مشاہداتِ معراج: رؤیتِ الٰہی، وحی، تجلی اور آئمہ کے مؤقف کا جائزہ
یہ اقتباس حافظ صلاح الدین یوسف کی کتاب واقعہ معراج اور اس کے مشاہدات سے ماخوذ ہے۔

مشاہدات معراج میں تین مسائل بڑے اہم ہیں جن میں صحابہ اور تابعین کے درمیان بھی اختلاف رہا ہے اور وہ حسب ذیل ہیں:
➊ کیا شب معراج میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کے دیدار کا شرف حاصل ہوا ہے؟
➋ کیا اللہ تعالیٰ نے براہ راست (بغیر کسی واسطے کے) نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کلام فرمایا ہے؟
➌ قرآن مجید کی آیت: ﴿ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّىٰ﴾ (النجم:8) "پھر وہ قریب ہوا اور جھک گیا۔” کس کی بابت ہے؟ یہ دنو اور تدلي کس کا کس کے ساتھ ہوا؟ کیا اللہ تعالیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہوا اور آپ کی طرف جھک آیا؟ یا اس سے مراد جبریل علیہ السلام کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہونا اور جھکنا ہے؟

رویت باری تعالیٰ، اللہ سے کلام اور دنو و تدلي کی وضاحت

جہاں تک پہلی بات کا تعلق ہے تو واقعہ یہ ہے کہ دنیا میں انبیاء علیہم السلام سمیت کسی کو بھی اللہ کی رؤیت (دیدار) کا شرف حاصل نہیں ہوا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دنیا میں یہ خواہش ظاہر کی تھی اور کہا تھا: ﴿رَبِّ أَرِنِي أَنظُرْ إِلَيْكَ﴾ "اے رب! تو مجھے اپنا دیدار کرا، میں تجھے دیکھوں۔” اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿لَن تَرَانِي وَلَٰكِنِ انظُرْ إِلَى الْجَبَلِ فَإِنِ اسْتَقَرَّ مَكَانَهُ فَسَوْفَ تَرَانِي﴾
"موسیٰ! تو مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکے گا، البتہ تو پہاڑ کی طرف دیکھ، اگر وہ اپنی جگہ برقرار رہا تو یقیناً تو مجھے دیکھ لے گا۔”
(الاعراف:143)
﴿فَلَمَّا تَجَلَّىٰ رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكًّا وَخَرَّ مُوسَىٰ صَعِقًا﴾
"پس جب اس کے رب نے پہاڑ پر اپنی تجلی ظاہر فرمائی تو تجلی رب نے اس پہاڑ کو ریزہ ریزہ کر دیا اور موسیٰ علیہ السلام بے ہوش ہو کر گر پڑے۔”
(الاعراف:143)
جب موسیٰ علیہ السلام کو ہوش آیا تو ان کی سمجھ میں یہ بات آگئی کہ وہ اس دنیا میں ان دنیوی آنکھوں سے اپنے رب کا دیدار نہیں کر سکتے، چنانچہ بارگاہ الہی میں عرض گزار ہوئے:
﴿سُبْحَانَكَ تُبْتُ إِلَيْكَ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ﴾
"اے اللہ! تو پاک ہے، میں تیری بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں اور میں سب سے پہلے ایمان لانے والوں میں سے ہوں۔”
(الاعراف:143)
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اس واقعے سے معلوم ہوا کہ موسیٰ علیہ السلام جلیل القدر پیغمبر ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی رؤیت کے متحمل نہیں ہو سکے۔ اس سے یہی استدلال کیا گیا ہے کہ دنیوی آنکھوں میں اتنی قوت نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے جلوے کی متحمل ہو سکیں، البتہ آخرت میں اللہ تعالیٰ ان آنکھوں میں اتنی قوت پیدا کر دے گا کہ وہ رب کے دیدار سے خوشنود ہوں گی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں میں اگر اللہ تعالیٰ کی مشیت ہوتی تو وہ معراج کے موقع پر اتنی قوت پیدا کر سکتا تھا کہ وہ اللہ کا دیدار کر لیتیں۔ لیکن کچھ اقوال صحابہ و تابعین کے علاوہ ایسی کوئی مضبوط دلیل نہیں ہے جو اثبات رؤیت پر دلالت کرتی ہو۔ اس لیے راجح بات یہی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی شب معراج میں اللہ تعالیٰ کے دیدار کا شرف حاصل نہیں کیا۔
شرح عقیدۃ الطحاویۃ میں ہے:
فإن الرؤية فى الدنيا ممكن، إذا لو لم تكن ممكنة لما سألها موسىٰ عليه السلام لكن لم يرد نص بأنه صلى الله عليه وسلم رأى ربه بعين رأسه، بل ورد ما يدل على نفي الرؤية
"اللہ کی رؤیت تو دنیا میں ممکن ہے، اس لیے کہ اگر یہ ممکن نہ ہوتی تو موسیٰ علیہ السلام اس کا سوال نہ کرتے، لیکن اس کی بابت کوئی نص وارد نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سر کی آنکھوں سے اپنے رب کو دیکھا، بلکہ اس کے برعکس ایسی صراحتیں ملتی ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ آپ نے اپنے رب کو نہیں دیکھا۔”
شرح عقيدة الطحاوية، ص : 163 ، طبع الرياض : 1413 هـ
اس کے بعد صاحب شرح عقیدۃ الطحاویہ نے وہ حدیث نقل کی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سوال کے جواب میں کہ کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا، آپ نے فرمایا: "وہ تو نور ہے، میں اسے کیوں کر دیکھ سکتا ہوں؟” اور ایک روایت میں ہے: "میں نے نور دیکھا۔” فرماتے ہیں: فهذا صريح فى نفي الرؤية "یہ حدیث نفی رؤیت میں بالکل واضح ہے۔”

قائلین رؤیت کے دلائل اور ان کا تجزیہ

جو لوگ رؤیت باری تعالیٰ کے قائل ہیں، ان کا زیادہ استدلال سورہ نجم کی ان آیات کے بعض حصوں سے ہے:
﴿ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّىٰ. فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَىٰ ‎. فَأَوْحَىٰ إِلَىٰ عَبْدِهِ مَا أَوْحَىٰ ‎.‏ مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَىٰ ‎.‏ أَفَتُمَارُونَهُ عَلَىٰ مَا يَرَىٰ ‎. وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَىٰ ‎.‏ عِندَ سِدْرَةِ الْمُنتَهَىٰ ‎. عِندَهَا جَنَّةُ الْمَأْوَىٰ ‎.‏ إِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ مَا يَغْشَىٰ ‎. مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَىٰ ‎. لَقَدْ رَأَىٰ مِنْ آيَاتِ رَبِّهِ الْكُبْرَىٰ .﴾
"پھر وہ قریب ہوا اور اتر آیا، پس وہ دو کمانوں کے بقدر یا اس سے بھی زیادہ قریب ہو گیا، پس اس نے اپنے بندے کی طرف وحی کی جو وحی کی، دل نے اسے جھوٹ نہیں کہا جو پیغمبر نے دیکھا، کیا تم جھگڑا کرتے ہو اس پر جو وہ دیکھتا ہے اور اس نے ایک مرتبہ اور اترتے ہوئے دیکھا تھا، سدرۃ المنتہیٰ کے پاس، اسی کے پاس ”جنة المأویٰ“ ہے، جبکہ سدرہ کو چھپائے لیتی ہے وہ چیز جو چھا رہی تھی، نہ تو نگاہ بہکی اور نہ حد سے بڑھی، یقیناً اس نے اپنے رب کی بعض بڑی نشانیاں دیکھیں۔”
(النجم: 8 تا 18)
ان آیات میں سے پہلی دو آیات کا بطور خاص مصداق، وہ اللہ تعالیٰ کو قرار دیتے ہیں، یعنی اللہ تعالیٰ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اتنے قریب ہو گیا کہ دو کمانوں کے بقدر یا اس سے بھی کم کا فاصلہ رہ گیا۔ حالانکہ اس کے بعد کی آیت "پس اس نے اس اللہ کے بندے کی طرف وحی کی” اس مفہوم کی نفی کر دیتی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اتنے قریب ہو گیا کہ دو کمانوں کے بقدر یا اس سے بھی کم کا فاصلہ رہ گیا تو پھر وحی کی بجائے (كلم الله ما كلم) "کلام کیا اللہ نے جو کلام کیا” کے الفاظ ہونے چاہیے تھے کیونکہ اتنے قریب سے وحی نہیں کی جاتی بلکہ کلام کیا جاتا ہے، اتنی قربت تو روبرو ہونے کے ہم معنی ہے۔ روبرو ہونے کے بعد وحی کرنے کے کیا معنی؟ اس کے بعد تو براہ راست گفتگو ہونی چاہیے تھی۔ جب ایسا نہیں ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے ہم کلامی نہیں کی بلکہ اس موقع پر بھی بذریعہ وحی ہی تبادلہ احکام ہوا تو یہ اس بات کا واضح قرینہ ہے کہ ﴿ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّىٰ ‎.‏ فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَىٰ.﴾ میں جس قربت و تدلّی کا بیان ہے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت جبریل علیہ السلام کے درمیان ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ اور پیغمبر کے درمیان۔ پس اس کا زیادہ صحیح ترجمہ یہ ہے کہ جبریل علیہ السلام نے اس (اللہ) کے بندے، یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وحی کی جو (قرآن کی) وحی کی۔ پس فأوحى میں ضمیر کا مرجع جبریل علیہ السلام ہیں (جیسا کہ آیت کا سیاق اس کی تائید کرتا ہے) یعنی جبریل علیہ السلام نے اللہ کی وحی، اللہ کا قرآن یا اللہ کا پیغام محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچایا اور اگر فأوحى میں ضمیر کا مرجع اللہ کو قرار دیا جائے تو معنی ہوں گے: اللہ نے اپنے بندے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر (بواسطہ جبریل) وحی کی جو وحی کی۔ یہ معنی سیاق کے اس وقت زیادہ قریب ہوں گے جب فأوحى کو (علمه شديد القوىٰ) سے ماقبل کی آیت سے متعلق مانا جائے اور علمه کو او ادنيٰ تک جملہ معترضہ سمجھا جائے۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے ان دونوں معنوں کو صحیح قرار دیا ہے۔
ابن كثير، تفسير سورة النجم
ایک تیسری صورت بعض مفسرین نے یہ بھی بیان کی ہے کہ فأوحى میں ضمیر کا فاعل اللہ ہے اور إلىٰ عبده میں ضمیر کا مرجع جبریل ہیں اور ما أوحى میں، أوحى کا فاعل جبریل علیہ السلام ہیں، معنی ہوں گے: "پس اللہ نے اپنے بندے (جبریل) کی طرف وہ وحی کی جو وحی جبریل نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کی۔”
التفسير المنير، ج 27 ، ص : 901
ان تینوں صورتوں میں سے کسی صورت میں بھی براہ راست گفتگو کا مفہوم نہیں نکلتا۔
علاوہ ازیں اس سے بھی زیادہ واضح قرینہ اس بات کا کہ ضمائر کا مرجع جبریل علیہ السلام ہیں، یہ ہے کہ اس کا تعلق لیلۃ المعراج سے ہے ہی نہیں۔ یہ دراصل ابتدائے نبوت کا واقعہ ہے، اس موقع پر اللہ کے پیغمبر نے جبریل علیہ السلام کو پہلی مرتبہ اصل صورت میں دیکھا تھا۔ ان آیات میں اسی کا بیان ہے، چنانچہ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جبریل علیہ السلام کو دیکھنا، معراج کی رات کو نہیں تھا بلکہ یہ اس سے پہلے کا واقعہ ہے جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زمین پر تھے، پس جبریل علیہ السلام آپ کی طرف آسمان سے زمین پر اترے اور آپ کی طرف جھکے اور آپ کے قریب ہو گئے۔ اس وقت جبریل علیہ السلام اس اصلی صورت میں تھے جس پر اللہ نے ان کو پیدا فرمایا ہے۔ ان کے چھ سو پر تھے، پھر آپ نے جبریل علیہ السلام کو دوسری مرتبہ سدرۃ المنتہیٰ کے پاس دیکھا، یعنی معراج کی رات کو۔ اور یہ پہلی رؤیت نبوت کے آغاز میں اس وقت کے بعد کا واقعہ ہے جب جبریل علیہ السلام پہلی مرتبہ آپ کے پاس آئے تھے، پس اللہ نے آپ کی طرف سورۃ اقرأ کی ابتدائی آیات کی وحی فرمائی، پھر اس کے بعد وحی کا سلسلہ موقوف ہو گیا۔ اس دوران میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کئی مرتبہ اس نیت سے پہاڑ پر چڑھے کہ اپنے آپ کو وہاں سے نیچے گرا لیں، پس آپ نے جب بھی ایسا کیا تو جبریل علیہ السلام نے آپ کو فضائے آسمانی میں سے آواز دی: "اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! آپ اللہ کی طرف سے رسول برحق ہیں اور میں جبریل عرض کر رہا ہوں۔” یہ سن کر آپ کے دل کو تسلی ہو جاتی اور آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہو جاتیں۔ اور جب بھی آپ ایسا ارادہ فرماتے تو ایسا ہی ہوتا، حتیٰ کہ ایک وقت آیا کہ جبریل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وادی مکہ میں اس اصلی صورت میں آئے جس پر اللہ نے ان کو پیدا فرمایا ہے۔ ان کے چھ سو پر تھے اور ان کے جسم کی جسامت نے آسمان کے کناروں کو بھر دیا تھا۔ پس جبریل علیہ السلام آپ کے قریب ہوئے اور آپ کی طرف اللہ کی طرف سے اس چیز کی وحی کی جس کا اللہ نے ان کو حکم دیا تھا۔ اس وقت آپ نے اس فرشتے کی عظمت کو پہچانا جو آپ کے پاس پیغام الہی لاتا تھا اور اس کی اس قدر و منزلت کا آپ کو علم ہوا جو اس فرشتے کی اس خالق کائنات کے نزدیک تھی جس نے اسے آپ کے پاس بھیجا تھا۔
تفسیر ابن کثیر، ج 7 ص 420
اس تفصیل سے واضح ہوا کہ: ﴿ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّىٰ ‎.‏ فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَىٰ.﴾ میں ضمیروں کا مرجع وہی فرشتہ ہے جس کا ذکر اس سے پہلی آیات:
‏ ﴿عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَىٰ ‎.‏ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوَىٰ ‎.‏ وَهُوَ بِالْأُفُقِ الْأَعْلَىٰ .﴾
"مضبوط قوتوں والے (فرشتے) نے اس (پیغمبر) کو قرآن سکھایا، وہ طاقت والا ہے۔ پس وہ سیدھا بیٹھا جب کہ وہ اوپر (آسمان) کے کناروں پر تھا۔”
(النجم : 5 تا 7)
میں ہے اور یہ فرشتہ حضرت جبریل علیہ السلام ہیں۔
اس کے بعد کی آیات: ﴿ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّىٰ﴾ میں اسی فرشتے کے نیچے زمین پر اترنے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہونے کا بیان ہے۔ اس کی مزید تائید اس سے ہوتی ہے کہ حضرت جبریل علیہ السلام کی تقریباً یہی صفات قرآن مجید کے دوسرے مقام پر بھی بیان ہوئی ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ ‎.‏ ذِي قُوَّةٍ عِندَ ذِي الْعَرْشِ مَكِينٍ ‎. مُّطَاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ. ‏ وَمَا صَاحِبُكُم بِمَجْنُونٍ ‎.‏ وَلَقَدْ رَآهُ بِالْأُفُقِ الْمُبِينِ﴾ (التكوير:19 تا 23)
"ان آیات میں بھی حضرت جبریل علیہ السلام کی قوت و طاقت کا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ان کو آسمانوں کے کناروں پر دیکھنے کا بیان ہے۔”
بنا بریں جن صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعین نے ﴿ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّىٰ﴾ آیات میں ضمیروں کا مرجع جبریل علیہ السلام کو قرار دیا ہے، یہی بات صحیح اور قرآن و حدیث کی دیگر تصریحات کے مطابق ہے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ قرآن کی تینوں آیات: ﴿ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّىٰ﴾ ﴿مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَىٰ﴾ اور ﴿لَقَدْ رَأَىٰ مِنْ آيَاتِ رَبِّهِ الْكُبْرَىٰ﴾ سے مراد یہی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبریل علیہ السلام کو ان کی اصلی صورت میں دیکھا، ان کے چھ سو پر تھے۔
صحیح مسلم، الإيمان، باب في قوله عليه السلام نور أنى أراه، وفي قوله رأيت نوراً، حدیث: 178
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ﴿وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَىٰ﴾ "تحقیق دیکھا اس کو دوسری مرتبہ (یا) ایک مرتبہ اور بھی اسے اترتے ہوئے دیکھا۔” (دونوں ترجمے صحیح ہیں) سے مراد ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل علیہ السلام کو دیکھا۔
صحيح مسلم، الإيمان، باب معنى قول الله عز و جل، ولقدراه نزلة اخرى و و و هل رأى النبىﷺ ربہ ليلة الإسراء، حديث : 174
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا ہے؟ آپ نے فرمایا:
نور أنىٰ أراه؟
"وہ تو نور ہے، اسے میں کس طرح دیکھ سکتا ہوں۔”
صحیح مسلم، باب مذکور حدیث : 175
ایک دوسری روایت میں ہے، عبداللہ بن شقیق رحمہ اللہ تابعی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے کہا: اگر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتا تو میں آپ سے ضرور پوچھتا۔ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تو کس چیز کی بابت پوچھتا؟ عبداللہ بن شقیق رحمہ اللہ نے کہا: میں آپ سے پوچھتا: کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا ہے؟ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ بات میں نے آپ سے پوچھی تھی تو آپ نے فرمایا تھا: رأيت نورا "میں نے ایک نور دیکھا ہے۔”
صحیح مسلم، باب مذکور
” نور دیکھا ہے“ کا مطلب ”اللہ کو نہ دیکھنا“ ہے کیونکہ نورانی شعاعیں ہی دراصل اللہ کے دیکھنے میں حائل ہیں۔ جیسے ایک حدیث میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إن الله عزوجل لا ينام ولا ينبغي له أن ينام، يخفض القسط ويرفعه، يرفع إليه عمل الليل قبل عمل النهار وعمل النهار قبل عمل الليل، حجابه النور، وفي رواية أبى بكر: النار، لو كشفه لأحرقت سبحات وجهه ما انتهىٰ إليه بصره من خلقه
"اللہ عزوجل سوتا ہے نہ سونا اس کے لائق ہے۔ وہ ترازو کو پست کرتا اور بلند کرتا ہے (یعنی اعمال کے مطابق رزق میں کمی بیشی کرتا ہے) اس کی طرف رات کے عمل، دن کے عمل سے پہلے اور دن کے عمل، رات کے عمل سے پہلے اٹھائے جاتے ہیں۔ اس کا حجاب نور ہے (ایک روایت میں ”آگ“ کا لفظ ہے) اگر وہ اس حجاب کو ہٹا دے تو اس کے چہرے کی تجلیات، جہاں تک اس کی نظر پہنچے، اس کی مخلوق کو جلا ڈالے۔”
صحیح مسلم، الإيمان، باب معنى قول الله علیہ السلام عز و ان اللہ لا ینام حدیث: 179
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت سب سے واضح ہے اور اس میں زیر بحث آیات نجم کی تفسیر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے۔ اس لحاظ سے یہ روایت فیصلہ کن ہے۔ حضرت مسروق رحمہ اللہ تابعی کہتے ہیں:
میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ٹیک لگائے بیٹھا تھا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ایک دوسری روایت میں ہے کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: کیا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے؟ تو انہوں نے کہا: سبحان اللہ! تیرے اس سوال پر تو میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے ہیں۔ پھر فرمایا:
اے ابو عائشہ! تین باتیں ہیں، ان میں سے کوئی کسی بھی بات کا دعویٰ کرتا ہے تو اس نے یقیناً اللہ پر بڑا بہتان باندھا۔ میں نے کہا: وہ باتیں کون سی ہیں؟ فرمایا: جو شخص یہ دعویٰ کرے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے تو اس نے یقیناً اللہ پر بڑا بہتان باندھا۔
مسروق رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں اٹھ کر بیٹھ گیا اور کہا: ام المومنین! ٹھہریں اور جلدی نہ کریں، کیا اللہ نے یہ نہیں فرمایا: ﴿وَلَقَدْ رَآهُ بِالْأُفُقِ الْمُبِينِ﴾ (التکویر : 23) "اور اس نے اسے آسمان کے کھلے کناروں پر دیکھا ہے۔” اور ﴿وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَىٰ﴾ ( النجم: 13) "اور اس نے اسے دوسری مرتبہ دیکھا۔”
تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: اس امت میں میں ہی وہ پہلی ہوں جس نے ان آیات کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، پس آپ نے فرمایا تھا: "ان آیات میں صرف جبریل علیہ السلام کا دیکھنا مراد ہے۔ میں نے انہیں ان دو مرتبہ دیکھنے کے علاوہ اس اصلی صورت میں کبھی نہیں دیکھا جس پر انہیں پیدا کیا گیا ہے۔ میں نے انہیں دیکھا کہ وہ آسمان سے اتر رہے ہیں، ان کے پیدائشی وجود کے حجم نے آسمان و زمین کے مابین تمام فضا کو بھر دیا ہے۔”
پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اے مسروق! کیا تو نے نہیں سنا کہ اللہ نے فرمایا ہے:
﴿لَّا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ۖ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ﴾ (الأنعام:103)
"نگاہیں اس کا ادراک نہیں کر سکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کر لیتا ہے اور وہ بھید جانے والا خبردار ہے۔”
علاوہ ازیں کیا تو نے نہیں سنا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ ۚ إِنَّهُ عَلِيٌّ حَكِيمٌ﴾ (الشورى:51)
"کسی انسان کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ اللہ سے براہ راست کلام کرے، مگر الہام (القائے قلبی) کے ذریعے سے یا پردے کے پیچھے سے یا کوئی فرشتہ (بطور قاصد کے) بھیج دے پس وہ اللہ کے حکم سے جو وہ (اللہ) چاہے، القاء (وحی) کرے۔ بیشک وہ نہایت بلند اور حکمت والا ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: جو شخص یہ خیال کرے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی کتاب میں سے کچھ چھپا لیا (یعنی اسے بیان نہیں فرمایا) تو اس نے بھی اللہ پر بڑا بہتان باندھا، اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے:
﴿يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ ۖ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ﴾ (المائدة:67)
"اے پیغمبر! جو آپ کی طرف آپ کے رب کی طرف سے اتارا گیا ہے، اسے (لوگوں تک) پہنچا دیجیے! اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو گویا آپ نے رسالت کا حق ادا نہیں کیا۔”
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: جو شخص یہ خیال کرے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئندہ آنے والے کل کے حالات کی خبر دیتے ہیں، تو اس نے بھی اللہ پر بڑا بہتان باندھا، حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿قُل لَّا يَعْلَمُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ ۚ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ﴾ (النمل:67)
"کہہ دیجیے! آسمان اور زمین کے غیب کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔”
صحیح مسلم، الإيمان، باب: 77، حدیث: 177، ص 90، مطبوعہ دار السلام، الریاض
مذکورہ تفصیل سے واضح ہو جاتا ہے کہ شب معراج میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ اللہ تعالیٰ کو دیکھا، نہ براہ راست اللہ سے ہم کلام ہوئے اور نہ اللہ کے اس طرح قریب ہوئے جو بعض لوگ (ثم دنا) کا مصداق اللہ کو قرار دے کر باور کراتے ہیں۔

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا موقف

بعض روایات میں صرف حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ لیکن دوسری طرف حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہ بھی مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کو دل سے دیکھا ہے، چنانچہ صحیح مسلم میں ہے، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ کے قول ﴿مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَىٰ﴾ اور ﴿وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَىٰ﴾ (النجم11،13) سے مراد ہے: رآه بفؤاده مرتين "آپ نے اللہ کو اپنے دل سے دو مرتبہ دیکھا۔”
صحیح مسلم، الإيمان، حدیث: 176
گویا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے آنکھوں سے دیکھنے کی اور دل سے دیکھنے کی، دونوں قسم کی روایات منقول ہیں۔ اس لیے حافظ ابن کثیر کہتے ہیں:
وفي رواية عنه: أنه أطلق الرؤية، وهى محمولة على المقيدة بالفؤاد، ومن روى عنه بالبصر فقد أغرب، فإنه لا يصح فى ذلك شيء عن الصحابة رضي الله عنهم
"حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مطلق رؤیت کی جو روایت مروی ہے، اسے اس روایت پر محمول کیا جائے گا جس میں دل کے ساتھ دیکھنے کی تخصیص ہے اور جس نے ان سے آنکھ سے دیکھنے کی روایت کی ہے، اس نے بڑی عجیب بات کی ہے، اس لیے کہ صحابہ سے اس کی بابت کوئی چیز صحیح ثابت نہیں۔”
تفسير ابن كثير: 7/423-424
محقق عصر شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
وبالجملة، فتفسير الآية من ابن عباس برؤية الله تبارك وتعالىٰ ثابت عنه، لكن الأخذ بالتفسير الذى ذكرنا عنه مرفوعا أولىٰ منه والأخذ واجب، دون الموقوف، لاسيما وقد اضطرب الرواة فى هذه الرؤية، فمنهم من أطلقها كما فى حديث الترجمة وغيره، ومنهم من قيدها بالفؤاد كما فى رواية مسلم المذكور، وهى أصح الروايات عنه، والله أعلم
"بہرحال حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے آیت نجم کی تفسیر رؤیت باری تعالیٰ کے ساتھ ان سے ثابت ہے، لیکن اس کے مقابلے میں اس آیت کی وہ تفسیر جو ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے (بہ روایت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا )مرفوع ذکر کی ہے، اس سے زیادہ بہتر ہے، اس لیے موقوف (قول صحابی) کے مقابلے میں مرفوع (قول رسول) کا لینا واجب ہے۔ خاص طور پر جب کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرنے والے راویوں نے اس رؤیت کے بارے میں اضطراب کا اظہار کیا ہے، بعض نے مطلقاً کہا ہے (کہ رب کو دیکھا) اور بعض نے اسے دل کے ساتھ مقید کیا ہے (کہ دل کے ساتھ دیکھا) جیسا کہ مسلم کی روایت میں ہے اور یہی ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول روایات میں سب سے زیادہ صحیح روایت ہے۔ واللہ اعلم۔”

یہی بات حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی لکھی ہے:
جاءت عن ابن عباس أخبار مطلقة وأخرىٰ مقيدة، فيجب حمل مطلقها علىٰ مقيدها
ظلال الجنة في تخريج السنة، ص: 203
"حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مطلق دیکھنے کی روایات بھی ہیں اور دل کے ساتھ دیکھنے کی خاص روایات بھی۔ اس لیے مطلق کو مقید (خاص روایات) پر محمول کرنا ضروری ہے۔”
فتح الباری، التفسير: 8/773
یعنی یہ کہا جائے گا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا مطلب دل سے دیکھنا ہے نہ کہ آنکھوں سے دیکھنا۔ حافظ ابن حجر مزید لکھتے ہیں:
وعلىٰ هذا فيمكن الجمع بين إثبات ابن عباس ونفي عائشة بأن يحمل نفيها علىٰ رؤية البصر، وإثباته علىٰ رؤية القلب
"حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے دل کے ساتھ دیکھنے کی جو روایت ہے اس سے ان دونوں موقفوں کے درمیان جمع و تطبیق ممکن ہے یعنی ابن عباس رضی اللہ عنہما کے موقف اثباتِ رؤیت اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے موقف نفی رؤیت کے درمیان۔ بایں طور کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی نفی کو رؤیت بصر پر اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے اثبات کو رؤیت قلب پر محمول کیا جائے۔”
فتح الباری، التفسير: 8/774
اس جمع و تطبیق سے تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کا موقف ایک ہو جاتا ہے اور ان کے مابین اختلاف نہیں رہتا۔ سب اس بات پر متفق ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آنکھوں سے اللہ کو نہیں دیکھا۔ باقی رہ جاتی ہے یہ بات کہ دل کے ساتھ دیکھنے کا مطلب کیا ہے؟ تو اس کی حقیقت کو ہم نہ جان سکتے ہیں نہ بیان ہی کر سکتے ہیں۔ اس کا مفہوم اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔

شریک بن عبداللہ کی روایت اور اس کا وہم و تفرد

اب رہ جاتی ہے بات شریک بن عبداللہ کی روایت کی جو صحیح بخاری کی کتاب التوحید میں ہے۔ اس میں وہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کرتا ہے۔ اس میں وہ کہتا ہے کہ ساتویں آسمان کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس سے اوپر بلند ہوئے جس کو اللہ ہی جانتا ہے یہاں تک کہ سدرۃ المنتہیٰ کے پاس آگئے اور جبار رب العزت قریب ہوا اور اترا (یا جھک آیا) یہاں تک کہ وہ آپ کے دو کمانوں کے بقدر یا اس سے بھی کم قریب ہو گیا۔ پس اللہ نے جو وحی کی اس میں آپ کی امت پر پچاس نمازیں فرض کیں۔
صحيح البخاري، التوحيد، باب ماجاء في قوله عزوجل: ﴿كَلَّمَ اللَّهُ مُوسَىٰ تَكْلِيمًا﴾ حدیث: 7515
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"معراج کی حدیث صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت نے روایت کی ہے لیکن صحیحین (بخاری و مسلم) میں اس کے سارے طرق حضرت انس رضی اللہ عنہ کے گرد ہی گھومتے ہیں یعنی ان کے واسطے ہی سے مروی ہیں اگرچہ ان سے روایت کرنے والے راویوں کے بیانات میں اختلاف ہے۔ ایک راوی جو بیان کرتا ہے، وہ دوسرے راوی کی روایت میں نہیں ہے۔
فتح الباری، ج: 1 ص 596
پس شریک کی یہ روایت ایسی ہے جو حضرت انس رضی اللہ عنہ سے بیان کرنے والے دیگر تمام راویوں سے بہت مختلف ہے اور اس میں اس کے ایسے تفردات ہیں جو کسی روایت میں نہیں ہیں۔ اسی لیے محدثین نے اس کے ان تفردات کو اس کا وہم قرار دیا ہے۔” حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کے ایسے دس سے بھی زیادہ اوہام بیان کیے ہیں۔
فتح الباری، باب مذکور، ج: 13، ص: 593-594
مذکورہ اقتباس میں بھی اس شریک نے ﴿ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّىٰ ‏ فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَىٰ.﴾ کی ضمیروں کا مرجع جو اللہ کو قرار دیا ہے، اس میں بھی وہ اکیلا ہے اور اسے وہم ہوا ہے کیونکہ یہ بات حضرت انس رضی اللہ عنہ سے بیان کرنے والے کسی اور راوی نے بیان نہیں کی۔ چنانچہ امام مسلم رحمہ اللہ معراج کی وہ حدیث بیان کر کے جو ثابت البنانی عن انس کے طریق سے مروی ہے، شریک بن عبداللہ عن انس کی حدیث کا حوالہ دے کر اس کی طرف اشارہ کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں:
وساق الحديث بقصته نحو حديث ثابت البناني، وقدم فيه شيئا وأخر وزاد ونقص
"شریک نے معراج کا قصہ اسی طرح بیان کیا ہے جیسے ثابت بنانی نے بیان کیا ہے، لیکن شریک نے کچھ چیزیں آگے پیچھے کر دیں علاوہ ازیں اس نے کمی بیشی کا بھی ارتکاب کیا ہے۔”
صحيح مسلم، الإيمان، حدیث: 162
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ شریک کے بارے میں امام مسلم رحمہ اللہ کا قول نقل کر کے لکھتے ہیں:
"اور وہ ایسا ہی ہے جیسا امام مسلم نے کہا ہے۔ اس لیے کہ شریک بن عبداللہ بن ابی نمر نے اس حدیث کے بیان کرنے میں اضطراب کا اظہار کیا ہے اور اس کا حافظہ خراب ہو گیا، اور وہ اسے صحیح طریقے سے یاد نہیں رکھ سکا جیسا کہ اس کی تفصیل دوسری احادیث بیان کرتے وقت آئے گی۔ اور بعض نے اسے معراج کی تمہید کے طور پر خواب قرار دیا ہے۔ اور حافظ ابو بکر رحمہ اللہ یعنی امام بیہقی نے حدیث شریک کے بارے میں کہا ہے: یہ ایسا اضافہ ہے جس میں وہ متفرد (تنہا) ہے۔ اس نے یہ بات ان لوگوں کے مذہب کے مطابق کہی ہے جو کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے، یعنی راوی شریک بن عبداللہ کا یہ قول: "پھر جبار عزت والا قریب ہوا اور اتر آیا، پس وہ اتنا قریب ہو گیا جیسے دو کمانوں کے بقدر یا اس سے بھی کم کا فاصلہ۔
امام بیہقی رحمہ اللہ مزید لکھتے ہیں:
"اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا، ابن مسعود رضی اللہ عنہ اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا قول کہ انہوں نے ان آیات کو رؤیت جبریل علیہ السلام پر محمول کیا ہے، یہی زیادہ صحیح ہے۔”
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
امام بیہقی نے اس مسئلے میں جو کہا ہے وہ حق ہے، اس لیے کہ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا کہ کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: "وہ تو نور ہے میں اسے کیونکر دیکھ سکتا تھا۔” ایک روایت میں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں نے نور دیکھا ہے۔ (اللہ کو نہیں۔)”
صحیح مسلم الایمان حدیث :178
اور سورۃ نجم میں اللہ تعالیٰ کے قول: ﴿ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّىٰ﴾ سے مراد صرف جبریل علیہ السلام ہیں جیسا کہ صحیحین میں ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا، ابن مسعود رضی اللہ عنہ اور اس طرح صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے اور اس آیت کی تفسیر جبریل علیہ السلام کے ساتھ کرنے میں صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے کوئی بھی ان مذکورہ صحابہ رضی اللہ عنہم کا مخالف نہیں ہے۔
تفسير ابن كثير، سورة بني إسرائيل، ج 5، ص: 6، مكتبة الشعب، قاهرة
اور سورۃ نجم کی تفسیر میں حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں:
"اور یہ جو ہم نے کہا ہے کہ مقترب، دانی (قریب ہونے والا) جو اپنے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان ہو گیا، یہ جبریل علیہ السلام ہیں۔ یہی قول ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا، ابن مسعود رضی اللہ عنہ، ابوذر رضی اللہ عنہ اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا ہے، اور امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت نقل کی ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو اپنے دل کے ساتھ دو مرتبہ دیکھا ہے۔ پس انہوں نے ان میں سے ایک رؤیت کو اس آیت کا مصداق بنا دیا ہے، اور شریک بن عبداللہ بن ابی نمر کی حدیث اسراء میں جو حضرت انس رضی اللہ عنہ کے واسطے سے ہے، آیا ہے ثم دنا الجبار رب العزة فتدلىٰ یعنی اس آیت نجم میں ضمیروں کا فاعل اللہ کو قرار دے کر کہا ہے: "پھر جبار رب العزت قریب ہوا اور اتر آیا۔ (یہ صحیح نہیں ہے)۔” اسی لیے اکثر لوگوں نے اس روایت کے متن میں کلام کیا ہے اور ان چیزوں کا ذکر کیا ہے جن میں غرابت ہے۔ پس اگر یہ روایت صحیح ہے تو یہ کسی اور وقت اور کسی اور قصے پر محمول کی جائے گی نہ کہ اسے اس آیت کی تفسیر تسلیم کیا جائے۔ اس لیے کہ آیت کے سیاق سے واضح ہے کہ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زمین پر تھے نہ کہ شب معراج میں آسمانوں پر۔ اسی لیے اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَىٰ. عِندَ سِدْرَةِ الْمُنتَهَىٰ.﴾ "اسے ایک مرتبہ اور دیکھا سدرۃ المنتہیٰ کے پاس۔” پس یہ شب معراج کا واقعہ ہے اور اس سے پہلے جبریل کے دیکھنے کا واقعہ زمین کا ہے۔
تفسير ابن كثير، سورة النجم، ج: 7، ص: 422
امام نووی قاضی عیاض رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھتے ہیں:
شریک کی اس حدیث معراج کی روایت میں بہت سے اوہام ہیں جن پر علماء نے گرفت کی ہے اور امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی یہ کہہ کر کہ اس نے تقدیم و تاخیر کا اور کمی بیشی کا ارتکاب کیا ہے، اس پر تنبیہ کی ہے۔ (پھر اس کے بعد اس کے بعض اوہام کی مثالیں دے کر ان کی وضاحت کی ہے۔ اس کے بعد امام نووی رحمہ اللہ نے کہا ہے:) قاضی عیاض نے شریک کی اس روایت کے بارے میں جو کہا ہے، نیز یہ کہ اہل علم نے ان پر گرفت کی ہے۔ یہ بات قاضی کے علاوہ اور لوگوں نے بھی کی ہے۔ حافظ عبد الحق رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "الجمع بين الصحيحين” میں اس حدیث کو انھی الفاظ میں (جس طرح وہ بخاری کی کتاب التوحید میں مفصل موجود ہے) شریک کی روایت سے نقل کر کے لکھا ہے کہ اس نے اس روایت میں ایسے اضافے کیے ہیں جو مجہول ہیں اور ایسے الفاظ بیان کیے ہیں جو غیر معروف ہیں، حالانکہ حدیث معراج کو حفاظ متقنین اور ائمہ مشہورین کی ایک جماعت نے روایت کیا ہے۔ جیسے ابن شہاب (زہری)، ثابت البنانی اور قتادہ رحمہ اللہ علیہم ہیں۔ یہ سب حضرات حضرت انس رضی اللہ عنہ ہی کے واسطے سے بیان کرتے ہیں لیکن ان میں سے کسی نے بھی وہ بات بیان نہیں کی جو شریک نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کے حوالے سے کی ہے اور شریک محدثین کے نزدیک حافظ نہیں ہے۔ اس لیے دیگر راویوں کی جو احادیث اس سے قبل بیان ہوئی ہیں، وہی قابل اعتماد ہیں۔
شرح نووی، ج: 2، ص: 209-210
شیخ ناصر الدین البانی شریک کے اوہام و تفردات ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
قلت: ولذٰلك فإن القلب لا يطمئن للإستفادة من حديثه إلا فيما توبع عليه وهو قليل جدا، وقد حسن الحافظ بعضها، والله أعلم
"میں کہتا ہوں: اسی لیے اس کی حدیث سے استفادہ کرنے پر دل مطمئن نہیں ہوتا، سوائے ان باتوں کے جن کو دوسرے راوی بھی بیان کرتے ہیں اور وہ بہت کم ہیں اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ان میں سے بعض کو حسن کہا ہے۔رسالة الإسراء والمعراج، المكتبة الإسلامية عمان ، اردن واللہ اعلم۔”
ان کے علاوہ امام خطابی، امام ابو محمد ابن حزم اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ وغیرہ نے بھی شریک کے تفردات و اوہام کو بیان کیا ہے جس کی تفصیل فتح الباری، جلد: 13، کتاب التوحید میں دیکھی جا سکتی ہے۔ اگرچہ بعض علماء نے ان تفردات و اوہام کی ایسی توجیہات بھی کی ہیں جن سے شریک کی روایت دوسرے راویوں کی بیان کردہ تفصیلات کے قریب ہو جاتی ہے لیکن یہ توجیہات تکلفات سے خالی نہیں۔ بنابریں شریک کی روایت کے صرف وہ حصے صحیح ہیں جو دوسرے راویوں کی روایات کے مطابق ہیں اور اس کے اوہام و تفردات ناقابل قبول ہیں۔ اس اعتبار سے اس کی روایت بھی ناقابل قبول قرار نہیں پاتی کیونکہ وہ بخاری کا راوی ہے اور اس کی روایت بھی صحیح بخاری میں ہے اور محدثین نے بعض تاریخی اوہام کو صحت سند میں قادح نہیں مانا ہے۔ صرف اوہام کو صحیح تسلیم نہیں کیا جاتا۔ شریک کو بہ حیثیت مجموعی محدثین نے ثقات ہی میں شمار کیا ہے اور ثقہ راوی کی پوری حدیث کو اس کے وہم کی وجہ سے ساقط قرار نہیں دیا جاتا۔ چنانچہ ابن طاہر لکھتے ہیں:
وعلىٰ تقدير تسليم تفرده لا يقتضي طرح حديثه فوهم الثقة فى موضع من الحديث لا يسقط جميع الحديث، ولا سيما إذا كان الوهم لا يستلزم ارتكاب محذور، ولو ترك حديث من وهم فى تاريخ لترك حديث جماعة من أئمة المسلمين
"شریک کے تفردات کو تسلیم کر لینا بھی اس بات کا تقاضا نہیں کرتا کہ اس کی حدیث کو چھوڑ دیا جائے، اس لیے کہ ثقہ راوی کا حدیث کے کسی مقام پر وہم کرنا، اس کی تمام حدیث کو ساقط نہیں کرتا۔ خاص طور پر جب کہ اس کا وہم ایسا ہو جس سے کسی محذور کا ارتکاب لازم نہیں آتا۔ اگر تاریخی اوہام کی وجہ سے حدیث کو چھوڑ دیا جائے گا تو ائمہ مسلمین کی ایک جماعت کی حدیثوں کو چھوڑنا پڑے گا۔”
فتح الباری، التوحيد: 13/593
شیخ البانی رحمہ اللہ اس نکتے کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
حتىٰ صار عرفا عاما أن الحديث إذا أخرجه الشيخان أو أحدهما فقد جاوز القنطرة ودخل فى طريق الصحة والسلامة، ولا ريب فى ذٰلك، وإنه هو الأصل عندنا، وليس معنىٰ ذٰلك أن كل حرف أو لفظة أو كلمة فى "الصحيحين” هو بمنزلة ما فى القرآن لا يمكن أن يكون فيه وهم أو خطأ فى شيء من ذٰلك من بعض الرواة، كلا فلسنا نعتقد العصمة لكتاب بعد كتاب الله أصلا
"یہ عرف عام بن چکا ہے کہ حدیث کو جب امام بخاری و مسلم نے یا ان میں سے کسی ایک نے روایت کر دیا تو اس حدیث نے پل پار کر لیا اور وہ صحت و سلامتی کے راستے میں داخل ہو گئی۔ اور اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں اور ہمارے نزدیک یہی اصل ہے لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ ہر وہ حرف یا لفظ یا کوئی کلمہ جو صحیحین میں ہے وہ بہ مرتبہ قرآن ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ بعض راویوں کی وجہ سے اس میں سے کسی میں وہم یا غلطی ہو، ہرگز نہیں، ہم کتاب اللہ کے بعد کسی بھی کتاب کی عصمت کا قطعاً اعتقاد نہیں رکھتے۔”
مقدمه شرح عقيدة الطحاوية، ص: 15، مطبوعہ مكتبة زهير الشاويش
بہرحال اس تفصیل سے واضح ہے کہ شب معراج میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ اللہ کا دیدار کیا، نہ براہ راست گفتگو کی اور نہ آپ کا دنو و تدلي کا وہ تعلق اللہ کے ساتھ ہوا جس کا اظہار سورہ نجم کی آیت کی تفسیر میں بعض لوگوں نے کیا ہے۔

امام ابن القیم رحمہ اللہ کا موقف اور اس کی تردید

امام ابن القیم نے (زاد المعاد، ج 3 ص: 38، طبع جدید) میں یہ تو تسلیم کیا ہے کہ سورۃ النجم میں جو دو مرتبہ دنو و تدلي کا ذکر ہے اس سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت جبریل علیہ السلام ہیں۔ لیکن انہوں نے لکھا ہے کہ معراج کے موقع پر اس کے علاوہ اللہ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان بھی قرب ہوا ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ آپ کے اتنا قریب اور نیچے اتر آیا کہ دو کمانوں کے بقدر یا اس سے بھی کم کا فاصلہ رہ گیا۔
امام ابن القیم رحمہ اللہ کے اس موقف کو انہی کے حوالے سے صاحب شرح عقیدۃ الطحاویہ نے بھی نقل کیا ہے اور "الرحيق المختوم” کے فاضل مصنف مولانا صفی الرحمن مبارکپوری نے بھی اسی موقف کو اختیار کیا ہے۔
لیکن اس موقف کی بنیاد جیسا کہ اس سے پہلے وضاحت گزر چکی ہے، شریک بن عبداللہ کی روایت کے وہ الفاظ ہیں جس میں اس نے کہا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سدرۃ المنتہیٰ پر آنے کے بعد جبار رب العزت قریب ہوا اور نیچے اتر آیا یہاں تک کہ وہ آپ کے اتنا قریب ہو گیا جتنا دو کمانوں کا فاصلہ ہوتا ہے یا اس سے بھی قریب تر۔
لیکن حفاظ حدیث اور شارحین حدیث نے وضاحت کی ہے کہ یہ شریک راوی کا وہم اور اس کا تفرد ہے۔ اس بنا پر شریک کی روایت کا یہ حصہ ناقابل قبول ہے، چنانچہ شرح عقیدة الطحاویہ کے حاشیے میں شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
إن الدنو المذكور فى هذا السياق هو من رواية شريك بن عبد الله بن أبى نمر الذى غلطه الحافظ فى ألفاظ من حديث الإسراء كما ذكر المؤلف آنفا، ومن ذٰلك هٰذا اللفظ كما بينه الحافظ ابن كثير فى تفسير الإسراء ومن قبله البيهقي فى "الأسماء والصفات ص: 440-442
"اس سیاق میں جس دنو (قربت الہی) کا ذکر ہے، یہ شریک بن عبداللہ بن ابی نمر کی روایت سے ہے جس کی حفاظ حدیث نے معراج کی حدیث میں تغلیط کی ہے۔ انہی غلطیوں میں یہ الفاظ بھی ہیں جیسا کہ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے سورۃ الإسراء کی تفسیر میں اور ان سے پہلے امام بیہقی نے ”الأسماء والصفات“ کتاب میں بیان کیا ہے۔”
شرح عقيدة الطحاوية، ص: 248، مكتبة زهير الشاويش
اسی طرح "زاد المعاد” کے محقق اور مخرج لکھتے ہیں:
هٰذه الجملة من الزيادات التى أخرجها البخاري فى صحيحه من طريق شريك بن عبد الله بن أبى نمر وهى من أوهامه التى تفرد بها، فكان علىٰ المؤلف رحمه الله أن ينبه علىٰ ذٰلك
"یہ جملہ ان اضافہ جات سے ہے جسے امام بخاری نے اپنی ”صحیح “ میں شریک بن عبداللہ کی روایت سے بیان کیا ہے اور یہ اس کے ان اوہام میں سے ہے جن کے بیان کرنے میں وہ اکیلا ہے، پس مؤلف (امام ابن القیم رحمہ اللہ ) کی ذمہ داری تھی کہ اس پر تنبیہ کرتے (نہ کہ اسے صحیح سمجھ کر اسے بیان کرتے)۔”
زاد المعاد: 3/35

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے