مسجد کی تعمیر اور غرباء کی مدد: شرعی ترتیب اور توازن
سوال:
“مسجد میں سیمنٹ کی بوری تب ادا کریں، جب آپ کے محلے میں کوئی آٹے کی بوری کا مستحق نہ ہو” — کیا ایسا کہنا درست ہے؟
جواب از فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ،فضیلۃ الباحث واجد اقبال حفظہ اللہ
اس قول کی صحت پر مطلق طور پر اتفاق نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ ہر حالت اور ضرورت کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔ شریعت نے ہمیں ہر ضرورت کا الگ الگ خیال رکھنے کا حکم دیا ہے، اور ان کے درمیان توازن برقرار رکھنے کی تلقین کی ہے۔
اگر دو مختلف ضروریات آمنے سامنے ہوں:
ایک طرف: مسجد زیر تعمیر ہو۔
دوسری طرف: کوئی شخص خوراک کی شدید ضرورت میں مبتلا ہو۔
تو ایسی صورت میں غریب شخص کو خوراک فراہم کرنا زیادہ ضروری اور فوری عمل ہوگا، کیونکہ انسانی جان کی حفاظت اور اس کی بنیادی ضروریات کا خیال رکھنا شریعت میں اولیت رکھتا ہے۔
"یہ بات علی الاطلاق محل نظر ہے، البتہ اگر ایک طرف مسجد زیر تعمیر ہو اور دوسری طرف کوئی غریب خوراک کے حوالے سے ضرورت مند ہے تو بلاشبہ وہ غریب مدد کا زیادہ مستحق ہے۔”
ہر ضرورت اپنی جگہ اہم ہے:
اسلام نے صرف ایک پہلو پر زور نہیں دیا بلکہ تمام ضروریات کا خیال رکھنے کی تعلیم دی ہے۔ مسجد کی تعمیر بھی اہم ہے اور غرباء کی مدد بھی، ان دونوں کے درمیان تفریق اور ترجیح کا فیصلہ حالات اور موقع کی مناسبت سے کیا جائے گا، نہ کہ ایک اصول کے تحت ہر حالت پر لاگو کیا جائے۔
"یہ غلط بات ہے، ہر ضرورت کا خیال رکھنا چاہیے، یہ نہیں کہ جب تک غربت باقی ہے مساجد بنانا چھوڑ دیں۔”
خلاصہ:
◈ غریب کی فوری مدد بعض اوقات زیادہ اہم ہو سکتی ہے۔
◈ مسجد کی تعمیر بھی اسلامی معاشرے کی بنیاد ہے، اسے ترک نہیں کیا جا سکتا۔
◈ دونوں ذمہ داریوں میں توازن اور حالات کے مطابق ترجیح ضروری ہے۔
شریعت کا مزاج یہ ہے کہ کسی ایک ضرورت کو ہمیشہ کے لیے دوسرے پر مقدم نہ کیا جائے، بلکہ وقت، حالات اور ضرورت کی شدت کو دیکھ کر فیصلہ کیا جائے۔