مفتوحہ زمین کے احکام اور حاکم کا اختیار
تحریر: عمران ایوب لاہوری

مفتوحہ زمین کا معاملہ حاکم کی رائے پر موقوف ہو گا وہ اس کے متعلق زیادہ مناسب فیصلہ کر سکے گا یا اسے غنیمت لانے والوں کے درمیان یا تمام مسلمانوں کے درمیان مشترکہ رہنے دے گا
➊ بنو قریظہ اور بنو نضیر کی زمین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجاہدین کے درمیان تقسیم کر دی ۔
[نيل الأوطار: 83/5 ، الروضة الندية: 756/2]
➋ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کی نصف زمین کو تقسیم کر دیا اور نصف کو حکومتی اُمور اور تمام مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے خاص کر دیا ۔
[حسن صحيح: صحيح ابو داود: 2601 ، كتاب الخراج: باب ما جآء فى حكم أرض خيبر، ابو داود: 3010 ، بيهقي: 317/6]
➌ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أيما قرية أتيتموها فأقمتم فيها
”تم جس بستی میں بھی آؤ اور اس میں قیام کرو تو اس میں تمہارا حصہ ہے (جیسے مسلمانوں میں سے کسی ایک عام مسلمان کا حصہ ہے ) اور جو بستی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمان ہو تو اس کا خمس اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے پھر وہ بھی تمہارے درمیان تقسیم ہو گا ۔“
[مسلم: 1756 ، كتاب الجهاد والسير: باب حكم الفيئ ، احمد: 317/2 ، ابو داود: 3036]
(قاضی عیاضؒ ) احتمال ہے کہ اس حدیث میں پہلی بستی سے مراد وہ بستی ہو جہاں لڑائی نہ ہوئی ہو ۔ اس میں مجاہدین کا حصہ دوسرے مسلمانوں کے مساوی ہے اور دوسری بستی سے مراد وہ بستی ہو جہاں لڑائی ہوئی ہو اس میں پانچواں حصہ نکال کر باقی مجاہدین میں تقسیم کر دیا جائے گا ۔
(ابن منذرؒ ) ہمیں علم نہیں کہ امام شافعیؒ سے پہلے کوئی مال فی میں خمس کا قائل ہو ۔
[سبل السلام: 1796/4]
(شوکانیؒ ) اس حدیث میں واضح دلیل ہے کہ غنیمت کی زمین مجاہدین میں تقسیم ہو گی ۔
[نيل الأوطار: 81/5]
(خطابیؒ ) جنگ کے ذریعے حاصل شدہ زمین کا حکم تمام اموال غنائم کی طرح ہی ہے اس میں سے خمس نکال کر باقی مجاہدین میں تقسیم کی جائے گی ۔
[معالم السنن: 36/3]
(مالکؒ ) مال غنیمت کی زمین کو تقسیم نہیں کیا جائے گی بلکہ اس کا منافع مسلمانوں کے فلاح و بہبود کے کاموں میں صرف کیا جائے گا الا کہ حاکم تقسیم میں مصلحت سمجھے تو وہ ایسا کر سکتا ہے ۔
(ابن قیمؒ ) امام مالکؒ کے قول کی مثل جمہور صحابہ سے قول نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس بات پر خلفائے راشدین کی سیرت گواہ ہے اور انہوں نے اسی کو راجح قرار دیا ہے ۔
(احمدؒ ) حاکم کو اختیار ہے اگر زمین کی تقسیم میں بہتری سمجھے تو اسے تقسیم کر دے اگر مسلمانوں کی جماعت کے لیے وقف میں مصلحت سمجھے تو اسے وقف کر دے اور اگر بعض کو چھوڑ کر بعض کو تقسیم کرنا چاہے تو یہ بھی درست ہے ۔ کیونکہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ تینوں قسمیں ثابت ہیں:
➊ بنو قریظہ اور بنو نضیر کی زمین آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تقسیم کر دی ۔
➋ مکہ کی زمین تقسیم نہیں کی ۔
➌ خیبر کی کچھ زمین کو تقسیم کر دیا اور کچھ تمام مسلمانوں کے لیے وقف کر دی ۔
(شافعیؒ ) زمین کو بھی باقی غیر منقولہ اشیاء کی طرح تقسیم کر دیا جائے گا ۔
[المغني: 54/13 – 57 ، الأم للشافعى: 144/4 ، نيل الأوطار: 83/5 ، زاد المعاد: 432/3]
(راجح ) امام احمدؒ کا موقف راجح ہے ۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے