مسجد کے مؤذن یا میاں جی کو زکوٰۃ یا عشر دینا جائز ہے؟
ماخوذ : فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری جلد نمبر: 1 صفحہ نمبر: 191

سوال

کیا مسجد کے مؤذن یا میاں جی کی تنخواہ میں عشر یا زکوٰۃ کی رقم خرچ کی جا سکتی ہے؟

وضاحت

کیا عشر یا زکوٰۃ کی رقم مسجد کے جاجم، فرش، دری، چٹائی، لوٹا اور ان اشیاء کی مرمت و صفائی پر یا مسجد کے مؤذن اور میاں جی کی تنخواہ پر خرچ کی جا سکتی ہے؟
(سوال از عبدالرؤف رحمانی)

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مسجد کے سامان اور مرمت پر زکوٰۃ یا عشر خرچ کرنے کا حکم

◈ مسجد کے لوٹے، رسی، بالٹی، چٹائی، دری، جاجم، فرش، اور ان کی مرمت و صفائی یا تعمیر پر عشر اور زکوٰۃ (اوساخ الناس) کا خرچ کرنا درست نہیں۔
◈ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسجد اور اس کی ضروریات زکوٰۃ کے منصوصہ مصارف میں داخل نہیں ہیں۔

دلیل

وَلَا يَجُوزُ صَرْفُ الزَّكَاةِ إلَى غَيْرِ مَنْ ذَكَرَ اللَّهُ تَعَالَى، مِنْ بِنَاءِ الْمَسَاجِدِ وَالْقَنَاطِرِ وَالسِّقَايَاتِ وَإِصْلَاحِ الطُّرُقَاتِ، وَسَدِّ الْبُثُوقِ، وَتَكْفِينِ الْمَوْتَى، وَالتَّوْسِعَةِ عَلَى الْأَضْيَافِ، وَأَشْبَاهِ ذَلِكَ مِنْ الْقُرَبِ الَّتِي لَمْ يَذْكُرْهَا اللَّهُ تَعَالَى.

وَقَالَ أَنَسٌ وَالْحَسَنُ: مَا أَعْطَيْت فِي الْجُسُورِ وَالطُّرُقِ فَهِيَ صَدَقَةٌ مَاضِيَةٌ، وَالْأَوَّلُ أَصَحُّ؛ لِقَوْلِهِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى: {إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ}
[التوبة: 60]
وَإِنَّمَا لِلْحَصْرِ وَالْإِثْبَاتِ، تُثْبِتُ الْمَذْكُورَ، وَتَنْفِي مَا عَدَاهُ،،

(المعنى 4/ 125)

مؤذن یا میاں جی کی تنخواہ میں زکوٰۃ یا عشر خرچ کرنے کا حکم

◈ اگر مسجد کے مؤذن یا میاں جی کے پاس کوئی اور ذریعہ آمدن نہیں ہے اور وہ محتاج و ضرورت مند ہیں،
◈ تو زکوٰۃ کے مصرف ہونے کی حیثیت سے ان کو ماہانہ طور پر عشر یا زکوٰۃ کی رقم سے معین یا غیر معین مقدار کے ذریعے امداد دی جا سکتی ہے۔

(ماخذ: محدث دہلی)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1