مسجد میں وضوء کرنا جائز ہے؟ – تفصیلی شرعی رہنمائی
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
✅ مسجد میں وضوء کرنا کب جائز ہے؟
اگر مسجد میں وضوء کے لیے الگ جگہ مخصوص ہو تو وہاں وضوء کرنا مطلقاً جائز ہے، یعنی شرعاً اس میں کوئی ممانعت نہیں۔
البتہ افضل اور بہتر طریقہ یہ ہے کہ وضوء گھر پر کیا جائے اور پھر مسجد جایا جائے، کیونکہ اس پر کئی احادیث سے فضیلت ثابت ہوتی ہے۔
🕌 گھر میں وضوء کی فضیلت
عبد اللہ الصنابحی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جب مؤمن بندہ وضوء کرتا ہے اور کلی کرتا ہے تو اس کے منہ کے گناہ سب نکل جاتے ہیں،
اور جب ناک میں پانی چڑھا کر جھاڑتا ہے تو ناک کے سارے گناہ نکل جاتے ہیں،
اور جب چہرہ دھوتا ہے تو چہرے سے گناہ نکل جاتے ہیں یہاں تک کہ آنکھ کی پلکوں کے نیچے سے بھی جاتے ہیں،
اور جب ہاتھ دھوتا ہے تو ہاتھ کے گناہ یہاں تک کہ ناخنوں کے نیچے سے بھی نکل جاتے ہیں،
اور جب سر کا مسح کرتا ہے تو سر کے گناہ یہاں تک کہ کانوں سے بھی نکل جاتے ہیں،
اور جب پاؤں دھوتا ہے تو پاؤں کے گناہ یہاں تک کہ پاؤں کے ناخنوں کے نیچے سے بھی نکل جاتے ہیں،
پھر اس کا مسجد تک چلنا اور اس کی نماز، اس کے لیے نفل ہو جاتی ہے۔”
(رواہ مالک و النسائی، جیسا کہ المشکاۃ (1/39) میں ہے)
🕌 باجماعت نماز کے لیے گھر سے وضوء کر کے نکلنے کا اجر
صحیحین میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"آدمی کی باجماعت نماز، اس کی گھر یا بازار میں پڑھی گئی نماز سے پچیس گنا زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔
اور یہ اس لیے ہے کہ جب وہ اچھی طرح وضوء کر کے صرف نماز کی نیت سے گھر سے نکلتا ہے،
تو ہر قدم کے ساتھ ایک درجہ بلند کیا جاتا ہے اور ایک گناہ معاف کیا جاتا ہے۔
جب وہ نماز ادا کرتا ہے اور اپنی نماز والی جگہ پر ہی بیٹھا رہتا ہے،
تو فرشتے اس کے لیے دعائیں کرتے ہیں:
‘اے اللہ! اس پر رحم فرما، اے اللہ! اس کی مغفرت فرما، اے اللہ! اس پر رحم فرما’
اور جب تک وہ نماز کے انتظار میں بیٹھا ہوتا ہے،
وہ گویا نماز ہی میں ہوتا ہے۔”
❗ مسجد میں تھوکنے کی ممانعت
اگرچہ مسجد میں وضوء کرنا جائز ہے، لیکن اس دوران تھوکنے سے پرہیز لازم ہے، کیونکہ:
مسجد میں تھوکنے کی ممانعت حدیث میں آئی ہے۔
🕌 صحابہ اور تابعین کے عمل سے مسجد میں وضوء کا جواز
بخاری کی حدیث (1/25) میں ہے:
نعیم المجمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
"میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ مسجد کی چھت پر چڑھا، انہوں نے وضوء کیا اور فرمایا:
‘میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرماتے تھے:
ميری امت قیامت کے دن بلائی جائے گی، ان کے چہرے اور پاؤں وضوء کے اثر سے چمک رہے ہوں گے،
تو جو شخص اپنی چمک بڑھا سکتا ہے وہ بڑھائے۔’
یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے مسجد کے اندر وضوء کیا تھا۔
💧 مستعمل پانی کی طہارت
مسجد میں وضوء کے جواز کی ایک اور دلیل یہ ہے کہ:
مستعمل پانی پاک ہوتا ہے، جیسا کہ فقہاء نے بیان کیا ہے۔
📚 اجماعِ علماء
ابن المنذر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"مسجد میں وضوء کے جواز پر اہل علم کا اتفاق ہے۔”
(اعلام الساجد، ص 311)
المجمع (2/21) میں بیان ہے:
"نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں وضوء کیا۔”
(روایت: احمد، باسناد حسن)
📘 سننِ بیہقی کی روایت
امام بیہقی رحمہ اللہ نے سنن (4/322) میں روایت کیا:
’’باب من توضأ في المسجد عمن یخدم النبی صلی اللہ علیہ وسلم‘‘
"باب ہے مسجد میں وضوء کرنے کا، ان سے روایت ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرتے تھے۔
انہوں نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں ہلکا سا وضوء کیا۔”
💡 فقہاء کا موقف
المعنی (1/164) میں ہے:
"مسجد میں وضوء کرنے میں کوئی حرج نہیں، بشرطیکہ:
- کسی کو تکلیف نہ ہو،
- اور نماز کی جگہ گیلی نہ ہو۔
ابن المنذر رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں:
"ہم نے جن شہروں کے علماء سے علم سیکھا، وہ مسجد میں وضوء کو مباح سمجھتے تھے،
ان میں شامل ہیں:
- ابن عمر،
- ابن عباس،
- عطاء،
- طاؤس،
- ابو بکر بن محمد،
- ابن عمرو،
- ابن حزم،
- ابن جریج،
- اور عام اہل علم۔
📖 فتاویٰ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ
فتاویٰ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ میں بھی اسی موقف کی تائید کی گئی ہے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب