مشت زنی کی حرمت: قرآن و حدیث کی روشنی میں مکمل رہنمائی
ماخوذ: قرآن کی روشنی میں احکام ومسائل جلد 01

مشت زنی سے متعلق قرآن و حدیث کی روشنی میں رہنمائی

سوال

مشت زنی کے بارے میں قرآن مجید اور احادیث سے کیا رہنمائی ملتی ہے؟ کیا یہ عمل زنا کے برابر حرام ہے؟ یا یہ ایک مباح عمل ہے، یا ناجائز مگر بعض مخصوص حالات میں جائز ہو سکتا ہے؟ براہِ کرم اپنے جواب میں قرآن کی آیات، احادیث اور آثار بھی ذکر فرمائیں۔ شکریہ۔

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مشت زنی (استمناء بالید) اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے۔ اس کی حرمت قرآن مجید اور احادیث مبارکہ سے واضح ہوتی ہے۔

قرآن مجید کی روشنی میں

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

"وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ۔ إِلَّا عَلَىٰ أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ۔ فَمَنِ ابْتَغَىٰ وَرَاءَ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْعَادُونَ”
(المؤمنون: 5-7)

ترجمہ:
اور وہ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ سوائے اپنی بیویوں یا لونڈیوں کے، تو بے شک وہ اس میں ملامت کے مستحق نہیں۔ لیکن جو کوئی ان کے علاوہ کسی اور راستے کا طلبگار بنے تو وہی لوگ حد سے تجاوز کرنے والے ہیں۔

ان آیات مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ مومن بندے اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں، اور صرف اپنی بیویوں یا کنیزوں کے ساتھ جنسی تعلق کی اجازت ہے۔ اس دائرے سے باہر جو بھی عمل کیا جائے، وہ اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود سے تجاوز شمار ہوتا ہے، اور مشت زنی بھی انہی ناجائز راستوں میں شامل ہے۔

حدیث نبوی ﷺ کی روشنی میں

سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:

"يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ! مَنِ اسْتَطَاعَ الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ، فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ، وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ، فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ”
(صحیح بخاری، صحیح مسلم)

ترجمہ:
اے نوجوانوں کی جماعت! تم میں سے جو کوئی شادی کی استطاعت رکھتا ہے، وہ شادی کرلے کیونکہ یہ نظر کو نیچے رکھنے والی اور شرمگاہ کو محفوظ رکھنے والی چیز ہے۔ اور جو کوئی استطاعت نہ رکھے، وہ روزے رکھے، کیونکہ روزے اس کے لیے حفاظت کا ذریعہ ہیں۔

اس حدیث میں نبی کریم ﷺ نے جنسی جذبات پر قابو پانے کے لیے شادی کی ترغیب دی ہے، اور اگر شادی ممکن نہ ہو تو روزہ رکھنے کا مشورہ دیا ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ آپ ﷺ نے کبھی بھی مشت زنی کی اجازت یا اس کی طرف رہنمائی نہیں فرمائی۔ اگر یہ عمل جائز ہوتا تو آپ ﷺ ضرور اس کا ذکر فرماتے۔

مشت زنی کی حلت سے متعلق روایات کا جائزہ

جو روایات مشت زنی کے جواز کے لیے پیش کی جاتی ہیں، وہ تمام کی تمام ضعیف اور ناقابلِ حجت ہیں۔ ان پر عمل کرنا شرعی طور پر درست نہیں ہے۔

مشت زنی کے نقصانات

طبی نقصانات:
مشت زنی سے جسمانی کمزوری، اعصابی کمزوری اور جنسی صلاحیت میں کمی جیسے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔

نفسیاتی اثرات:
یہ عمل انسان کو ذہنی دباؤ، احساسِ گناہ، اور سماجی تنہائی کی طرف لے جا سکتا ہے۔

اخلاقی گراوٹ:
مشت زنی ایک ایسا عمل ہے جو انسان کی اخلاقی سطح کو گرا دیتا ہے اور روحانی زوال کا باعث بنتا ہے۔

خلاصہ

اسلامی شریعت کے مطابق مشت زنی ایک ناجائز عمل ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے کسی قسم کی اجازت نہیں دی، نہ ہی نبی کریم ﷺ نے اس کی طرف رہنمائی فرمائی۔ بیوی یا لونڈی کے علاوہ دیگر تمام راستے، جن میں مشت زنی بھی شامل ہے، قرآن مجید کی رو سے حرام اور حد سے تجاوز کرنے والے اعمال میں شمار ہوتے ہیں۔

هٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے