مسواک کی اہمیت اور فضیلت
کسی درخت کی شاخ کے ساتھ دانتوں اور مسوڑھوں پر جما ہوا میل کچیل اتارنا اور بدبو کو ختم کرنا خصائل فطرت میں شامل ہے۔
حدیث میں ہے کہ مسواک کرنا انبیائے کرام کی سنت رہی ہے۔
(ضعیف) جامع الترمذی النکاح باب ماجاء فی فضل الترویج والحث علیہ حدیث 1080۔
سب سے پہلے ابراہیم علیہ السلام نے مسواک استعمال کی۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"مسواک منہ کو صاف کرنے اور رب تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔”
المصنف لابن ابی شیبہ 1/155 حدیث 1787 — اور متفق علیہ: صحیح البخاری الجمعۃ باب السواک یوم الجمعۃ حدیث 887، صحیح مسلم الطہارۃ باب السواک حدیث 252۔
مسواک کی فضیلت و اہمیت کے بارے میں سو کے قریب احادیث ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ مسواک کرنا سنت مؤکدہ ہے اور بہت سے فوائد کا حامل عمل ہے۔ ان میں سب سے بڑا اور اہم فائدہ منہ کی صفائی اور رب تعالیٰ کی رضا کا حصول ہے۔
مسواک کی اقسام اور افضل ٹہنیاں
مسواک (مناسب یہ ہے کہ) قدرے نرم شاخ سے حاصل کی جائے جو پیلو یا زیتون کی ہو یا کھجور کے گچھے کی شاخ ہو یا کوئی ایسی شاخ ہو جو نہ بہت زیادہ نرم ہو اور نہ اس قدر سخت ہو کہ منہ کو زخمی کردے۔
مسواک کے اوقات وضو اور نماز کے قریب
مسواک کسی بھی وقت کی جا سکتی ہے۔ روزے دار شخص دن میں کسی بھی وقت مسواک کر سکتا ہے۔
وضو کے وقت مسواک کرنے کی زیادہ تاکید ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"لولا أن أشق على أمتي لأمرتهم بالسواك عند كل وضوء”
"میری امت پر مشکل نہ ہوتا تو میں انھیں حکم دیتا کہ وہ ہر وضو کے ساتھ مسواک کیا کریں۔”
صحیح البخاری الجمعۃ حدیث 887 — صحیح مسلم الطہارۃ حدیث 252۔
اس حدیث میں ہر وضو کے ساتھ مسواک کرنا مستحب قرار دیا گیا ہے۔
فرض یا نفل نماز کے وقت بھی مسواک کرنے کی بہت تاکید آئی ہے، تاکہ اللہ تعالیٰ کے تقرب کے وقت کامل طہارت و نظافت حاصل ہو۔
نیند سے بیداری پر مسواک
رات یا دن کے کسی حصے میں نیند سے بیدار ہوتے وقت بھی مسواک کرنے کی بہت تاکید آئی ہے، چنانچہ روایت ہے:
"كَانَ النَّبِيُّ -صلى الله عليه وسلم- إِذَا قَامَ مِنَ اللَّيْلِ يَشُوصُ فَاهُ بِالسِّوَاكِ”
"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کو اٹھتے تو مسواک کیا کرتے تھے۔”
صحیح البخاری الوضوء حدیث 245 — صحیح مسلم الطہارۃ حدیث 255۔
طریقۂ مسواک
مسواک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ:
مسواک بائیں ہاتھ میں پکڑی جائے۔
(مصنف نے کوئی نص پیش نہیں کی — لیکن دائیں ہاتھ افضل سمجھا جاتا ہے)
دانتوں اور مسوڑھوں پر اس طرح پھیری جائے کہ منہ کی دائیں جانب سے شروع کرے اور بائیں جانب لے جائے۔
خصالِ فطرت کا بیان
ہمارے دین حنیف کی امتیازی خوبیوں میں سے ایک یہ ہے کہ یہ فطرتی خصائل کا حامل دین ہے۔ ان خصائل کو فطرت اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے ودیعت کردہ ہیں اور تمام انبیاء کی سنت رہی ہیں۔
مسواک کے علاوہ دیگر خصالِ فطرت قدرے اختصار سے یہاں بیان کیے جاتے ہیں:
1۔ زیر ناف بال اتارنا
ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ شرمگاہ کے ارد گرد بالوں کو استرے یا کسی پاؤڈر سے اتار لے تاکہ نظافت حاصل ہو۔
2۔ ختنہ کرنا
حثفہ پر موجود جھلی کا کاٹنا ختنہ ہے۔
یہ خصائلِ فطرت میں شامل ہے، اور بچپن میں کروانا زیادہ بہتر ہے تاکہ زخم جلد مندمل ہو۔
3۔ مونچھیں کاٹنا اور داڑھی بڑھانا
مونچھیں کاٹنے اور خوب پست کرنے سے:
نظافت حاصل ہوتی ہے
کفار کی مخالفت ہوتی ہے
مرد کی مردانگی نمایاں ہوتی ہے
داڑھی منڈوانا، تراشنا، یا چند بال رکھنا— یہ سب سیرت نبوی کی کھلی مخالفت ہے۔
شاعر کا شعر:
يُقْضَى على المرءِ أيامَ محنتِهِ
حتى يَرَى حَسَناً مَا لَيْسَ بالحَسَنِ
علامہ اقبال نے ترجمہ کیا:
تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
ایک اور شاعر:
ولا عجب أن النساء ترجلت
ولكن تأنيث الرجال عجيب
"عورتوں کا مردوں جیسا بن جانا عجیب نہیں، لیکن مردوں کا عورتوں جیسا ہو جانا حیرت انگیز ہے۔”
4۔ ناخن تراشنا
یہ بھی خصالِ فطرت میں سے ہے۔
لمبے ناخن رکھنا حیوانات سے مشابہت ہے — اور یہ جاہلانہ تہذیب کی نقل ہے۔
5۔ بغلوں کے بال اکھیڑنا
بغلوں کے بال اکھیڑنا مسنون ہے،
مونڈنا یا پاؤڈر سے صاف کرنا بھی جائز ہے۔
تہذیبی بگاڑ اور انحراف کا دردناک پہلو
آج بہت سے لوگ:
داڑھی ختم کر رہے ہیں
مونچھیں بڑھا رہے ہیں
جسمانی صفائی کو چھوڑ رہے ہیں
غیر اسلامی تہذیبوں کی نقالی کر رہے ہیں
یہ لوگ اپنی اور امت کی گمراہی کا سبب بن رہے ہیں۔
"لاحول ولا قوة الا بالله العلي العظيم”
دعا
اے اللہ! مسلمانوں کو اعمال و اقوال کی اصلاح کی توفیق دے،
انہیں اخلاص اور اتباعِ سنت کی دولت عطا فرما۔
آمین۔