حدود اور جرائم
مسلمان حاکم کی غیر موجودگی میں حدود نافذ کرنا
حدود صرف مسلمان سلطان نافذ کر سکتا ہے یا اس کا نائب، تاکہ امن عامہ کنٹرول میں رہے، حدود سے تجاوز نہ ہو اور ظلم کا اندیشہ نہ رہے، اور نافرمان کو چاہیے کہ وہ توبہ اور استغفار کرے، بکثرت نیک اعمال کرے۔ جب وہ اپنی توبہ خالص اللہ کے لیے کرے گا تو اللہ تعالیٰ بھی اس پر مہربانی فرما دیں گے اور اپنے فضل و احسان سے اس کو معاف کر دیں گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
«وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَٰهًا آخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُونَ ۚ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ يَلْقَ أَثَامًا ﴿٦٨﴾ يُضَاعَفْ لَهُ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَيَخْلُدْ فِيهِ مُهَانًا ﴿٦٩﴾ إِلَّا مَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَٰئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا» [الفرقان: 68 تا 70]
”اور وہ جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور نہ اس جان کوقتل کرتے ہیں، جسے اللہ نے حرام کیا ہے، مگر حق کے ساتھ اور نہ زنا کرتے ہیں اور جو یہ کرے گا وہ سخت گناہ کو ملے گا۔ اس لیے قیامت کے دن عذاب دگنا کیا جائے گا اور وہ ہمیشہ اس میں ذلیل کیا ہوا رہے گا۔ مگر جس نے توبہ کی اور ایمان لے آیا اور عمل کیا، نیک عمل تو یہ لوگ ہیں جن کی برائیاں اللہ نیکیوں میں بدل دے گا اور اللہ ہمیشہ بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔“
نیز فرمایا:
«وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِّمَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدَىٰ» [طه: 82]
”اور بے شک میں یقیناًً اس کو بہت بخشنے والا ہوں جو توbہ کرے اور ایمان لائے اور نیک عمل کرے، پھر سیدھے راستے پر چلے۔“
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
”اسلام اپنے سے پہلے ہر چیز ختم کر دیتا ہے اور توبہ اپنے سے پہلے ہر چیز (گناہ) مٹا دیتی ہے۔“ [صحيح مسلم 121/192]
نیز فرمان نبوی ہے:
”گناہ سے توبہ کرنے والا اس کے مانند ہے جس کا کوئی گناہ ہی نہیں۔“ [سنن ابن ماجه، رقم الحديث 4250]
[اللجنة الدائمة: 16815]