جو شخص کسی غلام سے اپنا حصہ آزاد کر دے تو وہ قیمت مقرر کرنے کے بعد بقیہ شرکاء کے حصص کا بھی ضامن ہو گا ورنہ محض اس کا حصہ آزاد ہو گا اور غلام سے محنت کرائی جائے گی
➊ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من أعتق شركا له فى عبد وكان له مال يبل غ ثمن العبد قوم عليه العبد قيمة عدل فأعطى شر كائه حصصهم وعتق عليه العبد وإلا فقد عتق عليه مساعتق
”جو شخص مشترکہ غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کر دے اور اس کے پاس مزید اتنا مال ہو کہ غلام کو خرید کر آزاد کر سکے تو عدل و انصاف سے اس کی قیمت مقرر کر کے دوسرے شرکاء کو ان کے حصے کی قیمت ادا کر دے تو یہ غلام اس کی طرف سے آزاد ہو گا ورنہ جتنا آزاد ہو چکا ہے اتنا ہی آزاد ہے ۔“
[بخارى: 2491 ، كتاب الشركة: باب تقويم الأشياء بين الشركاء بقيمة عدل ، احمد: 112/2 ، ابو داود: 3940 ، ترمذي: 1346 ، نسائي: 319/7 ، ابن ماجة: 2528 ، شرح معاني الآثار: 106/3 ، بيهقي: 274/10]
➋ ایک حدیث میں ہے کہ ”جو شخص اپنا حصہ آزاد کرے اگر اس کے پاس مال ہو تو اسے مکمل آزاد کرائے:
وإلا استسعى غير مشقوق عليه
”ورنہ اس پر مشقت ڈالے بغیر اسے حصول آزادی کا موقع فراہم کیا جائے ۔“
[أيضا]
استسعي
کا معنی یہ ہے کہ اگر آزاد کرنے والے کے پاس مزید اتنا مال نہیں جو اس کی مکمل قیمت کے برابر ہو تو پھر غلام کو اتنا مال کما کر لانے کی زحمت دی جائے گی جو دوسرے شریک کے حصے کے برابر ہو ۔ وہ حصہ جب مالک کو ادا کر دیا جائے گا تو غلام آزاد ہو جائے گا ۔
غير مشقوق عليه
کا مفہوم یہ ہے کہ غلام سے اتنی ہی محنت کرائی جائے جتنی اس میں غلامی باقی ہے ۔
[نيل الأوطار: 157/4 ، سبل السام: 1958/4 ، الروضة الندية: 327/2]
بعض علما نے پہلی حدیث کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا ہے کہ غلام کا بقیہ حصہ غلام ہی رہے گا اس سے محنت و سعی نہیں کرائی جائے گی اور کچھ نے دوسری کو بھی پیش نظر رکھا ہے اور سعی و محنت کی اجازت دی ہے۔
ان بظاہر متعارض اقوال میں اس طرح تطبیق دی گئی ہے کہ تمام شرکائے حصص میں سے صرف ایک اگر اپنا حصہ آزاد کر دے تو فی الفور غلام مکمل آزاد نہیں ہو گا بلکہ اس کی حیثیت ایسے مکاتب غلام جیسی ہو گی جس نے اپنی مکاتبت کا کچھ حصہ تو ادا کر دیا ہے اور کچھ باقی ہے یہی رائے امام بخاریؒ کی ہے۔
[سبل السلام: 1958/4 ، نيل الأوطار: 157/4 ، الروضة الندية: 326/2 – 328]