خاندان: معاشرے کی بنیادی اکائی
مرد اور عورت کے قانونی رشتے سے خاندان تشکیل پاتا ہے، جو معاشرے کی بنیادی اکائی اور نسلِ انسانی کی بقا کا ضامن ہے۔ خاندان کا نظام دراصل فرائض کی تقسیم پر مبنی ہے، جہاں مرد اور عورت اپنی مخصوص ذمہ داریاں ادا کرتے ہیں۔ مرد پر کفالت اور حفاظت کی ذمہ داری قدرتی طور پر عائد ہوتی ہے، جبکہ عورت کی ذمہ داری بچوں کی تربیت اور گھر کے انتظام سے جُڑی ہوتی ہے۔ یہ تقسیم ازل سے چلی آرہی ہے، اور مذہب اسی فطری تقسیم کو منظم کرتا ہے۔
مغرب میں خاندانی نظام کی تباہی
یورپ اور امریکہ میں بھی بیسویں صدی کے آغاز تک یہی خاندانی ڈھانچہ کسی نہ کسی حد تک قائم تھا، لیکن سرمایہ دارانہ نظام نے اپنے مفادات کے تحت اسے بدلنے کی کوشش کی۔ انہیں خواتین کی صورت میں سستی لیبر نظر آئی، چنانچہ انہیں گھر سے نکالنے اور معیشت کا حصہ بنانے کے لیے "مساوات”، "آزادی” اور "معاشی خودمختاری” جیسے دل فریب نعرے متعارف کروائے گئے۔ چونکہ مغربی عورت پہلے ہی بنیادی حقوق سے محروم تھی، لہٰذا یہ نعرے اسے بھا گئے اور وہ نام نہاد آزادی کے حصول میں مصروف ہوگئیں۔
آزادی کا فریب اور مغربی عورت کی بے بسی
پچھلی ایک صدی میں یہ آزادی درحقیقت ایک فریب ثابت ہوئی۔ حالیہ سرویز کے مطابق مغربی عورت اپنی ورکنگ لائف سے سخت بیزار ہوچکی ہے اور اس مصنوعی آزادی کے جال سے نکل کر گھر کی جنت میں لوٹنا چاہتی ہے، مگر اب یہ اس کے لیے تقریباً ناممکن ہوچکا ہے۔ دجالی قوتیں جو اس نئے عالمی نظام کو تشکیل دے چکی ہیں، وہ کبھی نہیں چاہیں گی کہ یہ واپسی کا سفر اختیار کرے۔
نیا ورلڈ آرڈر اور انسانی رشتوں کی تباہی
یہ قوتیں ایک ایسے نظام کی تشکیل میں مصروف ہیں جہاں مرد اور عورت محض ایک مشین کی طرح زندگی گزاریں، اور جنسی تعلقات محض لذت و تفریح کے لیے ہوں۔ رشتوں کی تقدیس ختم کردی جائے، اور دنیا کی آبادی ان کے کنٹرول میں ہو۔ اس مقصد کے تحت:
- زنا کو عام کیا گیا
- ہم جنس پرستی کو قانونی تحفظ دیا گیا
- محرم رشتوں میں جنسی تعلقات اور جانوروں سے بدفعلی جیسے گھناؤنے افعال کو بھی آہستہ آہستہ قانونی شکل دی جارہی ہے
ایک بار یہ قوانین نافذ ہوجائیں تو معاشرے کی اکثریت مخالفت کے باوجود کچھ بھی نہیں کرسکے گی، کیونکہ یہ سب کچھ قانونی دائرے میں آجائے گا۔
مسلم معاشروں میں مغربی ایجنڈے کی پیش رفت
مغرب میں بھی یہ سب کچھ یکدم نہیں ہوا، بلکہ آہستہ آہستہ معاشرتی اقدار کو نشانہ بنایا گیا، موضوعِ بحث بنایا گیا، اور پھر جمہوری نظام کے ذریعے اسے قانونی شکل دی گئی۔ یہی کچھ آج مسلم معاشروں میں ہو رہا ہے، جن میں کچھ ابتدائی مرحلے میں ہیں، کچھ درمیانی اور کچھ تیسری سٹیج پار کرچکے ہیں۔
پاکستان میں یہ گندا کھیل این جی اوز، میڈیا اور عالمی طاقتوں کی سرپرستی میں کھیلا جا رہا ہے۔ ہمارے ہاں عورت کو وہ حقوق بھی نہیں دیے گئے جو اسلام نے مقرر کیے ہیں، اسی وجہ سے مغربی ایجنڈا یہاں مختلف شکل میں پیش کیا جا رہا ہے۔ میڈیا دن رات اس زمین کو ہموار کر رہا ہے، یونیورسٹیاں نئی نسل کو لادینیت کی طرف لے جا رہی ہیں، اور مختلف تنظیمیں زنا اور ہم جنس پرستی کو عام کرنے میں مصروف ہیں۔
مستقبل کا خطرہ اور ہمارا فرض
یہ قوتیں طاقت کے مراکز اور میڈیا پر قابض ہیں، اور اگر اگلے دس سے بیس برسوں میں انہیں مزید تقویت ملی تو پھر تیسری سٹیج پار ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔ تب بھلے اکثریت اسے برا سمجھے، مگر مخالفت کے باوجود کچھ کر نہیں سکے گی۔
اس کے سدباب کے لیے ضروری ہے کہ ان شیطانی سازشوں کا راستہ روکا جائے۔ اسلامی جماعتیں اور تنظیمیں اس میں بنیادی کردار ادا کرسکتی ہیں، مگر اصل حل یہی ہے کہ ایک اسلامی ریاست کی تشکیلِ نو کی جائے، جو اسلام، قانون اور عوام کی طاقت سے ان سازشوں کو ناکام بنادے۔ باذن اللہ!