اولاً
مقتدیوں کے آمین کہنے کی جگہ کون سی ہے؟ اس کی تعیین کے متعلق کلام ہے کہ کیا مقتدیوں کا آمین کہنا امام کے آمین کہنے کے ساتھ ایک ہی وقت میں ہوگا یا امام کے آمین کہنے کے بعد ہوگا یا جب امام وَلَا الضَّالِّينَ کہے گا اس وقت آمین کہنا ہے۔ علمائے کرام نے اس کے متعلق متعدد اقوال ذکر کیے ہیں، ان کی تفصیل پیش خدمت ہے۔
❀ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
مقتدیوں کا امام سے پہلے نہ امام کے بعد بلکہ مقتدیوں کا امام کے ساتھ آمین کہنا مستحب ہے، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے مطابق:
فمن وافق تأمينه تأمين الملائكة غفر له ما تقدم من ذنبه
ضروری ہے کہ امام، مقتدی اور فرشتوں کا آمین کہنا اکٹھا اور ایک ہی دفعہ واقع ہو۔ ہمارے ساتھیوں میں سے جس نے اس پر نص قائم کی ہے وہ شیخ ابو محمد الجوینی رحمہ اللہ اور ان کے بیٹے امام الحرمین رحمہ اللہ ہیں اور ان کے دو ساتھیوں امام غزالی رحمہ اللہ اور رافعی رحمہ اللہ نے بھی اپنی کتب میں یہی موقف اپنایا ہے۔
امام الحرمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
میرے شیخ فرمایا کرتے تھے کہ امام کے ساتھ مقتدی کا ملنا اور اکٹھا ہونا سوائے بلند آواز سے آمین کہنے کے اور کسی چیز میں مستحب نہیں ہے۔ ساتھ ہی امام صاحب فرماتے ہیں کہ مقتدی کا امام کے ساتھ اکٹھا آمین کہنا مستحب ہے اور اس کی علت اس طرح نکالنا ممکن ہے کہ مقتدی امام کے آمین کہنے کی وجہ سے آمین نہیں کہتا بلکہ وہ اس کی قرآت کی وجہ سے آمین کہتا ہے کہ اس کی قرآت مکمل ہو چکی ہے۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ یہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے خلاف ہے:
إذا أمن الإمام فآمنوا
جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو۔
تو اس کا جواب دوسری حدیث ہے:
إذا قال الإمام غير المغضوب عليهم ولا الضالين فقولوا آمين
جب امام غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ کہے تو تم اس وقت آمین کہو۔
کہ دونوں ہی روایات صحیحین میں آتی ہیں اور دونوں کے درمیان جمع کرنا واجب ہے۔ تو پہلی حدیث کو اس بات پر محمول کیا جائے گا کہ جب امام آمین کہنے کا ارادہ کرے تو تم بھی آمین کہو، اس طرح ان دونوں حدیثوں کے درمیان جمع ممکن ہے۔
❀ حضرت امام خطابی رحمہ اللہ اور دیگر لوگوں کا موقف یہ ہے کہ یہ بات تو عربوں کے اس قول کی طرح ہوئی:
إذا رحل الأمير فارحلوا
امیر سفر کرے تو تم بھی سفر کرو، یعنی جب وہ سفر کے لیے تیاری کرے تو تم بھی تیار ہو جاؤ، لیکن تمہارا سفر کرنا اس کے ساتھ ہی ہے۔
اور اس کا بیان ایک اور حدیث میں اس طرح آتا ہے:
إذا قال أحدكم آمين قالت الملائكة فى السماء آمين فوافقت إحداهما الأخرى
جب تم میں سے کوئی آمین کہتا ہے اور فرشتے آسمان پر آمین کہتے ہیں اور ان دونوں میں سے ایک کی دوسرے کے ساتھ موافقت ہو جاتی ہے۔
ان احادیث نبویہ سے جو بات واضح ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ تمام کی آمین کا وقوع اکٹھا ہونا چاہیے، یہی شریعت کا حکم ہے، یہ ان احادیث کے درمیان جمع و تطبیق ہے۔
النووي: المجموع شرح المهذب: 332/3، شرح صحيح مسلم: 130/4۔
❀ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ان روایات کے درمیان جمع کے بارے میں یہ بات کہی گئی ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان:
إذا قال الإمام ولا الضالين فقولوا آمين
ترجمہ: جب امام وَلَا الضَّالِّينَ کہے تو تم آمین کہو۔
سے مراد جب امام نے آمین نہ کہا ہو، اور یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ یہ دونوں روایات یہ ثابت کر رہی ہیں کہ مقتدی کو اختیار ہے کہ وہ امام کے ساتھ آمین کہے یا امام کے بعد کہے، اور یہ قول امام طبری رحمہ اللہ کا ہے۔
ایک قول یہ بھی ہے :
کہ پہلی حدیث اس شخص کے لیے ہے جو امام کے قریب ہو اور دوسری حدیث اس کے لیے ہے جو امام سے دور ہو، کیونکہ امام کا آمین جہراً کہنا قرآت کے جہر سے پست ہوتا ہے اور امام کی قرآت کو تو وہ آدمی سن لیتا ہے جو امام کا آمین کہنا نہیں سن پاتا۔ تو جس نے امام کا آمین کہنا سن لیا، وہ امام کے ساتھ ہی آمین کہے گا، اگر ایسے نہ ہو تو پھر جب امام سے وَلَا الضَّالِّينَ سنے گا اس وقت آمین کہے گا۔ یہ قول امام خطابی رحمہ اللہ کا ہے۔
ان ساری وجوہات کا احتمال موجود ہے، جن وجوہات کا علماء اور فقہاء نے تذکرہ کیا ہے، ان میں سے کوئی وجہ بھی ایسی نہیں ہے جس کا احتمال نہ ہو۔
پھر امام خطابی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان: فَآمِنُوا اس سے مقتدی کا آمین کہنا امام کے بعد اس پر استدلال لیا گیا ہے، کیونکہ یہاں پر فا کے ساتھ مرتب کیا گیا ہے، یعنی یہاں پر جو فا ہے وہ ترتیب کے لیے ہے کہ پہلے امام آمین کہے گا پھر مقتدی۔ لیکن دونوں روایات کے درمیان جمع پہلے گزر چکی ہے کہ دونوں روایات سے مراد امام اور مقتدیوں کا اکٹھا آمین کہنا ہے، اور یہ موقف جمہور علمائے کرام کا ہے۔
ابن حجر: فتح الباري شرح صحيح البخاري: 264/2۔
ثانیاً:
ان فرشتوں سے مراد کون سے فرشتے ہیں جن کا ذکر اس حدیث نبوی میں ہوا ہے:
من وافق تأمينه تأمين الملائكة
میں ہوا ہے اس کے بارہ میں علمائے کرام کے اقوال کی تفصیل آپ کے پیش خدمت ہے:
❀ امام نووی رحمہ اللہ اور امام ابن عبد البر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
علمائے کرام نے ان فرشتوں کے بارے میں اختلاف کیا ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ وہ فرشتے ہیں جو کراماً کاتبین اور حفاظت و نگہداشت کرنے والے فرشتے ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ فرشتے ان کے علاوہ کوئی اور ہیں۔ ان کی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے:
فوافق قوله قول أهل السماء
اس کا قول آسمان والوں کے قول کے موافق ہو گیا۔
یہ دلیل ہے ان لوگوں کی اس بات پر کہ ان فرشتوں سے مراد نہ ہی حفاظت و نگہداشت کرنے والے فرشتے ہیں اور نہ ہی وہ فرشتے ہیں جو نمازوں کے اوقات میں حاضر ہوتے ہیں، کیونکہ وہ تو ان بندوں کے ساتھ زمین پر حاضر ہوتے ہیں، آسمانوں پر تو وہ ہوتے ہی نہیں ہیں۔
جو پہلے قول والے لوگ ہیں، انھوں نے اس بات کا جواب یہ پیش کیا ہے کہ جو حفاظت کرنے والے فرشتے انسانوں کے پاس حاضر ہوتے ہیں، تو جب وہ آمین کہتے ہیں تو وہ اوپر سے ہی کہتے ہیں اور وہ آسمان کے فرشتوں کے پاس انتہا کرتے ہیں، کیونکہ جو بھی آپ کے اوپر ہے وہ سماء ہے۔ اس بات سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا کہ جو فرشتے آمین کہنے والے ہیں وہ آسمان کے فرشتے ہیں۔
ابن جریج حکم بن جریج سے روایت کرتے ہیں انھوں نے عکرمہ رحمہ اللہ سے سنا وہ فرما ر ہے تھے:
إذا أقيمت الصلاة فصف أهل الأرض وصف أهل السماء فإذا قال أهل الأرض ولا الضالين قالت الملائكة آمين فإذا وافقت آمين أهل الأرض آمين أهل السماء غفر لأهل الأرض ما تقدم من ذنوبهم
جب نماز کھڑی کی جاتی ہے تو زمین والے بھی صفیں بنا لیتے ہیں اور آسمان والے بھی۔ جب زمین والے وَلَا الضَّالِّينَ کہتے ہیں تو فرشتے آمین کہتے ہیں۔ جب زمین والوں کا آمین کہنا آسمان والوں کے آمین کہنے کے موافق ہو جائے تو زمین والوں کے جتنے پہلے گناہ ہوتے ہیں، سارے معاف کر دیے جاتے ہیں۔
النووي، شرح صحيح مسلم: 130/4، ابن عبد البر: التمهيد: 16-17/7۔
❀ امام عراقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اس سے جو بات ظاہر ہوتی ہے وہ یہی ہے کہ ان فرشتوں سے مراد حفاظت والے فرشتے نہیں ہیں، کیونکہ ان کا آمین کہنا مقید ہے آسمان کے ساتھ اور جو حافظین ہوتے ہیں وہ تو بنو آدم کے ساتھ ہوتے ہیں، وہ آسمان پر تو نہیں ہوتے۔
العراقي: طرح التثريب على التقريب: 261/2۔
❀ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
واضح موقف یہی ہے کہ ملائکہ سے مراد تمام فرشتے ہیں، کوئی خاص فرشتے نہیں ہیں۔
ابن بزیزہ رحمہ اللہ نے اس قول کو اختیار کیا ہے۔
ایک قول یہ ہے کہ ملائکہ سے مراد وہ فرشتے ہیں جو عصر کے وقت اور فجر کے وقت آتے ہیں، لیکن یہ اس وقت ہے جب ہم کہیں کہ حفظہ فرشتوں کے علاوہ دیگر فرشتے ہیں، تو پھر یہی ہیں۔ یہی بات زیادہ واضح نظر آتی ہے اور ظاہر بھی یہی ہو رہا ہے کہ ان فرشتوں سے مراد وہی فرشتے ہیں جو نمازوں کے اوقات میں حاضر ہوتے ہیں، وہ زمین میں ہوں یا آسمان میں ہوں۔
ابن حجر: فتح الباري شرح صحيح البخاري: 265/2۔
خاتمہ
اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور اس کی توفیق کے ساتھ میں نے اس بحث کو مکمل کر لیا ہے جو جہری نمازوں میں مقتدیوں، امام اور منفرد کے آمین جہراً کہنے کے بارے میں لکھی ہے اور اس بحث کو لکھتے وقت جو نتائج میں نے حاصل کیے ہیں وہ درج ذیل ہیں:
● حدیث اور فقہ وغیرہ کے نئے اور پرانے مصادر سے استفادہ کرنا۔
● حدیث کے تمام مصادر سے حدیث کی تخریج کے فائدے کی پہچان، جن میں مختلف الفاظ اور متعدد سندوں سے مروی ہیں۔
● ان مسائل میں تقویہ حاصل ہوئی ہے جن کو ہم نے دوسری فصل میں بیان کیا ہے، ان آثار کے ساتھ جن کا تذکرہ ہم نے دوسری مبحث کی پہلی فصل میں کیا ہے۔
● جہری نمازوں میں امام کا بلند آواز سے آمین کہنا، اس مسئلے میں راجح موقف ثابت ہوا ہے اور وہ ہے جہراً آمین کہنا نہ کہ سراً، اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دلائل صحیحہ کے ساتھ ثابت ہے۔
● مقتدیوں کا بلند آواز سے آمین کہنا، اس مسئلے میں راجح موقف یہ ہے کہ مقتدی بلند آواز سے آمین کہے گا نہ کہ سری آواز سے، اس پر بڑے بڑے واضح دلائل ہیں اور آثار ہیں جو اس پر دلالت کرتے ہیں۔
● منفرد جہری نماز میں آمین بھی جہراً ہی کہے گا۔
● اور لوگوں کے آمین کہنے کا فرشتوں کے آمین کہنے سے موافق ہونا، اس موافقت سے مراد قولی اور زمانے میں موافقت ہے، کیونکہ ظاہر پر حکم لگانا آسان اور سہل ہے، باطن پر حکم لگانے سے، کیونکہ باطن پر حکم لگانا انتہائی مشکل کام ہے۔
● مقتدیوں کے آمین کہنے کی جگہ کی تعیین کے حوالے سے جو بات واضح ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ امام اور مقتدیوں کا اکٹھا ایک ہی دفعہ آمین کہنا زیادہ راجح ہے تا کہ فرشتوں کے ساتھ آمین کہنے میں موافقت حاصل ہو جائے اور اللہ کی رحمت کے ساتھ تمام کے گناہوں کو معاف کر دیا جائے۔
● فرشتوں سے مراد آسمان کے فرشتے ہیں، کیونکہ جو حفاظت کرنے والے فرشتے ہوتے ہیں وہ آسمان پر نہیں ہوتے بلکہ وہ بنو آدم کے ساتھ زمین پر ہوتے ہیں، اور یہی بات صریح حدیث میں موجود ہے:
إذا قال أحدكم آمين والملائكة فى السماء
جب تم میں سے کوئی آمین کہے اور فرشتے آسمان میں آمین کہیں۔
وفي رواية: فوافق قوله قول أهل السماء
اس کا کہنا آسمان کے فرشتوں کے آمین کے ساتھ موافق ہو گیا تو اس کے سارے گناہوں کو معاف کر دیا گیا۔
آخر میں میں اللہ تعالیٰ سے سوال کرتا ہوں کہ وہ میری اس حقیر سی کوشش و کاوش کے ساتھ تمام اہل اسلام کو فائدہ اور نفع پہنچائے اور اس کو اپنی رضا اور خوشنودی کے لیے خالص فرما لے۔
میں نے اپنی جتنی بھی جدوجہد صرف کی ہے وہ صرف اور صرف حق کو آشکارہ کرنے کے لیے کی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے توفیق کا سائل و طلب گار ہوں، وہی توفیق عطا فرمانے والا ہے۔
وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه أجمعين ومن تبعهم بإحسان إلى يوم الدين