مضاربت جائز ہے جب تک ناجائز اُمور پر مشتمل نہ ہو
لغوى وضاحت: لفظِ مضاربة باب ضَارَبَ يُضَارِبُ (مفاعلة) سے مصدر ہے۔ اسے مقارضۃ بھی کہتے ہیں یعنی مشاركت في التجارة (تجارت میں باہم مشارکت کرنا ) ۔
اصطلاحی تعریف: ایسی تجارت جس میں سرمایہ ایک شخص کا اور محنت کسی دوسرے شخص کی ہو اس شرط پر کہ منافع دونوں میں طے شدہ شرائط کے مطابق تقسیم کیا جائے گا اور تجارت کے خسارے میں نقصان صرف مال کے مالک کا ہو گا اور عامل کو اپنی محنت و جدو جہد کا نقصان ہو گا ۔
[الفقه الإسلامي وأدلته: 3924/5 ، تبيين الحقائق: 52/5 ، تكملة فتح القدير: 57/7]
➊ حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ جب کسی کو مضاربت پر اپنا سرمایہ دیتے تو شرط لگاتے کہ میرے مال سے حیوان کی تجارت نہیں کرو گے ، (میرا مال ) سمندر میں لے کر نہیں جاؤ گے اور اسی طرح سیلابی جگہوں پر لے کر نہیں جاؤ گے۔ اگر ایسا کیا تو میرے مال کے ضامن و ذمہ دار تم ہو گے۔
[صحيح: إرواء الغليل: 293/5 ، دارقطني: 63/3 ، بيهقى: 111/6]
➋ اس بیع کی مشروعیت کے دلائل میں سے اجماع بھی ہے کیونکہ صحابہ کی کثیر تعداد یتیم بچوں کے اموال مضاربت پر دیتی اور کسی نے اس پر اظہار تعجب نہ کیا۔
[نصب الراية: 113/4]
➌ صحابہ کرام میں سے حضرت حکیم بن حزام ، حضرت ابن مسعود ، حضرت عباس ، حضرت جابر ، حضرت ابو موسیٰ ، حضرت ابن عمر ، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم سے عملی طور پر یہ بیع ثابت ہے ۔
[عبد الرزاق: 248/8 ، دار قطني: 242 ، تلخيص الحبير: 58/3 ، نصب الراية: 114/4 ، ترتيب المسند للشافعي: 169/2]
(ابن حزمؒ ) دور نبوی میں اس بیع کی موجودگی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس پر اظہار تعجب نہ کرنا اس کی مشروعیت کا واضح ثبوت ہے۔
[مراتب الإجماع: ص/19]
(البانیؒ) معاملات میں اصل جواز ہے لٰہذا کوئی ممانعت نہ ہونے کی وجہ سے یہ بیع درست ہے ۔
[إرواء الغليل: 294/5]
(ابن حجرؒ ) اگر مضاربت جائز نہ ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم منع فرما دیتے ۔
[تلخيص الحبير: 58/3]
(ابن تیمیہؒ) اس کی مشروعیت نص پر قائم اجماع کی وجہ سے ہے۔
[مجموع الفتاوى: 195/19]
◈ بعض حضرات نے یہ اعتراض کیا ہے کہ چونکہ یہ بیع نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں اس لیے جائز نہیں۔
تو اس کا جواب یہ ہے کہ حدیث کی ایک قسم ”تقریری حدیث“ بھی ہے۔ یعنی ایسا کام جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہوا ہو اور آپ کے علم میں بھی ہو لیکن آپ نے اس سے منع نہ فرمایا ہو بلکہ خاموشی اختیار کی ہو۔ چنانچہ علم ہونے کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس عمل کو برقرار رکھنا حدیث کی ایک قسم ہے اور اس کے جواز کا ثبوت ہے۔
علاوہ ازیں معاملات میں اصل اباحت و جواز کا اصول معروف ہے جب تک کہ واضح ممانعت نہ ہو۔ لٰہذا یہ بیع عقل و نقل سے ثابت ہے۔
[تلخيص الحبير: 58/3 ، مجموع الفتاوى: 195/19]
◈ قیاس بھی اس بیع کی مشروعیت ثابت کرتا ہے وہ اس طرح کہ انسان غنی بھی ہیں اور فقیر بھی ، جس کے پاس مال نہیں اس کا کسی سرمایہ دار سے بیع مضاربت میں نفع کما کے اپنے اہل و عیال کو کھلانا کیونکر منوع ہو سکتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے عقود و بیوع کو انسانی فوائد و مصالح اور حاجاتِ لازمہ کو پورا کرنے کے لیے ہی مشروع قرار دیا ہے۔
[بدائع الصنائع: 79/6 ، المبسوط: 81/22 ، المهذب: 384/1]
جب شرکاء راستے کی چوڑائی میں جھگڑ پڑیں تو وہ (چوڑائی) سات ہاتھ ہو گی اور کوئی بھی پڑوسی اپنے پڑوسی کو اپنی دیوار پر شہتیر رکھنے سے نہ روکے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
إذا اختلـفـتـم فـي الطريق فاجعلوه سبعة أذرع
”اختلاف کے وقت تم راستے کا عرض سات ہاتھ طے کر لو ۔“
[بخاري: 2473 ، كتاب المظالم والغصب: باب اذا اختلفوا فى الطريق الميتاء ، مسلم: 1613 ، ترمذي: 1356 ، ابو داود: 2632 ، ابن ماجة: 2338]
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا يمنع جار جاره أن يغرز خشبه فى جداره
”کوئی شخص اپنے پڑوسی کو اپنی دیوار میں شہتیر گاڑنے سے نہ روکے ۔“
پھر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے یہ کیا بات ہے کہ میں تمہیں اس سے منہ پھیرنے والا پاتا ہوں۔ اللہ کی قسم! میں تو اس حدیث کا تمہارے سامنے برابر اعلان کرتا ہی رہوں گا۔
[بخارى: 2463 ، كتاب المظالم والغصب: باب لا يمنع جار جاره أن يغرز خشبه فى جداره ، مسلم: 1609 ، ابن ماجة: 2337 ، ابو داود: 3634 ، مؤطا: 32 ، أحمد: 313/1 ، بيهقى: 29/6 ، ترمذي: 1353]
شرکاء میں سے کوئی بھی نہ تکلیف پہنچائے اور نہ ہی پہنچائی گئی تکلیف سے زیادہ اذیت پہنچائے اور جو شخص اپنے شریک کو نقصان پہنچائے گا تو امام اس کا درخت اکھڑوانے اور اس کا گھر بیچنے کے ساتھ اسے سزا دے سکتا ہے
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
لا ضرر ولا ضرار
[صحيح: إرواء الغليل: 896 ، الصحيحة: 448/1 ، ابن ماجة: 2341 ، كتاب الأحكام: باب من بني فى حقه ما يضر بجاره ، حاكم: 57/2 ، أحمد: 313/1 ، طبراني كبير: 302/1 ، نصب الراية: 384/4]
➊ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ ، اور ایک انصاری کے درمیان فصلوں کو پانی لگانے کے متعلق جھگڑا ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکلیف پہنچانے والے کے لیے سخت فیصلہ فرمایا ۔
[بخاري: 2359 – 2360 ، كتاب المساقاة: باب سكر الأنهار]
➋ امام بخاریؒ نے باب قائم کیا ہے کہ :
الإمام ياتي قوما فيصلح بينهم
”امام قوم میں آ کر ان کے باہمی معاملات میں صلح کرائے ۔“
[بخاري: قبل الحديث/ 7190 ، كتاب الأحكام]
➌ حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کا ایک درخت کسی انصاری کے باغ میں تھا ، جہاں وہ مع اہل و عیال قیام پذیر تھا۔ سمره رضی اللہ عنہ کا وہاں جانا اس کے لیے اذیت و ضرر کا موجب ہوا تو اس نے سمرہ رضی اللہ عنہ سے کچھ لین دین کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے انکار کر دیا پھر جب معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سمرہ رضی اللہ عنہ سے کہا اپنا درخت فروخت کر دو ۔ انہوں نے انکار کر دیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کچھ لین دین کر لو۔ انہوں نے پھر انکار کر دیا۔ پھر آپ نے کہا کہ وہ درخت ہبہ کر دو۔ انہوں نے تیسری مرتبہ بھی انکار کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصاری سے کہا یہ مضار (اذیت دینے والا) ہے اس کا درخت اکھاڑ دو۔
[بيهقى: 158/6 ، ابو داود: فى المراسيل: 407]