مسلم خاندانی نظام کے چیلنجز اور استحکام کے اقدامات
تحریر: ثروت جمال اصمعی

مسلم معاشروں میں خاندانی نظام

مسلمان معاشروں میں خاندانی نظام آج بھی بڑی حد تک محفوظ ہے۔ عام طور پر مرد اور عورتیں مشترکہ طور پر گھر کے معاملات سنبھالتے ہیں، اور والدین بچوں کی پرورش میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ بچے بڑے ہو کر والدین کی خدمت کو اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ اس کے برعکس، مغربی معاشروں میں خاندان کا نظام بری طرح متاثر ہو چکا ہے، جہاں کئی عورتیں اکیلے بچوں کی پرورش اور روزگار کے دوہرے بوجھ تلے دبی ہوتی ہیں۔

مغرب میں خاندانی نظام کا زوال

برطانیہ کے قومی شماریاتی ادارے (Office for National Statistics) کے مطابق، 1972 کے مقابلے میں 2007 میں صرف ماں یا باپ کے ساتھ رہنے والے بچوں کی تعداد تین گنا ہو چکی تھی۔ 2006 میں ایسے بچوں کا تناسب ایک چوتھائی تھا، اور ان میں سے 90 فیصد بچوں کی پرورش ماں کر رہی تھی۔

اسی طرح، امریکہ میں بھی یہ مسئلہ شدت اختیار کر چکا ہے۔ نومبر 2009 میں امریکی مردم شماری بیورو (US Census Bureau) کی رپورٹ کے مطابق، 2007 میں 13.7 ملین عورتیں اور مرد 21.8 ملین بچوں کی تنہا پرورش کر رہے تھے۔ ان میں سے 84 فیصد عورتیں اور 16 فیصد مرد تھے۔

مغرب میں خاندان کے زوال کی بڑی وجہ نکاح کے بجائے وقتی تعلقات کا فروغ ہے۔ برطانیہ میں 2007 میں شادی کے بغیر پیدا ہونے والے بچوں کا تناسب 44 فیصد تک پہنچ گیا تھا، جبکہ 1970 کی دہائی میں یہ صرف 12 فیصد تھا۔ شادیوں میں طلاق اور علیحدگی کی بڑھتی ہوئی شرح نے بھی عورتوں پر مزید بوجھ ڈال دیا ہے۔

مسلم معاشروں میں خاندانی نظام کو درپیش چیلنجز

مسلم دنیا میں خاندانی نظام ابھی تک مستحکم ہے، جہاں نکاح کو ترجیح دی جاتی ہے اور والدین بچوں کی پرورش میں شریک ہوتے ہیں۔ تاہم، مغربی تہذیب کے اثرات یہاں بھی نمایاں ہو رہے ہیں۔

عورتوں کا معاشی میدان میں کردار

مغرب میں عورتوں کی معاشی جدوجہد میں شرکت نے خاندانی نظام کو کمزور کیا۔ مسلم دنیا میں بھی مہنگائی اور طرزِ زندگی کی تبدیلی کے باعث عورتوں کا روزگار میں شامل ہونا ضروری ہوتا جا رہا ہے۔ خواتین تعلیم میں بھی آگے بڑھ رہی ہیں، جس کے نتیجے میں وہ مختلف پیشوں میں شامل ہو رہی ہیں۔ اسلام خواتین کے کام کرنے کے خلاف نہیں، لیکن اس کے لیے اسلامی حدود کی پاسداری ضروری ہے۔

مخلوط ماحول اور جدید ذرائع ابلاغ کے اثرات

مردوں اور عورتوں کا آزادانہ میل جول، سوشل میڈیا کے ذریعے چوبیس گھنٹے رابطے، اور میڈیا کی غیر اخلاقی پالیسیاں مسلم معاشروں میں بھی خاندانی نظام کو کمزور کر رہی ہیں۔ مقامی ثقافتوں کے جابرانہ رسم و رواج جیسے وٹہ سٹہ، کاروکاری، جہیز، اور وراثت میں عورتوں کو محروم کرنا بھی خاندانی استحکام کے لیے نقصان دہ ہیں۔

خاندانی نظام کے تحفظ کے لیے اقدامات

تعلیم اور تربیت

  • خاندانی نظام کے استحکام کے لیے تعلیمی اداروں میں اسلامی عائلی اقدار کو نصاب کا حصہ بنایا جائے۔
  • لڑکیوں کی تعلیم میں ان کی گھریلو اور سماجی ذمہ داریوں کو مدنظر رکھا جائے۔

سادگی اور فضول خرچی کی روک تھام

  • شادی بیاہ کو آسان بنایا جائے اور فضول رسم و رواج ختم کیے جائیں۔
  • سادہ طرزِ زندگی کو فروغ دیا جائے تاکہ مادی خواہشات خاندانی نظام پر منفی اثرات مرتب نہ کریں۔

میڈیا اور اشتہارات کی پالیسی

  • میڈیا پر ایسے اشتہارات کی حوصلہ شکنی کی جائے جو مادی زندگی کو بڑھاوا دیتے ہیں۔
  • خاندانی اقدار کو اجاگر کرنے والے مواد کو فروغ دیا جائے۔

عورتوں کے لیے مناسب روزگار کے مواقع

  • خواتین کے لیے علیحدہ تعلیمی ادارے اور اسپتال قائم کیے جائیں۔
  • ویمن بینک اور مینا بازار جیسے منصوبے وسیع پیمانے پر متعارف کروائے جائیں۔
  • ایسی صنعتوں کو فروغ دیا جائے جہاں خواتین گھروں سے کام کر سکیں۔

دفاتر میں مناسب ماحول

  • دفاتر میں خواتین کے لیے علیحدہ کام کرنے کے انتظامات کیے جائیں تاکہ انہیں محفوظ ماحول میسر آ سکے۔
  • مخصوص شعبے مکمل طور پر خواتین کے سپرد کیے جائیں تاکہ وہ بہتر طریقے سے کام کر سکیں۔

نتیجہ

مسلم معاشروں میں خاندانی نظام کو درپیش چیلنجز کے حل کے لیے ایک جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ مغربی معاشروں کی طرح خاندانی انتشار سے بچنے کے لیے اسلامی اصولوں کی روشنی میں جدید تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے حل تلاش کرنا ہوگا، تاکہ خاندانی استحکام برقرار رہے اور مسلمان عورتیں معاشرے میں اپنا کردار احسن طریقے سے ادا کر سکیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1