مؤذن کی غلطی اور روزے کی قضا کا شرعی حکم
سوال:
ہماری مسجد میں رمضان کے دوران ایک دن مؤذن سے مغرب کی اذان میں غلطی ہو گئی۔ عام دنوں میں تو اس کا اندازہ نہیں ہوتا لیکن رمضان میں سب لوگ احتیاط سے وقت دیکھتے ہیں۔ مؤذن نے اذان معمول کے وقت (35 منٹ) کے بجائے 30 منٹ پر دے دی، یعنی 5 منٹ قبل اذان دے دی۔ اس بنا پر لوگوں نے غروبِ آفتاب سے پہلے روزہ افطار کر لیا۔
جب مؤذن کو اس غلطی کا بتایا گیا تو وہ بہت پریشان ہو گیا۔ اس مسئلے کے حل کے لیے کئی علماء سے رجوع کیا گیا جن میں ڈاکٹر فضل الٰہی صاحب بھی شامل ہیں، مگر انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس کے بعد عبدالستار بھٹی صاحب نے عبد المنان نور پوری صاحب سے رابطہ کیا، جنہوں نے فتویٰ دیا کہ جن لوگوں نے روزہ کھولا ہے، انہیں دوبارہ روزہ رکھنا ہوگا۔
کچھ علماء کا کہنا تھا کہ یہ مؤذن کی غلطی ہے، اس لیے صرف مؤذن کو روزے کی قضا کرنی چاہیے۔ تاہم، عبدالستار بھٹی صاحب اور مؤذن نے عبد المنان نور پوری صاحب کے فتویٰ کو ہی قبول کیا اور مسجد میں اعلان کیا کہ تمام لوگوں کو دوبارہ روزہ رکھنا ہوگا۔
مگر کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ روزہ صرف انہی لوگوں نے نہیں کھولا، بلکہ ایسے افراد نے بھی افطار کیا جو اس مسجد میں باجماعت نماز ادا نہیں کرتے، بلکہ اپنے گھروں کے قریب دوسری مساجد میں نماز ادا کرتے ہیں۔
لہٰذا سوال یہ ہے کہ:
کیا اس صورت میں تمام لوگوں پر روزے کی قضا واجب ہے یا مؤذن کی غلطی کی وجہ سے صرف اسی پر قضا واجب ہوگی؟ اس مسئلے کا قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرما کر الحدیث میں شائع فرمائیں، کیونکہ اس مسئلے کی وجہ سے بہت پریشانی پیدا ہو گئی ہے۔
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نبی اکرم ﷺ کے زمانے کا واقعہ:
اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
افطرنا علی عهد النبی صلی الله علیه وسلم یوم غیم ثم طلعت الشمس
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک دن ہم نے روزہ افطار کر لیا (کیونکہ آسمان پر بادل تھے)، پھر سورج نکل آیا۔
(صحیح البخاری، کتاب الصوم، باب اذا افطر فی رمضان ثم طلعت الشمس، ح 1959)
ہشام بن عروہ فرماتے ہیں:
قضا ضروری ہے۔
(صحیح بخاری: 1959)
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا واقعہ:
اسلم العدوی مولیٰ عمر سے روایت ہے:
ایک دن بادل تھے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے روزہ افطار کر لیا کیونکہ آپ نے سمجھا کہ سورج غروب ہو چکا ہے، پھر سورج نکل آیا تو فرمایا:
الخطب یسیرو قد اجتهدنا
یعنی "مسئلہ آسان ہے، ہم نے اجتہاد کیا ہے”
(موطا امام مالک، روایت ابی مصعب الزہری 1/316، ح 820، و سندہ صحیح، روایت القعلی ص 212)
امام مالک رحمہ اللہ کی تشریح:
یرید بذلک عمر بن الخطاب القضاء و یسارة موونته وخلفته فیما یری والله أعلم
یعنی عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا مقصد تھا کہ اس روزے کی قضا کی جائے، کیونکہ یہ آسان اور معمولی کام ہے۔
(موطا الزھری ص 316، 317 و موطا القعلی ص 213)
اس واقعے کی تائید دیگر مراجع سے:
◈ موطا امام مالک (روایت یحییٰ بن یحییٰ 1/303، ح 682)
◈ مصنف ابن ابی شیبہ (3/23، 24، ح 9045)
◈ مصنف عبدالرزاق (4/178، ح 7392، 7394)
◈ السنن الکبری للبیہقی (4/217)
ایک ضعیف روایت:
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ایک روایت ہے:
واللہ لا نقضیہ
"اللہ کی قسم، ہم اس روزے کی قضا نہیں کریں گے”
(السنن الکبری للبیہقی 4/217، مصنف عبدالرزاق 4/179، ح 7295، مصنف ابن ابی شیبہ 3/24، ح 9052)
یہ روایت سلمان بن مہران الاعمش کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے۔
علامہ نووی فرماتے ہیں:
والاعمش مدلس، لا یحتج بعنعنته الا اذا صح سماعه الذی عنعنہ من جهة اخری
(شرح صحیح مسلم، درسی نسخہ ج1، ص 72، تحت ح 109)
امام بیہقی نے بھی اس روایت کو خطا قرار دیا ہے۔ (السنن الکبری 4/217)
دیگر آثار:
◈ عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ کے نزدیک بھی ایسی صورت میں قضا لازم ہے، کفارہ نہیں۔
(مصنف ابن ابی شیبہ 3/25، ح 9054، سندہ صحیح)
◈ زیاد بن النضر رحمہ اللہ بھی قضا کے قائل تھے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ 3/205، ح 9055، سندہ حسن)
جمہور علماء کا موقف:
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اس مسئلے میں اختلاف ہے اور جمہور اس کے قائل ہیں کہ قضا واجب ہے۔
(فتح الباری 4/200)
عون المعبود میں بھی یہی قول ہے: (2/279)
قسطلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وهذا مذهب الشافعیه و الحنفیة و المالکیة و الحنابلة
یعنی شافعی، حنفی، مالکی اور حنبلی سب یہی کہتے ہیں۔ (عون المعبود 2/279)
حسن بصری رحمہ اللہ کا مختلف موقف:
اجزامنه
یعنی یہی روزہ کافی ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 3/24، ح 9051، سندہ صحیح)
قرآن کا اصولی حکم:
﴿ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ﴾
پھر روزہ رات (مغرب کے وقت) تک مکمل کرو۔
(البقرۃ: 187)
لہٰذا اگر کسی نے سورج غروب ہونے سے پہلے روزہ افطار کیا اور بعد میں سورج نظر آیا، تو قضا لازم ہے۔
موجودہ مسئلے پر شرعی حکم:
اس صورت میں مؤذن نے 5 منٹ پہلے اذان دی اور لوگوں نے افطار کر لیا، مگر سورج نظر نہیں آیا۔ یہ مسئلہ خطا اور نسیان کی نوعیت کا ہے۔
نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:
«ان الله تجاروزلي عن امتي الخطا و النسيان و ما استكرهوا عليه»
"بے شک اللہ نے میری امت سے خطا، بھول، اور مجبوری میں کیے گئے اعمال کو معاف فرما دیا ہے”
(السنن الکبری للبیہقی 7/356، الحاکم نے صحیحین کی شرط پر صحیح کہا، اور ذہبی نے بھی اس کی موافقت کی)
عمومِ قرآن بھی یہی تائید کرتا ہے:
﴿وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُم بِهِ﴾
(الاحزاب: 5)
نتیجہ:
اس صورت میں مؤذن کی خطا سے جو روزہ قبل از وقت افطار ہوا، وہ خطا کے زمرے میں آتا ہے۔ لہٰذا:
◈ عام لوگوں پر قضا واجب نہیں۔
◈ مؤذن پر بھی اگر نیت اور احتیاط کے باوجود غلطی ہوئی تو وہ معذور ہے۔
◈ صحیح تحقیق یہی ہے جو مولانا حافظ عبدالحمید ازہر حفظہ اللہ کی بھی ہے کہ ایسی حالت میں قضا واجب نہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب