مصطفی علیہ الصلوۃ و السلام سے متعلق چالیس صحیح احادیث
تحریر: ابوحمزہ عبدالخالق صدیقی، کتاب کا پی ڈی ایف لنک

إن الحمد لله نحمده، ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له ، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله . أما بعد:

حدیث : 1

عن أبى ذر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : أفضل الأعمال الحب فى الله والبغض فى الله
سنن ابوداؤد، کتاب السنة، باب مجانبة أهل الأهواء وبغضهم، رقم : 4599.
”حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بہترین ( نیک عمل) یہ ہے کہ (کسی سے) اللہ کے لیے ہی دوستی ہو اور اللہ کے لیے ہی دشمنی ہو۔ “
تشريح :
محبت ایک شریفانہ جذبہ ہے۔ بشرطیکہ اس سے فطری کام لیا جائے ورنہ یہی جذبہ بہت سی خرابیوں کا باعث ہو جاتا ہے۔ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ دنیا دار کسی کے حسن و جمال کسی ذاتی غرض یا کسی نفع بخش شے کے لیے باہمی محبت کرتے ہیں۔ لیکن جب مقصد حاصل نہیں ہوتا یا ایک نفع بخش چیز پر بہت سے لوگ ٹوٹ پڑتے ہیں تو چھینا جھپٹی، حسد، بغض اور دنگا فساد تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔ اس ٹکراؤ سے بچنے کی اسلام یہ صورت پیش کرتا ہے کہ باہمی محبت اور دشمنی، جس کے بغیر معاشرتی زندگی ناممکن ہے، اپنی ذاتی اغراض کے لیے نہ کرو بلکہ تمہاری دوستی بھی اللہ کے لیے ہو اور دشمنی بھی۔ اس طرح انسان حق و صداقت اور انصاف کا حامل بن جائے گا اور معاشرہ میں امن و سکون کا دور دورہ ہوگا۔
یاد رہے کہ دنیا میں جن کی دوستی کی بنیاد معصیت، فساد انگیزی، حق سے دشمنی اور دیگر مادی اور شہوانی اغراض و مقاصد پر ہے، قیامت کے دن ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے اور آپس میں اظہار نفرت کرنے لگیں گے، اس لیے کہ وہ ساری باتیں ان کے عذاب کا سبب بنتی نظر آئیں گی، تو ان کی دوستی دشمنی میں بدل جائے گی، البتہ جو لوگ یہاں اللہ سے ڈرتے ہیں، اور آپس میں اللہ اور اس کے رسول کے لیے ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں، وہ قیامت کے دن بھی ایک دوسرے سے محبت کریں گے، اس لیے کہ دنیا میں جن دینی اغراض و مقاصد پر ان کی آپس کی محبت کی بنیاد تھی، اُس دن وہ ساری باتیں ان کے ثواب و نجات کا سبب بن جائیں گی، اس لیے ان کی آپس کی محبت کی بنیاد تھی، اُس دن وہ ساری باتیں ان کے ثواب و نجات کا سبب بن جائیں گی، اس لیے ان کی آپس کی محبت اور بڑھ جائے گی:
الْأَخِلَّاءُ يَوْمَئِذٍ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ إِلَّا الْمُتَّقِينَ ‎﴿٦٧﴾
(43-الزخرف:67)
” اس دن متقیوں کے سوا، تمام دوست آپس میں ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے۔“

حدیث: 2

وعن أنس قال قال النبى صلى الله عليه وسلم لا يؤمن أحدكم حتى أكون أحب إليه من والده وولده والناس أجمعين
(صحیح بخاری، کتاب الإیمان، باب حب الرسول من الإیمان، رقم: 15، صحیح مسلم، کتاب الإیمان، رقم: 44/70)
اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اسے، اس کے باپ، اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ پیارا نہ ہو جاؤں۔“
تشریح :
ایک مومن کو سب سے شدید محبت تو اللہ تعالیٰ سے ہوتی ہے۔
وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِّلَّهِ
(2-البقرة:165)
” یعنی مومن سب سے شدید محبت اللہ تعالیٰ سے رکھتے ہیں۔“
البتہ مخلوقات میں سب سے زیادہ محبت سرور کائنات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے ہونی چاہیے۔ یاد رہے کہ محبت دو قسم کی ہوتی ہے۔ ایک طبعی محبت جیسے ماں باپ اور اولاد کی محبت، جس میں انسان مجبور ہے۔ دوسری عقلی محبت ہے اور وہی یہاں مراد ہے۔ یعنی اگرچہ ایک بات کو جی نہ چاہے مگر بتقاضائے عقل انسان اپنے آپ کو اس کی طرف مائل کرے۔ مثلاً کڑوی دوا کھانے کو جی نہیں چاہتا مگر بیمار آدمی زبردستی طبیعت کو راغب کرتا اور دوا کھاتا ہے کیونکہ عقلی طور پر یہ جانتا ہے کہ صحت کا راز اسی میں ہے۔ اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام پر عمل پیرا ہو، اگرچہ اس راہ میں کیسی ہی تکالیف پیش آئیں کیونکہ وہ جانتا ہے کہ سلامتی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع ہی میں ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ تمام رضامندیوں اور اغراض پر حضور عالم کی رضا مندی کو مقدم رکھے اور تمام محبتوں پر حضور کی محبت کو غالب رکھے۔ آمین!

حدیث: 3

وعن عبد الله بن عمرو قال قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم لا يؤمن أحدكم حتى يكون هواه تبعا لما جئت به
(شرح السنہ: 1212/1، 1213، کتاب الإیمان، باب رد البدع والأهواء، رقم: 104 – قال النووي في أربعينه: هذا حديث صحيح، رويناه في كتاب الحجة بإسناد صحيح)
اور حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کی خواہش نفس اس چیز کے تابع نہ ہو جائے جو میں لایا ہوں۔“
تشریح:
یعنی مکمل قلبی یقین اور طبیعت کی پوری آمادگی کے ساتھ اسلامی شریعت کی پیروی کرے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر ہر نقش قدم کی جبہ سائی اور ہر ہر ادا کی نقالی کو اپنے لیے سعادت دارین سمجھے حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اشارہ چشم و ابرو کی تعمیل کو بھی اپنے اوپر لازم کرے۔
مصور کھینچ وہ نقشہ کہ جس میں یہ صفائی
ادھر فرمان محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہو اُدھر گردن جھکائی ہو

حدیث: 4

وعنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده والمهاجر من هجر ما نهى الله عنه
(صحیح بخاری، کتاب الإیمان، باب المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده، رقم: 10)
اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔“
تشریح:
کامل مسلمان وہ ہے جو اپنی زبان سے نہ کسی کو برا کہہ کر ایذا پہنچائے، نہ کسی کی غیبت اور چغلی کرے اور نہ ہی کسی پر بہتان لگائے۔ نیز کسی کو ناحق زدو کوب نہ کرے اور ہر اس کام سے رک جائے جس کی ممانعت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی۔ مزید برآں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
‏ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّن قَوْمٍ عَسَىٰ أَن يَكُونُوا خَيْرًا مِّنْهُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِّن نِّسَاءٍ عَسَىٰ أَن يَكُنَّ خَيْرًا مِّنْهُنَّ ۖ وَلَا تَلْمِزُوا أَنفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ ۖ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيمَانِ ۚ وَمَن لَّمْ يَتُبْ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ ‎﴿١١﴾‏
(49-الحجرات:11)
”اے ایمان والو! ایک جماعت دوسری جماعت کا مذاق نہ اڑائے ممکن ہے کہ جن کا مذاق اُڑایا جا رہا ہے وہ مذاق اڑانے والوں سے بہتر ہوں، اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اُڑائیں، ممکن ہے کہ جن کا مذاق اُڑایا جا رہا ہے، مذاق اُڑانے والیوں سے بہتر ہوں، اور تم اپنے مسلمان بھائیوں پر طعنہ زنی نہ کرو، اور ایک دوسرے کو بُرے القاب نہ دو، ایمان لانے کے بعد مسلمان کو بُرا نام دینا بڑی بُری شے ہے، اور جو ایسی بدزبانی و بداخلاقی سے ثابت نہیں ہوں گے، تو وہی لوگ ظالم ہیں۔“
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے بعض امور سے منع فرمایا ہے جو مسلمانوں کے درمیان اختلاف و نزاع اور جنگ و قتال کا سبب بنتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے وہ لوگ جو ایمان لائے ہو! تمہاری ایک جماعت دوسری جماعت کا مذاق نہ اڑائے ممکن ہے کہ حقیر سمجھ کر جس کا مذاق اُڑایا جا رہا ہے، وہ اللہ کے نزدیک مذاق اڑانے والی جماعت سے بہتر ہو۔
اللہ تعالیٰ نے اس سے بھی منع فرمایا کہ کوئی مسلمان مرد یا عورت اپنے مسلمان بھائی یا بہن میں عیب لگائے۔ اور چونکہ ایمانی رشتہ سب سے قوی رشتہ ہوتا ہے، اس لیے مسلمان آپس میں ایک جان ہوتے ہیں، تو کسی مسلمان کی عیب جوئی گویا خود اپنی عیب جوئی ہے۔
اور اللہ تعالیٰ نے اس سے بھی منع فرمایا ہے کہ کوئی کسی کو ایسے نام سے پکارے جسے وہ برا سمجھتا ہے، اس لیے کہ یہ بھی مسلمانوں میں عداوت و اختلاف کا بہت بڑا سبب ہے۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے بطور تاکید فرمایا کہ جو شخص اپنے مومن بھائی کا مذاق اُڑانے، اس کی عیب جوئی کرنے، اور اسے برے ناموں کے ذریعہ پکارنے سے باز نہیں آئے گا، اور ان گناہوں سے تائب نہیں ہوگا، وہ در حقیقت اپنے حق میں بڑا ظالم ہوگا کہ وہ ان گناہوں کے سبب اللہ کے عذاب کا مستحق ٹھہرے گا۔

حدیث: 5

وعن عبد الله بن مسعود قال قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سباب المسلم فسوق وقتاله كفر
(صحیح بخاری، کتاب الإیمان، باب خوف المؤمن، رقم: 48، صحیح مسلم، کتاب الإیمان، باب بیان قول النبي صلى الله عليه وسلم سباب المسلم فسوق، رقم: 64/116)
اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمان کو برا کہنا فسق اور اسے قتل کرنا کفر ہے۔“
تشریح:
اس حدیث میں مسلمان کو برا کہنے اور اسے قتل کرنے کی شدت سے ممانعت کی گئی ہے اور اسے گناہ کبیرہ اور ایمان کامل کی نفی قرار دیا گیا ہے۔

حدیث: 6

وعن حذيفة قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول لا يدخل الجنة فنات وفي رواية مسلم
( صحیح بخاری، کتاب الأدب، باب ما يكره من النميمة، رقم: 6056، صحیح مسلم، کتاب الإیمان، باب بیان غلط تحريم النميمة، رقم: 105/169)
اور حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرمایا: ”چغل خور جنت میں داخل نہ ہو گا۔“ اور مسلم کے الفاظ ہیں ”تمام“ جبکہ معنی ایک ہی ہے۔
تشریح:
جو شخص ایک کی بات دوسرے کو پہنچائے اور لگائی بجھائی کے ذریعے جھگڑے اور فساد کا سبب بنے وہ آخرت میں نجات نہیں پائے گا۔

حدیث: 7

وعن أم كلثوم رضی اللہ عنہا قالت قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ليس الكذاب الذى يصلح بين الناس ويقول خيرا وينمي خيرا
(صحیح بخاری، کتاب الصلح، باب ليس الكاذب الذي يصلح بين الناس، رقم: 2692، صحیح مسلم، کتاب البر، باب تحريم الكذب، رقم: 2605/101)
اور حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ شخص جھوٹا نہیں ہے جو لوگوں کے درمیان صلح کراتا ہے اور اچھی باتیں کہتا اور ایک دوسرے کو پہنچاتا ہے۔“
تشریح:
یعنی وہ شخص اللہ تعالیٰ کے نزدیک برا نہیں ہے جو جھگڑا رفع کرانے اور اصلاح کی خاطر ایک شخص کی طرف سے دوسرے کو بھلی باتیں پہنچاتا ہے۔ اگرچہ وہ جھوٹ ہی ہوں۔ مثلاً اسلم اور فضل کے درمیان جھگڑا ہے کوئی شخص ایک طرف سے دوسرے کو یہ باتیں پہنچاتا ہے کہ وہ تمہیں سلام کہتا ہے۔ تمہاری تعریف کرتا ہے اور تمہاری دوستی کا دم بھرتا ہے اور کہتا ہے کہ جھگڑا غلط نہی کی بنیاد پر ہوا ہے۔

حدیث: 8

وعن عبد الله بن عمرو قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من صمت نجا
( سنن ترمذی، کتاب صفة القيامة، رقم: 2501، مسند أحمد: 259/5، شعب الإيمان للبيهقي، کتاب الإیمان، باب حفظ اللسان، رقم: 4983)
اور حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو خاموش رہا وہ نجات پا گیا۔“
تشریح:
دوسری حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمایا:
من حسن إسلام المرء تركه ما لا يعنيه
(مؤطا مالك، كتاب حسن الخلق: 903/2، رقم: 3، مسند أحمد: 211/1)
”آدمی کے اسلام کی خوبی اس میں ہے کہ وہ بے فائدہ باتوں کو ترک کر دے۔“ چنانچہ خاموش رہنے سے مراد فضول گفتگو سے اجتناب ہے وگرنہ بوقت ضرورت حکیمانہ بات کرنا تو لازمی ہے مثلاً انسان کوئی بری بات دیکھے یا سنے تو اسے زبان سے روکنا ضروری ہے البتہ ادھر ادھر کی گفتگو اور خوش گپیوں میں وقت گزارنا سراسر خسارہ ہے۔

حدیث: 9

وعن ابن مسعود قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ليس المؤمن بالطعان ولا اللعان ولا الفاحش ولا البذيء
( سنن ترمذی، کتاب البر، باب ما جاء في اللعنة، رقم: 1977، شعب الإيمان للبيهقي، باب في حفظ اللسان، رقم: 5150)
اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومن طعنہ دینے والا، لعنت کرنے والا، بے حیائی کی باتیں کرنے والا اور مبالغہ آمیزی کرنے والا نہیں ہوتا ہے۔“
تشریح :
یعنی کامل مومن وہ ہے جو کسی کو طعنے نہیں دیتا کہ یہ جاہلیت کی علامت ہے اور طعنوں سے سینے چھلنی ہو جاتے ہیں جو کبھی مندمل نہیں ہوتے۔ اسی طرح وہ لعنت ملامت کرنے والا بھی نہیں ہوتا کہ لعنت اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دوری کا نام ہے اور جس پر لعنت ڈالی جائے اگر وہ لعنت کا مستحق نہ ہو تو لعنت ڈالنے والے کی طرف لوٹ آتی ہے نیز وہ دوسروں کو خوش کرنے کے لیے مبالغہ آمیز لطیفہ گوئی بھی نہیں کرتا کہ یہ چیز ہلاکت میں ڈالنے والی ہے۔

حدیث: 10

وعن أنس قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يدخل الجنة من لا يأمن جاره بوائقه
(صحیح مسلم، کتاب الإیمان، باب بیان تحريم إيذاء الجار، رقم: 46/73)
اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کی برائیوں سے اس کا ہمسایہ محفوظ نہ ہو۔“
تشریح:
ہمسائے کے حقوق بہت زیادہ ہیں ایک دوسری حدیث کے مطابق جبرائیل ہمیشہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمسائے کے حقوق کی محافظت کی تاکید کرتے تھے چنانچہ جو شخص ہمسائے کے حقوق کی ادائیگی کے بجائے اپنی شرارتوں سے اسے تنگ کرتا ہے اس کے لیے اس حدیث میں سخت وعید ہے۔

حدیث: 11

وعن عبد الله بن عمرو قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يدخل الجنة منان ولا عاق ولا مدمن خمر
(سنن نسائی، کتاب الزكاة، باب المنان بما أعطى، رقم: 2562، سنن دارمی، کتاب الأشربة، باب في مدمن الخمر، رقم: 2094)
اور حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”احسان جتلانے والا، والدین کا نافرمان اور ہمیشہ شراب پینے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا۔“
تشریح:
«منان» کہتے ہیں، کچھ دے کر احسان جتلانے والے کو یہ بہت اذیت ناک بات ہے اس سے صدقات کا اجر و ثواب ضائع ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُم بِالْمَنِّ وَالْأَذَىٰ
(2-البقرة:264)
یعنی ”احسان جتلا کر اور اذیت پہنچا کر اپنے صدقات کو ضائع نہ کرو۔“ بلکہ کسی کو کچھ دینے کے بعد یہ کیفیت ہونی چاہیے۔
لَا نُرِيدُ مِنكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًا
(76-الإنسان:9)
یعنی ”ہم تم سے احسان کا بدلہ نہیں چاہتے اور نہ ہی شکریے کے طالب ہیں۔“
«العاق» والدین کے نافرمان کو کہتے ہیں جو ان کی خدمت کرنے کے بجائے انہیں اذیت پہنچاتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ والدین اولاد کی جنت یا جہنم ہیں گویا ان کی اطاعت کرے تو جنت میں جا سکتا ہے اور حکم عدولی سے جہنم کا مستحق ہو جاتا ہے۔ نیز وہ شراب کا عادی جو توبہ کیے بغیر مر جائے وہ بھی اسی سزا کا مستحق گردانا گیا ہے۔ اور جنت میں داخل نہ ہونے سے مراد یہ ہے کہ وہ ناجی مسلمانوں کی طرح براہ راست جنت میں داخل نہ ہوں گے بلکہ پہلے اپنے گناہوں کی سزا بھگتیں گے۔

حدیث: 12

وعن ابن عمر رضي الله عنهما قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم بني الإسلام على خمس شهادة أن لا إله إلا الله وأن محمدا عبده ورسوله وإقام الصلاة وإيتاء الزكاة والحج وصوم رمضان
(صحیح بخاری، کتاب الإیمان، باب دعاؤكم إيمانكم، رقم: 8، صحیح مسلم، کتاب الإیمان، باب بیان أركان الإسلام ودعائمه العظام، رقم: 45/21)
اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسلام کی بنیاد پانچ ستونوں پر ہے، اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں، اور نماز قائم کرنا، اور زکوٰۃ دینا، اور بیت اللہ کا حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔“
تشریح:
کسی عمارت کی بنیادیں اور ستون چاہے کتنے ہی مضبوط ہوں جب تک ان ستونوں پر چھت نہ ڈالی جائے، عمارت مکمل نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ مذکورہ بالا پانچوں باتیں جن کا تعلق عبادات سے ہے اور جو بمنزلہ ستونوں کے ہیں جب تک ان پہ معاملات معاشی، سماج، سیاسی کی چھت نہ ڈالی جائے، اسلام کی عمارت مکمل نہیں ہوگی۔ لہذا عبادات کے ساتھ ساتھ معاملات و اخلاقیات پر عمل پیرا ہونے سے ہی دین اسلام کی تکمیل ہوتی ہے۔

حدیث: 13

وعن معاذ بن جبل قال قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم مفاتيح الجنة شهادة أن لا إله إلا الله
(مسند احمد: 242/5)
اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، جنت کی چابی ہے۔“
تشریح:
ایک روایت میں ہے کہ حضرت وہب بن منبہ رحمہ اللہ نے لوگوں کو نیک اعمال کی ترغیب دی تو انہوں نے یہی حدیث پیش کی اور کہا کہ جنت کا دروازہ کھلنے کے لیے یہی کلمہ طیبہ کافی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک یہ کلمہ جنت کی چابی ہے لیکن چابی کے دندانے ہوتے ہیں۔ پس اگر تمہارے پاس دندانوں والی چابی ہوگی تو دروازہ کھلے گا وگرنہ نہیں۔“
( صحیح بخاری: 109/3، مشكاة، كتاب الإيمان، الفصل الثالث، رقم: 43)
یاد رہے کہ دندانوں سے مراد نیک اعمال ہیں یعنی زبان سے کلمہ طیبہ کا اقرار کرے، دل سے تصدیق کرے اور برضا و رغبت اسلام کے احکام پر عمل پیرا ہو۔ نیز جنت کی کنجی سے مراد یہ بھی ہو سکتی ہے کہ آخر کار جنت ہی میں داخل ہو گا لیکن براہ راست ناجی مسلمانوں کے ہمراہ نہیں بلکہ اپنی بے عملی یا بد عملی کی سزا بھگتنے کے بعد داخل ہوگا اور یہی مراد ان تمام حدیثوں سے ہے جن میں محض کلمہ گوئی پر جنت کی بشارت دی گئی ہے۔

حدیث: 14

وعن جابر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم بين العبد وبين الكفر ترك الصلاة
(صحیح مسلم، کتاب الإيمان، باب بیان إطلاق اسم الكفر على من ترك الصلاة رقم: 82/34)
”اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:بندے اور کفر کے درمیان ترک نماز کا فرق ہے۔“
تشریح :
یعنی نماز مسلمان بندے اور کفر کے درمیان ایک دیوار کے مانند ہے کہ مسلمان بندہ اس کے سبب کفر تک نہیں پہنچ سکتا لیکن جب نماز چھوڑ دی تو گویا دیوار گرا دی جس کے سبب مسلمان بندہ کفر کو پہنچ جاتا ہے۔
دوسری حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ترك الصلاة شرك
(مسند أحمد: 389/3، رقم: 15183، مصنف عبد الرزاق، رقم: 5009 )شیخ شعیب نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔
”نماز ترک کرنا شرک ہے۔“
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
مُنِيبِينَ إِلَيْهِ وَاتَّقُوهُ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ ‎﴿٣١﴾‏
(30-الروم:31)
”اللہ کی طرف رجوع کرتے ہوئے اسی سے ڈرو، نماز کو قائم کرو اور مشرکوں میں سے نہ ہو جاؤ۔“

حدیث: 15

وعن ابن عباس رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : أشراف أمتي حملة القرآن وأصحاب الليل
(شعب الإيمان للبيهقي : 556/2 ، باب في تعظيم القرآن، رقم : 3703 )
اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت کے بزرگ افراد وہ ہیں جو قرآن پاک کے اٹھانے والے یعنی حفاظ قرآن اور رات والے یعنی شب بیدار ہیں۔“
تشریح :
”یعنی میری امت کے وہ لوگ بزرگ اور مکرم ہیں جو قرآن کو حفظ کریں اور اس کے مطابق عمل بھی کریں۔ لیکن جن کو کتاب اللہ یا تو ہو پھر اس کے اوامر و نواہی پر عمل نہ کریں تو ان کو کچھ فائدہ نہیں۔ اور ان کی مثال ایسی ہے جیسے گدھے پر کتابیں لا دی ہوں۔ نیز وہ صاحبان بھی بزرگی کے حامل ہیں جو تہجد کی نماز پر مداومت اختیار کرتے ہیں۔“

حدیث : 16

و عن أبى هريرة رضى الله عنه ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من لم يدع قول النور والعمل به ، فليس لله حاجة فى أن يدع طعامه وشرابه
(صحیح بخاری، کتاب الصوم، باب من لم يدع قول الزور، رقم : 1903.)
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص بدکلامی اور بد عملی نہ چھوڑے اللہ تعالیٰ کو اس کے کھانا پینا چھوڑنے کی کوئیضرورت نہیں۔“
تشریح :
”یعنی روزہ دار کے لیے صرف کھانا پینا ترک کرنا ہی کافی نہیں بلکہ ہر قسم کا برا قول و فعل چھوڑ دینا لازم ہے وگرنہ اللہ تعالیٰ اس کے روزے کو نظر قبولیت سے نہیں دیکھتا۔ یادر ہے کہ روزہ دار تو کھانے پینے جیسی حلال چیزیں بھی ترک کر دیتا ہے لیکن اگر وہ مکروہ اور حرام چیزوں مثلاً جھوٹ ، چغلی غیبت اور گالیوں وغیرہ سے نہ رکے تو روزہ کا ہے کا ہوا۔ لہذاکامل روزہ کے لیے ایسی تمام بری باتوں اور بُرے کاموں کو چھوڑ نا ضروری ہے۔“

حدیث: 17

وعنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يكون كنز أحدكم يوم القيامة شجاعا أقرع يفر منه صاحبه وهو يطلبه حتى يلقمه صابعه
(مسند أحمد: 530/2.)
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا خزانہ قیامت کے دن گنجا سانپ ہو گا۔ اس کا مالک اس سے بھاگے گا اور وہ اسے ڈھونڈتا ہو گا۔ یہاں تک کہ اس کی انگلیوں کو کاٹ کھائے گا۔“
تشریح:
خزانہ سے مراد وہ جمع شدہ مال ہے جس کی زکوٰۃ نہ ادا کی گئی اور حرام ذرائع سے کمایا گیا مال بھی اسی حکم میں شامل ہے۔ اور ذخیرہ کیا ہوا مال بشکل سانپ مالک کی انگلیاں اس لیے کاٹ کھائے گا کہ انہی ہاتھوں سے مال کما کر جمع کیا اور اس کی زکوٰۃ ادا نہ کی۔

حدیث: 18

وعنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من حج لله فلم يرفت ولم يفسق رجع كيوم ولدته أمه
(صحیح بخاری، کتاب الحج، باب فى فضل حج المبرور ، رقم: 1528 ، صحيح مسلم، کتاب الحج، باب فضل الحج والعمرة ويوم العرفة ، رقم 1350/438.)
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص محض اللہ کے لیے حج کرے پس اپنی بیوی سے نہ جماع کرے اور نہ گناہ کا کام کرے تو وہ اس طرح گھر لوٹتا ہے جیسے آج ہی اس کی ماں نےاسے جنم دیا ہو۔“
تشريح :
محض اللہ کے لیے حج کرے یعنی اسی کی رضا مقصود ہو۔ دکھانے یا سنانے یا کسی اور غرض کے پیش نظر حج نہ کرے اور حالت احرام میں بیوی سے جماع نہ کرے۔ البتہ احرام کھول کر بیوی سے مجامعت کرسکتا ہے۔
رفٹ کے معنی ہیں صحبت کرنا، کلام فخش بکنا اور عورتوں سے شہوانی گفتگو کرنا اور فسق نہ کرے یعنی گناہ کبیرہ نہ کرے اور گناہ صغیرہ پر اصرار نہ کرے بلکہ تو بہ کرے۔ مختصر یہ کہ جو کوئی خالص اللہ کی رضا کے لیے حج کرے اور اس میں جماع اور کلام بد نہ کرے اور نہ ہی گناہ کا ارتکاب کرے تو وہ گناہوں سے پاک ہوکر گھر لوٹتا ہے۔

حدیث: 19

«وعن ابن عباس رضي الله عنه ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: فقيه واحد أشد على الشيطان من ألف عابد»
(سنن ترمذی، کتاب العلم، باب ما جاء في فضل الفقه على العبادة، رقم: 2681، سنن ابن ماجة المقدمة، باب فضل العلماء والحث على طلب العلم، رقم: 222 )
”اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایک عالم شخص شیطان کے لیے ہزار عابدوں سے بھاری ہے۔“
تشریح:
کیونکہ شیطان جب لوگوں پر نفسانی خواہشات کے دروازے کھولتا ہے (جن کی تفصیل علامہ ابن جوزی اناللہ نے اپنی کتاب ”تلبیس ابلیس، میں لکھی ہے ) تو عالم پہچان لیتا ہے اور ان شیطانی حربوں کا دفاع ان کو بتا دیتا ہے۔ اس کے برعکس ایک عابد محض اکثر عبادت میں مشغول رہتا ہے اور شیطان کے ہتھکنڈوں کو نہیں جانتا حالانکہ بعض دفعہ شیطان کے جال میں پھنسا ہوتا ہے۔

حدیث: 20

«وعن أبى هريرة رضي الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: المراء فى القرآن كفر»
(سنن ابوداؤد، كتاب السنة، رقم: 4603 ، المشكاة، رقم: 236)محدث البانی نے اسے حسن صحیح کہا ہے۔
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:” قرآن میں جھگڑ نا کفر ہے۔ “
تشریح:
قرآن میں جھگڑنے سے مراد قرآن کی ایک آیت کو دوسری آیت سے جھٹلانا ہے۔ بلکہ انسان کو قرآنی آیات میں مطابقت پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ مثلاً کوئی کہتا ہے کہ خیر وشر اللہ کی طرف سے ہے۔
اور یہ آیت پڑھتا ہے: قُلْ كُلٌّ مِّنْ عِندِ اللَّهِ (4-النساء:78) یعنی سب سب کچھ اللہ کی طرف سے ہے۔ دوسرا اس کو جھٹلاتا ہے اور یہ آیت پڑھتا ہے: مَّا أَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللَّهِ ۖ وَمَا أَصَابَكَ مِن سَيِّئَةٍ فَمِن نَّفْسِكَ (4-النساء:79) ” یعنی ہر بھلائی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور ہر برائی انسان کے اپنے نفس کی طرف سے ہے۔“ اس قسم کا اختلاف منع ہے حالانکہ مطابقت اس کی یوں ہے کہ خیر وشر کا خالق تو اللہ تعالیٰ ہے اور نیکی بدی کو اختیار کرنے والا انسان خود ہے۔
حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ وحی ہے، لہذا اس میں بھی تعارض و تناقض بتلانا ممنوع ہے۔
‏ أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ ۚ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللَّهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا ‎﴿٨٢﴾‏
(4-النساء:82)
”اور اگر یہ غیر اللہ کے پاس سے ہوتا تو اس میں بہت زیادہ اختلاف پاتے۔“

حدیث: 21

«وعن أبى هريرة رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من لم يسأل الله يغضب عليه»
(سنن ترمذی، کتاب الدعوات، باب منه، رقم: 3373)
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اللہ تعالیٰ سے حاجات نہ مانگے، اللہ تعالیٰ اس پر غضب ناک ہوتا ہے۔“
تشریح:
اللہ تعالیٰ مانگنے والے سے راضی اور نہ مانگنے والے سے ناراض ہوتا ہے کیونکہ ترک سوال تکبر کی علامت ہے اور متکبر کی سزا بہت سخت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ مومن میں ارشاد فرمایا:
وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ ‎﴿٦٠﴾
(40-غافر:60)
”اور تمہارے رب نے فرمایا ہے کہ مجھ سے دعا مانگو۔ میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔ جو لوگ میری عبادت سے سرکشی کرتے ہیں انہیں عنقریب ذلیل کر کے جہنم میں داخل کروں گا۔“

حدیث: 22

وعنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن الله لا ينظر إلى صوركم وأموالكم ولكن ينظر إلى قلوبكم وأعمالكم
(صحیح مسلم، کتاب البر والصلة، رقم: 6543)
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور تمہارے مالوں کو نہیں دیکھتا، وہ تو صرف تمہارے دلوں کے خلوص اور اعمال کو دیکھتا ہے۔“
تشریح:
لہذا خالصتاً اللہ تعالیٰ کے لیے جو عمل کیا جائے وہی اجر و ثواب کا مستوجب ہو گا۔ حضرت ابو موسیٰ عبداللہ بن قیس الاشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ ایک آدمی بہادری کے جوہر دکھانے کے لیے، دوسرا خاندانی قبائلی حمیت کے لیے اور ایک تیسرا ریاکاری کے لیے لڑتا ہے، ان میں سے اللہ کی راہ میں لڑنے والا کون ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من قاتل لتكون كلمة الله هي العليا فهو فى سبيل الله
(صحیح بخاری، کتاب العلم، رقم: 123، صحیح مسلم، كتاب الإمارة، رقم: 1904)
”جو شخص صرف اس لیے لڑتا ہے کہ اللہ کا کلمہ بلند ہو، وہ اللہ کی راہ میں لڑنے والا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قُلْ إِنِّي أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ اللَّهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّينَ ‎﴿١١﴾
(39-الزمر:11)
”کہہ دو کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں خلوص نیت کے ساتھ اللہ کی عبادت کروں۔“
امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ عملوں کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ ہر شخص کو اس کی نیت کے مطابق بدلہ ملے گا۔ پس جس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہو گی، اس کی ہجرت انہی کی طرف سمجھی جائے گی۔ اور جس نے دنیا حاصل کرنے کے لیے یا کسی عورت سے نکاح کرنے کی غرض سے ہجرت کی تو اس کی ہجرت انہی مقاصد کے لیے ہو گی۔
(صحیح بخاری، کتاب بدء الوحي، رقم: 1، صحیح مسلم، كتاب الأمارة، رقم: 1907)
معلوم ہوا کہ نیت کا معاملہ دینی و دنیاوی امور میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے، اس لیے کہ سب اعمال اس کی بنیاد پر سرزد ہوتے ہیں اور اس کے اعتبار سے وہ درست یا غلط قرار پاتے ہیں۔ چنانچہ امام بیہقی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
«تعلموا النية فإنها أبلغ من العمل»
(فتح الباری شرح صحیح بخاری، تحت حدیث رقم: 1)
”عمل سے پہلے نیت کے اخلاص کو اپناؤ، کیونکہ نیت عمل سے زیادہ ضروری ہے۔“

حدیث: 23

وعن أبى بكر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لا يدخل الجنة جسد غذي بالحرام
( المشكاة، كتاب البيوع، الفصل الثالث رقم: 2787)
اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حرام غذا سے پرورش پانے والا بدن جنت میں داخل نہیں ہو گا۔“
تشریح :
معلوم ہوا کہ انسان خواہ کتنا بڑا عابد و زاہد ہو۔ اگر وہ حلال کا لقمہ کما کر نہیں کھاتا تو ناجی مسلمانوں کے ساتھ جنت میں داخل نہیں ہو سکتا۔

حدیث: 24

وعن أبى هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إذا مات الإنسان انقطع عنه عمله إلا من ثلاثة إلا من صدقة جارية أو علم ينتفع به أو ولد صالح يدعو له
(صحیح مسلم، كتاب الوصية، باب ما يلحق الإنسان من الثواب بعد وفاته، رقم: 4223)
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے عمل کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے، لیکن تین چیزوں کا اجر مسلسل اسے ملتا رہتا ہے۔ صدقہ جاریہ، ایسا علم جس سے فائدہ حاصل کیا جاتا رہے، یا نیک اولاد چھوڑ گیا ہو، وہ اس کے لیے دعائیں کرتی ہے۔ “
تشریح :
یعنی تین نیکیاں انسان کے لیے صدقہ جاریہ ہیں، جن کا ثواب مرنے کے بعد بھی مسلسل ملتا رہتا ہے۔ ان میں ایک ایسا علم کہ جس سے لوگ فائدہ حاصل کرتے رہیں، یعنی کسی کو دین پڑھایا، پھر اس کے شاگرد آگے پڑھاتے چلے جا رہے ہوں، لوگوں کی اصلاح کرتے ہیں۔ لوگ ان سے فائدہ حاصل کرتے ہیں۔ یہ علم صدقہ جاریہ ہے۔ دوسرا صدقہ جاریہ نیک اولاد ہے۔ یعنی اپنی اولاد کی اچھی تربیت کی، اولاد دین کے مطابق زندگی گزارنے لگ گئی۔ والدین کو اس کا اجر مرنے کے بعد بھی ملتا رہے گا۔
تیسری نیکی جو صدقہ جاریہ ہے، کوئی ایسا کام کہ جس سے لوگ مسلسل فائدہ اٹھاتے رہیں، مثلاً: مسجد بنوا دی، مدرسہ کی تعمیر کروا دی، قرآن و سنت کی اشاعت کی، کہیں پانی کی ضرورت تھی تو پانی کا انتظام کروا دیا۔ جب تک ان چیزوں سے لوگ فائدہ حاصل کرتے رہیں گے، نیکی کرنے والے کو ثواب ملتا رہے گا۔

حدیث: 25

وعن أبى سعيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: التاجر الصدوق الأمين مع النبيين والصديقين والشهداء
(سنن ترمذی، کتاب البیوع، باب ما جاء في التجار وتسمية النبي إياهم، رقم: 1209، سنن دار قطنی، كتاب البيوع، رقم: 18 )
”اور حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سچا اور امانت دار تاجر نبیوں، صدیقوں اور شہیدوں کے ہمراہ ہو گا۔ “
تشریح:
قول و فعل کا صحیح تاجر میدان حشر یا جنت میں نبیوں، صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ہو گا کیونکہ تجارت افضل پیشہ ہے اور اس میں صداقت اور امانت کو اختیار کرنا بہترین عمل ہے۔

حدیث: 26

وعن جرير بن عبد الله قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا يرحم الله من لا يرحم الناس
(صحیح بخاری، کتاب التوحيد، باب قول الله تبارك وتعالى قل ادعوا الله، رقم: 7376، صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب رحمته، رقم: 2319/44)
”اور حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم نہیں کرتا جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا۔“
تشریح :
یعنی جو شخص اللہ تعالیٰ سے رحمت اور مہربانی کی امید رکھتا ہے اسے اللہ تعالیٰ کی مخلوق پر مہربان ہونا چاہیے کیونکہ دوسری حدیث میں ہے کہ اللہ کی مخلوق اس کا کنبہ ہے پس وہ بندہ اللہ کو محبوب ہے جو اس کی مخلوق سے حسن سلوک کرے۔

حدیث: 27

وعن أبى هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: كفى بالمرء كذبا أن يحدث بكل ما سمع
(صحیح مسلم، المقدمة، باب النهي عن الحديث بكل ما سمع، رقم: 40/40)
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے کافی ہے کہ وہ سنی سنائی باتیں بیان کرتا پھرے۔“
تشریح :
جھوٹ بولنا منافق کی علامت ہے لیکن اگر جھوٹ نہ بھی بولتا ہو البتہ ہر سنی سنائی بات کو بلا تحقیق بیان کر دینے کا عادی ہو تو وہ بھی جھوٹ میں گرفتار ہو جائے گا کیونکہ ہر وہ بات جو سننے میں آئے سچ نہیں ہوتی اس لیے حقیقت معلوم کیے بغیر کسی بھی بات کو بیان کرنے کی ممانعت کی گئی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
‏ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَن تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَىٰ مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ ‎﴿٦﴾‏
(49-الحجرات:6)
”اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے، تو اس کی تحقیق کرلو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی قوم کو نادانی میں نقصان پہنچا دو، پھر اپنے کیے پر تمہیں ندامت اٹھانی پڑے۔“

حدیث: 28

وعنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الدنيا سجن المؤمن وجنة الكافر
(صحیح مسلم، کتاب الزهد، رقم: 2956/1)
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دنیا مومن کے لیے بندی خانہ اور کافر کے لیے باغ بہشت ہے۔“
تشریح:
یعنی دنیا مسلمان کے لیے قید خانہ کے مانند ہے کیونکہ یہاں ممنوع چیزوں سے بچنے کے لیے محنت و مشقت کرتا اور ضبط نفس سے کام لیتا ہے نیز کئی طرح کے شدائد و مصائب برداشت کرتا ہے اس لیے جلد از جلد دنیا سے نکل جانا چاہتا ہے۔
بقول شاعر:
قید حیات و بند غم اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں
چنانچہ ہر لمحہ اس کے یہی جذبات ہوتے ہیں۔
چھوٹ جاؤں جو غم ہستی سے
بھول کر نہ ادھر دیکھوں میں
اور اگر اسے آسائشیں بھی حاصل ہوں پھر بھی آخرت کے ناز و نعم کے مقابل پیچ ہیں جبکہ کافر کے لیے یہ دنیا ایک تفریح گاہ ہے اور باغ کے مانند ہے۔ وہ یہاں لذتوں اور شہوتوں میں کھویا رہتا، حظ اٹھاتا، گھل کھیلتا اور گل کھلاتا ہے اور کبھی دنیا کو چھوڑنا نہیں چاہتا۔

حدیث: 29

وعنه عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: لعن عبد الدينار ولعن عبد الدرهم
(سنن ترمذی، کتاب الزهد، باب: 42، رقم: 2357)
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ملعون ہے دینار اور درہم کا بندہ۔“
تشریح:
درہم و دینار سکوں کا نام ہے جو شخص ان کے حصول میں دن رات ایک کیے ہوئے ہے، وہ دراصل دولت کی پوجا کر رہا ہے۔ چنانچہ دولت کی بندگی کے باعث اللہ تعالیٰ سے دور جا پڑا ہے اور شرک کا مرتکب ہو رہا ہے اسی لیے اللہ کا بندہ کہنے کے بجائے درہم و دینار کا بندہ قرار دیا گیا ہے۔

حدیث: 30

وعنه رواية قال: لله تسعة وتسعون اسما مائة إلا واحدا من حفظها دخل الجنة وهو وتر يحب الوتر
(صحیح بخاری، کتاب الدعوات، باب الله مائة اسم غير واحدة، رقم: 6410، صحیح مسلم، كتاب الذكر والدعاء، رقم: 2776/4)
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کے ایک کم سو یعنی ننانوے نام ایسے ہیں کہ جس مومن آدمی نے بھی ان کو یاد کر لیا اور انہیں صبح و شام وہ پڑھتا رہا، ان کے ساتھ دعا کرتا رہا وہ جنت میں داخل ہو جائے گا۔“
تشریح :
معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کو اس کے اسماء کے ساتھ پکارنا چاہیے۔ ارشاد:
وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ فَادْعُوهُ بِهَا
(7-الأعراف:180)
”اور اللہ کے بہت ہی اچھے نام ہیں، پس تم لوگ اسے انہی ناموں کے ذریعہ پکارو۔“
اور اس کا یہ بھی مفہوم نہیں کہ اللہ کے صرف ننانوے ہی نام ہیں، بلکہ اللہ کے نام اس سے زیادہ ہیں جن کی تعداد اللہ ہی جانتا ہے، جیسا کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے جسے احمد، ابوعوانہ، ابو یعلی اور بزار نے روایت کیا ہے، جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو ایک عظیم دعا سکھائی ہے۔ اس میں آیا ہے: ”أسألك بكل اسم سميت به نفسك أو استأثرت به فى علم الغيب عندك“ کہ ”میں تجھ سے تیرے ہر اس نام کے ذریعہ مانگتا ہوں جو تو نے اپنے لیے رکھا ہے، یا جسے تو نے اپنے پاس علم غیب میں چھپا رکھا ہے۔“ امام نووی رضی اللہ عنہ نے علماء کا اتفاق نقل کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ایک ہزار نام ہیں۔

حدیث: 31

وعن عائشة قالت: كان النبى صلى الله عليه وسلم يذكر الله على كل أحيانه
(صحیح مسلم، کتاب الحيض، رقم: 826 )
”اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر وقت اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے تھے۔ “
تشریح:
اللہ تعالیٰ کا ذکر کثرت کے ساتھ کرنے کا حکم ہے۔ ارشاد فرمایا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا اللَّهَ ذِكْرًا كَثِيرًا ‎﴿٤١﴾
(33-الأحزاب: 41)
”اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ کو خوب یاد کیا کرو۔“
اور انسان کے دل کو صرف اللہ کی یاد سے ہی سکون مل سکتا ہے۔
ارشاد فرمایا:
‏ الَّذِينَ آمَنُوا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُم بِذِكْرِ اللَّهِ ۗ أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ ‎﴿٢٨﴾‏
(13-الرعد: 28)
”آگاہ رہیے کہ اللہ کی یاد سے ہی دلوں کو اطمینان ملتا ہے۔ “

حدیث: 32

وعن عبد الله بن عمرو، قال: قال رسول الله: الدنيا كلها متاع ، وخير متاع الدنيا المرأة الصالحة
(صحیح مسلم، کتاب الرضاع، باب خير متاع الدنيا، رقم: 1467/64 )
”اور حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تمام دنیا فائدہ کی چیز ہے اور دنیا کی بہترین متاع نیک عورت ہے۔“
تشريح:
دنیا متاع ہے یعنی فائدہ اٹھانے کی چیز ہے اور اس کا نفع عارضی ہے اور دنیا کی بہترین چیز جس سے فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے، وہ نیک عورت ہے یعنی ایسی عورت فتنہ نہیں ہے کیونکہ وہ آخرت کی تیاری کے لیے ممدو معاون ہوتی ہے۔
حدیث: 33
وعن أم سلمة، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أيما امرأة ماتت وزوجها عنها راض ، دخلت الجنة
(سنن ترمذی، کتاب الرضاع، باب ما جاء في حق الزوج، رقم: 1161 )
”اور حضرت ام سلمہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو عورت اس حال میں مرے کہ اس کا خاوند اس سے راضی ہو تو وہ جنت میں داخل ہوگی۔ “
تشريح:
معلوم ہوا کہ بیوی کے لیے اپنے خاوند کو راضی رکھنا بے حد ضروری ہے اور جنت میں داخلے کی کنجی ہے۔ بشرطیکہ خاوند عالم اور متقی ہو۔ فاسق و جاہل کی رضامندی کا حصول ضروری نہیں۔

حدیث: 34

وعن أبى هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من صلى على صلاة صلى الله عليه عشرا
(سنن ترمذی، کتاب الصلاة، باب ما جاء في فضل الصلاة على النبي ، رقم: 485، صحيح أبو داؤد، رقم: 1369 )
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص مجھے پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے، اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے۔“
تشریح: نبی کریم میام آسمان و زمین دونوں جگہ لائق صد احترام ہیں۔ آسمان میں اللہ تعالیٰ اور فرشتے ان پر درود بھیجتے ہیں اور زمین میں تمام اہل ایمان سے مطلوب ہے کہ ان پر درود و سلام بھیجتے رہیں۔ ارشاد فرمایا:
‏ إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ‎﴿٥٦﴾‏
(33-الأحزاب: 56)
”بے شک اللہ اور اس کے فرشتے نبی (صلی اللہ صلى الله عليه وسلم) پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی اُن پر درود وسلام بھیجو۔“

حدیث: 35

وعن عبد الله بن عمرو، عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: رضى الرب فى رضى الوالد، وسخط الرب فى سخط الوالد
(سنن ترمذی، کتاب البر والصلة، رقم: 1899 سلسلة الصحيحة، رقم: 516)
”اور سید نا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: رب کی رضا مندی والدین کی رضا مندی میں ہے اور رب کی ناراضگی والدین کی ناراضگی میں ہے۔“
تشریح:
اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ والدین کو راضی رکھنا ، خوش کرنا کس قدر ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے کئی ایک مقام پر والدین کے احسان اور نیکی کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے۔
وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا ۖ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنبِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ مَن كَانَ مُخْتَالًا فَخُورًا ‎﴿٣٦﴾‏
(4-النساء:36)
”اور اللہ کی عبادت کرو، اور اس کے ساتھ شریک نہ کرو کسی کو ۔ اور اچھا سلوک کرو ماں باپ سے، اور قرابت داروں سے، اور یتیموں اور محتاجوں سے، اور قرابت والے ہمسایہ سے، اور اجنبی ہمسایہ سے، اور پاس بیٹھنے والے (ہم جنس) سے، اور مسافر سے، اور جو تمہاری ملک ہوں (کنیر ، غلا ) بے شک اللہ اسے دوست نہیں رکھتا جو اترانے والا بڑ مارنے والا ہو شوخی خورا ہو۔ “

حدیث: 36

وعن أبى هريرة رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أكثروا ذكر هادم اللذات الموت
(سنن ترمذی، کتاب الزهد، باب ما جاء في ذكر الموت، رقم: 2307، سنن النسائي، كتاب الجنائز، باب كثرة ذكر الموت، رقم: 1823، سنن ابن ماجة، كتاب الزهد، باب ذكر الموت والإستعداد له، رقم: 4258)
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لذتوں کو توڑنے والی یعنی موت کو اکثر یاد کیا کرو۔“
تشریح :
موت کو یاد کرنے سے غفلت دور ہوتی ہے۔ انسان دنیا میں محو ہونے سے باز رہتا ہے اور اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی طرف رجوع کرتا ہے نیز قناعت پسند زندگی گزارتا ہے۔

حدیث: 37

وعن عبد رضي الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: ليس منا من ضرب الخدود وشق الجيوب ودعا بدعوى الجاهلية
(صحیح بخاری، کتاب الجنائز، باب ليس منا من ضرب الخدود، رقم: 1297)
اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اپنے رخساروں کو پیٹ کر، گریبان پھاڑ کر، عہد جاہلیت کی طرح چیخ چلا کر ماتم کرے، وہ ہم میں سے نہیں ہے۔“
تشریح :
یعنی کپڑے پھاڑنا، منہ پر تھپڑ مارنا اور چیخ کر رونا، یہ ماتم کی شکلیں ہیں۔ یہ ماتم بھی ہمارے معاشرہ میں عام ہے۔ اس کا نظارہ معمولی سی مصیبت کے وقت کیا جاتا ہے۔ لوگ اس برائی کو بھی برائی ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں، بلکہ اس کو کارِ ثواب سمجھ لیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میت پر یہ کام بطور عزت کیا جاتا ہے۔ خوب ماتم کر کے لوگوں کو دکھایا جاتا ہے، تا کہ لوگ اس کے رونے دھونے سے متاثر ہوں۔ اور اس کے لیے کلمات خیر ادا کریں۔ حالانکہ یہ کام انتہائی بڑا گناہ ہے۔

حدیث: 38

وعن عبد الله بن عمرو قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن من خياركم أحسنكم أخلاقا
(صحیح بخاری، کتاب المناقب، باب صفة النبي، رقم: 2559 صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب كثرة حيائه، رقم: 2321/68)
اور حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یقیناً تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جن کے اخلاق بہترین ہیں۔“
تشریح:
یعنی جو لوگ حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد کا خیال رکھنے والے بھی ہیں اور تمام عرفی عادات جیسے نرم خوئی، خندہ پیشانی اور حیاء وغیرہ کے حامل ہیں۔

حدیث: 39

وعن ابن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن الله يقبل توبة العبد ما لم يغرغر
(سنن ترمذی، کتاب الدعوات، باب في فضل التوبة، رقم: 353، سنن ابن ماجة، كتاب الزهد، باب ذكر التوبة، رقم: 4253)
اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یقیناً اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ کو غرغرہ لگنے یعنی موت کا یقین ہونے تک قبول کرتا ہے۔“
تشریح:
یعنی اگر انسان موت کی کیفیت طاری ہونے سے پہلے پہلے کسی بھی وقت توبہ کر لے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرما لیتا ہے۔ البتہ موت کی علامات ظاہر ہونے کے بعد تو بہ قبول نہیں ہوتی۔

حدیث : 40

وعن أبى هريرة رضی اللہ عنہ قال: قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم : من تمسك بسنتي عند فساد أمتي ، فله أجر مائة شهيد
(مرقاة المفاتيح : 206/1 ، المشكاة كتاب الإيمان، باب الإعتصام بالكتاب والسنة ، الفصل الثالث رقم : 176 ، البيهقي، كتاب الزهد من حديث ابن عباس رضی اللہ عنہ )
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے میری امت کے بگاڑ کے وقت میری سنت کو مضبوطی سے تھامے رکھا اس کو سو شہیدوں کا ثواب ملے گا۔“
تشریح :
جس طرح دین کو زندہ کرنے کے لیے شہیدوں کو جاں تک سے گزرنا پڑتا ہے اسی طرح امت کی بے راہروی کے وقت سنت کو رواج دینے اور اس پر مضبوطی سے عمل پیرا ہونے میں بڑی مشقت ہے، اسی لیے اتنے کثیر ثواب کی خوشخبری سنائی گئی ہے۔

وصلى الله تعالى على خير خلقه محمد وآله وصحبه أجمعين

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1