مصیبت کی حالت میں لوگوں کے مختلف مراتب
سوال:
ایسے شخص کے بارے میں کیا حکم ہے جو کسی مصیبت کے نازل ہونے پر ناراضگی کا اظہار کرتا ہے؟
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مصیبت کی حالت میں انسانوں کے مختلف درجات ہوتے ہیں، جو درج ذیل چار مراتب میں بیان کیے جا سکتے ہیں:
پہلا مرتبہ: ناراضگی کا اظہار
اس درجے کے لوگ مصیبت پر ناراضی کا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ اس ناراضگی کی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں:
❀ دل سے ناراضی کا اظہار:
انسان دل میں اللہ تعالیٰ سے ناراض ہو جائے اور اللہ کی طرف سے مقدر میں آئی آزمائش پر غصے کا اظہار کرے۔ یہ عمل حرام ہے اور بعض اوقات کفر تک پہنچا دیتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَمِنَ النّاسِ مَن يَعبُدُ اللَّهَ عَلى حَرفٍ فَإِن أَصابَهُ خَيرٌ اطمَأَنَّ بِهِ وَإِن أَصابَتهُ فِتنَةٌ انقَلَبَ عَلى وَجهِهِ خَسِرَ الدُّنيا وَالءاخِرَةَ﴾
…سورة الحج: ١١
’’اور لوگوں میں کوئی ایسا بھی ہے کہ وہ کنارے (شک) پر اللہ کی عبادت کرتا ہے۔ اگر اس کو کوئی (دنیاوی) فائدہ پہنچے تو اس کے سبب مطمئن ہو جاتا ہے اور اگر کوئی آفت آپڑے تو منہ کے بل لوٹ جاتا ہے (کفر کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے) اس نے دنیا میں بھی نقصان اٹھایا اور آخرت میں بھی، یہی تو نقصان صریح ہے۔‘‘
❀ زبان سے ناراضی کا اظہار:
زبان سے بےصبری کا اظہار کرنا، ہلاکت و تباہی کی باتیں کرنا، جزع و فزع کرنا، وغیرہ—یہ تمام افعال حرام اور شریعت میں ممنوع ہیں۔
❀ اعضا سے ناراضی کا اظہار:
مثلاً رخساروں پر طمانچے مارنا، گریبان پھاڑنا، بال نوچنا وغیرہ۔ یہ سب افعال حرام ہیں اور صبر کے واجب حکم کے خلاف ہیں۔
دوسرا مرتبہ: صبر کرنا
اس درجے میں انسان مصیبت کو برداشت کرتا ہے، اگرچہ اسے یہ ناگوار لگتی ہے، لیکن وہ اس پر ناراض نہیں ہوتا۔ شاعر کے قول میں صبر کی حقیقت یوں بیان ہوئی ہے:
الصَّبْرُ مِثْلُ اسْمِهِ مُرٌّ مَذَاقَتُهُ
لٰكِنْ عَوَاقِبُهُ أَحْلٰى مِنَ الْعَسَلِ
’’صبر کی مانند اس کا ذائقہ بھی کڑوا ہے، لیکن اس کے نتائج شہد سے زیادہ میٹھے ہوتے ہیں۔‘‘
❀ یہ وہ حالت ہے جب بندہ جانتا ہے کہ مصیبت ناگوار ہے لیکن ایمان کی طاقت اسے ناراضی سے روکے رکھتی ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ مصیبت کا آنا یا نہ آنا اس کے لیے برابر ہے۔
❀ صبر کرنا واجب ہے جیسا کہ قرآن مجید میں حکم آیا:
﴿وَاصبِروا إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصّـبِرينَ﴾
سورة الأنفال: ٤٦
’’اور صبر سے کام لو کہ اللہ صبر کرنے والوں کا مددگار ہے۔‘‘
تیسرا مرتبہ: رضا (خوش دلی کے ساتھ قبول کرنا)
اس درجے میں انسان مصیبت پر راضی برضا ہو جاتا ہے۔ اسے نہ ہی مصیبت کا آنا ناگوار لگتا ہے اور نہ ہی وہ اس پر بوجھ محسوس کرتا ہے۔
❀ اس کے ایمان کی مضبوطی اسے ناراضگی سے بچاتی ہے۔
❀ راجح قول کے مطابق یہ مرتبہ مستحب ہے یعنی پسندیدہ ہے، لیکن واجب نہیں۔
❀ صبر اور رضا کے مراتب میں فرق ہے، کیونکہ رضا میں مصیبت کا آنا یا نہ آنا بندے کے لیے یکساں محسوس ہوتا ہے۔
❀ اگرچہ رضا مستحب ہے، صبر بہرحال واجب ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَاصبِروا إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصّـبِرينَ﴾
چوتھا مرتبہ: شکر (اللہ کا شکر ادا کرنا)
یہ سب سے اعلیٰ درجہ ہے کہ بندہ مصیبت کے وقت اللہ کا شکر ادا کرے۔
❀ وہ جانتا ہے کہ مصیبت اس کے گناہوں کا کفارہ اور نیکیوں میں اضافہ ہے۔
❀ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:
«مَا مِنٍْ مُصِيْبَةٍ تُصِيْبُ الْمُسْلِمَ إِلَّا كَفَّرَ اللّٰهُ بِهَا عَنْهُ حَتَّى الشَّوْكَةِ يُشَاكُهَا»
صحیح البخاری، المرض، باب ما جاء فی کفارة المرض… حدیث: ۵۶۴۰، صحیح مسلم، البر و الصلة، باب ثواب المومن فیما یصیبه من مرض، حدیث: ۲۵۷۲
’’مسلمان کو جو مصیبت بھی پہنچتی ہے اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے حتیٰ کہ اسے چبھنے والے کانٹے کو بھی اللہ تعالیٰ (اس کے گناہوں کا کفارہ بنا دیتا ہے)۔‘‘
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب