مصیبت پر صبر کے فضائل قران و حدیث کی روشنی میں
یہ اقتباس شخبوط بن صالح بن عبدالھادی المری کی کتاب اپنے آپ پر دم کیسے کریں (نظربد، جادو، اور آسیب سے بچاو اور علاج) سے ماخوذ ہے۔ کتاب پی ڈی ایف میں ڈاونلوڈ کریں۔

مصیبت کا علاج

مصیبت پر صبر:

❀ اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں:
وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ أُولَئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ
[البقرة: 155-157]
اور ان صبر کرنے والوں کو خوشخبری دیجیے، جنہیں جب کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں: بیشک ہم اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں اور ہمیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ ان پر ان کے رب کی نوازشیں اور رحمتیں ہیں اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔
بعض سلف صالحین کے ہاں جب مصیبت پر تعزیت کی گئی تو انہوں نے کہا: میں کیونکر مصیبت پر صبر نہیں کروں گا جب کہ میرے رب نے صبر پر میرے ساتھ تین چیزوں کا وعدہ کیا ہے، ان میں سے ہر ایک چیز مجھے پوری دنیا اور اس کے تمام خزانوں سے بڑھ کر محبوب ہے۔
[يہ مضمون ابن قيم كي كتاب زادالمعاد سے ليا گيا هے۔ 146/4]
اللہ تعالیٰ کی طرف سے وعدہ کی گئی تین چیزیں یہ ہیں:
➊ اس کی طرف سے ان پر درود و برکات
➋ اس کی رحمتیں
➌ اس کی طرف سے ہدایت
[عدة الصابرين، لابن قيم: 131]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی بھی مسلمان انسان ایسا نہیں جسے کوئی مصیبت پہنچتی ہو اور وہ کہتا ہو:
إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ اللَّهُمَّ أَجْرْنِي فِي مُصِيبَتِي وَاخْلُفْ لِي خَيْرًا مِنْهَا
یقیناً ہم اللہ کے لیے ہیں اور اللہ ہی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ اے اللہ! مجھے میری مصیبت میں اجر عطا فرما اور مجھے اس کے بدلے اس سے بہتر عطا فرما۔
تو اللہ تعالیٰ اسے اس مصیبت پر اجر عطا کرتے ہیں اور اس کے بدلے میں اسے بہترین نعم البدل عطا فرماتے ہیں۔
[مسلم: 918]
یہ كلمہ: إنا لله وإنا إليه رجعون کے مصائب میں بڑا آزمودہ اور کارگر علاج ہے۔ اور انسان کے لیے بدیر یا جلدی نعم البدل کے لیے ہر لحاظ سے بہتر ہے۔
● مصیبت زدہ کو چاہیے کہ وہ اس پر غور و فکر کرے۔ وہ دیکھے گا کہ اگر وہ اس مصیبت پر صبر کرے اور اللہ کی رضا پر راضی رہے، تو جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے اپنے پاس ذخیرہ کر رکھا ہے، اس کا اجر اس مصیبت سے کئی گنا زیادہ ہے۔ اگر اس پر یہ مصیبت نہ آتی تو اسے یہ اجر و ثواب نہ مل سکتا۔ اور یہ بھی غور کرنا چاہیے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتے تو اس سے بڑی مصیبت میں مبتلا کر سکتے تھے۔
● انسان کا یہ پختہ یقین اور ایمان ہونا چاہیے کہ اس پر جو مصیبت آئی ہے وہ ہرگز ٹلنے والی نہ تھی۔ اور جو چیز مل گئی ہے، وہ ہرگز اس سے پہنچنے والی نہ تھی۔
❀ اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں:
مَا أَصَابَ مِنْ مُصِيبَةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي أَنْفُسِكُمْ إِلَّا فِي كِتَابٍ مِنْ قَبْلِ أَنْ نَبْرَأَهَا إِنَّ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ لِكَيْلَا تَأْسَوْا عَلَى مَا فَاتَكُمْ وَلَا تَفْرَحُوا بِمَا آتَاكُمْ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ
[الحديد: 22-23]
کوئی بھی مصیبت جو زمین میں آتی ہے یا خود تمہارے نفوس کو پہنچتی ہے، وہ ہمارے پیدا کرنے سے پہلے ہی ایک کتاب میں لکھی ہوئی ہے۔ یہ بات بلاشبہ اللہ تعالیٰ کے لیے آسان کام ہے۔ یہ اس لیے کہ جو کچھ تمہیں نہ مل سکے اس پر تم غم نہ کیا کرو اور جو کچھ اللہ تعالیٰ تمہیں دے دے اس پر اترایا نہ کرو، اور اللہ تعالیٰ کسی بھی خود پسند اور فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔
● مصیبت زدہ کو چاہیے کہ وہ دوسرے مصیبت زدہ لوگوں کی راہوں کی اتباع کرتے ہوئے اپنے دکھ کی آگ کو ٹھنڈا کرے۔ ہر وادی میں خوش نصیب لوگ ہوتے ہیں۔
● انسان کو جان لینا چاہیے کہ آہ و بکا کرنے سے کوئی بھی چیز واپس نہیں آئے گی، بلکہ اس تکلیف اور دکھ میں اضافہ ہوگا۔ درحقیقت گریہ وزاری کرنا مرض کا بڑھنا ہے۔ یہ بھی جان لینا چاہیے کہ گریہ وزاری سے دشمن خوش ہوتے ہیں اور دوست کو اس سے تکلیف ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس پر ناراض ہوتا ہے، اور شیطان خوش ہوتا ہے، اور انسان کا اجر و ثواب ضائع ہو جاتا ہے اور اس کا نفس کمزور پڑ جاتا ہے۔
● انسان کو یہ بھی جان لینا چاہیے کہ آخر کار اس نے اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹ کر جانا ہے اور دنیا کی ہر چیز کو اپنے پیچھے چھوڑ جانا ہے۔ وہ اپنے رب کے پاس اس حالت میں آئے گا جیسے اسے پہلے بغیر کسی مال و اہل اور بغیر دوست و احباب کے پیدا کیا گیا تھا۔ لیکن اس کے اعمال اس کے ساتھ ہوں گے۔ اگر اعمال اچھے ہیں تو اچھا ساتھی ہے؛ اور اگر اعمال برے ہیں تو برا ساتھی۔
● انسان کو یہ بھی جان لینا چاہیے کہ صبر و ایمان اور اللہ تعالیٰ سے اجر کی امید پر انسان کو وہ کچھ ملنے والا ہے جو اس کھو جانے والے مال سے بہت زیادہ ہے۔ اگر یہ مال باقی رہنے والا بھی ہوتا تو پھر بھی انسان کے لیے وہ بیت الحمد ہی کافی ہے جو مصیبت پر صبر کرنے اور بوقت مصیبت إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ کہنے کی وجہ سے جنت میں اس کے لیے بنایا جائے گا۔
❀ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
جب کسی بندے کا بچہ فوت ہو جاتا ہے تو اللہ عزوجل اپنے فرشتوں سے دریافت فرماتے ہیں: کیا تم نے میرے بندے کے بچے کی روح قبض کر لی؟ تو فرشتے جواب دیتے ہیں: جی ہاں۔ پھر اللہ تعالیٰ بطور تاکید فرشتوں سے سوال کرتے ہیں: کیا تم نے میرے بندے کے جگر گوشے کی روح نکال لی؟ تو فرشتے جواب دیتے ہیں: جی ہاں۔ تو اللہ جل جلالہ ان سے پوچھتے ہیں: میرے بندے نے کیا کہا؟ فرشتے عرض کرتے ہیں: اس بندے نے اس حادثہ پر تیری حمد و ثناء بیان کی اور إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ کہا۔ تو اللہ تعالیٰ فرشتوں کو حکم دیتے ہیں: اے فرشتو! میرے بندے کے لیے جنت میں ایک گھر تعمیر کر دو اور اس کا نام بيت الحمد رکھ دو۔
[صحيح الترمذي: 1021]
● انسان کو یہ بھی اچھی طرح جان لینا چاہیے کہ جو مصیبت اس پر واقع ہوئی ہے، اس میں اس کے لیے اجر ہے۔ پس جو کوئی اللہ تعالیٰ کے لکھے پر راضی رہا، اس کے لیے رضامندی ہے، اور جو کوئی اس پر ناراض ہو گیا، اس کے لیے ناراضگی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے سے محبت کرتے ہیں تو اسے آزماتے ہیں۔ پس جو کوئی اس آزمائش پر راضی رہا، اس کے لیے رضامندی ہے، اور جو کوئی ناراض ہو گیا، اس کے لیے ناراضگی ہے۔
[صحيح الترمذي 2396 – حسنه الباني]
اور یہ بھی فرمایا : ” جو کوئی گریہ وزاری کرتا ہے ،اس کے لیے گریہ وزاری ہی ہے۔ “
[ أحمد: 5/427، الصحيحة: 146، صحيح الجامع: 2110]
● انسان کو یہ بات بھی یقینی طور پر جان لینی چاہیے کہ وہ جتنی بھی گریہ وزاری، آہ و بکا کر لے، آخر کار مجبوراً اسے صبر ہی کرنا ہے۔ ایسی صورت میں جو صبر کیا جاتا ہے، یہ نہ ہی کوئی پسندیدہ فعل ہے اور نہ ہی اس پر کوئی اجر و ثواب ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بیشک صبر صدمہ کے پہلے وقت میں ہے۔
[البخاري: 1283، مسلم: 2140]
● انسان کو یہ علم ہونا چاہیے کہ اسے اس آزمائش میں مبتلا کرنے والا احکم الحاکمین ہے، سب سے بڑا دانشمند اور حکمت کے ساتھ حکم جاری کرنے والا ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی وہ رحم کرنے والوں میں سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔ اس مصیبت میں مبتلا کرنے سے اس کا مقصد انسان کے صبر و ایمان اور تقدیر الہی پر اس کی رضامندی کا امتحان لینا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اپنے بندے کی اپنی جناب میں گریہ وزاری اور نیازمندی کو دیکھے اور سنے، کہ انسان اس وحدہ لا شریک کی پناہ میں آتے ہوئے شکستہ دل کے ساتھ اس کے در پر پڑا ہے۔
❀ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
بیشک اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتے ہیں، اسے آزمائش سے دوچار کرتے ہیں۔
[البخاري: 5645]
❀ انسان کو یہ بھی جان لینا چاہیے کہ اگر انسان کے دنیاوی امتحانات نہ ہوتے اور اس پر مصیبتیں نہ آتیں، تو اسے تکبر، خود پسندی، فرعونیت، اور سخت دلی کے علاوہ ایسے امراض کا سامنا کرنا پڑتا جو اسے جلدی یا بدیر ہلاک کر کے رکھ دیتے۔ یہ اللہ ارحم الراحمین کی رحمت اور مہربانی ہے کہ وہ انسان کو بعض اوقات ایسے مصائب میں مبتلا کرتا ہے تاکہ یہ مصائب ان امراض سے بچاؤ کا ذریعہ بن جائیں۔
● انسان کو یہ بھی ایمان رکھنا چاہیے کہ دنیا کی تلخی اور دکھ و تکالیف آخرت کی لذت اور حلاوت ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو اسی طرح تبدیل کرتا ہے۔ اور دنیا کی لذتیں آخرت کی تلخیاں اور سختیاں ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: دنیا کی حلاوت (لذت) آخرت کی تلفی ہے، اور دنیا کی تلفی و کڑواہٹ آخرت کی لذت اور حلاوت ہے۔
رواه أحمد (310/4)؛ و صححه و وافقه الذهبي وصححه الألباني في الصحيحة (1817)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے