وعن ابي هريرة رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: من نفس عن مسلم كربة من كرب الدنيا نفس الله عنه كربة من كرب يوم القيامة ومن يسر على معسر يسر الله عليه فى الدنيا والآخرة ومن ستر مسلما ستره الله فى الدنيا والآخرة والله فى عون العبد ما كان العبد فى عون اخيه اخرجه مسلم.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص کسی مسلم سے دنیا کی تنگیوں میں سے کوئی تنگی دور کرے گا اللہ تعالیٰ اس سے آخرت کی تنگیوں میں سے کوئی تنگی دور فرمائے گا اور جو شخص کسی تنگدست پر آسانی کرے اللہ تعالیٰ اس پر دنیا اور آخرت میں آسانی فرمائے گا اور جو شخص کسی مسلم پر پردہ ڈالے اللہ تعالیٰ اس پر دنیا اور آخرت میں پردہ ڈالے گا اور اللہ تعالیٰ بندے کی مدد میں (رہتا ) ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں رہتا ہے۔
تخريج : [مسلم الذكر والدعاء / 38 ] اور دیکھئے [تحفة الاشراف 375/9 ]
مفردات : نفس یہ تنفيس الخناق سے مشتق ہے یعنی گلا گھونٹنے والی چیز کو ڈھیلا کرنا تاکہ وہ سانس لے سکے۔ نَفَسٌ کا معنی سانس ہوتا ہے۔ مراد تنگی دور کرنا ہے۔
كُرْبَةً ایسا غم جو نفس کو فکر مند کر دے اور دل کو ڈھانپ لے اس طرح کہ گویا سانس لینے کی گنجائش نہ رہے۔
فوائد :
➊ مسلمان کی دنیا کی تنگیاں کئی قسم کی ہو سکتی ہیں جنہیں دور کرنے کی فضیلت بیان ہوئی، مثلاً اگر اسے مالی تنگی درپیش ہے تو اگر ہو سکے تو اپنے پاس سے مال دے کر اسے دور کرے یا اسے قرض دے دے یا اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے کسی دوسرے سے مال دلوا دے یا قرض دلوا دے۔ اگر کسی ظالم کے ظلم سے تنگ ہے تو وہ ظلم دور کرنے یا کم کرنے کی کوشش کرے اگر بیمار ہے تو علاج میں اس کی مدد کرے وغیرہ۔ آخرت میں پیش آنے والی سختیاں بھی بے شمار ہیں۔
نووی رحمہ الله نے فرمایا کہ مسلم بھائی کی تنگی دور کرنے والے کے لئے آخرت کی تنگیوں میں سے کوئی تنگی دور کرنے کی بشارت تب ہی پوری ہو سکتی ہے جب اس کا خاتمہ ایمان پر ہو تو اس حدیث میں ایمان پر خاتمہ کی بشارت بھی بھی ضمناً مذکور ہے۔ “ [توضيح ]
➋ تنگ دست پر آسانی کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
وَإِن كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَى مَيْسَرَةٍ وَأَن تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ [ 2-البقرة:280]
”اور اگر وہ (مقروض ) تنگدست ہے تو اسے مہلت دینا ہے آسانی تک اور تم صدقہ کر دو تو تمہارے لئے بہتر ہے۔ اگر تمہیں علم ہو۔ “
اس آیت سے معلوم ہوا کہ تنگدست کے لئے آسانی کی ایک صورت یہ ہے کہ اسے مہلت دے دے یہ تو واجب ہے دوسری صورت یہ ہے کہ اس کا قرض معاف کر دے بلکہ ہو سکے تو اس کے ساتھ اس کا مالی تعاون بھی کر دے تاکہ اس کی تنگدستی دور ہو جائے یہ فضیلت کی بات ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ایک تاجر لوگوں کو قرض دیا کرتا تھا جب کسی تنگدست کو دیکھتا تو اپنے نوکر سے کہتا اس سے درگزر کرو شاید اللہ تعالیٰ ہم سے درگزر فرمائے تو اللہ تعالیٰ نے اس سے درگزر فرمایا۔ [متفق عليه مشكوة باب االافلاس ]
➌ جو شخص کسی تنگدست پر آسانی کرے گا اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس پر آسانی فرمائے گا معلوم ہوا کہ اگر تنگدست پر سختی کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس پر سختی کرے گا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ کوئی شخص خوشحال ہو تو اس سے اپنا حق لینے کے لئے تنگی کر سکتا ہے کیونکہ غنی آدمی کا حق ادا کرنے میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔ [متفق عليه ]
اور اگر پیسے ہوتے ہوئے نہ دے تو اس کی بےعزتی کرنا اور سزا دینا جائز ہو جاتا ہے۔ حدیث صحیح [ابوداود، نسائي عن الشريد ]
➍ من ستر مسلما جو شخص کسی مسلمان کی کسی لغزش یا غلطی پر مطلع ہو پھر اس پر پردہ ڈال دے تو اسے یہ اجر ملے گا کہ اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس پر پردہ ڈال دے گا۔ دنیا میں اس طرح کہ اسے ایسی غلطی سے ہی محفوظ رکھے گا یا اگر ایسی غلطی کر بیٹھے تو کسی کو معلوم نہیں ہو گی اور آخرت میں اس کے گناہ معاف کر دے گا اور اس کے برے اعمال ظاہر نہیں کرے گا۔
➎ جو شخص چھپ کر گناہ کرے اس پر پردہ ڈالا جائے گا لیکن جو شخص کھلم کھلا اعلانیۃ اللہ کی نافرمانی کرتا ہے اور روکنے سے نہیں رکتا اس کا معاملہ ان لوگوں کے پاس پہنچایا جائے گا جو اسے روک سکیں کیونکہ اگر خاموشی اختیار کی جائے تو یہ برائی میں اس کی مدد ہوگی فرمان الٰہی ہے : وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ”اور گناہ اور زیادتی پر ایک دوسرے کی مدد مت کرو۔“ [المائدة : 2 ]
➏ حدیث کے راویوں کی کمزوریوں پر پردہ ڈالنا جائز نہیں کیونکہ اس سے دین کی تحریف کا خطرہ ہے اور اسلام اور مسلمانوں کے بیت المال میں خیانت کرنے والوں کو ظاہر کرنا بھی جائز ہے کیونکہ یہ مسلمانوں کی خیر خواہی ہے جو کہ فرض ہے۔
➐ مسلمان پر پردہ ڈالنے میں دوسروں مسلمانوں کے علاوہ آدمی خود بھی شامل ہے اگر اس سے کوئی غلطی ہو جائے تو کسی کو نہ بتائے اور اللہ تعالیٰ سے استغفار کرے۔
➑ جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی مدد میں ہوتا ہے۔ یعنی اپنے بھائی کا تعاون جس کام میں کر رہا ہوتا ہے اس میں اللہ کی امداد شامل ہوتی ہے اس کے علاوہ اس کے اپنے کاموں میں بھی اللہ کی مدد شامل حال ہوتی ہے۔ اگرچہ اللہ کی مدد کے بغیر آدمی کوئی کام بھی نہیں کر سکتا مگر اس صورت میں اسے اللہ کی خاص مدد حاصل ہوتی ہے اس لئے جو شخص چاہے کہ اس کے سب کام درست رہیں وہ دوسرے مسلم بھائیوں کی مدد کرتا رہے۔
➒ مسلم بھائیوں کو خوش کرنے کو افضل عمل قرار دیا گیا ہے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
افضل الاعمال ان تدخل على اخيك المومن سرورا او تقضي عنه دينا او تطعمه خبزا [قضاء الحوائج لابن ابي الدنيا بحوالة سلسلة الاحاديث الصحيحة۔ حديث حسن 1494]
” سب سے بہتر کام یہ ہے کہ تو اپنے مومن بھائی پر خوشی داخل کرے یا اس کی طرف سے قرض ادا کر دے یا اسے روٹی کھلا دے۔“
➓ اللہ تعالیٰ بندے کو عمل کی جزاء اس کے عمل کی طرح ہی دیتے ہیں کوئی پردہ ڈالے تو پردہ ڈالتے ہیں۔ تنگی دور کرے تو تنگی دور کرتے ہیں۔ مومن کی مدد کرے تو اس کی مدد کرتے ہیں۔ کوئی مومن کو رسوا کرے تو اسے رسوا کر دیتے ہیں۔