الْحَدِيثُ الثَّانِي: عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا { أَنَّهَا كَانَتْ تُرَجِّلُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهِيَ حَائِضٌ ، وَهُوَ مُعْتَكِفٌ فِي الْمَسْجِدِ . وَهِيَ فِي حُجْرَتِهَا: يُنَاوِلُهَا رَأْسَهُ . } وَفِي رِوَايَةٍ { وَكَانَ لَا يَدْخُلُ الْبَيْتَ إلَّا لِحَاجَةِ الْإِنْسَانِ } . وَفِي رِوَايَةٍ أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ ” إنْ كُنْتُ لَأَدْخُلُ الْبَيْتَ لِلْحَاجَةِ وَالْمَرِيضُ فِيهِ . فَمَا أَسْأَلُ عَنْهُ إلَّا وَأَنَا مَارَّةٌ ” .
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ وہ بحالتِ حیض نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے حجرے میں ہی کنگھی کیا کرتی تھیں ، حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں اعتکاف کیے ہوتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا سر مبارک ان کے آگے کر دیتے۔
ایک روایت میں ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم انسانی ضرورت کے علاوہ گھر نہیں آیا کرتے تھے۔
ایک اور روایت میں ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اگر میں (بحالت اعتکاف ) کسی حاجت کی خاطر گھر جایا کرتی تو چلتے چلتے گھر میں جو مریض ہوتا اس کا حال بھی پوچھ لیا کرتی ۔
شرح المفردات:
الترجيلُ: بالوں کو سنوارنا ، کنگی سے درست کرنا۔ /مصدر، باب تفعیل ۔
حَاجَةُ الْإِنْسَان: اس سے مراد بول و براز ہے۔
مارة: یعنی گزرتے گزرتے ، چلتے چلتے ۔ / واحد مونث ، اسم فاعل، باب نَصَرَ يَنْصُرُ ۔
شرح الحديث:
اس حدیث سے یہ مسئلہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر معتکف اپنے جسم کا کوئی ایک عضو مسجد کی حدود سے باہر نکال لے اور باقی سارا جسم مسجد میں ہی ہو ، تو اس کا اعتکاف نہیں ٹوٹتا اور اگر کوئی ایسی ضرورت ہو کہ جس کے لیے باہر جانا ناگزیر ہو، مثلاً: اگر مسجد میں بیت الخلا کا انتظام نہ ہو تو قضائے حاجت کے لیے گھر جانا جائز ہے، لیکن بلا عذرِ شرعی مسجد سے نکلنا ہرگز جائز نہیں ہے ۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے عمل سے پتہ چلتا ہے کہ مریض کی عیادت اور اس جیسے دیگر امور میں کسی کے پاس کھڑے ہو کر یا بیٹھ کر گپ شپ نہ لگائی جائے، بلکہ چلتے چلتے صرف خیریت دریافت کر لی جائے ، تاکہ حقِ مسلم ادا ہو سکے۔
(209) صحيح البخاري، كتاب الاعتكاف، باب المعتكف يدخل رأسه البيت للغسل ، ح: 2046. صحيح مسلم ، كتاب الحيض ، باب جواز غسل الحائض رأس زوجها وترجيله ، ح: 297 .
——————
الْحَدِيثُ الرَّابِعُ: عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ حُيَيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ { كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُعْتَكِفًا . فَأَتَيْتُهُ أَزُورُهُ لَيْلًا . فَحَدَّثْتُهُ ، ثُمَّ قُمْتُ لِأَنْقَلِبَ ، فَقَامَ مَعِي لِيَقْلِبَنِي – وَكَانَ مَسْكَنُهَا فِي دَارِ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ – فَمَرَّ رَجُلَانِ مِنْ الْأَنْصَارِ فَلَمَّا رَأَيَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَسْرَعَا . فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: عَلَى رِسْلِكُمَا . إنَّهَا صَفِيَّةُ بِنْتُ حُيَيٍّ . فَقَالَا: سُبْحَانَ اللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ . فَقَالَ: إنَّ الشَّيْطَانَ يَجْرِي مِنْ ابْنِ آدَمَ مَجْرَى الدَّمِ . وَإِنِّي خَشِيتُ أَنْ يَقْذِفَ فِي قُلُوبِكُمَا شَرًّا – أَوْ قَالَ شَيْئًا }
. وَفِي رِوَايَةٍ { أَنَّهَا جَاءَتْ تَزُورُهُ فِي اعْتِكَافِهِ فِي الْمَسْجِدِ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ . فَتَحَدَّثَتْ عِنْدَهُ سَاعَةً . ثُمَّ قَامَتْ تَنْقَلِبُ . فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَهَا يَقْلِبُهَا ، حَتَّى إذَا بَلَغَتْ بَابَ الْمَسْجِدِ عِنْدَ بَابِ أُمِّ سَلَمَةَ } ثُمَّ ذَكَرَهُ بِمَعْنَاهُ .
سیدہ صفیہ بنت حی رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف فرما تھے کہ میں رات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کے لیے آئی تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے باتیں وغیرہ کیں، پھر میں واپس جانے کے لیے کھڑی ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی مجھے چھوڑنے کے لیے میرے ساتھ ہی کھڑے ہو گئے ، صفیہ رضی اللہ عنہا کی رہائش گاہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کے مکان میں ہی تھی، (وہاں سے ) دو انصاری صحابی گزرے، جب انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو تیز تیز چلنے لگے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے (انہیں ) فرمایا: ٹھہرو، یہ صفیہ بنت حیی ہے۔ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول ! سبحان اللہ (بھلا ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کچھ بُرا سوچ سکتے ہیں؟ ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یقیناً شیطان ابن آدم کے خون کی جگہ میں دوڑتا ہے اور مجھے خدشہ لاحق ہوا کہ وہ تمھارے دلوں میں کوئی بُرا وسوسہ ڈال دے گا، یا فرمایا: کوئی چیز (یعنی کوئی شک پیدا کر دے گا)۔
ایک روایت میں ہے: رمضان کے آخری عشرے میں مسجد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعتکاف کے دوران (سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملنے آئیں تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ وقت باتیں کرتی رہیں ، پھر واپس جانے کے لیے کھڑی ہوئیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی انھیں چھوڑنے جانے کے لیے کھڑے ہو گئے ، یہاں تک کہ جب وہ اُم سلمہ مسجد کے اس دروازے کے پاس پہنچیں جہاں ان کے گھر کا دروازہ پڑتا تھا پھر (اس سے آگے ) اس معنی کی حدیث ذکر کی ۔
شرح المفردات:
ليقليني: تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے میرے گھر تک چھوڑ آئیں ۔
يقلبُ: واحد مذکر غائب، فعل مضارع معلوم، باب ضَرَبَ يَضْرِبُ۔
مسكن: جائے سکونت ، رہائش گاہ / اسم ظرف ، باب نَصَرَ يَنْصُرُ ۔
عَلى رِسْلِكُمَا: اپنے قدموں پر رک جاؤ، تم دونوں یہیں ٹھہر جاؤ۔
مَجْرَى الدَّمِ: خون کے چلنے کی جگہ یعنی رگیں ۔ / مجرى: اسم ظرف، باب ضَرَبَ يَضْرِبُ۔
يَقْذِفُ: تہمت لگاتا، برا وسوسہ ڈالتا۔ / واحد مذکر غائب فعل مضارع معلوم، باب ضَرَبَ يَضْرِبُ۔
شرح الحديث:
باعذ رامور ضروریہ میں بالا جماع انسان مسجد سے باہر نکل سکتا ہے، مثلاً مسجد میں انتظام نہ ہونے کی صورت میں قضائے حاجت اور غسل و طہارت کے لیے، کھانا مسجد میں پہنچ نہ سکنے یا دستیاب نہ ہونے کی صورت میں کھانے پینے کے لیے، اگر ایسی مسجد میں اعتکاف بیٹھا ہو کہ جہاں جمعہ نہ ہوتا ہو تو جمعے کی ادائیگی کی خاطر دوسری مسجد میں جانے کے لیے اور بہت ہی زیادہ بیمار شخص کی عیادت کے لیے۔ لیکن اگر مریض کسی شدید بیماری میں مبتلا نہ ہو تو پھر اس کی اجازت نہیں ہے۔ [كشف اللثام للسفاريني: 78/4]
راوية الحديث:
ام المومنين ام یحیٰی صفیہ بنت حیی۔ آپ موسی علیہ السلام کے بھائی ہارون بن عمران کی آل میں سے تھیں۔ اسی لیے آپ کو نبی کی بیٹی، نبی کی بھتیجی اور نبی کی بیوی کہا جاتا ہے۔ آپ کی والدہ کا نام برہ بنت سموال تھا، جو رفاعہ بنت سموال کی بہن تھیں۔ خیبر کے سال ماہِ رمضان کے 7 ہجری کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو قیدی بنایا، پھر آزاد کر کے آپ سے شادی کرلی اور آپ کی آزادی ہی کو آپ کا حق مہر مقرر فرمایا۔ معاویہ رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں ماہِ رمضان 50 ہجری میں آپ کی وفات ہوئی اور آپ کو بقیع غرقد میں سپرد خاک کیا گیا۔
(211) صحيح البخاري ، كتاب الاعتكاف، باب هل يخرج المعتكف الى باب المسجد ، ح: 2035 . صحيح مسلم ، كتاب السلام ، باب بيان انه يستحب لمن روى خالياً بامرأته. . . ، ح: 2175 .