ابن بطوطہ کہتا ہے : دمشق میں فقہائے حنابلہ میں امام تقی الدین ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا شمار ہوتا ہے، عظیم المرتبت شخصیت کے مالک تھے اگرچہ بہت سے فنون میں انہیں قدرت تکلم تھی، لیکن دماغ میں کسی قدر فتور آ گیا تھا، اہل دمشق ان کی بےحد تعظیم و تکریم کرتے یہ منبر پر بیٹھ کر وعظ فرمایا کرتے تھے۔ آگے چل کر ابن بطوطہ کہتا ہے کہ ایک مرتبہ میں ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے پاس جمعہ کے دن گیا یہ جامع مسجد میں بیٹھے دعا فرما رہے تھے، اور کہہ رہے تھے۔ «ان الله ينزل كنزولي هذا.»
بے شک الله تعالیٰ آسمان سے دنیا پر اس طرح اترتا ہے۔ « ونزل درجة من در ج المنبر» جس طرح دیکھو میں منبر سے اترتا ہوں یہ کہہ کر وہ منبر کی سیڑھیوں میں سے ایک سیڑھی نیچے اترے۔ اس پر ایک مالکی فقیہ جس کا نام ابن الزہراء تھا، مخالفت میں کھڑا ہو گیا، لوگ اس فقیہ کے ساتھ ہو گئے اور ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی ہاتھوں اور جوتوں سے پٹائی کی یہاں تک کہ ان کا عمامہ گر گیا۔
تحقیق الحدیث :
یہ قصہ باطل ہے۔ [سفر نامه ابن بطوطه ص 126، 127 مترجم طبع نفيس اكيڈمي كراچي۔]
شیخ البانی رحمہ اللہ کے شاگرد ابی عبیدہ مشہور بن حسن ال سلمان اپنی کتاب قصص لا تثبت حصہ اول ص66، 67 پر اس پر سخت تنقید کی ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ واقعہ تین وجوہ کی بنیاد پر غلط ہے۔
پہلی وجہ ہے کہ اس قسم کے واقعات پختہ عزم والوں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ انھیں نقل کریں تو ابن بطوطہ کے علاوہ کسی اور نے اسے نقل کیوں نہیں کیا؟ حالانکہ وہاں بکثرت لوگ جمع تھے۔ نیز ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے شاگردوں میں سے کسی نے اس کو بیان کیوں نہیں کیا۔ بلکہ امام کے دشمنوں میں سے بھی اسے کوئی روایت نہیں کرتا۔
دوسری بات یہ ہے کہ اس مسئلے پر امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا موقف بڑا واضح ہے اور آپ کا اس بات پر انکار بھی واضح ہے جو اس قصہ میں ان کی طرف منسوب کیا گیا۔ امام ابن تیمیہ اللہ کہتے ہیں ”اسی طرح اللہ تعالیٰ کی صفات کو مخلوق کی صفات کی طرح قرار دینا مثلاً یہ کہنا کہ اللہ کا استواء (بیٹھنا) مخلوق کے استوار کی طرح ہے یا اس کا نزول مخلوق کے نزول کی طرح ہے اسی طرح دیگر صفات کو قیاس کرنا تو ایسا شخص بدعتی اور گمراہ ہے۔ اس لیے کہ عقل کے ساتھ کتاب و سنت بھی اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اللہ کسی بھی معاملے میں مخلوقات کی طرح قرار نہیں دیا جا سکتا۔“ [بحواله مجموع الفتاوي 262/5 وانظر التصفية و التربية ص 41،39 لفضيلة الشيخ على بن حسن الحلبي]
تیسری بات یہ ہے کہ ابن بطوطہ رمضان 726 ھ میں دمشق میں داخل ہوا جبکہ امام ابن تیمیہ شعبان 726ھ میں قلعہ میں داخل کر دیے گئے تھے۔ یہی ان کے شاگردوں وغیرہم کا بیان ہے، لہٰذا ابن بطوطہ نے غلط بیانی کی ہے۔