مغربی انسانی حقوق کا فلسفہ اور اسلامی تجزیہ

انسانی حقوق کا مغربی تصور اور اسلامی نقطہ نظر

دورِ حاضر میں تحریکاتِ اسلامی کے کارکنان کے لیے انسانی حقوق کا مسئلہ خاص اہمیت رکھتا ہے۔ یو این او کے انسانی حقوق کے چارٹر کو عمومی طور پر خیر اور فلاح کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے، اور بعض مسلمان اسے خطبۂ حجۃ الوداع سے ماخوذ قرار دیتے ہیں۔ لیکن جب ہم اس چارٹر کو مغربی فکر کے تناظر میں دیکھتے ہیں، تو معاملہ پیچیدہ ہو جاتا ہے۔

مغربی فلسفے میں انسانی حقوق کی بنیادیں

انسانی حقوق کے مغربی تصور کی بنیاد سرمایہ دارانہ انفرادیت پر ہے، جو انسان کو عبدِ خدا نہیں بلکہ مکمل آزاد قرار دیتی ہے۔ مغربی فکر میں "آزادی” کا مطلب خواہشات کی تکمیل اور سرمائے کے ذریعے زیادہ سے زیادہ لذات حاصل کرنا ہے۔ اس تصور میں ما بعد الموت یا ما قبل پیدائش جیسے دینی معاملات زیرِ بحث نہیں آتے۔ مغرب کے اہم فلسفی پروتاغورس نے کہا:

"انسان کائنات کی تمام اشیاء کا پیمانہ ہے۔”

ہیومن ازم: مغربی فکر کی جڑ

ہیومن ازم مغربی فکر کا مرکزی نکتہ ہے، جس میں انسان کو کائنات کا مرکز و محور مانا گیا ہے۔ انسائیکلوپیڈیا آف فلاسفی کے مطابق ہیومن ازم کی ابتدا چودھویں صدی میں اٹلی سے ہوئی اور پھر پورے یورپ میں پھیلی۔

  • ہیومن ازم بنیادی طور پر وحی اور الہامی ہدایات کی مخالفت کرتی ہے اور انسان کو خود مختار بنا کر ہر چیز کا پیمانہ قرار دیتی ہے۔
  • [Encyclopaedia of Philosophy, Macmillan Company and Free Press N. York]

مغربی فکر میں انسان کا مقام

مغربی مفکرین کے مطابق:

  • ڈیکارٹ: "میں سوچتا ہوں، اس لیے میں ہوں”۔ یعنی وجود کا انحصار خدا کی تخلیق پر نہیں بلکہ خود انسان کی ذات پر ہے۔
  • روسو: انسان بذاتِ خود خیر ہے، اور جو کچھ اس کی خواہش کرے، وہی خیر ہے۔
  • کانٹ: ہر فرد خود مختار ہے اور خیر و شر کا تعین اپنی عقل سے کر سکتا ہے۔
  • ہیگل: معاشروں کی تاریخی ترقی ہی خیر و شر کا پیمانہ ہے، اور مغربی تہذیب حق و باطل کی معراج ہے۔

ہیومن رائٹس اور انسانی آزادی

ہیومن رائٹس چارٹر کا بنیادی مقصد انسان کو ہر قسم کی دینی یا خارجی پابندی سے آزاد کرنا ہے:

  • مذہب تبدیل کرنے کی آزادی
  • اخلاقی و سماجی روایات سے بغاوت
  • اسلامی سزاؤں اور حدود کا خاتمہ

یہ آزادی انسان کو خود مختار بنا کر دین سے دور لے جاتی ہے۔

استعماری طاقتوں کا انسانی حقوق کے ذریعے غلبہ

یو این ڈی پی کی رپورٹ 2000ء کے مطابق انسانی حقوق کے نفاذ کے لیے عالمی قوانین کو قومی قوانین پر فوقیت دی گئی۔ اس کا مقصد تیسری دنیا کے ممالک کو عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے تابع رکھنا ہے۔

  • کوفی عنان نے یہاں تک کہا کہ جو ملک ہیومن رائٹس سے ہٹ کر قانون سازی کرے، اس پر فوجی کارروائی کی جائے گی۔
  • (UNDP, Human Development Report 2000, p. 31)

مسلمان معاشروں پر اثرات

انسانی حقوق کے مغربی چارٹر کو اسلامی معاشروں میں نافذ کرنے کا نتیجہ یہ ہے کہ:

  • مذہب کو معاشرتی اور قانونی نظام سے بے دخل کیا جا رہا ہے۔
  • خاندانی نظام کمزور ہو رہا ہے۔
  • اخلاقی انحطاط اور شہوت پرستی عام ہوتی جا رہی ہے۔

خلاصۂ کلام

انسانی حقوق کا مغربی چارٹر دراصل اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا انکار اور سرمایہ دارانہ نظام کی بالادستی کو مضبوط کرنے کا ذریعہ ہے۔ یہ تصور انسان کو خدا بنا دیتا ہے اور معاشرے کو خود غرض، حریص اور بے حس بنا دیتا ہے۔

اسلامی مؤقف

اسلام میں حقوقِ انسانی کا تصور وحی الٰہی اور قرآن و سنت کی بنیاد پر ہے۔ حقیقی خیر وہی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے خیر قرار دیا ہو، اور انسان کو اللہ کا عبد مان کر ہی ایک متوازن اور پرامن معاشرہ تشکیل دیا جا سکتا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1