قرآن مجید میں اسراء (مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک کا بذریعہ براق سفر) کا مقصد یہ بتلایا گیا ہے: ﴿لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا﴾ (بنی اسرائیل 1) ”تاکہ ہم اپنے بندے (پیغمبر ) کو اپنی نشانیاں دکھائیں۔“ اسی طرح سورہ نجم میں معراج (سیر آسمانی) کی بعض تفصیلات بیان کی گئی ہیں، فرمایا: ﴿لَقَدْ رَأَىٰ مِنْ آيَاتِ رَبِّهِ الْكُبْرَىٰ﴾ (النجم: 8) ”اللہ کے پیغمبر نے (وہاں) اپنے رب کی بعض بڑی نشانیاں دیکھیں۔“
ان دونوں آیات سے واضح ہوتا ہے کہ اسراء و معراج کی رات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کی بہت سی عظیم نشانیوں کا مشاہدہ کیا۔ ان میں سے چند بڑی نشانیاں حسب ذیل ہیں:
● شق صدر کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب اطہر کا نکالنا اور پھر اسے دھو کر دوبارہ اپنے مقام پر رکھ دینا، بھی ایک عظیم نشانی ہے کیونکہ اس دور میں تو طب و سائنس کی وہ ترقی نہیں تھی جو آج کل عام ہے۔ اس دور میں دل کا اپنے مقام سے باہر نکال لینا موت کے مترادف تھا لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ نہیں ہوا، یہ اللہ کا حکم اور اس کی مشیت تھی۔ اللہ کے خصوصی فضل و کرم سے آپ کی زندگی محفوظ ہی رہی تا آنکہ آپ کا دل ایمان و حکمت سے بھر کر اپنے مقام پر رکھ دیا گیا۔
● دوسری بڑی نشانی: اللہ تعالیٰ کی طرف سے براق جیسی برق رفتار سواری کا انتظام کرنا تھا جس نے ڈیڑھ دو مہینے کے سفر کو رات کے ایک نہایت قلیل حصے میں طے کرادیا۔
● تیسری بڑی نشانی: معراج (سیڑھی) کے ذریعے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا آسمانوں پر لے جانا ہے۔ یہ کیسی عظیم الشان سیڑھی ہوگی جو آسمانوں پر چڑھنے کے لیے آپ کو مہیا کی گئی۔ براق کو آپ نے بیت المقدس میں باندھ دیا تھا۔ آسمانوں سے واپس آنے کے بعد آپ نے دوبارہ بیت المقدس سے مسجد حرام تک کا سفر اسی براق پر کیا۔
● چوتھی بڑی نشانی: بیت المقدس میں تمام انبیاء کا جمع کرنا اور ان کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں نماز پڑھنا ہے، یہ واقعہ چاہے آسمانوں پر جانے سے پہلے کا ہو یا آسمانوں سے واپسی پر (جیسا کہ اس میں اختلاف ہے) اس کی اہمیت واضح ہے۔
● پھر ایک انسان کا آسمانوں پر عروج بھی کچھ کم اہمیت کا حامل نہیں ہے، یہ بجائے خود ایک بہت عظیم نشانی ہے۔
● پھر آسمانوں پر جلیل القدر انبیاء علیہم السلام سے ملاقاتوں کا خصوصی اہتمام بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امتیازی شان کا اظہار اور ایک عظیم نشانی کا مشاہدہ ہے۔
● سدرۃ المنتہٰی کا مشاہدہ جو مقام انتہاء ہے، بالائی چیزوں کا بھی اور ارضی چیزوں کا بھی۔ اس سے اوپر کی چیزیں بھی جنھیں نیچے اترنا ہوتا ہے ان کا نزول پہلے یہاں ہوتا ہے: فرشتے اسے یہاں سے وصول کر کے اس کے مطابق کارروائی کرتے ہیں اور نیچے زمین سے اوپر (آسمانوں) کو جانے والی چیزیں بھی یہاں آکر ٹھہر جاتی ہیں اور پھر اس کے بعد ان کو جہاں لے جانا ہوتا ہے، لے جایا جاتا ہے۔ اس اعتبار سے یہ بہت ہی اہم مقام اور نہایت اہم مرکز ہے۔ علاوہ ازیں یہ مرکز تجلیات الٰہی بھی ہے۔ اس کے گرد سونے کے پروانے محو پرواز رہتے ہیں۔ اس کے حسن و جمال اور رعنائی منظر کو بیان نہیں کیا جاسکتا۔ اسی کے پاس جنت المأویٰ بھی ہے۔ اسی جگہ پر صريف الأقلام ”قلموں کے چلنے کی آوازیں“ بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سنی تھیں جس کا مطلب ہے کہ یہیں فرشتے لوح محفوظ سے قضا و قدر کے فیصلے نوٹ کرتے ہیں۔ اسی مقام پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ تین چیزیں ملیں جو شب معراج کے خاص تحفے ہیں جن کی تفصیل پہلے گزر چکی ہے۔ اسی کے پاس اس رات کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبریل علیہ السلام کو دوسری مرتبہ ان کی اصلی صورت میں دیکھا۔ یہاں چار نہریں بھی دیکھیں جن کے سوتے اسی مقام پر ہیں۔ گویا سدرۃ المنتہٰی بہت سے مشاہدات کا مجموعہ اور عجائبات آسمانی کا مظہر ہے۔
● ساتویں آسمان پر بیت المعمور دیکھا جو فرشتوں کی عبادت گاہ ہے جس سے اللہ کی اس نورانی مخلوق کی عظمت و کثرت کا مشاہدہ ہوا کہ روزانہ ستر ہزار فرشتے اس میں عبادت کے لیے آتے ہیں، پھر قیامت تک ان کی دوبارہ باری نہیں آتی۔
● جنت و دوزخ اور اس کے بعض مناظر کا مشاہدہ جس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔
● اور یہ سب کچھ رات کے ایک نہایت ہی قلیل حصے میں ہوا جس کے لیے مہینوں درکار تھے بلکہ کسی انسان کے یہ بس میں ہی نہیں تھا کہ وہ ان عجائبات کو دیکھ سکے جن کا مشاہدہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو شب معراج میں کرایا گیا۔
معراج کے مزید چند مستند مشاہدات
مذکورہ دس نکتوں پر غور کرنے سے واضح ہو جاتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک نکتہ اور پہلو، ایک عظیم نشانی ہے اور ان کا مشاہدہ فی الواقع ﴿لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا﴾ اور ﴿لَقَدْ رَأَىٰ مِنْ آيَاتِ رَبِّهِ الْكُبْرَىٰ﴾ کا مصداق و مظہر ہے۔ تاہم ان کے علاوہ بھی کچھ اور مشاہدات ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس عظیم معجزاتی سفر میں کیے۔ ان میں سے جو سنداً صحیح ہیں، ان میں سے چند اہم واقعات حسب ذیل ہیں:
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو قبر میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھنا:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس رات مجھے سیر کرائی گئی، اس رات کو میں نے موسیٰ علیہ السلام کو قبر میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا۔“
(صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب فضائل موسیٰ، حدیث: 2375)
قبر یعنی برزخ میں آپ کو مشاہدہ کروایا گیا، اس سے برزخ کی زندگی کا اثبات ہوتا ہے جو ہر انسان کو حاصل ہوتی ہے، چاہے وہ مومن ہو یا کافر۔ انبیاء علیہم السلام تو تمام انسانوں میں افضل ہوتے ہیں، اس لیے یقیناً یہ برزخی زندگی انھیں دوسرے عام انسانوں کے مقابلے میں زیادہ بہتر انداز سے حاصل ہوتی ہوگی لیکن یہ زندگی کس قسم کی ہے؟ اس کی نوعیت و کیفیت کیسی ہے؟ اس کی تفصیل کا ہمیں علم نہیں ہے نہ ہم اسے بیان کر سکتے ہیں، تاہم اس کی بابت یہ دعویٰ کرنا کہ وہ دنیوی زندگی ہی کی طرح ہے بلکہ اس سے زیادہ قوی ہے جیسا کہ بعض لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں تو یہ دعویٰ بلا دلیل ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو پھر انھیں منوں مٹی کے نیچے دبا کر رکھنے کی ضرورت کیا ہے؟
داروغہ جہنم اور دجال کا مشاہدہ:
آپ کو داروغہ جہنم جس کا نام مالک ہے، اور دجال جس کا خروج قیامت کے قریب ہوگا، ان دونوں کا مشاہدہ بھی اسی رات کی نشانیوں کے طور پر کرایا گیا۔
(صحیح مسلم، باب الإسراء، حدیث: 165)
جنت کا مشاہدہ:
سدرۃ المنتہٰی پر پہنچنے اور وہاں بہت سے عجائبات کا مشاہدہ کرنے کے بعد، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ثم أدخلت الجنة فإذا فيها جنابذ اللؤلؤ، وإذا ترابها المسك
"پھر مجھے جنت میں لے جایا گیا تو میں نے وہاں دیکھا کہ موتیوں کے قبے ہیں اور اس کی مٹی کستوری ہے۔ ”
(صحیح مسلم، الإيمان، باب الإسراء برسول الله ﷺ ، حدیث: 163)
کوثر نہر کا مشاہدہ:
جنت میں آپ نے کوثر نہر کا مشاہدہ فرمایا، حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں: جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج کرائی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أتيت علىٰ نهر حافتاه قباب اللؤلؤ مجوف، فقلت: ما هٰذا يا جبريل؟ قال: هٰذا الكوثر
میں ایک نہر پر آیا اس کے دونوں کنارے موتیوں کے قبوں کے تھے، میں نے پوچھا، جبریل علیہ السلام یہ کیا ہے؟ جبریل علیہ السلام نے کہا، یہ کوثر ہے۔
(صحیح البخاری، التفسير، باب تفسير سورة الكوثر، حدیث: 4964)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ایک دوسری روایت میں ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
بينما أنا أسير فى الجنة إذا أنا بنهر حافتاه قباب الدر المجوف، قلت: ما هٰذا يا جبريل؟ قال: هٰذا الكوثر الذى أعطاك ربك، فإذا طينه مسك أذفر
میں ایک وقت جنت کی سیر کر رہا تھا کہ میں نے وہاں ایک نہر دیکھی جس کے دونوں کنارے جوف دار موتیوں کے قبے تھے۔ میں نے پوچھا، جبریل! یہ کیا ہے؟ جبریل علیہ السلام نے کہا: یہ کوثر ہے جو آپ کے رب نے آپ کو عطا کی ہے، اس کی مٹی خوشبودار کستوری ہے۔
(صحیح البخاری، الرقاق، باب في الحوض، حدیث: 6581)
ایک تیسری روایت ہے جس کا راوی شریک بن عبداللہ بن ابی نمر ہے۔ اس کی روایت اوہام کا مجموعہ ہے اس میں اسے پہلے آسمان کے مشاہدات میں بیان کیا گیا ہے۔
(صحیح البخاری، التوحيد، باب 37، حدیث: 7517)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے شریک کی روایت کے جن دس سے زیادہ اوہام کا ذکر کیا ہے، انھی اوہام میں سے ایک وہم نہر کوثر کا ذکر پہلے آسمان پر کرنا ہے۔
(فتح الباری، ج 13، ص: 593)
بہرحال ان روایات سے اس بات کا اثبات ہوتا ہے کہ کوثر نہر جنت میں ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کے موقع پر جنت میں اس کا مشاہدہ کیا ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو روز محشر میدان حشر میں ایک حوض عطا کیا جائے گا جس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور اس کی خوشبو کستوری سے زیادہ پاکیزہ اور اس میں رکھے گئے آبخورے، آسمان کے تاروں کی طرح ان گنت ہوں گے جو اس سے پانی پی لے گا، کبھی پیاسا نہیں ہوگا۔
(صحیح البخاری، الرقاق، باب الحوض، حدیث: 6579)
اس حوض کو بھی حوض کوثر کہا جاتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ حوض جنت سے متصل جنت کے ایک جانب ہوگا اور اس میں پانی جنت کے اندر جو نہر کوثر ہے اس سے آئے گا۔
(فتح الباری، ج 1، ص: 567)
حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے قدموں کی آہٹ سننا:
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جس رات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج کرائی گئی اور آپ جنت میں گئے تو جنت کی ایک جانب سے آپ نے قدموں کی آہٹ سنی۔ آپ نے پوچھا: جبریل! یہ کیا ہے؟ جبریل علیہ السلام نے کہا: "یہ بلال مؤذن کی آواز ہے۔ ” تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واپس آنے کے بعد لوگوں کو بتلایا: "بلال رضی اللہ عنہ کامیاب ہو گیا، میں نے اسے (جنت میں) اس طرح دیکھا۔ ”
(الفتح الربانی لترتيب مسند الإمام احمد بن حنبل الشیبانی، ج 20، ص: 254، 255، مطبوعہ مصر)
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے لقب ”صدیق“ کی وجہ تسمیہ:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کو جب یہ بیان کیا کہ وہ رات کو اس طرح مسجد اقصیٰ گئے اور وہاں سے آسمانوں پر گئے تو بہت سے لوگوں نے اس پر یقین نہیں کیا حتیٰ کہ بعض نئے نئے ایمان لانے والے بھی یہ واقعہ سن کر ایمان سے پھر گئے، اور دوڑے دوڑے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور کہا: تم نے سنا تمھارے ساتھی (پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم) نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ آج کی رات بیت المقدس کی سیر کر کے آئے ہیں۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا انھوں نے ایسا کہا ہے؟ انھوں نے کہا: ہاں، تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر انھوں نے کہا ہے تو واقعی سچ ہی ہوگا۔ لوگوں نے کہا: کیا تم اس بات کی تصدیق کرتے ہو کہ وہ رات کو بیت المقدس گئے اور صبح ہونے سے پہلے ہی واپس بھی آگئے؟ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہاں، میں تو ان کی اس سے بھی زیادہ بڑی باتوں کی تصدیق کرتا ہوں۔ میں تو ان کی صبح و شام ان باتوں کی تصدیق کرتا ہوں جو آسمان سے ان کے پاس آتی ہیں، چنانچہ اسی وجہ سے ابو بکر رضی اللہ عنہ کا نام الصدیق رکھ دیا گیا۔
(الصحيحة للألباني: 615/2، رقم الحديث: 306)
مشاطہ فرعون کا حسن انجام:
مشاطہ کے معنی ہیں، بالوں کو بنانے سنوارنے والی، بالوں میں کنگھی پھیرنے والی۔ فرعون نے اپنے اہل خانہ کی خدمت کے لیے مشاطہ (جسے آج کل کی اصطلاح میں بیوٹی میکر کہا جاسکتا ہے) رکھی ہوئی تھی۔ یہ فرعون کو نہیں بلکہ اللہ کو رب ماننے والی تھی۔ یہ ایک مرتبہ فرعون کی بیٹی کے بالوں میں کنگھی پھیر رہی تھی کہ اس کے ہاتھ سے کنگھی گر گئی تو اس کے منہ سے بے ساختہ یہ الفاظ نکل گئے کہ ”فرعون ہلاک ہو۔ “ تو بیٹی نے یہ بات اپنے باپ فرعون کو بتلا دی جس پر اس نے اسے قتل کروا دیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "معراج کی رات میں نے ایک بڑی پاکیزہ خوشبو محسوس کی تو میں نے پوچھا: جبریل! یہ خوشبو کیا ہے؟ جبریل علیہ السلام نے کہا: یہ مشاطہ، اس کا خاوند اور اس کی بیٹی ہے۔ ”
(الإسراء والمعراج للألباني، ص: 56)
شیخ البانی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ یہ روایت سنداً ضعیف ہے لیکن اس کا ایک اور شاہد ہے جس سے اسے تقویت مل جاتی ہے۔
(الإسراء والمعراج للألباني، ص: 57)
حجامت (سینگی لگوانے) کی اہمیت:
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شب معراج کی بابت فرمایا:
ما مررت ليلة أسري بي بملإ، إلا قالوا: يا محمد! مر أمتك بالحجامة
”میں معراج کی رات فرشتوں کے جس گروہ کے پاس سے بھی گزرتا وہ یہی کہتا: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! اپنی امت کو سینگی لگوانے کا حکم دیں۔“
(سنن ابن ماجه، الطب، باب الحجامة، حدیث: 3479 والصحيحة للألباني، حدیث: 2263)
سینگی لگانے کو پچھنے لگانا بھی کہتے ہیں۔ جس کا مطلب نشتر یا استرے سے جسم کو گود کر جسم سے خون نکالنا ہے۔ (نوراللغات)
یہ ایک طریقہ علاج ہے جس سے فاسد خون نکل جاتا ہے اور فاسد خون کے نکل جانے سے انسان صحت یاب ہو جاتا ہے۔ یہ بہت کامیاب طریقہ علاج تھا لیکن یونانی حکمت اور طریقہ علاج کے زوال پذیر ہونے کے ساتھ ہی یہ طریقہ علاج بھی تقریباً متروک ہو گیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی یہ طریقہ علاج رائج تھا اور آپ نے خود بھی کئی مرتبہ سینگی لگوائی ہے جس کو عربی میں "حجامت” کہتے ہیں۔
اس حدیث معراج سے بھی اس طریقہ علاج کی اہمیت و فضیلت کا اثبات ہوتا ہے۔
حضرت جبریل علیہ السلام کا ایک اور منظر:
یہ تو پہلے گزر چکا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبریل علیہ السلام کو ان کی اصلی شکل میں دو مرتبہ دیکھا ہے۔ ان میں سے ایک موقع شب معراج کا ہے جس میں آپ نے جبریل کو سبز رنگ کے ریشمی لباس میں دیکھا جس نے آسمانی افق (کناروں) کو بھر دیا تھا۔ (صحیح البخاری، تفسير سورة النجم، حدیث: 4858) لیکن اسی معراج کے موقع پر اللہ کے نبی نے حضرت جبریل علیہ السلام کا ایک اور منظر بھی ملاحظہ فرمایا اور یہ وہ منظر تھا جب جبریل علیہ السلام پر اللہ کی خشیت طاری تھی اس خشیت الٰہی نے انھیں ایسے کر دیا تھا جیسے پرانا بوسیدہ ٹاٹ ہوتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مررت بجبريل ليلة أسري بي بالملإ الأعلىٰ، وهو كالحلس البالي من خشية الله عزوجل
میں شب معراج کو ملإ اعليٰ (فرشتوں کی مجلس) میں جبریل علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو وہ اللہ عزوجل کے خوف سے ایسے تھے جیسے پرانا بوسیدہ ٹاٹ ہوتا ہے۔
(الصحيحة: 362/5، حدیث: 2289)
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا امت محمدیہ کے نام خصوصی پیغام:
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لقيت إبراهيم ليلة أسري بي فقال: يا محمد! أقرئ أمتك مني السلام وأخبرهم أن الجنة طيبة التربة عذبة الماء، وأنها قيعان، وأن غراسها سبحان الله والحمد لله ولا إلٰه إلا الله والله أكبر
شب معراج کو میری ملاقات حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ہوئی تو انھوں نے کہا: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! اپنی امت کو میری طرف سے سلام کہیے اور ان کو بتلائیے کہ جنت کی مٹی بڑی عمدہ ہے، پانی میٹھا ہے، لیکن وہ چٹیل میدان ہے (اس میں کاشت کرنے کی ضرورت ہے) اس کی کاشت کاری: سبحان الله والحمد لله ولا إلٰه إلا الله والله أكبر ہے۔
(جامع ترمذی ، الدعوات ، باب ان غراس الجنۃ ،حدیث :3462)
لا حول ولا قوة إلا بالله کی فضیلت:
ایک دوسری روایت میں ہے، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا:
مر أمتك فليكثروا من غراس الجنة، فإن تربتها طيبة، وأرضها واسعة، قال: وما غراس الجنة؟ قال: لا حول ولا قوة إلا بالله
اپنی امت سے کہیں کہ وہ جنت میں خوب کاشت کاری کریں، اس لیے کہ اس کی مٹی بڑی عمدہ ہے اور اس کی زمین فراخ ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: جنت کی کاشت کاری کیا ہے؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا: لا حول ولا قوة إلا بالله.
(مسند أحمد 5: 418)
مذکورہ دونوں روایات کو شیخ البانی رحمہ اللہ نے شواہد کی بنیاد پر صحیح قرار دیا ہے۔
(الصحيحة، ج 1، ص: 165-166، حدیث: 105 الإسراء والمعراج، ص: 99-107)