مشرکین عرب کے عبادت میں شرک کی 3 اقسام قرآنی دلائل کی روشنی میں
ماخوذ : فتاویٰ ارکان اسلام

کفارِ عرب کس قسم کے شرک میں مبتلا تھے؟

سوال

مشرکین میں جن کے درمیان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا گیا، وہ کس نوعیت کے شرک میں مبتلا تھے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مشرکین کا شرک کی نوعیت

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جن مشرکین کی طرف بھیجا گیا، وہ شرک فی الربوبیت میں ملوث نہ تھے۔
قرآن کریم سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہ صرف عبادت میں شرک کرتے تھے۔

ربوبیت کے بارے میں ان کا عقیدہ

◈ ربوبیت کے معاملے میں وہ یہ ایمان رکھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ اکیلا رب ہے۔
◈ وہ مانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ہی مجبور و بے کس افراد کی دعا سنتا ہے۔
◈ وہ یہ بھی عقیدہ رکھتے تھے کہ اللہ ہی مصیبتوں اور تکلیفوں کو دور کرتا ہے۔
◈ اس طرح کی کئی اور باتوں پر بھی وہ ایمان رکھتے تھے، جیسا کہ قرآن کریم میں ان کے اقرار کا ذکر ہے۔

عبادت میں ان کا شرک

◈ مشرکین اللہ تعالیٰ کی عبادت کے ساتھ ساتھ غیر اللہ کی بھی عبادت کرتے تھے۔
◈ یہ ایسا شرک ہے جو انسان کو ملت اسلامیہ سے خارج کر دیتا ہے۔

توحید اور اس کی اقسام

توحید کا مفہوم کسی چیز کو واحد ماننے سے عبارت ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ کے کئی حقوق ہیں، جنہیں صرف اسی کی ذات کے لیے خاص کرنا لازم ہے۔
ان حقوق کی تین اقسام ہیں:

◈ حقوقِ ملک
◈ حقوقِ عبادت
◈ حقوقِ اسماء و صفات

علماء نے توحید کو بھی تین اقسام میں تقسیم کیا ہے:

◈ توحید ربوبیت
◈ توحید اسماء و صفات
◈ توحید عبادت

مشرکین کا شرک کس توحید میں تھا؟

مشرکین نے آخری قسم یعنی توحید عبادت میں شرک کیا تھا۔
وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے ساتھ دوسروں کی عبادت بھی کرتے تھے، حالانکہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے:

﴿وَاعبُدُوا اللَّهَ وَلا تُشرِكوا بِهِ شَيـًٔا﴾
(سورة النساء: 36)
’’اور اللہ ہی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بناؤ۔‘‘

شرک کی سنگینی پر قرآنی دلائل

اللہ تعالیٰ نے مزید فرمایا:

﴿إِنَّهُ مَن يُشرِك بِاللَّهِ فَقَد حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيهِ الجَنَّةَ وَمَأوىهُ النّارُ وَما لِلظّـلِمينَ مِن أَنصارٍ﴾
(سورة المائدة: 72)
’’بلاشبہ جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرے گا، اللہ اس پر جنت کو حرام کر دے گا اور اس کا ٹھکانا دوزخ ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔‘‘

اسی طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿إِنَّ اللَّهَ لا يَغفِرُ أَن يُشرَكَ بِهِ وَيَغفِرُ ما دونَ ذلِكَ لِمَن يَشاءُ﴾
(سورة النساء: 48)
’’بلا شبہ اللہ اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے اور اس کے سوا دوسرے گناہوں کو جسے چاہے معاف کر دے گا۔‘‘

اللہ تعالیٰ کا مزید ارشاد ہے:

﴿وَقالَ رَبُّكُمُ ادعونى أَستَجِب لَكُم إِنَّ الَّذينَ يَستَكبِرونَ عَن عِبادَتى سَيَدخُلونَ جَهَنَّمَ داخِرينَ﴾
(سورة غافر: 60)
’’اور تمہارے پروردگار نے فرمایا ہے کہ تم مجھ سے دعا کرو، میں تمہاری (دعا) قبول کروں گا۔ بلا شبہ جو لوگ میری عبادت سے سرکشی (تکبر) کرتے ہیں وہ عنقریب جہنم میں ذلیل ہو کر داخل ہوں گے۔‘‘

سورہ کافرون میں مشرکین سے براءت

اللہ تعالیٰ نے سورۃ کافرون میں فرمایا:

﴿قُل يـأَيُّهَا الكـفِرونَ ﴿١﴾ لا أَعبُدُ ما تَعبُدونَ ﴿٢﴾ وَلا أَنتُم عـبِدونَ ما أَعبُدُ ﴿٣﴾ وَلا أَنا۠ عابِدٌ ما عَبَدتُم ﴿٤﴾ وَلا أَنتُم عـبِدونَ ما أَعبُدُ ﴿٥﴾ لَكُم دينُكُم وَلِىَ دينِ﴾
(سورة الكافرون: 1-6)
’’اے پیغمبر (ان منکرین اسلام سے) کہہ دو کہ اے کافرو! جن (بتوں) کو تم پوجتے ہو، ان کو میں نہیں پوجتا اور جس (اللہ) کی میں عبادت کرتا ہوں، اس کی تم عبادت نہیں کرتے اور (میں پھر کہتا ہوں کہ) جن کی تم پرستش کرتے ہو، ان کی میں پرستش کرنے والا نہیں ہوں اور نہ تم اس کی بندگی کرنے والے معلوم ہوتے ہو جس کی میں بندگی کرتا ہوں، تم اپنے دین پر، میں اپنے دین پر۔‘‘

سورۃ الاخلاص اور سورۃ الکافرون کا تعلق اخلاص سے

میں نے اس سورت کو ’’سورۃ الاخلاص‘‘ کہا ہے کیونکہ اس میں عمل کا اخلاص بیان کیا گیا ہے۔
اگرچہ اسے عام طور پر ’’سورۃ الکافرون‘‘ کہا جاتا ہے، لیکن حقیقتاً یہ عمل میں اخلاص کا بیان ہے۔
اسی طرح سورۃ ﴿قُلْ هُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ﴾ علمی اخلاص اور عقیدہ کی وضاحت کرتی ہے۔

سورۃ کافرون: اخلاصِ عملی کا بیان
سورۃ اخلاص (قُلْ هُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ): اخلاصِ علمی اور عقائدی کا اظہار

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1