر اس کیڑے کی سی ہو جاتی ہے جو غلاظت و عفونت ہی میں رہتا ہے۔ گندگی ہی اس کا اوڑھنا اور بچھونا بن جاتی ہے ، سنڈ اس کی فضا ہی اس کی طبیعی فضہ اقرار پاتی ہے وہ کیچڑ میں رہتا ہے اور دوستوں پر بھی کیچڑ پھینکتا ہے وہ خود کذب بیانی کرتا ہے اور دوسروں کو جھوٹ کا نشانہ بناتا ہے ، الزام تراشی اور بہتان تراشی اسکا شیوہ ہوتا ہے لیکن وہ اسے دوسروں کی روش قرار دیتا ہے دھوکہ دہی اور فریب کاری اس کا اپنا وطیرہ ہوتا ہے لیکن وہ اس کا الزام اپنے مخالفوں پر عائد کرتا ہے، خیانت کار اور بددیانت اگر چہ وہ خود ہوتا ہے مگر اس فعل بد کی نسبت وہ اپنے رقیبوں کی طرف کرتا ہے ، اپنے حریفوں کے اقوال میں سے وہ منطق کے زور لگا لگا کر بد ترین معانی نکالنے کی کوشش کرتا ہے خواہ صاحب قول کتنی ہی وضاحت کے ساتھ اپنا مدعا بیان کرے مگر وہ یہی اصرار کئے چلا جاتا ہے کہ ’’نہیں تیرا اصل مدعاوہ نہیں جو تو خود بیان کرتا ہے بلکہ وہ ہے جو میں تیری طرف منسوب کر رہا ہوں‘‘ گویاوہ کوئی وکیل استغاثہ ہے جس نے ملزم کو کسی نہ کسی طرح پھانسنےہی کیلئے اپنے موکل سے فیس لے ر کھی ہے اور ستم یہ کہ یہاں موکل کوئی اور نہیں بلکہ خود اس کا اپنا نفس بد ہے جسکی فیس لذت نفس کے سوا کچھ نہیں اور اسکی ساری دلچپسی کا محور صرف یہ ہے کہ اپنے مخالفین کو جس طرح بھی ہو جہنم کا مستحق ثابت کر دے۔ خوف خدا سے عاری حکام جب کسی پر بگڑتے ہیں تو اسے قانون اور نظم و ضبط کا دشمن قرار دے کر پکڑتے ہیں، غرض مند بلکہ خود غرض سیاسی لیڈر جب کسی کو نیچا دکھانا چاہتے ہیں تو اسے ملک اور قوم کا دشمن قرار دے کر گرانے کی کوشش کرتے ہیں مگر ایک خاص مزاج کے ’’قرانی دانشور‘‘ جب کسی پر غضب ناک ہوتے ہیں تو ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اپنے ساتھ خدا اور رسول کو بھی فریق مقدمہ بنائیں اور یہ ثابت کریں کہ ” جس شخص سے ہم ناراض ہیں ، وہ کمبخت تو دشمن قرآن ہے جونری گمراہی کا فتنہ اٹھا رہا ہے اس لیے ہم یہ سارے پاپڑ صرف اس لیے بیل رہے ہیں کہ خدا کی کتاب اس کے شر سے محفوظ رہے‘‘ یوں وہ اپنے نفس کی ساری برائیاں اور جملہ عیوب اپنے مخالفین کے سر تھوپ دیتا ہے تا کہ کسی کی نگاہ خود اس کے اپنے عیوب کی طرف نہ اٹھ سکے، صرف یہی نہیں کہ وہ اپنے نقائص کا انکار کرتے ہوئے انہیں دوسروں کی طرف منسوب کرتا ہے بلکہ وہ ایک قدم اور آگے بڑھ کر دوسروں کی خوبیوں اور فضائل کو اپنی ذات میں ظاہر کرتا ہے اور ان کارناموں کو بھی وہ اپنی ذات کی طرف منسوب کرتا ہے جو سرے سے اس نے انجام ہی نہیں دیئے ہوتے۔
ٹھیک یہی کیفیت ہے جس میں ہم نے ’’مفکر قرآن‘‘ جناب چوہدری غلام احمد پرویز صاحب کو مدت العمر مبتلا پایا ہے، وہ خود جھوٹ بولا کرتے تھے لیکن الزام اپنے مخالفین پر لگایا کرتے تھے ، وہ خود قرآن کے نام پر باطل پرست تھے لیکن باطل پرستی کے اس رویہ کو اپنے معاندین کی طرف منسوب کیا کرتے تھے وہ خود بہتان تراش تھے مگر اس کا مرتکب دوسروں کو قرار دیا کرتے تھے، وہ خود تضاد گوتھے مگر اوروں کو ایسا کہا کرتے تھے۔ اس مضمون میں ان کے چند اکاذیب واباطیل کا تذکرہ ہے ملاحظہ فرمائیے یہ امثلہ :
’’ مفکر قرآن‘‘ جناب پرویز صاحب کی ایک کتاب ہے ’’ختم نبوت اور تحریک احمدیت“ اس کے پانچویں ایڈیشن میں جو جولائی ۱۹۹۸ء میں چھپا،’’مصنف کے بارے میں “ تعارف پیش کرتے ہوئے یہ کہا گیا ہے کہ ۔۔۔۔ ’’آپ بر صغیر کے پہلے قرآنی مفکر تھے جن کے دلائل کے نتیجے میں قادیانیوں کو سرکاری سطح پر کافر قرار دیا گیا‘‘۔ علاوہ ازیں طلوع اسلام میں اس کتاب کی تعریف کرتے ہوئے یہ کہا گیا ہے کہ :
’’ ۱۹۲۶ء کی بات ہے کہ (سابق ریاست) بہاولپور کی ایک عدالت میں ایک مقدمہ دائر ہوا جس میں فیصلہ طلب سوال یہ تھا کہ ایک مسلمان مرزائیت (احمدیت) کا مسلک اختیار کر لینے سے دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے یا نہیں۔ نو برس تک یہ مقدمہ زیر سماعت رہا اس نے ملک گیر شہرت حاصل کرلی، اکابر علماء نے اس میں حصہ لیا لیکن سمجھنے کی بجائے مسئلہ الجھتا چلا گیا۔ بالآخر ۱۹۳۵ء میں ڈسٹرکٹ جج بہاولنگر محمد اکبر (مرحوم) نے فیصلہ لکھا، اس میں انہوں نے کہا کہ اتنے طویل عرصہ تک اس مسئلہ پر بحثیں ہوتی رہیں لیکن یہ نکتہ صاف نہ ہوا کہ مقام نبوت کیا ہے اور عقیدہ ختم نبوت کی اسلام میں اہمیت کیا۔ (انہوں نے کہا کہ ) اتفاق سے ایک دن دارالمصنفین اعظم گڑھ کے ماہنامہ ’’معارف ‘‘ میں چوہدری غلام احمد پرویز نامی ایک شخص کا ایک مضمون میری نظر سے گذرا جس نے اس سارے مسئلہ کو سلجھا کر رکھ دیا چنانچہ اسکی روشنی میں فیصلہ یہ ہے کہ احمدیت اختیار کرنے والا دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔ یہ فیصلہ چھپا ہوا موجود ہے اور ہر جگہ دستیاب ہو سکتا ہے۔ پرویز صاحب نے اپنی کتاب ’’ختم نبوت اور تحریک احمدیت“ میں بھی اس کے اقتباسات دیئے ہیں۔ یہاں (ضمناً) اس امر کا تذکرہ بھی نا گزیر ہے کہ ۱۹۷۴ء میں جب ’’احمدیوں‘‘ کو غیر مسلم قرار دیا گیا تو ملک میں ۱۹۳۵ء کے مقدمہ کا بھی بڑا چرچا ہوا اور یہ معلوم کرکے آپ کو حیرت ہو گی کہ ہمارے بڑے بڑے مولوی صاحبان نے اس کا چرچا تو کیا لیکن انتہائی کوشش کی کہ اس سلسلہ میں کسی نوع سے بھی پرویز صاحب کا نام نہ آئے پائے ، اس سے آپ ان حضرات کی تنگ نظری حسد اور بغض کا اندازہ لگالیجیئے ‘‘۔
(طلوع اسلام: نومبر ۱۹۷۶۰ صفحه ۵۲-۵۳)
یہ پورا اقتباس جھوٹ کا پلندہ ہے۔ اس میں سب سے پہلا اور بڑا جھوٹ یہ بولا گیا ہے کہ ۱۹۳۵ء کا فیصلہ بہاولپور پرویز صاحب ہی کی ایک عبارت پر اساس پذیر ہے حالانکہ یہ فیصلہ ان دلائل و براہین کی بنیاد پر ہوا تھا جو بر صغیر کے جید اور ممتاز علماء کرام ( مولانا غلام محمد شیخ الجامعہ عباسیہ بہاولپور ، مولانا مفتی محمد شفیع ، مولانا مرتضی حسن صاحب چاند پوری، مولانا سید انور شاہ کشمیری، وغیر ہم) نے پیش کئے تھے (جیسا کہ اگلی تفصیلی بحث سے واضح ہے)۔
دوسرا جھوٹ وہ بہتان ہے جو جج (مرحوم) پر یہ کہہ کر باندھا گیا کہ انہوں نے فیصلہ لکھا اس میں انہوں نے کہا کہ اتنے طویل عرصہ تک اس مسئلہ پر بخثیں ہوتی رہیں لیکن یہ نکتہ صاف نہ ہو سکا کہ مقام نبوت کیا ہے اور عقیدۂ ختم نبوت کی اسلام میں اہمیت کیا۔ حالانکہ فیصلہ میں جج صاحب کے یہ الفاظ کہیں بھی موجود نہیں ہیں۔
تیسرا جھوٹ بھی دراصل ایک تہمت تراشی ہے جس میں علماء کرام پر تنگ نظری، حسد اور بغض کا فتویٰ عائد کیا گیا ہے یہ کہ کر کہ ’’ انہوں نے (۱۹۷۳ء میں ’’احمدیوں‘‘ کے سرکاری سطح پر کافر قرار پا جانے کے بعد ) ۱۹۳۵ء کے اس فیصلہ کا جب چرچا کیا تو انتہائی کوشش کی کہ اس سلسلہ میں کسی نوع سے پرویز صاحب کا ذکر نہ آئے ۔ حالانکہ اس چرچا میں پرویز صاحب کے ذکر کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ یہ فیصلہ ان کی کسی تحریر یا عبارت پر مبنی تھا ہی نہیں۔
اساس كذب پرویز
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنا بڑا جھوٹ بولنے، لکھنے اور مسلسل شائع کرتے رہنے کی آخر بنیاد کیا ہے؟ تحقیق کی روشنی میں پتہ چلتا ہے کہ اسکی بنیاد صرف یہ ہے کہ ایک مقام پرضمناً جج صاحب نے پرویز صاحب کے ایک اقتباس کی تعریف و تحسین کی ہے اور بس اسی کو بنیاد بنا کر جھوٹ کا یہ فلک بوس قصر تعمیر کیا گیا ہے۔
یہودیوں کی ایک خصلت بد قرآن نے بیان کی ہے کہ وہ چاہتے یہ ہیں کہ ان کی ان کاموں میں بھی تعریف و تحسین کی جائے جو سرے سے انہوں نے کئے ہی نہیں ہیں(یُحِبُّوْنَ اَنْ یُّحْمَدُوْا بِمَا لَمْ یَفْعَلُوْا) ہمارے ’’مفکر قرآن‘‘ صاحب بھی شہرت کی ہوس میں مبتلا ہو کر نا کردہ کارناموں کو اپنے کھاتے میں ڈالتے ہیں اور اس فلک بوس قصر کذب کی بنیادی اینٹ اپنے اس قول کو قرار دیتے ہیں کہ
’’فاضل جج نے لکھا کہ اس مسئلہ کا سارا دارومدار اس بات پر تھا کہ نبوت کی حقیقت کیا ہے اور نبی کسے کہتے ہیں۔‘‘ (ختم نبوت اور تحریک احمدیت ص ۵)
اس وقت ’’ فیصلہ مقدمہ بہاولپور “ کا بالکل وہی نسخہ اور وہی ایڈیشن (جون ۱۹۷۳ء) میری سامنے پڑا ہے جسکا حوالہ پرویز صاحب نے ’’ختم نبوت اور تحریک احمدیت‘‘ میں دیا ہے اس کے کسی مقام پر بھی فاضل جج کا یہ قول مذکور نہیں ہے کہ ’’ اس مسئلہ کا سارا دارو مدار اس بات پر تھا کہ نبوت کی حقیقت کیا ہے اور نبی کسے کہتے ہیں۔“
بات صرف اتنی ہے کہ مقدمہ کی مدعیہ کوئی عالم دین نہ تھی اس نے نبی کی جو تعریف بیان کی اس میں صرف یہ کہا گیا ہے کہ’’ نبوت ایک عہدہ ہے۔ اللہ تعالٰی کی طرف سے اس کے بر گزیدہ بندوں کو عطا کیا جاتا ہے اور نبی اور رسول میں فرق بیان کیا گیا ہے کہ ہر رسول نبی ہوتا ہے اور نبی کے لیے لازمی نہیں کہ وہ رسول بھی ہو۔ فریق ثانی نے بھی بحوالہ نہر اس صفحہ ۸۹ بیان کیا ہے کہ رسول ایک انسان ہے جسے اللہ تعالٰی احکام شریعت کی تبلیغ کے لیے بھیجتا ہے بخلاف نبی کے کہ وہ عام ہے کتاب لائے یانہ لائے۔ رسول کے لیے کتاب لانا شرط ہے، اس طرح رسول کی ایک تعریف یہ بھی کی گئی ہے کہ رسول وہ ہوتا ہے جو صاحب کتاب ہو، یا شریعت کے بعض احکام کو منسوخ کرے۔‘‘
(فیصلہ مقدمہ بہاولپور ص ۱۰۶ تا ص ۱۰۷)
اس کے بعد فاضل جج فرماتے ہیں کہ :
’’ یہ تعریفیں چونکہ اس حقیقت کے اظہار کے لیے کافی نہ تھیں اس لیے میں اس جستجو میں رہا کہ نبی یارسول کی کوئی ایسی تعریف مل جائے جو تصریحات قرآن کی رو سے تمام لوازمات نبوت پرحاوی ہو ‘‘
(فیصلہ مقدمہ بہاولپور صفحہ ۱۰۷)
اس کے بعد وہ (جج صاحب) فرماتے ہیں کہ انہوں نے پروفیسر محمود علی کی کتاب ’’دین وآئین‘‘ میں حقیقت نبوت اور نبی کی تعریف کا مطالعہ کیا لیکن یہ تعریف بھی مجھے دلچسپ معلوم نہ ہوئی۔
(فیصلہ مقدمہ بہاولپور صفحہ ۱۰۷)
یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ فاضل جج نے یہ نہیں کہا کہ یہ تعریف غلط تھی بلکہ یہ کہا کہ ’’ مجھے دلچسپ معلوم نہ ہوئی۔‘‘
اس کے بعد پرویز صاحب کا ذکر آتا ہے اور فاضل جج فرماتے ہیں کہ :
’’ آخر کار ایک رسالہ میں ایک مضمون بعنوان میکانکی اسلام از چودھری غلام احمد صاحب پرویز میری نظر سے گزرا‘‘ اس میں انہوں نے مذہب اسلام کے متعلق آج کل کے روشن ضمیر طبقہ کے خیالات کی ترجمانی کی ہے اور پھر خود ہی اس کے حقائق بیان کئے ہیں، اس سلسلہ میں نبوت کی جو حقیقت انہوں نے بیان کی ہے میری رائے میں اس سے بہتر کوئی اور بیان نہیں کی جاسکتی اور میرے خیال میں فریقین میں سے کسی کو اس پر انکار بھی نہیں ہو سکتا، اس لیے میں ان کے الفاظ میں ہی اس حقیقت کو بیان کرتا ہوں وہ لکھتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(فیصلہ مقدمہ بہاولپور صفحه ۱۰۷)
اس کے بعد پرویز صاحب کا ایک طویل اقتباس دیا گیا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ پرویز صاحب کے اقتباس کی فاضل جج نے تعریف کی ہے اور اس میں شک نہیں کہ پرویز صاحب کی عبارت میں سلامت، بیان میں دلکشی، انداز نگارش میں شگفتگی، الفاظ میں جاذبیت اور تحریر میں ادبی چاشنی خوب ہوا کرتی ہے لیکن یہ بات کہ فاضل جج کا فیصلہ بھی اقتباس پر ویز پر اساس پذیر ہے قطعی غلط ، جھوٹ ، باطل اور خلاف حقیقت ہے ، جس کا کوئی ثبوت محولہ بالا کتاب فیصلہ مقدمہ بہاولپور کے ۱۸۴ صفحات میں سے کسی سطر میں بھی نہیں پایا جاتا۔ یہ پرویز صاحب کی قلمی چابکدستی ہے کہ ان کے اقتباس پر فاضل جج کے تعریفی کلمات کو ’’ محض تعریف و تحسین‘‘ سے آگے بڑھ کر پورے فیصلہ کی بنیاد بنا ڈالا ہے۔
اساس فیصله قرآن وسنت
طلوع اسلام اور پرویز صاحب کے موقف کا غلط اور باطل ہونا اس پہلو سے بھی واضح ہے کہ مقدمہ بہاولپور کا فیصلہ صرف اور تنہا قرآن کی بنیاد پر ہونے کی بجائے ’’قرآن وسنت‘‘ کی بنیاد پر کیا گیا ہے جیسا کہ درج ذیل عبارات سے واضح ہے۔
’’مدعاعلیہ کی طرف سے کتب تفاسیر کے حوالوں پر جو اعتراض کیا گیا ہے اسکے متعلق صرف یہ لکھ دینا کافی ہے کہ ان حوالوں کو نہ یہاں درج کیا گیا ہے اور نہ ہی اس فیصلہ کا انحصاران حوالوں پر رکھا گیا ہے اور سند کے اعتبار سے صرف قرآن مجید اور احادیث کو ہی معیار تصفیہ قرار دیا گیا ہے۔‘‘
(فیصلہ مقدمہ بہاولپور صفحہ ۱۱۱)
اگلے ہی صفحہ پر فاضل جج نے پھر یہ واضح کیا ہے کہ ان کے فیصلہ کا مدار تنہا قرآن پر نہیں بلکہ قرآن اور احادیث رسول پر ہے۔
’’فریقین نے ایک دوسرے کے خلاف خیانت کے الزام لگائے ہیں اور یہ بھی اعتراض کئے ہیں کہ بعض مصنفین کی کتابیں انہیں مسلم نہیں ہیں اس لیے یہ طے کرنے کے لیے کہ کہاں تک خیانت ہوئی اور کس کس مصنف کی کتاب فریقین کے عقائد کے مطابق ہے اور آیادہ فریقین کے مسلمات میں سے بھی ہیں کہ نہ ، اور کہ ان سے جو نتائج اخذ کئے ہیں وہ درست ہیں یانہ اور کہ فریقین کو ان کی رائے کا پابند قرار دیا جا سکتا ہے کہ نہ۔ بہت وقت ، وسیع مطالعہ اور کافی محنت کی ضرورت ہے، اور پھر اس سے نتیجہ کے بھی پورے طور پر واضح اور عام فہم ہو نیکی توقع نہیں۔ اس لیے ایک طرف قرآن مجید اور احادیث پر اور دوسری طرف مرزا صاحب اور ان کے خلفاء کی کتابوں پر حصر رکھ کر تمام حوالہ جات کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔
(فیصلہ مقدمہ بہاولپور صفحه ۱۱۲)
چند صفحات آگے چل کر پھر اس امر کا اعادہ کیا گیا ہے کہ فیصلہ میں قرآن و حدیث کے سواء کسی چیز کو حجت نہیں سمجھا گیا۔
” وحی کے شرعی ہونے کی جو تفریق مدعاعیہ کی طرف سے کی گئی ہے اس کی تائید میں اس نے سوائے اقوال بزرگان کے اور کوئی سند پیش نہیں کی اور ان اقوال کی گو مدعیہ کی طرف سے توجیہ اور تشریح کی گئی ہے اور یہ دکھلایا گیا ہے کہ بزرگان کی ان اقوال سے کیا مراد ہے اور ان کے دیگر صریح اقوال پیش کئے گئے ہیں کہ جن میں وہ رسول اللہ ﷺ کو خاتم النبیین یعنی آخری نبی تسلیم کرتے ہیں اور آپ ﷺ کے بعد کسی اور نبی کا آنا ممکن نہیں سمجھتے لیکن ان پر اس لیے بحث کی ضرورت نہیں کہ وہ قرآن مجید اور احادیث کی مقابلہ میں کوئی حجت نہیں ہو سکتے اور مدعا علیہ کی طرف سے جو اعتراض مدعیہ پر عائد کیا گیا تھا کہ وجوہات تکفیر کے ضروریات دین ہونے کے متعلق قرآن یا حدیث سے کوئی ثبوت پیش نہیں کیا وہ بدرجہ اولٰی خود مدعاعلیہ پر وارد ہوتا ہے کہ اس نے شرعی اور غیر شرعی وحی کی جو تقسیم کی ہے اس کے متعلق کوئی ثبوت قرآن یا احادیث سے پیش نہیں کیا۔ ‘‘
(فیصلہ مقدمہ بہاولپور صفحہ ۱۲۱)
ان تمام اقتباسات سے یہ واضح ہے کہ مقدمہ بہاولپور کا فیصلہ صرف قرآن کی بنیاد پر نہیں بلکہ قرآن و احادیث یا کتاب و سنت کی بنیاد پر طے ہوا تھا۔
پرویز صاحب کا تعلی آمیز دعویٰ اور فاضل جج پربہتان
( یُحِبُّوْنَ اَنْ یُّحْمَدُوْا بِمَا لَمْ یَفْعَلُوْا) کے مرض میں مبتلا اور جنون کی حد تک ہوس شہرت کے مارے ہوئے ہمارے ’’مفکر قرآن‘‘ صاحب یہ تعلی آمیز دعوی کرتے ہیں:
’’ مذکورہ بالا فیصلہ میں فاضل جج نے لکھا کہ ان کی عدالت میں (غیر منقسم) ہندوستان کے بڑے بڑے جید علماء حضرات پیش ہوئے جن میں سے ایک ایک کا بیان سینکڑوں صفحات پر مشتمل تھا لیکن وہ حقیقت نبوت کے متعلق ان میں سے کسی کے بیان سے بھی مطمئن نہ ہو سکے‘‘
(ختم نبوت اور تحریک احمدیت ص ۶)
یہ دعوی دلیل سے عاری اور کذب خالص ہے ، پرویز صاحب نے محض اپنے اقتباس کی تعریف سے یہ نتیجہ کشید کیا ہے ورنہ خود فاضل جج نے یہ کہیں نہیں لکھا کہ علماء میں سے وہ کسی کے بیان سے بھی مطمئن نہیں ہوئے۔ (فیصلہ مقدمہ بہاولپور مطبوعہ جون ۱۹۷۳ء) کے ۱۸۴ صفحات میں کسی صفحہ کی کسی سطر میں بھی ان کا یہ بیان موجود نہیں ہے۔
فيصله كن نكته ختم نبوت يا حقيقت نبوت؟
امر واقعہ یہ ہے کہ اس مقدمہ میں اصل فیصلہ کن نکتہ لفظ ’’خاتم النبیین‘‘ کا مفہوم تھا جس کا مفہوم و معنی قادیانیت کے علمبرداروں کے ہاں ’’نبیوں کی مہر‘‘ اور امت رسول ہاشمی کے نزدیک ’’آخری نبی‘‘ ہے۔ اول الذکر مفہوم کا تقاضا ’’اجراء نبوت“ جبکہ ثانی الذکر مفہوم کا نتیجہ ” ختم نبوت“ قرار پاتا ہے۔ رہا پرویز صاحب کا ’’اقتباس جو فیصلہ مقدمہ بہاولپور“ کی صفحہ ۱۰۷ تا صفحہ ۱۰۹ تک پھیلا ہوا ہے تو اس میں لفظ ’’خاتم النبیین‘‘ کے مفہوم کی وضاحت سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ اب فریقین مقدمہ کے ہاں’’ خاتم النبیین ‘‘ کا لفظ تو بلاشبہ متفق علیہ تھا لیکن اس کے معنی و مفہوم میں فریقین بر سر اختلاف تھے۔ اس کا حتمی فیصلہ خارج از قرآن کسی ماخذ یا ہستی ہی سے ممکن تھا اور وہ ہستی اور ماخذ نبی اکرم ﷺ اور ان کی احادیث کے علاوہ اور کون اور کیا چیز ہو سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فاضل جج نے اپنا فیصلہ تنہا قرآن کی بجائے ” قرآن و حدیث “ یا ” کتاب وسنت‘‘ کی بنیاد پر کیا ہے۔
بناء فاسد على الفاسد :
اس کے بعد پرویز صاحب دلیل سے عاری اور کذب خالص پر مبنی اپنے تعلی آمیز دعوائے باطل کی بناہ فاسد پر ایک اور فاسد کارد یوں جماتے ہیں:
وہ( جج صاحب) مطمئن ہوئے تو میرے ایک ایسے مضمون سے جو اس مقدمہ سے بالکل آزاد الگ لکھا گیا تھا، سوال یہ ہے کہ میرے مضمون کی وہ کون سی خصوصیت تھی جسکی بناء پر وہ اس قدر اطمینان بخش ثابت ہو گیا۔ یہ ظاہر ہے کہ جہاں تک متداول علوم شرعیہ (فقہ، حدیث وغیرہ) کا تعلق ہے ان علماء کرام کا مقام بہت بلند تھا جو اس عدالت میں پیش ہوئے تھے لیکن میرے مضمون کی خصوصیت یہ تھی کہ اس کی بنیاد خالص قرآنی حقائق پر تھی۔ میں اس میں فقہ اور روایات پر مبنی بحثوں میں الجھا ہی نہیں تھا۔ ختم نبوت کا مسئلہ جو قادیانی اور غیر قادیانی حضرات میں ساٹھ ستر برس سے مسلسل بحث و نظر کا موضوع بنے چلا آرہا ہے اور بھنور میں پھنسی ہوئی لکڑی کی طرح ایک ہی مقام پر مصروف گردش ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس بحث کا مدار روایات پر ہوتا ہے اور روایات کی کیفیت یہ ہے کہ ان کے مجموعوں میں مخالف اور موافق ہر ایک کو اپنے اپنے مطلب کے مطابق روایات مل جاتی ہیں، نتیجہ اس کا یہ ہوتا ہے کہ بحث اصل موضوع سے ہٹ کر فریقین کی طرف سے پیش کردہ حدیثوں کے صحیح یا ضعیف ہونے پر مرکوز ہو جاتی ہے اور یوں محمل لیلٰی، غبار ناقہ لیلٰی میں گم ہو کر رہ جاتا ہے۔ اس کے بر عکس قرآن جو کچھ پیش کرتا ہے حتمی یقینی اور دو ٹوک پیش کرتا ہے اور یہ ممکن ہی نہیں کہ کسی مسئلہ کے متعلق اس میں فریقین کو اپنے اپنے مطلب کے مطابق اختلافی آیات مل جائیں، یہ وجہ ہے کہ میں روایات میں نہیں الجھتا میں جو کچھ پیش کرتا ہوں اسکی اساس قرآنی دلیل پر ہوتی ہے اور فریق مخالف سے بھی قرآنی دلیل کا مطالبہ کرتا ہوں نتیجہ یہ کہ بات بالکل نکھر کر سامنے آجاتی ہے۔
(ختم نبوت اور تحریک احمدیت صفحہ ۲تا۷)
خودستائی پر مبنی اس اقتباس میں پرویز صاحب نے حسب عادت قرآنی حقائق و معارف میں علماء کرام کو اپنی برتری جتاتے ہوئے اختلاف روایات کا جورونا رویا ہے اور اس کے ساتھ قرآن مجید کی حتمی یقینی اور دوٹوک ہونے کی جو دہائی دی ہے وہ ان کی مستقل جرنلسٹک ٹیکنیک کا ایک خاص حربہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ ختم نبوت کے مسئلہ پر وہ کون سی احادیث ہیں ۔۔۔ ’’ جن میں قادیانی اور غیر قادیانی حضرات کو اپنے اپنے مطلب کی روایات مل جاتی ہیں نتیجہ اس کا یہ ہوتا ہے کہ بحث اصل موضوع سے ہٹ کر فریقین کی طرف سے پیش کردہ حدیثوں کے صحیح یا ضعیف ہونے پر مرکوز ہو جاتی ہے اور محمل لیلٰی، غبار ناویر لیلی میں گم ہو کر رہ جاتا ہے‘‘ ؟۔۔۔ کیا احادیث میں سے کسی ایک روایت کی بھی نشان دہی کی جاسکتی ہے جس میں ختم نبوت کی بجائے اجرائے نبوت کا مضمون پیش کیا گیا ہو ؟ چھوڑیئے صحیح اور ضعیف کی بحث، آپ کوئی کمزور روایت ہی پیش کردیں جس میں ختم نبوت کے منافی عقیدہ بیان کیا گیا ہو۔ جب ایسی کوئی روایت موجود ہی نہیں ہے تو پھر احادیث کے خلاف یہ ژاژخائی اور ہرزہ سرائی کیا محض اپنی فکر کے کھوٹے سکوں کو چلانے کے لیے پیتل پر سونے کی ملمع کاری نہیں ہے۔
پھر قرآن کریم کے بارے میں’’ حتمی، یقینی اور دو ٹوک‘‘ ہونے کا اعلان کر کے اللہ تعالٰی کو اس کی شاعری کی داد وہ شخص دے رہا ہے جسکے نظریات دوٹکے کی جنتری کی طرح ہر سال بدل جایا کرتے ہیں۔ آج کچھ کل کچھ ، یہاں کچھ وہاں کچھ ، کبھی کچھ ، کبھی کچھ ، حجاب نسواں، گیت سنگیت و موسیقی ، مصوری و تمثال سازی ، ملکیت مال وارضی، ضبط تولید ، خلیفۃ اللہ اور خلافت الہیہ ، انسانی فطرت ،وقت موت کا تقرر و تعین ، دین ومذہب کا مترادف المفہوم یا مختلف المفہوم ہونا، نیز سنت رسول ﷺ یا اسوہ نبی کا ماخذ قانون اسلام ہونا، الغرض ان تمام امور میں اور ان جیسے دیگر امور میں وہ کون سا امر ہے جس میں واضح تضاد و تناقض کا مفہوم اختیار کرنے کی بجائے ایک ہی ’’حتمی یقینی اور دو ٹوک‘‘ مفہوم اختیار کیا گیا ہو؟ اور لطف یہ کہ قرآن یہ بدلتے ہوئے معانی و مفاہیم ’’ قرآن ہی کی روشنی میں‘‘ اپنائے گئے ہیں۔
مزید برآں نہ معلوم کسے دھوکہ دینے کے لیے ’’مفکر قرآن‘‘ صاحب قرآن کی بابت یہ اعلان فرماتے ہیں کہ ۔۔۔
’’ یہ ممکن ہی نہیں کہ کسی مسئلہ کے متعلق اس میں فریقین کو اپنے اپنے مطلب کے مطابق اختلافی آیات مل جائیں۔ آیات تو یقیناً چودہ سو سال سے وہی ہیں لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ تنہا قرآن ہی کو سند و حجت مانے والے (سمن آباد ، لاہور کے ) ’’ بلاغ القرآن ‘‘ والوں اور (گلبرگ لاہور کے) ’’طلوع اسلام‘‘ والوں میں بھی اختلافات پائے جاتے ہیں اور وہ بھی اس حد تک کہ طلوع اسلام سے وابستہ حضرات بلاغ القرآن کیمپ سے وابستہ افراد کی نہ صرف تضلیل کرتے ہیں بلکہ انہیں دشمن قرآن اور کتاب اللہ کو بد نام کرنے والے بھی قرار دیتے ہیں۔ کیا ان دونوں ٹولوں کو اپنے اپنے مطلب کے مطابق اختلافی آیات نہیں ملی ہیں ؟ کیا واقعی یہ دونوں طائفے قرآن کی بنیاد پر’’ حتمی یقینی اور دوٹوک“ موقف پر متفق الرائے ہو گئے ہیں؟ کیا فی الحقیقت ایک گروہ کے ” قرآنی دلائل “ کے مقابلہ میں دوسرے گروہ کے ’’قرآنی دلائل‘‘ کے سامنے آجانے سے بات بالکل نکھر کر سامنے آگئی ہے ؟ جبکہ امر واقعہ یہ ہے کہ ان دونوں میں سے ہر ایک کو قرآنی آیات میں کھینچ تان کے ذریعہ اپنی اپنی مصلحت کی سند مل رہی ہے جیسا کہ خود ’’مفکر قرآن“ صاحب کا فرمان ہے کہ :
’’جب کوئی قرآن کو مسخ کرنے پر اتر آئے تو اسے اس سے اپنی کون سی مصلحت کی سند نہیں مل سکتی۔‘‘
(طلوع اسلام اکتوبر ۱۹۷۹ صفحه ۱۳)
اور دوسری طرف یہ فرماتے ہیں کہ ۔۔۔’’یہ ممکن ہی نہیں کہ کسی مسئلہ کے متعلق اس (قرآن) میں فریقین کو اپنے اپنے مطلب کے مطابق اختلافی آیات مل جائیں‘‘۔
اور پھر ساتھ ہی یہ دعوی کہ ۔۔۔ ’’میں جو کچھ پیش کرتا ہوں اسکی اس قرآنی دلائل پر ہوتی ہے اور طریق مقابل سے بھی قرآنی دلائل کا مطالبہ کرتا ہوں نتیجہ یہ کہ بات بالکل نکھر کر سامنے آجاتی ہے۔۔۔ ‘‘ حالانکہ جو بات ’’مفکر قرآن ‘‘ صاحب کے قرآنی دلائل سے نکھر کر سامنے آتی ہے وہ ان کے نت نئے تضادات و تناقضات کا وسیع و عریض خارزار ہے اور مسئلہ ختم نبوت کے ضمن میں ’’ مفکر قرآن“ صاحب کے اقتباس کی تعریف و تحسین کے باوجود بھی فاضل جج نے اپنا فیصلہ تنہا ’’ قرآنی دلائل‘‘ کی بنیاد پر کرنے کی بجائے قرآن اور احادیث کی روشنی میں کیا ہے، شاید فاضل جج ’’ بات کو نکھارنے‘‘ کی بجائے روایات احادیث میں الجھا کر ” محمل لیلٰی غبار ناقہ لیلٰی میں گم کر دینا چاہتے تھے “۔
علماء کرام ( با لخصوص وہ جو اس مقدمہ میں بطور گواہ پیش ہوئے) کے متعلق محولہ بالا اقتباس کی بین السطور میں یہ اشارہ بھی کیا گیا ہے کہ وہ فاضل جج کے نزدیک حقیقت نبوت سے ناآشنا تھے اور یہ حقیقت صرف پرویز صاحب کے اقتباس ہی سے بے نقاب ہوتی ہے۔ حالانکہ فاضل جج نے اپنے فیصلہ میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ ۔۔۔ ”علماء، نبی اور نبوت کی حقیقت سے ناواقف ہیں“۔۔۔ جو کچھ انہوں نے لکھا ہے وہ صرف یہ ہے کہ :
’’موجودہ زمانہ میں بہت سے مسلمان نبی کی حقیقت سے بھی نا آشنا ہیں‘‘۔
(فیصلہ مقدمہ بہاولپورصفحه ۱۰۲)
لیکن ’’ مفکر قرآن‘‘ صاحب کی ذہنی خیانت اور قلمی بد دیانتی ملاحظہ فرمائیے کہ وہ ”بہت سے مسلمان‘‘ سے مراد ’’ علماء کرام ‘‘ لیتے ہیں اور پھر ان کی وجہ ناواقفیت اس بات کو قرار دیتے ہیں کہ ’’وہ روایات حدیث میں الجھے ہوئے ہیں “ اور پرویز صاحب اپنی خوبی یہ بیان کرتے ہیں کہ ’’ میں فقہ اور روایات پر مبنی بحثوں میں الجھتا ہی نہیں “۔
’’ مفکر قرآن‘‘ صاحب نے اپنے جس اقتباس کی تعریف و تحسین سے یہ باطل نتیجہ کشید کیا ہے کہ فاضل جج کا فیصلہ ان کی نگارش پر اساس پذیر ہے اسے خود انہوں نے اپنی کتاب ’’ختم نبوت اور تحریک احمدیت‘‘ میں پیش نہیں کیا تا کہ یہ اقتباس لوگوں کی نگاہوں سے مخفی رہ کر ان کے ذہن میں اس کا بلند پایہ اور گراں بہا ہونے کا تصور بر قرار ر ہے کیونکہ اس کے پیش کر دینے سے یہ تاثر زائل ہو جاتا ہے، اس لیئے کہ اس میں کوئی ایسی انوکھی اور نرالی بات نہیں ہے جو علماء کرام کی کتب و تصانیف میں موجود نہ ہو البتہ جج صاحب نے اس کا متن اپنے فیصلہ میں بایں الفاظ پیش کیا ہے:
آج کل کے معقولیت پسندوں کی جماعت کے نزدیک رسول کا تصور یہ ہے کہ وہ ایک سیاسی لیڈر اور مصلح قوم ہوتا ہے جو اپنی قوم کی حکمت اور زبوں حالی سے متاثر ہو کر انہیں فلاح و بہبود کی طرف بلاتا ہے اور تھوڑے ہی دنوں میں ان کے اندر انضباط وایثار کی روح پھونک کر زمین کے بہترین خطوں کا ان کو مالک بنا دیتا ہے۔ اس کی حقیقت قوم کے ایک امیر کے قسم کی ہوتی ہے جن کے ہر حکم کا اتباع اس لیے لازمی ہوتا ہے کہ انحراف سے قوم کی اجتماعی قوت میں انتشار پیدا ہو جانے کا خطرہ ہوتا ہے اور وہ دنیاوی نعمتیں جو اسکے حسن تدبر سے حاصل ہوئی تھیں ان کے چھن جانے کا احتمال ہوتا ہے۔ اس کا حسن تدبر ، عقل، حکمت ذہنی، انسان کی ارتفاع کی بہترین کڑی ہوتا ہے اس لیے وہ اپنے ماحول کا بہترین مفکر شمار کیا جاتا ہے، کثرت ریاضت سے برائی کی قوتیں اس سے سلب ہو جاتی ہیں اور نیکی کی قوتیں نمایاں طور پر ابھر آتی ہیں، انہی قوتوں کا نام ان کے نزدیک ابلیس اور ملائکہ ہے اس کا حوالہ پھر انہوں نے بحوالہ آیات قرآنی دیا ہے۔ کہ رسول بلا شبه مصلح اور مد بر ملت ہوتا ہے لیکن اس کی حقیقت دنیاوی مصلحین اور مدبرین سے بالکل جداگانہ ہوتی ہے ، دنیاوی مفکرین ومد برین اپنے ماحول کی پیداوار ہوتے ہیں اور ان کا فلسفہ اصلاح و بہبود ان کی اپنی پرواز فکر کا نتیجہ ہوتا ہے جو کبھی صحیح اور کبھی غلط ہوتا ہے۔ بر عکس اس کے انبیاء کرام مامور من اللہ ہوتے ہیں اور ان کا سلسلہ اس دنیا میں خاص مشیت باری تعالٰی کے ماتحت چلتا ہے ۔ وہ اپنے ماحول سے متاثر اور نہ احوال و ظروف کی پیداوار ہوتے ہیں بلکہ ان کا انتخاب مملکت ایزدی سے ہوتا ہے اور ان کا سر چشمہ علوم و ہدایت علم باری تعالٰی سے ہوتا ہے جس میں کسی سہو و خطا کی گنجائش نہیں ۔ ان کا سینہ علم لدنی سے معمور اور ان کا قلب تجلیات نور ازلی سے منور ہوتا ہے۔
دنیاوی سیاست و تفکر صفت ہے جو اکتساباً حاصل ہوتی ہے اور مشق و مہارت سے یہ ملکہ بڑھتا ہے لیکن نبوت ایک موہت ربانی اور عطاء یزدانی ہے جس میں کسب و مشق کو کچھ دخل نہیں۔ قوم وامت کے ترقی ان کی بھی پیش نظر ہوتی ہے لیکن سب سے مقدم اخلاق انسانی کی اصلاح مقصود ہوتی ہے ، اس کا پیغام زمان و مکان کی قیود سے بالا ہوتا ہے، اور وہ تمام انسانوں کو راستہ دکھلانے والا اور ان کا مطاع ہوتا ہے اس کی اطاعت خدا کی اطاعت اور اس کی معصیت خدا کی معصیت ہے اور جو لائحہ حیات اس کی وساطت سے دنیا کو ملتا ہے اس میں کوئی دنیاوی طاقت رد و بدل نہیں کر سکتی بلکہ دنیا بھر کی عقول میں جہاں کہیں اختلاف ہو اس کا فیصلہ اسی مشعل ہدایت سے ہو سکتا ہے، ان کو خدائی پیغام ملائکہ کی وساطت سے ملتے ہیں جوا گرچہ عالم امر سے متعلق ہونے کی وجہ سے سرحد اور اک انسانی سے بالا تر ہیں لیکن ان کا وجود محض انسان کی ملکوتی قوتیں نہیں ہیں۔ ‘‘
(فیصلہ مقدمہ بہاولپور صفحہ ۱۰۷تا ۱۰۹)
اس اقتباس کو بار بار پڑھئے اور بتائیے کہ ان میں سے وہ کون سی چیز ہے جسے علماء کرام اپنی تقریروں اور تحریروں میں پیش نہیں کرتے ہیں بلکہ از روئے قرآن حقیقت نبوت میں بعض ایسے امور بھی ہیں جو اقتباس پرویز میں شامل ہی نہیں ہیں مثلاً نبی کا اس درجہ احترام کہ اس کے حضور رفع صوت بھی موجب حبط اعمال ہے ، ان کی ازواج مطہرات کا ایسا ادب اور ان کی ایسی تعظیم کہ وہ اہل ایمان کے لیے بمنزلہ ماں کے ہیں جن کے ساتھ بعد وفات رسول بھی نکاح جائز نہیں ہے۔ ان کے قضایا کو اس طرح تسلیم کرنا کہ ان کے بارے میں دلوں میں کوئی گھٹن اور تنگی تک نہ پائی جائے ورنہ یہ چیز دائرہ ایمان سے باعث خروج ہو گی۔ نبی ﷺ اپنی نبوت کے اظہار سے پہلے سیرت و کردار کے اعتبار سے صالح ترین انسان ہوتا ہے اور کردار کی یہی صالحیت اسکی نبوت کی دلیل بن جاتی ہے۔ اظہار نبوت کے بعد بھی وہ اللہ تعالٰی کی نگاہ نگرانی کے کڑے پہرے میں رہتا ہے اور بال برابر بھی اس کا قدم غیر شعوری طور پر راہ راست سے ڈگمگا جائے تو وحی اسے متنبہ کر کے پھر سے اس کے قدم کو جادۂ مستقیم پر جما دیتی ہے۔
’’مفکر قرآن“ نے اس اقتباس کو اپنی کتاب ’’ ختم نبوت اور تحریک احمدیت‘‘ میں شاید صرف اس لیے پیش نہیں کیا کہ ایک طرف وہ اسے لوگوں کی نظروں سے مخفی رکھ کر اپنے تبحر علم کا اظہار کر سکیں اور دوسری طرف وہ علماء کرام کو ناواقف حقیقت نبوت قرار دے سکیں کیونکہ اس اقتباس کی سامنے آجانے سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ اس میں کوئی ایسی بات نہیں جو علماء کرام کی تقاریر و کتب میں موجود نہ ہو۔
قرائن سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ فاضل حج خود اپنے طور پر حقیقت نبوت کو جاننے کی کوشش کرتے رہے تو انہیں پر ویز صاحب کا اقتباس مل گیا ورنہ دور ان کا روئی اگر عدالت ہی میں انہوں نے کسی عالم سے پوچھا ہوتا تو یقیناً جید علمائے کرام میں سے کیا کوئی عالم دین اسے واضح کر دیتا، کیونکہ خودان علماء کی کتب میں اس موضوع پر کہیں زیادہ تفصیل پائی جاتی ہے یہ نسبت اسکے جو اقتباس پر ویز میں موجود ہے۔
’’ مفکر قرآن‘‘ صاحب فاضل جج کی طرف سے اپنے اقتباس کی تعریف سے یہ غلط نتیجہ برآمد کرتے ہیں کہ ان کا اقتباس ہی عدالتی فیصلے کی اساس قرار پایا تھا۔ اگر یہ کوئی واقعی اصول ہے کہ کسی اقتباس کی تعریف و تحسین کا لازمی نتیجہ اس اقتباس کا مدار فیصلہ بن جاتا ہے تو پھر علماء کرام کے عدالت میں پیش کردہ شہادتی بیانات کو کیوں نہ اساس فیصلہ قرار دیا جائے ؟ جبکہ اس جج نے ان کی نہ صرف یہ کہ تعریف و تحسین فرمائی بلکہ ان کے دلائل کی تصدیق، تائید اور تصویب بھی فرمائی۔ ملاحظہ فرمائیے ، چند اقتباسات:
(۱) ’’مرزا صاحب کے عقائد کے متعلق سید انور شاہ، گواہ مدعیہ نے نہایت عمدہ جواب دیا ہے ، وہ کہتے ہیں کہ ۔۔۔۔۔‘‘ (فیصلہ مقدمہ بہاولپور صفحہ ۱۰۲)
(۲) ’’مدعاعلیہ کی طرف سے مرزا صاحب کی بعض کتب کے حوالے دیئے جا کر یہ کہا گیا ہے کہ مرزا صاحب نے کسی نبی کی توہین نہیں کی اس کا جواب سید انور شاہ صاحب گواہ مدعیہ نے خوب دیا ہے وہ کہتی ہیں کہ ۔۔۔۔۔ ‘‘ (فیصلہ مقدمہ بہاولپور صفحہ ۱۷۰)
ان عبارات میں سید انور شاہ صاحب کے جواب کو ’’نہایت عمدہ‘‘ اور ’’خوب ‘‘کہہ کر اسکی تعریف و تحسین اور تصویب و تصدیق کی گئی ہے ۔ علاوہ ازیں’’ فیصلہ مقدمہ بہاولپور“ کے صفحات۱۵۵،۱۵۷ اور ۷۲ا پر بھی ان کے بیانات کی تصدیق و پذیرائی موجود ہے۔ مزید برآں بعض مقامات پر جملہ علماء کرام (جو بطور گواہ پیش ہوئے تھے) کی تعریف و تصدیق کی گئی ہے مثلاً ایک مقام پر مدعاعلیہ (یعنی مدعیہ کا قادیانی شوہر ) جب گواہان مقدمہ کی (پرویز صاحب ہی کی طرح) یہ کہہ کر توہین و تحقیر کرتا ہے کہ ۔۔۔۔یہ’’ لوگ ، دقیانوسی خیالات کے پیرو ، اور مرض تکفیر میں مبتلا ہیں‘‘ اور یہ کہ ’’ انہوں نے اپنی پرانی عادت سے مجبور ہو کر ، براہ بغض اور کینہ ، انہیں یعنی قادیانیوں کو کافر قرار دیا ہے“ ۔۔۔ تو فاضل جج جواباً یہ فرماتے ہیں کہ ۔۔۔
’’میں نہیں کہتا کہ علماء غلطی نہیں کرتے یا یہ کہ وہ انسانی کمزوریوں سے پاک ہیں ، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کی کسی رائے کو وقعت کی نگاہ سے نہ دیکھا جائے اور ان کی کسی بات پر کان نہ دھرا جائے بلکہ چاہئے کہ ان کے اقوال پر ٹھنڈے دل سے غور کیا جائے اور یہ دیکھا جائے کہ کہاں تک راستی پر ہیں۔ مسئلہ نبوت کے بارہ میں انہوں نے جو کچھ کہا ہے وہ صداقت سے خالی نہیں۔ ‘‘
(فیصلہ مقدمہ بہاولپور، صفحہ ۱۱۱)
ایک اور مقام پر فاضل جج جملہ گواہان کی تصدیق و تصویب یوں فرماتے ہیں:
’’ گواہان مدعیہ نے یہ درست کہا ہے کہ حضور ﷺ کے بعد وحیٔ نبوت جاری ہوتی تو قرآن میں ضرور اسکی وضاحت فرما دی جاتی۔ ‘‘
(فیصلہ مقدمہ بہاولپور صفحہ (۱۲۲)
اگر پرویز صاحب اپنے صرف ایک اقتباس کی اور وہ بھی صرف ایک مقام پر تعریف و تحسین کی بناء پر خود کو حق بجانب سمجھتے ہیں کہ وہ پورے فیصلہ یہ مقدمہ کو اپنی اقتباس پر مبنی سمجھ بیٹھیں، تو پھر اس کارنامے کے وہ علماء کرام بدرجہ اولی مستحق ہیں جنکے کئی بیانات کی کئی مقامات پر تعریف و تحسین بھی کی گئی ہے اور
تصدیق و تائید بھی۔
قابل غور امر
یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اگر فاضل جج کا فیصلہ فی الواقع پرویز صاحب ہی کے اقتباس پر مبنی ہو تا تو اس کے بعد علماء کرام کے بیانات اور اقتباسات پیش نہ کئے جاتے اور پرویز صاحب کے اقتباس کے فوراً بعد ہی عدالتی فیصلہ طے کر دیا جاتا لیکن ’’روداد مقدمہ بہاولپور‘‘ کو دیکھتے ہوئے پتہ چلتا ہے کہ اقتباس پرویز (جو صفحه ۱۰۷ تا ۱۰۹ اتک ممتد ہے ) اثناء بحث معرض تعریف میں آیا اور پھر عدالتی بحث (اقتباس پرویز سے پہلے بھی اور بعد میں بھی گواہان مقدمہ اور فریقین مقدمہ کے شہادات اور بیانات پر ہی حاوی رہی۔
مدار فیصله حقیقت نبوت یا ختم نبوت؟
’’مفکر قرآن‘‘ صاحب نے اپنے قارئین اور عقید تمندوں کو یہ باور کروارکھا ہے کہ مقدمہ بہاولپور کا فیصلہ فاضل جج نے اس حقیقت نبوت کی بنیاد پر کیا ہے جسے ان کے اقتباس میں پیش کیا گیا تھا، جبکہ امر واقعہ یہ ہے کہ اس فیصلے کا مدار لفظ ’’ خاتم النبیین “ کا حقیقی مفہوم (یعنی آخری نبی) تھا۔ ملاحظہ فرمائیے فاضل جج کے مندرجہ ذیل اقتباسات:
’’ اس بحث کے بعد اب اصل تنازعہ کو طے کرنے کے لیے یہ بتلاتا ہے کہ اسلام کے وہ کون سے بنیادی اصول ہیں کہ جن سے اختلاف کرنے سے ارتداد واقع ہو جاتا ہے یہ کہ کن اسلامی عقائد کی پیروی نہ کرنے سے ایک شخص مرتد سمجھا جا سکتا ہے اور کہ قادیانی عقائد سے ارتداد واقع ہو جاتا ہے کہ نہ۔
اوپر کی بحث سے یہ ثبت کیا جاچکا ہے کہ مسئلہ ختم نبوت اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ہے اور کہ رسول اللہ ﷺ کو خاتم النبیین بایں معنی نہ ماننے سے کہ آپ آخری نبی ہیں، ارتداد واقع ہو جاتا ہے اور کہ عقائد اسلامی کی رو سے ایک شخص کلمہ یا کفر کہہ کر بھی دائرہ اسلام سے خارج ہو سکتا ہے۔
مدعاعلیہ ، مرزا غلام احمد صاحب کو عقائد قادیانی کی رو سے نبی مانتا ہے اور ان کی تعلیم کے مطابق یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ امت محمدیہ میں قیامت تک نبوت جاری ہے یعنی کہ وہ رسول اللہ ﷺ کو خاتم النبیین بمعنی آخری نبی تسلیم نہیں کرتا، آنحضرت ﷺ کے بعد کسی دوسرے شخص کو نیا نبی تسلیم کرنے سے جو قباحتیں لازم آتی ہیں ان کی تفصیل اوپر بیان کی جاچکی ہے اس لیے مدعاعلیہ اس اجماعی عقیدہ سے منحرف ہونے کی وجہ سے مرتد سمجھا جاوے گا اور اگر ارتداد کے معنی کسی مذہب کے اصولوں سے بکلی انحراف کے لیے جاویں تو بھی مدعاعلیہ مرزا صاحب کو نبی ماننے سے ایک نئے مذہب کا پیرو سمجھا جائے گا کیونکہ اس صورت میں اس کے لیے قرآن کی تفسیر اور معمول بہ مرزا صاحب کی وحی ہو گی نہ کہ احادیث واقوال فقہاء جن پر اس وقت تک مذہب اسلام قائم چلا آیا ہے اور جن سے بعض کے مستند ہونے کو خود مرزا صاحب نے بھی تسلیم کیا ہے۔‘‘
(فیصلہ مقدمہ بہاولپور صفحه ۱۸۰ تا ۱۸۱)
چنانچہ اس کے بعد مدعیہ کے حق میں فیصلہ سناتے ہوئے، فاضل جج نے فرمایا کہ :
’’مدعیہ کی طرف سے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ مرزا صاحب کاذب مدعی نبوت ہیں اس لیے مدعاعلیہ بھی مرزا صاحب کو تسلیم کرنے سے مرتد قرار دیا جائے گا لٰہذا ابتدائی تنقیحات جو ۴ نومبر ۱۹۲۶ء کو عدالت منصفی احمد پور شرقیہ سے وضع کی گئی تھیں بحق مدعلیہ ثابت قراردیجا کر یہ قرار دیا جاتا ہے کہ مدعاعلیہ قادیانی عقائد اختیار کرنے کی وجہ سے مرتد ہو چکا ہے لہذا اس کے ساتھ مدعیہ کا نکاح تاریخ ارتداد مدعاعلیہ سے فسخ ہو چکا ہے اور مدعاعلیہ کے عقائد کو بحث مذکورہ بالا کی روشنی میں دیکھا جائے تو بھی مدعاعلیہ کے ادعا کے مطابق مدعیہ یہ ثابت کرنے میں کامیاب رہی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد کوئی امتی نبی نہیں ہو سکتا اور یہ کہ اس کے علاوہ جو دیگر عقائد مدعاعلیہ نے اپنی طرف منسوب کئے ہیں وہ گوعام اسلامی عقائد کے مطابق ہیں لیکن ان تمام عقائد پر وہ انہی معنوں میں عمل پیرا سمجھا جائے گا جو معنی مرزا صاحب نے بیان کئے ہیں اور یہ معنیٰ چونکہ ان معنٰوں کے مغائر ہیں جو جمہور امت آج تک لیتی آئی ہے اس لیے وہ بھی مسلمان نہیں سمجھا جا سکتا اور ہر دو صورتوں میں وہ مرتد ہی ہے اور مرتد کا نکاح چونکہ ارتداد سے نسخ ہو جاتا ہے لمدار گری بدیں مضمون بحق مدعیہ صادر کی جاتی ہے کہ وہ تاریخ ارتداد مدعاعلیہ سے اس کی زوجہ نہیں رہی۔ مدعیہ خرچ مقدمہ بھی، ازاں مدعاعلیہ لینے کی حقدار ہوگی۔ ‘‘
( فیصلہ بہاولپور صفحہ۱۸۲ تا صفحه ۱۸۳)
اس کے بعد مدعاعلیہ نے اپنے حق میں چند قانونی نظائر پیش کئے جنہیں فاضل جج نے معقول وجوہ کی بنا پر رد فرمادیا اور ساتھ ہی مدعاعلیہ نے ایک اور سوال اٹھادیا جس کے متعلق فاضل جج نے اپنے فیصلہ میں معقول جواب دیا، چونکہ سوال اور پھر اسکا جواب ایک اہم چیز ہے اس لیے اس کو افادہ عام کی لیے یہاں درج کرنا ضروری ہے۔
’’اس ضمن میں مدعا علیہ کی طرف سے ایک سوال یہ پیدا کیا گیا ہے کہ ہر دو فریق چونکہ قرآن مجید کو کتاب اللہ مانتے ہیں اور اہل کتاب کا نکاح جائز ہے اس لیے مدعیہ کا نکاح فسخ قرار نہیں دینا چاہئے۔ اس کے متعلق مدعیہ کی طرف سے کہا گیا کہ جب دونوں فریق ایک دوسرے کو مرتد سمجھتے ہیں تو ان کے اپنے عقائد کی رو سے بھی ان کا باہمی نکاح قائم نہیں رہتا، علاوہ ازیں اہل کتاب عورتوں سے نکاح کرنا جائز ہے نہ کہ مردوں سے بھی۔ مدعیہ کے دعوی کی رو سے چونکہ مدعاعلیہ مرتد ہو چکا ہے اس لئے اہل کتاب ہونے کی حیثیت سے بھی اس کے ساتھ مدعیہ کا نکاح قائم نہیں رہ سکتا، مدعیہ کی یہ حجت وزن دار پائی جاتی ہے لہذا اس بناء پر بھی وہ ڈگری پانے کی مستحق ہے۔ ‘‘
(فیصلہ مقدمہ بہاولپور صفحہ ۱۸۳)
مقدمہ فیصلہ بہاولپور کے حوالہ سے یہ پوری بحث اس امر کو واضح کر دیتی ہے کہ
(۱) اس میں فیصلہ کی بنیاد قرآن و حدیث کے دلائل پر تھی (نہ کہ تنہا قرآن کے دلائل پر )
(۲) اصل فیصلہ کن نکتہ جس پر یہ قضیہ طے پایا لفظ’’خاتم النبیین‘‘ کا معنی و مفہوم تھا (نہ کہ نبی یا نبوت کی حقیقت)
(۳) دلائل میں باوجود یہ کہ قرآن کے ساتھ احادیث رسول پر بھی استناد و اعتماد کیا گیا تھا لیکن ’’فیصلہ مقدمہ بہاولپور‘‘ میں کسی مقام پر بھی یہ بات مذکور نہیں ہے کہ ’’روایات حدیث میں گفتگو کے دوران بحث اصل موضوع سے ہٹ کر فریقین کی طرف سے پیش کردہ حدیثوں کے صحیح یا ضعیف ہونے پر مرکوز ہو گئی،‘‘اور اس طرح ’’ محمل لیلیٰ، غبار ناقہ لیلیٰ میں گم ہو کر رہ‘‘ گیا۔ روایات حدیث پر گفتگو کے باوجود بھی ’’ بحث کا نتیجہ بھنور میں پھنسی ہوئی لکڑی کی طرح ایک ہی مقام پر مصروف گردش“ نہ رہا ، بلکہ قرآن و سنت کی بنیاد پر یہ نتیجہ ’’ بالکل سامنے آگیا ( اور وہ بھی حتمی، یقینی اور دو ٹوک فیصلہ “ کی صورت میں) کہ قادیانیت کو اختیار کرنے والا مرتد اوردائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔
البتہ طلوع اسلام اور ’’مفکر قرآن“ صاحب نے اس فیصلہ کو اپنے ’’قرآنی دلائل “ کا کرشمہ قرار دیتے ہوئے جو سفید جھوٹ بولا ہے اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ وہ خود:
(۱) جھوٹ بولنے میں کس قدرید طولیٰ رکھتے ہیں۔
(۲) تقلیب امور، مسخ حقائق اور واقعات کے لیے ان کی دماغی صلاحیتیں کس قدر بلند پایہ تھیں کہ رائی کا پہاڑ بنانا تو رہا ایک طرف وہ تو رائی کے بغیر بھی پہاڑ بناڈالنے میں اس قدر ماہر و مشاق ہیں کہ کوئی دوسرا شخص ان کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔
(۳) اپنے اس جھوٹ کو نبھانے کے لیے (اور اسے سرا پا سچ بنانے کے لیے) جس طرح انہیں کئی اور اکاذیب کا سہارا لینا پڑا اور جس طرح فاضل جج پر بہتان تراشی کرنا پڑی اس سے یہ امر واقعی بے نقاب ہو جاتا ہے کہ جھوٹ ہی ان کا اوڑھنا بچھونا ہے اور یہی ان کی غذائے روح ہے۔
(۴) پھر اس جھوٹ کی بنائے فاسد پر ایک اور فاسد زور کا یہ کہہ کر اضافہ کرنا کہ ’’۱۹۷۴ء میں جب احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا تو ملک میں سن ۱۹۳۵ء کے مقدمہ کا بھی بڑا چرچا ہوا اور یہ معلوم کر کے آپ کو حیرت ہوگی کہ ہمارے بڑے بڑے مولوی صاحبان نے اس کا چرچا تو کیا لیکن انتہائی کوشش کی کہ اس سلسلہ میں کسی نوع سے بھی پرویز صاحب کا نام نہ آنے پائے۔ اس سے آپ ان حضرات کی تنگ نظری حسد اور بغض کا اندازہ لگا لیجئے ۔۔۔‘‘ اس حقیقت کو آفتاب نیم روز کی طرح عیاں کر ڈالتا ہے کہ آخرت میں خدا کے حضور جوابدہی کا انہیں کبھی رتی بھر احساس نہیں رہا۔
(۵) پھر کسی کے کارناموں کا سہراخود اپنے سرباندھنا اگر ایک طرف ان کی انتہائی گھٹیا، کمینی اور چھچھوری حرکت ہے تو دوسری طرف لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر دھوکہ وفریب کے ذریعہ انہیں تاریکی میں رکھنا بھی کوئی کم گھٹیا بات نہیں ہے۔
خود سوچ لیجئے کہ اس قماش کا آدمی جو مخلوق خدا کے ساتھ جھوٹ، فریب ، دغا، بہتان تراشی اور تہمت طرازی جیسی قبیح و شفیع حرکات سے دریغ نہیں کرتا وہ کلام اللہ کے تفسیر کی آڑ میں تحریف کے کیا کیا گل نہیں کھلا سکتا !!!