430-
مسلمان کے لیے ایسے ممالک کی شہریت لینا جائز نہیں، جن کی حکومت کافر ہو، کیونکہ یہ ان کے ساتھ موالات اور ان کے باطل کاموں میں ان کی موافقت کا ذریعہ ہے اور شہریت لیے بغیر وہاں اقامت رکھنا، اس آیت مبارکہ کی رو سے اصلا منع ہے:
«إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِي أَنفُسِهِمْ قَالُوا فِيمَ كُنتُمْ ۖ قَالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ ۚ قَالُوا أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوا فِيهَا ۚ فَأُولَٰئِكَ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا ﴿٩٧﴾ إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ» [النساء: 98,97]
”بے شک وہ لوگ جنھیں فرشتے اس حال میں قبض کرتے ہیں کہ وہ اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ہوتے ہیں، کہتے ہیں تم کس کام میں تھے؟ وہ کہتے ہیں ہم اس سر زمین میں نہایت کمزور تھے۔ وہ کہتے ہیں کیا اللہ کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کر جاتے؟ تو یہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ لوٹنے کی بری جگہ ہے۔ مگر وہ نہایت کمزور۔“
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
”میں ہر اس مسلمان سے بری ہوں جو کافروں کے درمیان اقامت اختیار کرتا ہے۔“ [سنن أبى داود، رقم الحديث 2645]
علاوہ ازیں اس کے متعلق دیگر احادیث بھی مروی ہیں۔ بلاد شرک سے بلاد اسلام کی طرف استطاعت کے مطابق ہجرت کرنے کے واجب ہونے پر مسلمانوں کا اجماع بھی ہے، لیکن جو صاحب علم و بصیرت کافروں کو دین اسلام کی تبلیغ کرنے اور دعوت دین دینے کے لیے ان کے درمیان اقامت اختیار کرے تو اس کے لیے کوئی رکا وٹ نہیں، (خصوصاًً) جب اس کو اپنے دین میں کسی فتنے کے واقع ہونے کا خدشہ نہ اور وہ ان کو متاثر کرنے اور ان کی ہدایت کی امید رکھتا ہو۔
[اللجنة الدائمة: 2393]
431- کافر کا مسلمان ملک کی شہریت اختیار کرنا
جب کافر کے متعلق کسی فتنے گری کا خوف نہ ہو اور اس میں بھلائی کا رجحان غالب ہو تو اس کا مسلمان ملک کی شہریت اختیار کرنا جائز ہے، لیکن جزیرہ عرب میں اس کو اسلام قبول کیے بغیر اقامت گزینی کی اجازت نہ دی جائے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین کو جزیرہ عرب سے نکالنے کی وصیت کی ہے۔ [صحيح البخاري، رقم الحديث 3053 صحيح مسلم 1637/20]
[اللجنة الدائمة: 6495]