معراج کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جنت کے اندر داخل ہونے کا اور وہاں چند چیزوں کے مشاہدے کا اعزاز حاصل ہوا جیسا کہ اس کی مختصر مستند تفصیل گزر چکی ہے۔ اسی طرح جہنم اور اس کے عذاب کی بھی ایک جھلک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھائی گئی۔
غیبت کرنے والوں کا انجام بد:
مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے کہ جہنم میں آپ نے دیکھا، کچھ لوگ ہیں جو مردار کھا رہے ہیں۔ آپ نے پوچھا: جبریل! یہ کون لوگ ہیں؟ جبریل علیہ السلام نے کہا: یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کا گوشت کھایا کرتے تھے۔
(الفتح الربانی، ج 20، ص: 255)
سنن ابو داود میں ہے، حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لما عرج بي مررت بقوم لهم أظفار من نحاس يخمشون وجوههم وصدورهم، فقلت: من هٰؤلاء يا جبريل؟ قال: هٰؤلاء الذين يأكلون لحوم الناس ويقعون فى أعراضهم
معراج کے موقع پر میرا گزر ایسے لوگوں کے پاس سے ہوا جن کے ناخن پیتل کے تھے، وہ اپنے چہروں اور سینوں کو نوچ رہے تھے، میں نے پوچھا: جبریل! یہ کون لوگ ہیں؟ جبریل علیہ السلام نے کہا: یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کا گوشت کھایا کرتے تھے اور ان کی بے عزتی کرتے تھے۔
(سنن أبي داود، الأدب، باب في الغيبة، حدیث: 4878)
لوگوں کا گوشت کھانے سے مراد غیبت کرنا ہے، یعنی پیٹھ پیچھے لوگوں کے عیوب بیان کرنا۔ اس غیبت کو قرآن کریم میں اپنے مردار بھائی کا گوشت کھانے سے تعبیر کیا گیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا ۚ أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَن يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ﴾ (ا لحجرات:12)
تم ایک دوسرے کی غیبت مت کرو۔ کیا تم میں سے کوئی شخص یہ پسند کرتا ہے کہ وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے؟ پس تم اس کو تو برا سمجھتے ہو۔
بے عمل خطباء کا عبرت ناک انجام:
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
رأيت ليلة أسري بي رجالا تقرض شفاههم بمقاريض من نار، قلت: من هٰؤلاء يا جبريل؟ قال: هٰؤلاء خطباء من أمتك يأمرون الناس بالبر وينسون أنفسهم، وهم يتلون الكتاب، أفلا يعقلون
میں نے معراج کی رات کچھ لوگوں کو دیکھا کہ ان کے منہ آگ کی قینچیوں سے کاٹے جا رہے ہیں۔ میں نے پوچھا، جبریل! یہ کون لوگ ہیں؟ جبریل علیہ السلام نے کہا: یہ آپ کی امت کے وہ خطیب لوگ ہیں جو لوگوں کو تو بھلائیوں کا حکم دیتے ہیں اور خود ان پر عمل نہیں کرتے، حالانکہ وہ کتاب بھی پڑھتے ہیں، پس وہ نہیں سمجھتے؟
(هذا حديث حسن، شرح السنة للبغوي 14/353، حدیث: 4159، المكتب الإسلامي)
جہنم میں ناقتہ اللہ کے قاتل کا مشاہدہ:
حضرت صالح علیہ السلام کو ان کی قوم کے مطالبے پر معجزے کے طور پر ایک اونٹنی دی گئی تھی اور ان سے کہا گیا تھا کہ اس کو کچھ نہ کہنا۔ علاوہ ازیں پانی کی باری مقرر کر دی گئی تھی، ایک دن اونٹنی کے لیے اور ایک دن قوم کے لیے۔ لیکن ان ظالموں نے اس اونٹنی کا بھی کوئی احترام نہیں کیا جس کو اللہ نے اپنی اونٹنی قرار دیا تھا اور اس کو مار ڈالا۔ معراج میں جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جہنم کی ایک جھلک دیکھی تو اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قاتل کا بھی مشاہدہ کیا۔ آپ نے ایک سرخ رنگ، نیلگوں آنکھوں والا، گھونگریالے بالوں والا، پراگندہ حال شخص دیکھا۔ آپ نے پوچھا: جبریل! یہ کون شخص ہے؟ جبریل علیہ السلام نے کہا: ”یہ اونٹنی کا قاتل ہے۔“
(الفتح الربانی، ج 20، ص: 255) حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے تفسیر میں اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔