مؤلف : ڈاکٹر محمد ضیاء الرحمٰن اعظمی رحمہ اللہ
جب وہ پہلی مسجد جس کے لیے اس نے مال اکٹھا کیا تھا مکمل ہو چکی ہے اور اسے مال کی ضرورت نہیں رہی تو جو باقی مال بچ جائے اسے دوسری مساجد کی تعمیر میں صرف کیا جائے، نیز مسجد کے ساتھ جو اضافی چیزیں ہوتی ہیں جیسے لائبریری، طہارت خانے وغیرہ انہیں بھی بنایا جائے، جس طرح اہل علم نے کتاب الوقف میں اس کے متعلق صریح عبارت میں لکھا ہے۔
پھر یہ مسجد بھی اس مسجد کی جنس سے ہے جس کے لیے اس نے مال خیرات کیا ہے اور یہ بھی ایک معلوم حقیقت ہے کہ مخیر حضرات اپنا زائد مال اللہ تعالیٰ کے کسی گھر کی تعمیر میں خرچ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، اگر کوئی ضرورت مند مسجد نہ ہو تو یہ مال مسلمانوں کے لیے اور رفاہ عامہ میں بھی صرف ہو سکتا ہے، جیسے مدارس تعمیر کروانا، راستے بنوانا اور فقراء پر خرچ کرنا۔ واللہ اعلم
[ابن باز: مجموع الفتاوى والمقالات: 14/20]