مسئلہ: مسلسل بیماری کے باعث پچھلے رمضان کے روزوں کا حکم
سوال:
ایک شخص پچھلے رمضان میں بیمار ہو گیا تھا اور اب تک اسی بیماری میں مبتلا ہے۔ اُس نے پچھلے رمضان کے روزے بھی نہیں رکھے۔ موجودہ وقت میں بھی وہ اتنا بیمار ہے کہ روزے نہیں رکھ سکتا۔
اب سوال یہ ہے کہ:
◈ وہ ان روزوں کا کیا کرے؟
◈ کیا کسی دوسرے کو اپنی طرف سے روزے رکھوا سکتا ہے؟
◈ یا تیس آدمیوں کو کھانا کھلائے؟
◈ یا تیس افراد کے لیے کھانا پکا کر اللہ تعالیٰ کی راہ میں تقسیم کر دے؟
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قرآنِ مجید کی روشنی میں:
اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں فرمایا:
﴿وَمَن كَانَ مَرِيضًا أَوۡ عَلَىٰ سَفَرٖ فَعِدَّةٞ مِّنۡ أَيَّامٍ أُخَرَۗ﴾
[البقرة: 185]
’’اور جو کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو، تو وہ دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرے۔‘‘
اس آیتِ کریمہ کی روشنی میں:
◈ اگر مریض بیماری سے صحت یاب ہو جائے، تو وہ بعد میں ان چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا کرے، چاہے وہ ایک رمضان کے ہوں یا کئی رمضانوں کے۔
◈ لیکن اگر وہ شخص بیماری سے صحت یاب نہ ہو اور اُسی حالت میں فوت ہو جائے، تو جتنے روزے رہ گئے ہوں، اس کے ولی (قریبی عزیز) کو چاہیے کہ اس کی طرف سے روزے رکھے۔
حدیثِ مبارکہ کی روشنی میں:
صحیح بخاری میں ہے:
«مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ صِيَامٌ صَامَ عَنْهُ وَلِيُّهُ»
[بخاری، کتاب الصوم، باب من مات وعليه صوم]
’’جو شخص فوت ہو جائے اور اُس پر روزے باقی ہوں، تو اُس کا ولی اُس کی طرف سے روزے رکھے۔‘‘
رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان اور قرآنِ مجید کی مذکورہ آیت اپنے مفہوم اور حکم میں بالکل واضح ہیں۔
نفلی صدقہ کے بارے میں:
اگر مریض، صرف ثواب کی نیت سے مساکین کو کھانا کھلانا چاہے تو یہ عمل باعثِ خیر ہے اور اللہ کے ہاں اس کا اجر محفوظ ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَمَن تَطَوَّعَ خَيۡرٗا فَإِنَّ ٱللَّهَ شَاكِرٌ عَلِيمٌ﴾
[البقرة: 158]
’’اور جو کوئی نفل طور پر زیادہ نیکی کرے، تو بے شک اللہ تعالیٰ قدردان اور جاننے والا ہے۔‘‘
خلاصہ:
◈ جب تک مریض کو صحت کی امید ہے، اُس پر روزوں کی قضا لازم ہے۔
◈ اگر مکمل طور پر ناامید ہے اور شفایاب ہونے کا امکان نہیں، تو وہ فدیہ دے سکتا ہے، یعنی ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلانا۔
◈ اگر فوت ہو جائے اور روزے باقی ہوں، تو اس کا ولی اُس کی طرف سے روزے رکھے۔
◈ نفلی طور پر مساکین کو کھانا کھلانا باعثِ اجر ہے، لیکن فرض روزوں کی قضا یا فدیے کی جگہ یہ کافی نہیں جب تک شرعی عذر نہ ہو۔
هَذَا مَا عِندِي وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِالصَّوَاب