وَعَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، قَالَ: كُنَّا نُصَلَّى الْمَغْرِبَ مَعَ النَّبِيِّ اللهِ فَيَنْصَرِفُ أَحَدُنَا وَإِنَّهُ لَيُبْصِرُ مَوَاقِعَ نَبْلِهِ
رافع بن خدیج نبی صلى الله عليه وسلم سے روایت کرتے ہیں ، فرماتے ہیں” ہم مغرب کی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھتے تھے ہم میں سے ایک واپس آتا تو وہ اپنے تیر کے نشانے کو دیکھ لیتا ۔“
تحقیق و تخریج :
البخارى : 559 ، المسلم : 637 مسلم : باب بيان ان اول وقت المغرب عند غروب الشمس ۔
فوائد :
➊ نماز مغرب کو اس کے اول وقت میں ہی اداکیا جائے ۔
➋ مغرب کی نماز زیادہ اندھیرا کر کے نہیں پڑھنی چاہیے اور نہ ہی اتنی جلدی پڑھنی چاہیے کہ بمشکل اذان کا بھی جواب دیا ہو تو جماعت کھڑی ہو جائے بلکہ دو رکعتیں نفل پڑھے جا سکیں ۔ یا مختصر اذان اور جماعت کے درمیان دعا مانگی جا سکے ۔
➌ مغرب کا وقت تمام نمازوں کے اوقات سے کم ہوتا ہے ر مضان میں نماز مغرب میں افراط و تفریط سے کام لیا جاتا ہے ۔ یا تو بعض ائمہ کرام افطاری کرتے کرتے رہ رہ کر جماعت کرواتے ہیں یا پھر اتنی جلدی جماعت کروائی جاتی ہے کہ اذان کے فوراً بعد امام کی قرأت سنائی دیتی ہے ۔ یہ دونوں صورتیں نماز کے مزاج کے خلاف ہیں اسلام میں اعتدال پسندی محبو ب سمجھی گئی ہے ۔ اذان کے بعد ذراسا وقفہ ہو جس میں نمازی حضرات مختصر دعا وظیفہ یا دور کعتیں ادا کر سکیں اور اتنی تاخیر سے بھی کام نہ لیا جائے کہ بالکل اندھیرا چھا جائے۔ ائمہ کرام کے لائق یہ ہے کہ عین وقت جماعت میں نماز پڑھائیں ۔
➌ نماز مغرب اتنی رو شنی میں ادا ہو جانی چاہیے کہ ہر چیز قریباً نظر آ رہی ہو ۔
رافع بن خدیج نبی صلى الله عليه وسلم سے روایت کرتے ہیں ، فرماتے ہیں” ہم مغرب کی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھتے تھے ہم میں سے ایک واپس آتا تو وہ اپنے تیر کے نشانے کو دیکھ لیتا ۔“
تحقیق و تخریج :
البخارى : 559 ، المسلم : 637 مسلم : باب بيان ان اول وقت المغرب عند غروب الشمس ۔
فوائد :
➊ نماز مغرب کو اس کے اول وقت میں ہی اداکیا جائے ۔
➋ مغرب کی نماز زیادہ اندھیرا کر کے نہیں پڑھنی چاہیے اور نہ ہی اتنی جلدی پڑھنی چاہیے کہ بمشکل اذان کا بھی جواب دیا ہو تو جماعت کھڑی ہو جائے بلکہ دو رکعتیں نفل پڑھے جا سکیں ۔ یا مختصر اذان اور جماعت کے درمیان دعا مانگی جا سکے ۔
➌ مغرب کا وقت تمام نمازوں کے اوقات سے کم ہوتا ہے ر مضان میں نماز مغرب میں افراط و تفریط سے کام لیا جاتا ہے ۔ یا تو بعض ائمہ کرام افطاری کرتے کرتے رہ رہ کر جماعت کرواتے ہیں یا پھر اتنی جلدی جماعت کروائی جاتی ہے کہ اذان کے فوراً بعد امام کی قرأت سنائی دیتی ہے ۔ یہ دونوں صورتیں نماز کے مزاج کے خلاف ہیں اسلام میں اعتدال پسندی محبو ب سمجھی گئی ہے ۔ اذان کے بعد ذراسا وقفہ ہو جس میں نمازی حضرات مختصر دعا وظیفہ یا دور کعتیں ادا کر سکیں اور اتنی تاخیر سے بھی کام نہ لیا جائے کہ بالکل اندھیرا چھا جائے۔ ائمہ کرام کے لائق یہ ہے کہ عین وقت جماعت میں نماز پڑھائیں ۔
➌ نماز مغرب اتنی رو شنی میں ادا ہو جانی چاہیے کہ ہر چیز قریباً نظر آ رہی ہو ۔
[یہ مواد شیخ تقی الدین ابی الفتح کی کتاب ضیاء الاسلام فی شرح الالمام باحادیث الاحکام سے لیا گیا ہے جس کا ترجمہ مولانا محمود احمد غضنفر صاحب نے کیا ہے]