مشترکہ فیکٹری اور اس کے حصہ داروں کے درمیان پیدا ہونے والے مسائل کی شرعی حیثیت
سوال کی تفصیل
سائل اور اس کے رفقاء کو چند کاروباری معاملات میں دینی رہنمائی درکار ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّـهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ… ﴿٥٩﴾… سورة النساء
معاملہ یہ ہے کہ ایک فیکٹری، جس کے لگ بھگ 1600 حصہ دار ہیں، اس کا موجودہ سربراہ (MD) ایک نئی فیکٹری لگانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس کے مطابق:
✿ یہ نئی فیکٹری موجودہ فیکٹری کو خام مال فراہم کرے گی اور زائد پیداوار کو مارکیٹ میں فروخت کیا جائے گا۔
✿ (MD) نے مختلف ممالک کے دورے کیے اور ان دوروں پر ذاتی خرچ کیا۔
✿ وہ کہتا ہے کہ نئی فیکٹری وہ ذاتی وسائل سے لگائے گا اور اس میں دوسروں کو شراکت کی دعوت دے رہا ہے۔
✿ دو سال کی کوشش کے باوجود وہ نئی فیکٹری لگانے میں کامیاب نہیں ہوسکا، صرف مختلف نوعیت کے معاہدے (agreements) کیے۔
اب وہ مجبوراً:
✿ موجودہ فیکٹری کے حصہ داروں کو دعوت دیتا ہے کہ جو چاہے نئی فیکٹری میں شریک ہو سکتا ہے۔
✿ غیر متعلقہ افراد کو بھی شراکت کی پیشکش کرتا ہے، بشرطیکہ وہ سرمایہ فراہم کریں۔
✿ موجودہ فیکٹری کی زمین اور نقد رقم، جو نئی فیکٹری کے کل سرمائے کا تقریباً 1/3 بنتی ہے، اس میں شامل کرنے کی تجویز دیتا ہے۔
✿ تمام شراکت داروں سے بھی ممکن حد تک سرمایہ لگانے کا مطالبہ کرتا ہے۔
لیکن شرط یہ ہے کہ:
✿ (MD) نئی فیکٹری کے مجموعی سرمائے کا 5% بطور شیئرز حاصل کرے گا۔
✿ یہ 5% حصہ کسی اور حصہ دار کو نہیں دیا جائے گا۔
✿ چونکہ نئی فیکٹری اسٹاک ایکسچینج میں رجسٹرڈ ہوگی، اس لیے مکمل ہونے سے پہلے اس کی قیمت میں جو اضافہ ہوگا، اس کا واحد حق دار (MD) ہوگا۔
حصہ داروں کے اعتراضات
فیکٹری کے سمجھدار حصہ داروں نے درج ذیل نکات پر اعتراض اٹھایا:
✿ (MD) موجودہ فیکٹری کا تنخواہ دار ہے، جو کہ بڑی فیکٹریوں کے مطابق تنخواہ، گاڑیاں، ٹیلیفون، ملازمین، میڈیکل اخراجات، اور دنیا بھر کے سفر جیسی سہولیات حاصل کرتا ہے۔
✿ (MD) نے تمام معاہدے موجودہ فیکٹری کے سربراہ کی حیثیت سے کیے۔
✿ اگر وہ ان معاہدوں کو ذاتی حیثیت میں کرتے تو انہیں کمیشن کا حق حاصل ہوتا، لیکن بطور سربراہ وہ یہ اختیار نہیں رکھتے۔
✿ یہ عمل اس حکومتی سربراہ جیسا ہے جو اپنے سرکاری عہدے کی بنیاد پر ذاتی فائدہ حاصل کرے۔
متبادل تجویز
اعتراض کرنے والے افراد کی تجویز ہے کہ:
✿ اگر (MD) واقعی ذاتی حیثیت سے یہ کام کرنا چاہتے ہیں تو موجودہ فیکٹری کی سربراہی سے استعفیٰ دیں اور پھر سرمایہ کاری کی دعوت دیں۔
✿ اگر معاہدے ان کی ذاتی حیثیت سے ہو جائیں تو نئی فیکٹری سے 5% کے بجائے 10% کمیشن وصول کریں۔
✿ موجودہ فیکٹری کے سربراہ کی حیثیت سے وہ کوئی کمیشن نہیں لے سکتے کیونکہ وہ اس کے امین بھی ہیں اور اس میں 15% حصہ بھی رکھتے ہیں۔
✿ اگر کمیشن لینا ہے تو وہ موجودہ فیکٹری کے نفع میں جمع کر کے 1600 حصہ داروں میں منافع کی صورت میں تقسیم ہو۔
✿ ابتدائی اخراجات کو وہ اپنی جانب سے سرمایہ شمار کریں یا رقم واپس لے لیں۔
لیکن (MD) اس بات سے شدید اختلاف کرتا ہے اور اپنی رائے پر قائم ہے۔
علماء کی ضرورت اور کاروباری مسائل
سائلین چاہتے ہیں کہ اس معاملے میں شریعت کی روشنی میں رہنمائی لی جائے، تاکہ:
✿ نہ کسی پر ظلم ہو
✿ نہ کوئی ظلم کرے
لیکن بعض لوگ یہ کہہ کر علمائے کرام سے رجوع کرنے سے گریز کرتے ہیں کہ موجودہ علماء کاروباری مسائل کو نہیں سمجھتے۔
جناب حافظ ثناء اللہ مدنی حفظہ اللہ، چونکہ آپ نے حال ہی میں علمائے کرام کا ایک بورڈ تشکیل دیا ہے جس میں چوٹی کے علماء شامل ہیں، اس اہم مسئلے کو حل فرما کر تاجروں کو شرعی رہنمائی دی جائے۔
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نفع و نقصان کی بنیاد پر شراکت داری پر مبنی کاروبار، جیسے کہ فیکٹری یا کارخانے کا قیام، جائز ہے بشرطیکہ اس میں سود، فراڈ یا دھوکہ نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ الْخُلَطَاءِ لَيَبْغِي بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَقَلِيلٌ مَّا هُمْ﴾
(ص: 24)
یعنی: "اور بہت سے شریک کار ایک دوسرے پر زیادتی کرتے ہیں، سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کئے، اور یہ بہت تھوڑے ہیں۔”
اگر تمام شریک راضی ہوں
✿ اگر تمام شریک (MD) سے متفق ہوں تو شریعت کی رو سے اسے نفع یا سرمایہ میں سے کچھ حصہ مثلاً 5% مختص کیا جا سکتا ہے۔
✿ جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«المسلمون علی شروطهم»
مسلمان اپنی شرطوں پر ہیں۔
(سنن ابی داود: 3594، و سندہ حسن، و صححہ ابن الجارود: 637، و ابن حبان: 1199، و علقہ البخاری فی صحیحہ قبل ح 2274، نحو المغنی)
اگر شریک راضی نہ ہوں
✿ اگر شریک (MD) کی شرط پر راضی نہ ہوں یا شک و شبہ محسوس کریں تو شریعت کے مطابق انہیں (MD) کو منع کرنے کا حق ہے۔
✿ انہیں کہنا چاہیے کہ (MD) سمیت تمام شریک نفع و نقصان میں برابر ہوں گے۔
✿ بصورت دیگر (MD) اس کاروبار کو ہی چھوڑ دے۔
شریعت کا اصول
✿ شریعت کا اصول ہے کہ جس چیز پر دل مطمئن نہ ہو یا جس میں کھٹک ہو، اسے چھوڑ دینا بہتر ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب