مسواک ایک پیاری سنت
تحریر: ابوعبداللہ صارم

اللہ تعالیٰ نے انسان کے منہ میں ایک خاص ضرورت اور مصلحت و حکمت کے تحت دانتوں کی فصل اگائی ہے۔ جب بچہ چھوٹا ہوتا ہے تو اس کو ایسی غذا دی جاتی ہے جسے چبانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اس وقت دانت بھی نہیں اگتے۔ جب ایسی غذا کی ضرورت ہوتی ہے جو چبائی جاتی ہے تو دانت بھی اگ آتے ہیں۔ اگر دانت پیدائشی طور پر اگے ہوئے ہوتے تو مائیں اپنے بچوں کو دودھ ہی نہ پلاتیں، کیونکہ وہ بےخبری میں ماؤں کی چھاتیوں کو کاٹ ڈالتے۔ یہ ماں کے لیے باعث مضرت بات تھی۔ اس لیے ایک خاص وقت کے بعد دانت اگتے ہیں۔ آپ اللہ تعالیٰ کی صنعت دیکھیں کہ کس طرح انسان کے منہ میں موتیوں کو لڑی میں پرو دیا جو انسانی حسن کو دوبالا کر دیتے ہیں۔ منہ میں دانتوں جیسی نعمت نہ ہو تو انسان کی کلام بھدی ہو جاتی ہے۔ جب تک بچے کے دانت نہ اگیں وہ صاف باتیں نہیں کر سکتا۔

اللہ تعالیٰ کی اس انمول نعمت کی قدر و قیمت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ دانت خوراک کو نہ چبائیں تو معدہ اسے ہضم نہیں کر سکتا۔ اگر معدہ خوراک کو ہضم نہ کرے تو ایک وقت کے بعد وہ بگڑ جاتا ہے۔ جب معدہ بگڑ جائے تو صحت خراب ہو جاتی ہے۔ کتنی غذائیں ایسی بھی ہیں کہ جب تک انہیں اچھی طرح چبایا نہ جائے، انسان ان کی لذت سے محروم رہتا ہے۔ داناؤں کا مقولہ ہے کہ ’’ آنکھ گئی تو جہان گیا اور دانت گئے تو سواد گیا۔“

ایک خاص وقت کے بعد ایک دفعہ بچے کے دانت گر جاتے ہیں اور ان کی جگہ نئے دانت لے لیتے ہیں۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی صنعت کی حکمت ہے۔ سامنے والے دو اوپر اور دو نیچے کے دانتوں کی ساخت دیکھیں۔ وہ تیز دھاری دار ہوتے ہیں جو کاٹنے کا کام دیتے ہیں، لیکن ڈاڑھیں چوڑی ہوتی ہیں۔ ان کی سطح رف ہوتی ہے جو پیسنے کا کام دیتی ہیں۔ اوپر نیچے جبڑوں میں ڈاڑھیں گویا چکی کے دو پاٹ ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہیے کہ دانت ہتھیار، آرے، چھری اور چکی کا کام دیتے ہیں اور باعث زینت بھی ہیں۔ ان کے علاوہ بھی ان میں بے شمار منافع اور مصالح موجود ہیں۔ دانت انسانی وجود میں وہ ہڈی ہے جس پر گوشت نہیں۔ اگر اس پر گوشت ہوتا تو مطلوبہ ضرورت پوری نہ ہو پاتی۔

شریعت اسلامیہ نے ان کی صفائی ستھرائی اور نظافت کے لیے مسواک استعمال کرنے کی تلقین و تاکید کی ہے۔ یہ کہہ سکتے ہیں کہ دانت وہ واحد عضو ہے جس کی صفائی لکڑی سے کی جاتی ہے۔ دانتوں کی صفائی فطرتی تقاضا ہے۔ میلے کچیلے اور بدنما دانت انسان کو معیوب بنا دیتے ہیں۔ اگر ان کی صفائی کا خیال نہ رکھا جائے تو ان کو کیڑا لگ جاتا ہے۔ پھر داندان سازوں کے پاس جانا مجبوری بن جاتا ہے۔ دانتوں کی صفائی ایمان کا جزو ہے۔ اس میں رب تعالیٰ کی رضا ہے، سنت رسول کا اتباع ہے، اللہ تعالیٰ کی بے مثال نعمت کی شکرگزاری ہے۔

ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کثرت سے مسواک کیا کرتے تھے اور امت کو بھی تلقین کی ہے، لہٰذا جب مسواک کریں، اس مقصد و ارادے سے کریں کہ یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کا باعث ہے۔ یوں ہم اپنے دامن میں دنیا و آخرت کی سعادتیں سمیٹ لیں گے اور دانتوں کی حفاظت اور خوشمنائی بھی حاصل ہو جائے گی۔ اب آپ بتائیں کہ مسواک والی سنت کو باقاعدگی سے کب اپنا رہے ہیں ؟

مسواک کے متعلق ایمان افروز احادیث ملاحظہ ہوں :
➊ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اكثرت عليكم في السواك
’’ میں نے تم کو مسواک کے بارے میں بہت زیادہ تلقین کی ہے۔“ [صحیح بخاری : 888]

➋ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لولا أن أشق على أمتي، أو على الناس، لأمرتهم بالسواك مع كل صلاۃ
’’ اگر میں اپنی امت کے لوگوں پر مشقت نہ سمجھتا تو انہیں ہر نماز کے ساتھ مسواک کا حکم دیتا۔“ [صحيح البخاري: 887، صحيح مسلم :252]

➌ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان گرامی نقل کیا ہے :
السواك مطهرة للفم، مرضاة للرب
’’ مسواک منہ کے لیے صفائی کا موجب اور اللہ تعالیٰ کی رضا کا باعث ہے۔“ [سنن النسائي: 5، صحيح ابن خزيمة: 135، و سندهٔ صحيح]

➍ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہی سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
عشر من الفطرة: قص الشارب، وإعفاء اللحية، والسواك . . . .
’’ دس باتیں فطرت سے ہیں۔ مونچھوں کو پست کرنا، داڑھی کو بڑھانا اور مسواک کرنا . . . . . .“ [صحيح مسلم : 261]

➎ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
الغسل يؤم الجمعة واجب على محتلم، وأن يستن، وأن يمس طيبا إن وجد
’’ جمعہ کے دن ہر بالغ کو غسل کرنا چاہیے، نیز اگر میسر ہو تو مسواک بھی کرنا چاہیے اور خوشبو بھی لگانا چاہیے۔“ [صحيح البخاري : 880، صحيح مسلم : 836 مختصرا]

➏ ابوعبدالرحمٰن سلمی تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
أمر على بالسواك، وقال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن العبد إذا تسوك ثم قام يصلي، قام الملك خلفه يستمع القرآن، فلا يزال عجبه بالقرآن يدنيه منه، حتى يضع فاه على فيه، فما يخرج من فيه شيء من القرآن إلا صار فى جوف الملك، فطهروا أفواهكم
’’ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے مسواک کا حکم دیتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان گرامی بیان کیا کہ جب کوئی بندہ مسواک کر کے نماز پڑھنے کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو ایک فرشتہ اس کے پیچھے قرآن سننے کے لیے کھڑا ہو جاتا ہے۔ قرآن پاک کی محبت اس فرشتے کو مسلسل نمازی کے قریب لاتی رہتی ہے، حتی کہ وہ اپنا منہ اس کے منہ پر رکھ دیتا ہے۔ پھر نمازی کے منہ سے قرآن کریم کا جو بھی لفظ نکلتا ہے، وہ فرشتے کے پیٹ میں چلا جاتا ہے۔ لہٰذا تم اپنے منہ صاف رکھا کرو۔“ [كتاب الزهد للامام عبدالله بن المبارك :435/1، ح : 1225، و سندهٔ حسن]

? اس کا راوی فضیل بن سلیمان نمیری جمہور محدثین کے نزدیک ’’ حسن الحدیث“ ہے۔
حافظ عراقی [طرح التثريب : 66/2] اور علامہ البانی رحمها اللہ [الضعيفة : 2544] کا اسے جمہور کے نزدیک ’’ ضعیف“ قرار دینا مرجوح ہے۔

➐ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا قام يتهجد، يشوص فاه بالسواك.
’’ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب تہجد کے لیے بیدار ہوتے تو مسواک سے اپنا منہ مبارک صاف فرماتے۔“ [صحيح البخاري : 245، صحيح مسلم : 255]

➑ سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے :
دخلت على النبى صلى الله عليه وسلم وطرف السواك على لسانه.
’’ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو مسواک کی نوک آپ کی زبان مبارک پر تھی۔“ [صحيح البخاري : 6923، صحيح مسلم : 254]

❀ صحیح بخاری کی ایک روایت [244] میں ہے :
فوجدته يستن بسواك بيده، يقول: أع، أع، والسواك فى فيه، كأنه يتهؤع.
’’ میں نے آپ کو دیکھا کہ مسواک آپ کے دست مبارک میں ہے اور منہ میں (اس طرح ) مسواک فرما رہے ہیں کہ ”اع اع“ کی آواز نکلتی ہے، جیسے (کوئی ) قے کرتا ہے۔“

➒ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :
كنا نعد لهٔ سواكه وطهوره، فيبعثه الله ما شاء أن يبعثه من الليل، فيتسوك، ويتوضأ، ويصلي . . . . .
’’ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے وضو کا پانی اور مسواک تیار کر کے رکھتے، پھر رات کو جب اللہ تعالیٰ چاہتا آپ کو بیدار کرتا۔ آپ مسواک کرتے، وضو کرتے اور نماز (تہجد) ادا فرماتے . . . . “ [صحيح مسلم : 746]

➓ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
أراني فى المنام أتسوك بسواك، فجذبني رجلان، أحدهما أكبر من الآخر، فناولت السواك الأصغر منهما، فقيل لي : كبر، فدفعته إلى الاكبر
’’ میں نے خواب میں دیکھا کہ مسواک کر رہا ہوں، پھر مجھے دو آدمیوں نے کھینچا، ان میں سے ایک بڑا تھا اور دوسرا چھوٹا۔ میں نے مسواک چھوٹے کو دی تو مجھے کہا گیا : بڑے کو مسواک دیجیے، میں نے بڑے کو دے دی۔“ [صحيح مسلم :2271 مسندًا، صحيح البخاري : 246 معلقًا]

⓫ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تہجد کا حال بیان کرتے ہوئے، بیان فرماتے ہیں :
انه بات عند النبى صلى الله عليه وسلم ذات ليلة، فقام نبي الله صلى الله عليه وسلم من آخر الليل، فخرج فنظر فى السماء، ثم تلا هذه الآية فى آل عمران : ﴿إن فى خلق السماوات والأرض واختلاف الليل والنهار﴾ [آل عمران: 100] ، حتى بلغ ﴿فقنا عذاب النار﴾ [آل عمران :191] ، ثم رجع إلى البيت فتسوك وتوضأ، ثم قام فصلي، ثم اضطجع ثم قام فخرج فنظر الي السماء فتلا هذه الاية ثم رجع فتسوك فتوضأ
’’ انہوں نے ایک رات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں بسر کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے آخری حصے میں بیدار ہوئے، باہرنکلے، آسمان کی طرف دیکھا اور سورۂ آل عمران کی دو آیات [190۔ 191] تلاوت فرمائیں۔ پھر گھر کی طرف لوٹے، مسواک کی اور وضو کیا، پھر کھڑے ہوئے اور نماز ادا فرمائی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم لیٹ کر سو گئے، پھر بیدار ہوئے، باہر نکلے، آسمان کی طرف دیکھا، مذکورہ آیات کی تلاوت فرمائی، پھر لوٹ کر مسواک کی اور وضو کیا، پھر کھڑے ہوئے اور نماز ادا فرمائی۔“ [صحيح مسلم : 256]

⓬ شریح بن ہانی کہتے ہیں کہ انہوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں داخل ہوتے تو سب سے پہلے کون ساکام کرتے تھے ؟ آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : مسواک۔ [صحيح مسلم : 253]

⓭ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مرض وفات کا حال یوں بیان کرتی ہیں :
دخل عبد الرحمن بن أبى بكر، ومعه سواك يستن به، فنظر إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت له : أعطني هذا السواك يا عبد الرحمن ! فأعطانيه، فقصمته، ثم مضغته، فأعطيته رسول الله صلى الله عليه وسلم فاستن به، وهو مستسند الي صدري
’’ عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ حاضر ہوئے تو مسواک کر رہے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف دیکھا تو میں نے ان سے کہا: عبدالرحمٰن ! یہ مسواک مجھے دو۔ انہوں نے مسواک مجھے دے دی، میں نے اسے توڑا، پھر اسے چبایا، پھر اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے کیا۔ آپ نے میرے سینے سے ٹیک لگائے ہوئے مسواک کی۔“ [صحيح البخاري:890]

فائدہ نمبر ① سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :
كان نبي الله صلى الله عليه وسلم يستاك، فيعطيني السواك لأغسله، فأبدا به، فأستاك، ثم أغسله، وأدفعه إليه.
’’ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسواک کرتے، پھر اسے دھونے کے لیے مجھے دیتے، پھر میں مسواک کرنا شروع کرتی، پھر اس کو دھو دیتی اور آپ کو واپس کر دیتی۔“ [سنن ابي داود: 52، و سندهٔ حسن]
? اس کا راوی کثیر بن عبید تیمی ’’حسن الحدیث“ ہے۔
اس کے بارے میں امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
يعد فى الكوفيين ’’ اس کا شمار کوفیوں میں ہوتا ہے۔“ [التاريخ الكبير : 901]

◈ امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’ الثقات“ [300/5] میں ذکر کیا ہے۔
◈ امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے اس کی ایک حدیث [2248] کو ’’ صحیح“ قرار دیا ہے۔
◈ امام حاکم رحمہ اللہ [252/4] نے بھی اس کی ایک حدیث کی ’’ تصحیح“ کی ہے۔
◈حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
◄ اس حدیث کے بارے میں علامہ نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
حديث حسن، رواه ابو داود باسناد جيد .
’’ یہ حدیث حسن ہے۔ اسے امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے عمدہ سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔“ [المجموع:283/1، خلاصة الأحكام : 87/1]

? اس حدیث سے ثابت ہوا کہ عورت بھی مسواک کر سکتی ہے بلکہ مسواک کی فضیلت و تاکید میں مرد و زن برابر کے شریک ہیں، نیز اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عورت اپنے خاوند کی مسواک اس کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتی ہے۔

◄ اسی سلسلے میں یزید بن اصم تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
كان سواك ميمونة ابنة الحارث زوج النبى صلى الله عليه وسلم منقعا فى ماء، فإن شغلها عنه عمل او صلاة، وإلا فاخذته واستاكت .
’’ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ سیدہ میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہا کی مسواک پانی میں ڈوبی رہتی تھی۔ جب آپ نماز یا کسی اور کام میں مشغول ہوتیں تو اسے چھوڑ دیتیں، ورنہ مسواک کرتی رہتیں۔“ [مصنف ابن أبى شيبة:170/1، وسنده صحيح]

فائدہ نمبر ② سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
تجزى من السواك الأصابع
’’ انگلیاں بھی مسواک کا کام دے دیتی ہیں۔“ [السنن الكبري للبيهقي :40/1، و سندهٔ حسن]
? اس حدیث کو امام بیہقی رحمہ اللہ نے ’’ ضعیف“ کہا ہے، لیکن صحیح بات یہی ہے کہ اصول محدثین کے مطابق اس کی سند ’’ حسن“ ہے۔ والله اعلم !
اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اگر مسواک نہ مل سکے تو انگلیوں سے دانت صاف کر لیے جائیں۔

فائدہ نمبر ③ حالت روزہ میں مسواک کرنا جائز ہے، جیسا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لو لا أن أشق على أمتي، أو على الناس، لأمرتهم بالسواك مع كل صلاة
’’ اگر میں اپنی امت کے لوگوں پر مشقت نہ سمجھتا تو انہیں ہر نماز کے ساتھ مسواک کاحکم دیتا۔“ [صحيح البخاري:887، صحيح مسلم :252]

◈ امام نسائی رحمہ اللہ نے اس حدیث پر ان الفاظ سے باب قائم کیا ہے :
الرخصة فى السواك بالعشي للصائم.
’’ روزے دار کے لیے پچھلے پہر مسواک کرنے کی رخصت۔“
◈ علامہ سندھی حنفی رحمہ اللہ اس پر یہ تبصرہ کرتے ہیں :
ومنه يؤخذ ما ذكره المصنف من الترجمة، ولا يخفى أن هذا من المصنف استنباط دقيق وتيقظ عجيب، فلله دره، ما ادق واحد فهمه
’’ اس حدیث سے وہ مسئلہ بھی مستنبط ہوتا ہے جو مصنف (امام نسائی رحمہ اللہ ) نے تبویب میں ذکر کیا ہے۔ بلاشبہ یہ امام صاحب کا بہت دقیق استنباط اور حیران کن بیداری مغزی کا ثبوت ہے۔ اللہ کی شان ! کیا تیز اور روشن فہم تھا آپ کا۔“ [حاشية السندي على سنن النسائي :13/1]
❀ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :
لا بأس أن يستاك الصائم السواك الرطب واليابس
’’ روزہ دار کے تر یا خشک مسواک کرنے میں کوئی حرج نہیں۔“ [مصنف ابن ابی شيبة: 37/3 و سندهٔ حسن]
? بعض لوگ روزے داروں کو مسواک سے روکنے کے لیے یہ دلیل دیتے ہیں کہ مسواک روزہ دار کے منہ کی بو کو ختم کر دیتی ہے جو اللہ تعالیٰ کے ہاں کستوری سے بھی بڑھ کر ہے۔ حالانکہ یہ محض ایک شبہ ہے۔ شیخ الاسلام ثانی، عالم ربانی، علامہ ابن القیم رحمها اللہ نے اس شبہے کے درج ذیل چھ جوابات دیے ہیں :
إن المضمضة ابلغ من السواك فى قطع خلوف الفم، وقد أجمع على مشروعيتها للصائم.
إن رضوان الله أكبر من استطابته لخلوف فم الصائم.
إن محبته للسواك اعظم من محبته لبقاء خلوف فم الصائم.
إن السواك لا يمنع طيب الخلوف الذى يزيله السواك عند الله يؤم القيامة.
إن الخلوف لا يزول بالسواك، لأن سببه قائم، وهو خلو المعدة من الطعام.
إن النبى صلى الله عليه وسلم علم أمته ما يستحب وما يكره لهم فى الصيام، ولم يجعل السواك من المكروه.
➊ کلی کرنا مسواک کے مقابلے میں منہ کی بو کو زیادہ ختم کرتا ہے لیکن روزہ دار کے لئے کلی کے مشروع ہونے پر امت مسلمہ کا اجماع ہے۔
➋ اللہ تعالیٰ کی رضا مندی روزے دار کے منہ کی بو کے . . . . . مقابلے میں بہت بڑی ہے۔
➌ اللہ تعالیٰ کو مسواک سے جو محبت ہے، وہ روزے دار کے منہ کی بو سے بڑھ کر ہے۔
➍ مسواک روزے دار کے منہ کی اس بو کو ختم نہیں کر سکتی جو قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کو محبوب ہو گی۔
➎ یہ بو مسواک سے ختم نہیں ہوتی کیونکہ اس کا سبب قائم ہی رہتا ہے اور وہ ہے معدے کا خالی ہونا۔
➏ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو روزے کے تمام استحبابات اور مکروہات بتا دیے ہیں لیکن آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے مسواک کو روزے کے لیے مکروہ قرار نہیں دیا۔ “ [ديكهيں زاد المعاد فى هدي خير العباد : 324,323/4]

❀ ایک روایت میں ہے سیدنا عمر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
رأيت النبى صلى الله عليه وسلم ما لا أحصي يتسوك، وهو صائم
”میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت دفعہ روزے کی حالت میں مسواک کرتے دیکھا۔ “ [سنن أبى داؤد : 2364، سنن الترمذي:721، وقال : حسن]
? اس کی سند اگرچہ ”ضعیف “ ہے کیونکہ اس میں عاصم بن عبید اللہ نامی راوی جمہورمحدثین کرام کے نزدیک ”ضعیف“ ہے۔ حافظ نووی [خلاصة الاحكام : 87/1] ، علامہ ہیثمی [مجمع الزوائد : 150/1] اور حافظ ابن حجر [النكت على كتاب ابن الصلاح : 73/1] رحمها اللہ کا یہی فیصلہ ہے۔ البتہ عمومی احادیث سے روزے کی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بار بار مسواک کرنا ثابت ہوتا ہے جیسا کہ امام نسائی رحمہ اللہ کے حوالے سے ہم ذکر کر چکے ہیں۔

فائدہ نمبر ④
ابوسلمہ تابعی بیان کرتے ہیں :
فكان زيد بن خالد يشهد الصلوات فى المسجد، وسواکه على أذنه موضع القلم من أذن الكاتب، لا يقوم إلى الصلاة إلا استن، ثم رده إلى موضعه .
’’ سیدنا زید بن خالد رضی اللہ عنہ مسجد میں نمازوں کے لیے تشریف لاتے تو مسواک ان کے کان پر ایسے رکھی ہوتی تھی جیسے کاتب کے کان پر قلم۔ آپ جب بھی نماز کے لیے کھڑے ہوتے، مسواک کرتے، پھر اسے اس کی جگہ پر لوٹا دیتے۔“ [سنن ابى داؤد : 47، سنن الترمذي:23، وقال : حسن]
? اس کی سند ’’ ضعیف“ ہے کیونکہ اس میں محمد بن اسحاق بن یسار راوی ’’مدلس“ ہیں جو کہ بصیغہ عن روایت کر رہے ہیں۔ سماع کی تصریح نہیں مل سکی۔

❀ سنن کبریٰ بیہقی [61/1] میں ایک مرفوع روایت بھی ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مسواک کو کان کے پر رکھنے کا ذکر ہے۔
? لیکن وہ بھی محمد بن اسحاق اور سفیان ثوری کی تدلیس کی وجہ سے ’’ ضعیف“ ہے۔

فائدہ نمبر ⑤ ایک حدیث کے الفاظ یہ ہیں :
صلاة بسواك أفضل من سبعين صلاة بغير سواك
’’ مسواک کے ساتھ پڑھی گئی ایک نماز بغیر مسواک کیے پڑھی گئی ستر نمازوں سے افضل ہوتی ہے۔“ [مسند الإمام أحمد : 272/6، صحيح ابن خزيمة : 137، المستدرك على الصحيحين للحاكم : 146/1]
? اس کی سند ’’ ضعیف“ ہے، کیونکہ اس میں محمد بن اسحاق اور محمد بن شہاب دونوں ’’ مدلس“ ہیں اور سماع کی تصریح نہیں کر رہے۔
◈ اسی لیے امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے اس کی صحت میں شک و شبہ کا اظہار کیا ہے۔ وہ اس حدیث کو ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
ان صح الخبر، لاني خائف ان يكون محمد بن اسحاق لم يسمع من محمد بن مسلم، وإنما دلسه عنه.
’’ اگر یہ حدیث صحیح ہوئی . . . ! کیونکہ مجھے خدشہ ہے کہ محمد بن اسحاق نے محمد بن مسلم (بن شہاب زہری ) سے یہ حدیث نہیں سنی بلکہ ان سے تدلیس کی ہے۔“
◈ بالکل یہی بات امام بیہقی رحمہ اللہ نے بھی کہی ہے۔ [السنن الكبري:38/1]
? لہٰذا امام حاکم اللہ کا اسے مسلم کی شرط پر ’’ صحیح“ کہنا اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ کا ان کی موافقت کرنا صحیح نہیں۔

❀ اسی روایت کی ایک دوسری سند سنن کبریٰ بیہقی [ 38/1] میں موجود ہے۔
? لیکن وہ بھی ’’ضعیف“ ہے کیونکہ اس میں محمد بن عمر واقدی راوی موجود ہے جو جمہور محدثین کرام کے نزدیک ’’ ضعیف“ ہے۔ خود امام بیہقی رحمہ اللہ نے بھی اسے ’’ ضعیف“ قرار دیا ہے۔

❀ اس کی ایک تیسری سند سنن کبریٰ بیہقی [ 38/1] میں مذکور ہے۔
? لیکن وہ بھی ’’ ضعیف“ ہے۔ اس میں فرج بن فضالہ راوی ’’ ضعیف“ ہے۔ [تقريب التهذيب لابن حجر : 5383]

◈ امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : فهذا إسناد غير قوى ’’ یہ سند قوی نہیں۔“
◈ امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لا يصح حديث الصلاة بأثر السواك أفضل من الصلاة بغير سواك، وهو باطل.
’’ یہ حدیث صحیح نہیں کہ مسواک کے ساتھ پڑھی گئی نماز بغیر مسواک کے پڑھی گئی نماز سے افضل ہے۔ یہ روایت باطل ہے۔“ [التمهيد لابن عبد البر :200/7]
? الغرض یہ روایت تمام سندوں کے ساتھ ’’ ضعیف“ ہے، جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
واسانيده معلولة.
’’ اس کی سندیں علت والی ہیں۔“ [التلخيص الحبير :68/1، ح : 69]

◄ البتہ حسان بن عطیہ تابعی کا اس طرح کا ایک قول ملتا ہے، ان کا کہنا ہے :
يقال : ركعتان يستاك فيهما العبد أفضل من سبعين ركعة لا يستاك فيها.
’’ ایسی دو رکعتیں جن سے پہلے بندہ مسواک کر لے، ان ستر رکعتوں سے بہتر ہیں جن میں مسواک نہ کی ہو۔“ [مصنف ابن أبى شيبة:169/1، وسنده صحيح]

فائدہ نمبر ⑥ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا :
نعم السواك الزيتون، من شجرة مباركة، يطيب الفم، ويذهب بالحفر، هو سواكي وسواك الأنبياء قبلي
’’ سب سے عمدہ مسواک مبارک درخت زیتون کی ہے۔ یہ منہ کو خوشبودار کرتی ہے اور دانتوں کی کھوڑ کو ختم کرتی ہے۔ میری اور مجھ سے پہلے انبیائے کرام کی مسواک یہی تھی۔“ [المعجم الأوسط للطبراني : 210/1، اح : 678]
? لیکن یہ روایت موضوع (من گھڑت ) ہے، کیونکہ :
① اس کا راوی محمد بن محصن عکاشی ’’کذاب“ ہے۔
◈ اس کے بارے میں امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
متروك، يضع ’’ متروک راوی تھا، حدیثیں خود گھڑ لیتا تھا۔“ [سوالات البرقاني للدارقطني: 459]
② معلل بن نفیل حرانی کے بارے میں حافظ ہیثمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
ولم أجد من ذكرہ. ’’ مجھے کسی کتاب میں اس کا ذکر نہیں ملا۔“ [مجمع الزوائد:100/2]

? معلوم ہوا کہ زیتون کی مسواک کی فضیلت بالکل ثابت نہیں۔ اس جھوٹی روایت سے دوکاندار خوب فائدہ اٹھاتے ہیں اور اسے لکھ کر لٹکاتے ہیں، حالانکہ ایسا کچھ ثابت نہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے