مسواک سے متعلق 2 فضلیتیں صحیح احادیث کی روشنی میں
ماخوذ : فتاویٰ الدین الخالص ج1ص400

دائیں ہاتھ سے مسواک کرنے کا حکم

سوال

دائیں ہاتھ سے مسواک کرنا افضل ہے؟
آدمی مسواک دائیں ہاتھ سے کرے یا بائیں ہاتھ سے، اس بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟

جواب 

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شیخ الاسلام ابن تیمیہ ﷫ کا موقف

شیخ الاسلام ابن تیمیہ ﷫ نے "الفتاویٰ” (21/108) میں اس مسئلے پر تفصیلی رائے دی۔ ان سے سوال کیا گیا:
"کیا مسواک کرنا دائیں ہاتھ سے افضل ہے یا بائیں سے؟ اور اگر کوئی بائیں ہاتھ سے کرے تو کیا اس پر انکار کیا جا سکتا ہے؟”

جواب:
الحمد لله رب العالمين
افضل یہ ہے کہ بائیں ہاتھ سے مسواک کی جائے۔

امام احمد ﷫ نے اس کی وضاحت کی ہے۔
کسی بھی امام کی طرف سے اس پر مخالفت منقول نہیں۔

وجہ یہ ہے کہ مسواک کا تعلق "اماطۃ الأذى” (اذیت کو دور کرنا) سے ہے،
جیسے ناک صاف کرنا، استنجاء وغیرہ۔

افعال کی دو اقسام:

مشترکہ افعال (جہاں دونوں ہاتھوں کا استعمال ممکن ہو):

دائیں کو مقدم رکھا جائے گا کرامت (عزت) کی بنا پر۔

◈ وضوء اور غسل
◈ مسواک
◈ بغلوں کے بال اکھیڑنا
◈ لباس، جوتے پہننا
◈ مسجد و گھر میں داخل ہونا
◈ بیت الخلاء سے نکلنا

اختصاصی افعال (جو کسی ایک ہاتھ سے مخصوص ہوں):

اگر کرامت والے کام ہوں: دائیں ہاتھ سے ہوں گے
◈ کھانا پینا
◈ مصافحہ
◈ کتاب پکڑنا

اگر اذیت دور کرنے کے کام ہوں: بائیں ہاتھ سے ہوں گے
◈ استنجاء
◈ ذکر کو چھونا
◈ ناک صاف کرنا
◈ ڈھیلے استعمال کرنا

شیخ ابن عثیمین ﷫ کی رائے

ان سے بھی پوچھا گیا:
"مسواک دائیں ہاتھ سے کی جائے یا بائیں ہاتھ سے؟”

جواب:
یہ محل اختلاف ہے:

❀ کچھ علماء کہتے ہیں:
دائیں ہاتھ سے کرنا چاہئے، کیونکہ یہ سنت ہے اور عبادت کا ذریعہ۔
بایاں ہاتھ اذیت والی چیزوں کے لئے ہے، اس لیے مناسب نہیں۔

❀ دیگر علماء کہتے ہیں:
بائیں ہاتھ سے کرنا افضل ہے، کیونکہ یہ اذیت دور کرنے کا عمل ہے۔
جیسے استنجاء یا ناک صاف کرنا۔

❀ کچھ علماء نے تفریق کی:
اگر منہ کی صفائی کے لیے ہے (مثلاً نیند سے بیدار ہونے پر)،
تو بائیں ہاتھ سے کریں۔
اگر عبادت و تقرب کے لیے ہے (مثلاً وضوء کے بعد)،
تو دائیں ہاتھ سے کریں۔

خلاصہ:
الحمد لله، اس مسئلے میں وسعت ہے۔
کوئی واضح نص موجود نہیں، جس طرح چاہے مسواک کرے۔

احادیث کی روشنی میں

حدیث عائشہ ﷜
سنن ابوداود (2/217، حدیث 414، کتاب اللباس، باب الانتعال) میں روایت ہے:
"رسول اللہ ﷺ طہارت، کنگھی اور جوتا پہننے سمیت تمام کاموں میں دائیں طرف کو پسند فرماتے تھے”
صحیح سند کے ساتھ روایت ہے۔

مسلم نے "فی شانہ کلہ” کا ذکر نہیں کیا، لیکن مسواک کا ذکر موجود ہے۔
بخاری و ابن ماجہ (1/69، حدیث 401) میں بھی یہ روایت موجود ہے۔

ائمہ و شراح کی وضاحتیں

عظیم آبادی  (عون المعبود 4/118)

امام نووی ﷫ کی نقل کردہ بات:

شریعت کا مستمر قاعدہ ہے:
اگر عمل کرامت والا ہو (جیسے کپڑے پہننا، مسجد میں داخل ہونا، مسواک، کنگھی، وغیرہ)،
تو دائیں طرف سے شروع کرنا مستحب ہے۔
اگر عمل اذیت دور کرنے والا ہو (جیسے بیت الخلاء میں داخل ہونا، ناک صاف کرنا)،
تو بائیں طرف مستحب ہے۔

اس کی وجہ دائیں طرف کی شرافت و کرامت ہے۔
النووی، شرح مسلم (1/132)

حافظ ابن حجر  (فتح الباری 1/216)

ابوداود کی روایت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے:
شعبہ کی روایت میں لفظ "وسواکہ” زیادہ بیان ہوا ہے۔

ردالمحتار (1/28)

"دائیں ہاتھ سے پکڑنا مستحب ہے”
یہی بات البحر، النهر، الدر میں بھی ذکر ہے۔

تاہم علامہ نوح آفندی فرماتے ہیں:
"دعویٰ نقل کے لیے دلیل ضروری ہے جو موجود نہیں۔
زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے:
اگر تطہیر سے متعلق ہے تو دائیں ہاتھ
اگر اذیت دور کرنا ہو تو بائیں ہاتھ”۔

امام مالک ﷫ کی رائے

ان سے منقول ہے کہ بائیں ہاتھ افضل ہے۔

حدیث کی تاویل پر تبصرہ

بعض طرق میں آیا ہے کہ
"نبی ﷺ کنگھی کرنے، جوتا پہننے، طہارت اور مسواک میں دائیں طرف کو پسند کرتے تھے”۔
تاہم
"منہ کے دائیں جانب سے شروع کرنا مراد ہے”
کہنا مطلق کو مقید کرنے کے مترادف ہے،
جبکہ حدیث میں قید موجود نہیں۔

نتیجہ و راجح قول

میری رائے میں دائیں ہاتھ سے مسواک کرنا افضل ہے
کیونکہ یہ صحیح حدیث سے ثابت ہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1