مسجد میں نماز جنازہ
آداب و احکامِ مسجد کا ذکر ہوتا آ رہا ہے۔ اور کتنے ہی ایسے امور کا تذکرہ کیا جا چکا ہے جو مسجد میں جائز یا ناجائز ہیں۔ اور ایسے امور میں سے ایک مسجد میں نماز جنازہ پڑھنا بھی ہے۔ جنازے کے احکام و مسائل کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔ البتہ صرف اتنا کہا جاتا ہے کہ نماز جنازہ فرض کفایہ ہے۔ اور اس کے فرض کفایہ ہونے پر امام ابن الہمام نے ”فتح القدیر شرح ہدایہ“ میں اجماع نقل کیا ہے۔
فتح القدیر لابن ہمام 405/1
جب کہ بعض مالکیہ نے اسے محض سنت قرار دیا ہے۔ اور امام نووی رحمہ اللہ نے ان کی تردید کی ہے۔
الفتح الربانی 201/7
اور احکام و مسائل جنازہ میں سے اس وقت ہمارے پیشِ نظر صرف ایک پہلو ہے۔ یہ کہ آیا کسی کی نماز جنازہ مسجد میں بھی پڑھی جا سکتی ہے یا نہیں؟
تو اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ عام طور پر تو نماز جنازہ شہروں اور دیہات میں بنائی گئی جنازگاہوں میں پڑھی جاتی ہے۔ اور کبھی کبھار کسی اللہ والے کی نماز جنازہ پڑھنے والوں کی تعداد اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ جنازگاہ کا دامن تنگ نظر آنے لگتا ہے، تو ایسے مواقع پر نماز جنازہ کا انتظام شہروں میں موجود بڑے بڑے میدانوں یا گراؤنڈوں میں کر دیا جاتا ہے۔ اور کبھی کسی ایسے میدان یا جنازگاہ میں نماز پڑھی جا سکنے کے کسی وجہ سے امکانات ہی نہ ہوں تو ایسے عذر کی حالت میں یا بوقتِ ضرورت مسجد میں بھی کسی کی نماز جنازہ پڑھی جا سکتی ہے۔
کیونکہ صحیح مسلم، سنن اربعہ و بیہقی، مصنف ابن ابی شیبہ اور مسند احمد میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں عباد بن عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فوت ہوئے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حکم فرمایا کہ جنازہ لے جانے والوں سے کہو کہ وہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا جنازہ لے کر مسجد نبوی سے ہوتے ہوئے جائیں، تا کہ میں ان کی نماز جنازہ پڑھ لوں۔ تو وہ لوگ جنازہ لائے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان کی نماز جنازہ پڑھی۔ بعض لوگوں نے مسجد میں جنازہ پڑھنے کو اچھا نہ سمجھا، اور اس کی خبر ام المومنین کو بھی ہو گئی، تو انہوں نے فرمایا:
ما اسرع الناس الى ان يعيبوا مالا علم لهم به
لوگ کتنی جلدی اس کام کو معیوب شمار کرنے لگے ہیں جس کے بارے میں خود انہیں علم نہیں (کہ حقیقت کیا ہے؟)۔
مسلم مع تحقیق محمد فواد 668/2، 669 ح 793 – صحیح ابی داؤد ح 30، 2731 – صحیح ترمذی 820، 302/1 ح 58، 1809 – ابن ماجہ 1018 – الفتح الربانی 248/7
ان لوگوں نے مسجد سے نماز جنازہ گزارنے کو معیوب کہا ہے۔ حالانکہ سہل بن بیضاء رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں پڑھی تھی۔
اور ایک روایت میں ہے:
والله لقد صلىٰ رسول الله صلى الله عليه وسلم على ابني بيضاء فى المسجد سهلا واخيه
اللہ کی قسم، خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیضاء رضی اللہ عنہا کے دونوں بیٹوں یعنی سہل اور ان کے بھائی کی نماز جنازہ مسجد میں پڑھی تھی۔
مسلم مع تحقیق 668/2، 669 ح 973 – الفتح الربانی 248/7
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضرت سہل اور ان کے بھائی دونوں کی نماز جنازہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں پڑھائی تھی۔ اور تیسرے معروف صحابی حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بھی مسجد میں ہی پڑھی تھی۔ جب کہ مصنف ابن ابی شیبہ اور سنن سعید بن منصور میں مروی ہے کہ خلیفہ بلا فصل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ بھی مسجد میں پڑھی گئی تھی۔
بحوالہ بلوغ الامانی 248/7 – نیل الاوطار 68/4/2 – زاد المعاد 501/1 – سبل السلام تحقیق فواز احمد و ابراہیم محمد 208/2
ایسے ہی موطا امام مالک، مصنف ابن ابی شیبہ اور سنن سعید بن منصور میں یہ بھی مروی ہے کہ خلیفہ دوم امیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ بھی مسجد میں پڑھی گئی تھی۔
بحوالہ جات بالا
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد میں لکھا ہے کہ کبھی کبھار آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں بھی نماز جنازہ پڑھ لیا کرتے تھے۔ جیسا کہ صحیح مسلم اور دیگر کتب حدیث میں سہل اور اس کے بھائی کی نماز جنازہ مسجد میں پڑھے جانے کا پتہ چلتا ہے۔ ایسے ہی آگے چل کر انہوں نے حضرت صدیق و فاروق رضی اللہ عنہما کے بارے میں بھی لکھا ہے کہ ان کی نماز جنازہ کے بھی مسجد میں پڑھے جانے کا ذکر ملتا ہے۔ اور اس سلسلے میں کافی تفصیل ذکر کرنے کے بعد آخر میں اپنی تحقیق کا نچوڑ پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
والصواب ما ذكرناه اولا وان سنته وهديه الصلوٰة على الجنازة خارج المسجد والله اعلم
اور صحیح ترین بات وہی ہے جو ہم شروع میں ذکر کر آئے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت و طریقہ تو یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد سے باہر نماز جنازہ پڑھا کرتے تھے۔ سوائے کسی عذر کے اور جائز دونوں طرح ہی ہے۔ البتہ افضل یہ ہے کہ نماز جنازہ مسجد سے باہر پڑھی جائے۔
زاد المعاد 502/1
اور امام خطابی رحمہ اللہ نے ابوداؤد کی شرح معالم السنن میں لکھا ہے:
وقد ثبت ان ابا بكر وعمر رضي الله عنهما صلى عليهما فى المسجد ومعلوم ان عامة المهاجرين والانصار شهدوا الصلوٰة عليهما وفي تركهم الانكار الدليل على جوازه
یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی نماز جنازہ مسجد میں پڑھی گئی تھی۔ اور یہ بات بھی واضح ہے کہ مہاجرین اور انصار صحابہ میں سے عام حضرات نے نماز جنازہ میں شرکت کی، اور ان میں سے کسی کا اس چیز پر اعتراض نہ کرنا اس فعل کے جواز کی دلیل ہے۔
معالم السنن 272/1/1
غرض امام شافعی، امام احمد بن حنبل، اسحاق بن راہویہ اور مدنی فقہاء کی روایت کے مطابق امام مالک رحمہم اللہ سب کے نزدیک عذر و ضرورت پر مسجد میں نماز جنازہ جائز ہے۔ علامہ ابن رشد، علامہ عبدالرحمن مبارکپوری اور حافظ ابن حجر رحمہم اللہ اور عام محدثین کرام کا رجحان بھی اسی طرف ہے۔
ہدایہ 29/2، 30 – فتح الباری 199/3 – الفتح الربانی 49/7، 250 – کتاب الجنائز مبارکپوری ص 54
اور ان کا استدلال سند و متن ہر اعتبار سے صحیح احادیث سے ہے۔ اور آج کل مکہ مکرمہ کی مسجد حرام اور مدینہ طیبہ کی مسجد نبوی میں نماز پنجگانہ ہی کے بعد کبھی ایک اور کبھی کئی کئی جنازوں پر نماز جنازہ پڑھی جاتی ہے۔ اور اس کا سبب بڑا واضح ہے کہ حجاج کرام اور عمرہ کے لیے آئے ہوئے لوگوں کی اکثریت انہی مساجد حرمین میں ہی نمازیں پڑھتی ہے۔ اور اتنے بڑے بڑے اجتماعات کسی دوسری جگہ ممکن نہیں ہیں۔
لہٰذا جواز کے پیش نظر مرنے والوں کے لیے ان اجتماعات کی دعائیں لے لی جاتی ہیں۔ اور یقیناً خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کی نماز جنازہ حرمین شریفین میں سے کسی بھی ایک میں پڑھی جائے لیکن
ایں سعادت بزور بازو نیست
بخشد خدائے بخشندہ
مسجد سے باہر نماز جنازہ کی افضلیت:
اور مسجد سے باہر جنازگاہ میں نماز جنازہ کے افضل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غالب و اکثر اوقات میں نماز جنازہ مسجد سے باہر اس غرض کے لیے بنائی گئی مخصوص جگہ پر ہی پڑھا کرتے تھے۔ جو کہ فتح الباری (199/3) میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے بقول مسجد نبوی کی مشرقی یا بقیع الغرقد والی جانب سے بالکل متصل ہی تھی۔ اور اس پر دلالت کرنے والی کئی احادیث ہیں۔ مثلاً صحیح بخاری میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے:
ان اليهود جا وا الي النبى صلى الله عليه وسلم برجل وامراة زنيا فامر بهما فرجما قريبا من موضع الجنائز عند المسجد
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہودی اپنا ایک آدمی اور عورت لائے جنہوں نے زنا کا ارتکاب کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ان دونوں کو مسجد کے قریب ہی جنازگاہ کے پاس رجم و سنگسار کر دیا گیا۔
بخاری 199/3 ح 1329
اس حدیث میں جنازہ پڑھنے کا ذکر تو نہیں لیکن جنازگاہ کا تذکرہ آیا ہے۔ اور بخاری و مسلم، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ و بیہقی اور مسند احمد، طیالسی میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، اور صحیح بخاری و مسلم، نسائی و بیہقی اور مسند احمد و طیالسی میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے، اور صحیح مسلم و ترمذی و نسائی، ابن ماجہ و ابن حبان، بیہقی اور مسند احمد و طیالسی میں حضرت حذیفہ بن اسید رضی اللہ عنہ سے، اور ابن ماجہ و مسند احمد میں حضرت مجمع بن حارثہ انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
ان رسول الله صلى الله عليه وسلم نعي النجاشي فى اليوم الذى مات فيه خرج الي المصلىٰ فصف بهم وكبر اربعا
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو نجاشی کے فوت ہونے کی اسی دن خبر دی جس دن وہ فوت ہوئے۔ پھر جنازگاہ کی طرف گئے اور صفیں بنائیں اور چار تکبیریں کہیں (یعنی نماز جنازہ پڑھی)۔
بخاری 1333، 1320 – مسلم مع 22،21/7/4، 23 – صحیح ابی داؤد 2744 – صحیح ترمذی 830،815 – صحیح نسائی 425/3 – ابن ماجہ 1534 تا 1538 – ابن حبان الموارد 762 – الفتح الربانی 18/7، 19، 220 – احکام الجنائز 90،91
ان صحابہ کرام کی مرویات میں بھی جنازگاہ میں ہی نماز جنازہ پڑھنے کا ذکر آیا ہے۔ اگرچہ غائبانہ نماز جنازہ تھی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے نجاشی اور یہودیوں کو سنگسار کرنے والی حدیث پر یوں تبویب کی ہے:
باب الصلوٰة على الجنائز بالمصلىٰ والمسجد
اور مصلیٰ یا جنازگاہ کا ذکر تو صریح ہے۔ جب کہ تبویب میں مسجد کا ذکر لا کر صحیح مسلم اور دیگر کتب والی اس حدیث کی طرف اشارہ فرما گئے ہیں جن میں مسجد میں نماز جنازہ کا ذکر وارد ہوا ہے۔
صحیح نسائی ح 1853 – احکام الجنائز ص 16، 116، 107
ایسے ہی مسند احمد و طیالسی، بیہقی اور مستدرک حاکم میں جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی فوت ہو گیا۔ ہم نے غسل و کفن دیا۔ حنوط کیا (یعنی مشک کافور لگائی)۔
ووضعنا له لرسول الله صلى الله عليه وسلم حيث توضع الجنائز عند مقام جبريل ثم اذنا رسول الله صلى الله عليه وسلم بالصلوٰة عليه فجاء معنا …الخ
ہم نے اس کا جنازہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مقام جبریل کے قریب اس جگہ رکھا جہاں جنازے رکھے جاتے ہیں۔ پھر ہم نے اس کی نماز جنازہ کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ساتھ آئے۔
اور آگے اس میت کے دو دینار کے مقروض نکلنے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جنازہ سے انکار کرنے، اور دوسروں کو پڑھنے کا کہنے، اور حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کے وہ قرض اپنے سر لینے، اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس کا جنازہ پڑھانے کا ذکر ہے۔
اور مسند احمد و مستدرک حاکم میں حضرت محمد بن عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ سے حسن درجہ کی حدیث مروی ہے، جس میں وہ بیان فرماتے ہیں:
كنا جلوسا بغنا ء المسجد حيث توضع الجنائز ورسول الله صلى الله عليه وسلم بين ظهر بيننا
ہم مسجد کے سامنے والے صحن میں اس جگہ بیٹھے تھے جہاں جنازے رکھے جاتے ہیں۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہمارے مابین موجود تھے۔
یہ حدیث آگے بھی ہے، لیکن محل شاہد انہی میں آ گیا ہے۔ غرض ان سب احادیث کا مجموعی مفاد یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غالب حالات میں نماز جنازہ مسجد سے باہر جنازگاہ میں پڑھا کرتے تھے۔ اور یہی اصل سنت ہونے کی وجہ سے افضل بھی ہے۔ لیکن چونکہ کبھی کبھار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں بھی نماز جنازہ پڑھی ہے۔ جیسا کہ صحیح مسلم اور دیگر کتب حدیث میں ہے۔ لہٰذا وہ بھی جائز ہے۔ اس کی عدم صحت یا کراہت والی کوئی بات نہیں ہے۔
احکام الجنائز ج 107 – و حسنه فی الشواہد
مانعین کی دلیل اور اس کا جائزہ:
ہم ذکر کر چکے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ تو یہ تھی کہ نماز جنازہ مسجد سے باہر جنازگاہ میں پڑھا کرتے تھے۔ البتہ کبھی کبھار مسجد میں بھی پڑھ لیتے تھے۔ اور یہ دونوں طرح ہی جائز ہے۔
البتہ افضل مسجد سے باہر ہی ہے۔ اور اکثر آئمہ و فقہاء اور عام محدثین کرام کا یہی مسلک ہے، جن کا استدلال صحیح مسلم اور دیگر کتب میں وارد صحیح احادیث و آثار سے ہے۔ جب کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور غیر مدنی فقہاء سے مروی دوسرے قول کے مطابق امام مالک رحمہ اللہ کا بھی یہ مسلک ہے کہ مسجد میں نماز جنازہ صحیح نہیں ہے۔ اور ان کا استدلال ابوداؤد و ابن ماجہ، مسند احمد، بیہقی اور مصنف ابن ابی شیبہ اور معانی الآثار طحاوی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی اس حدیث سے ہے، جس میں ہے:
من صلىٰ على جنازة فى المسجد فلا شي ء له
جس نے مسجد میں کسی کی نماز جنازہ پڑھی اس کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔
ابوداؤد مع العود 479/8 – ابن ماجہ 1517 – مسند احمد 455/2 – ابن ابی شیبہ 365،364/3 – الصحیحہ 3351
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے تہذیب السنن میں کہا ہے کہ یہ حدیث چار طرق سے مروی ہے۔ اور چاروں کے الفاظ ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ ایک سباق میں ہے:
فلا شي ء
تو کچھ نہیں۔
دوسرے میں ہے:
فلا شي ء عليه
اس پر کچھ (گناہ) نہیں۔
تیسرے میں ہے:
فلا شي ء له
اس کے لیے کچھ نہیں۔
اور چوتھے میں ہے:
فليس له اجر
اسے کوئی اجر نہیں ملے گا۔
اور زاد المعاد میں بھی علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے اس اختلافِ الفاظ کو ذکر کیا ہے۔ لیکن وہاں انہوں نے خطیب کی روایت سنن کے حوالے سے لکھا ہے کہ اصل میں یہ ہے:
فلا شي ء عليه
اسے کوئی گناہ نہیں ہے۔
تہذیب السنن على العون 479/8 – عمدة القاری 118/6 – الفتح الربانی 248/7
ان کے علاوہ دوسروں کی روایت میں فلا شي ء له ہے اور ابن ماجہ میں فليس له شي ء ۔
زاد المعاد 500/1
اور یہ تفصیل علامہ زرکشی نے بھی ذکر کی ہے۔
اعلام الساجد ص 352
رفع تعارض:
اس طرح ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مسجد میں جنازہ کے جواز والی حدیث اور اس حدیث کے مابین بظاہر تضاد نظر آتا ہے۔ حالانکہ در حقیقت ایسا نہیں ہے۔ بلکہ اہل علم نے اس حدیث کے پانچ جوابات دیے ہیں۔ جن سے بظاہر نظر آنے والا تعارض رفع ہو جاتا ہے۔ جن میں سے:
پہلا جواب:
یہ ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی یہ عدم جواز کا پتہ دینے والی حدیث ہی متنازع فیہ ہے۔ بلکہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے تو اسے ضعیف کہا ہے۔ اور اسے حجت لینے کو جائز قرار نہیں دیا ہے۔ کیونکہ اسے روایت کرنے میں تو امہ بنت امیہ کا آزاد کردہ غلام صالح منفرد ہے۔ اور اس کے راوی عدل ہونے میں اختلاف ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ نے بھی اس پر جرح کی ہے۔ اور امام بیہقی نے کہا ہے کہ یہ حدیث حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا والی حدیث کے معارض نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ اگر اسے صحیح مان لیا جائے تب بھی وہ اس سے بدرجہا زیادہ صحیح ہے۔
اعلام الساجد ص 352
بہرحال علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے اسے حسن اور شیخ البانی نے صحیح درجہ کی قرار دیا ہے۔ اور شیخ الارناؤوط نے بھی اسے قوی کہا ہے۔
زاد المعاد و تحقیقہ 151،500/1 – صحیح الجامع 515/5/3
لیکن پہلی حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا چونکہ اس سے بدرجہا صحیح تر ہے۔ لہٰذا ان کے مابین کوئی تعارض یا تضاد نہ رہا۔ کیونکہ صحیح یا حسن صحیح تر کی معارض نہیں ہو سکتی۔
دوسرا جواب:
اور اس کا دوسرا جواب وہی جو علامہ ابن قیم رحمہ اللہ اور علامہ زرکشی رحمہ اللہ کے حوالے سے ہم ذکر کر آئے ہیں۔ جس میں ہے کہ اس حدیث کی روایت چار طرح کے الفاظ سے ملتی ہے۔ اور ان میں سے صحیح تر الفاظ یہ ہیں کہ:
فلا شي ء عليه
مسجد میں جنازہ پڑھنے والے پر کوئی مواخذہ نہیں ہے۔
تو گویا اس حدیث میں مسجد میں نماز جنازہ کی ممانعت والی کوئی بات ہی نہ رہی۔
تیسرا جواب:
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ والی حدیث ممانعت کا تیسرا جواب یہ ہے کہ اگر یہ حدیث صحیح بھی ہو تب بھی واجب وضروری ہے کہ اس کی تاویل کی جائے۔ اور فلا شي ء له کا معنی فلا شي ء عليه لیا جائے کہ اس پر کوئی مواخذہ نہیں ہے۔ اس طرح دونوں طرح کی احادیث کا معنی ایک ہی ہو جائے گا۔ اور تناقض یا تضاد و تعارض خود بخود رفع ہو جائے گا۔ اور اس تاویل کی گنجائش موجود ہے کہ له کو عليه کے معنی میں لیا جائے۔ حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک جگہ ایسا ہی کیا ہے۔ جو اس کی بہترین مثال ہے۔ چنانچہ سورہ الإسراء (آیت 7) میں ارشاد الٰہی ہے:
﴿وَإِنْ أَسَأْتُمْ فَلَهَا﴾
اگر تم نے برائی کی تو اس کا وبال تمہاری جانوں پر آئے گا۔
اور مفسرین نے اس کی تفسیر بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہاں مراد یہ ہے:
وإن أساتم فعليها
اگر تم نے برائی کی تو اس کا وبال تمہاری جانوں پر آئے گا۔
یہاں لها اور عليها کی بحث کچھ علمی سی ہے، جو اہل علم سے پوشیدہ نہیں ہے۔ لہٰذا اس سے صرف نظر کرتے ہیں۔
چوتھا جواب:
اور حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا چوتھا جواب یہ ہے کہ بقول امام خطابی رحمہ اللہ اگر یہ حدیث ثابت بھی ہو تو اس میں اس بات کا احتمال موجود ہے کہ اس کے معنی یہ ہوا کہ جو شخص مسجد میں نماز جنازہ پڑھے گا۔ اسے ثواب کم ہوگا۔ کیونکہ جو مسجد میں نماز جنازہ پڑھے گا۔ وہ عموماً وہاں سے اپنے گھر لوٹ جائے گا۔ اور تدفین میں شرکت نہیں کر پائے گا۔ تو وہ اس اجر سے محروم ہو جائے گا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تدفین تک رہنے والوں کے لیے بتایا ہے۔
تدفین تک موجود رہنے کا اجر و ثواب:
موصوف نے ایک حدیث بیان کی ہے۔ اس موضوع کی دراصل کئی احادیث ہیں۔ چنانچہ صحیح مسلم و سنن ابن ماجہ، مسند احمد اور طیالسی میں حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من صلىٰ على جنازة فله قيراط فإن شهد دفنها فله قيراطان القيراط مثل احد
جس نے کسی کی نماز جنازہ پڑھی اسے ایک قیراط کے برابر ثواب ملتا ہے۔ اور جو کسی کی تدفین میں بھی شریک ہوا اسے دو قیراط کے برابر اجر ملتا ہے۔
مسلم مع نووی 17/7/4 ابن ماجه حديث 1540 – الفتح الرباني 196/7 – احكام الجائز ص 168 ، طبع المكتب الاسلامي – صحيح الجامع 3151513 حدیث 6352
اور ایک قیراط جبل احد کے برابر ہوتا ہے۔
اور اسی موضوع کی کئی احادیث اور بھی ہیں۔ جن میں سے کئی طرق سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من شهد الجنازة (من بيتها) (وفي رواية: من اتبع جنازة مسلم ايمانا واحتسابا) حتىٰ يصلىٰ عليها فله قيراط ومن شهدها حتىٰ يدفن (وفي رواية الاخرىٰ: يفرغ منها) فله قيراطان (من الاجر)
جو کسی کے گھر سے اس کے جنازے میں شریک ہوا (اور ایک روایت میں ہے کہ جس نے اللہ پر ایمان رکھتے ہوئے رضائے الٰہی کی خاطر کسی جنازے میں شرکت کی) یہاں تک کہ اس کی نماز جنازہ پڑھی اسے ایک قیراط کے برابر اجر ملے گا۔ اور جو میت کی تدفین تک ساتھ رہا (اور دوسری روایت میں ہے کہ تدفین سے فارغ ہونے تک ساتھ رہا) اسے دو قیراط کے برابر اجر ملے گا۔
بخاری 132347، 1325 – مسلم مع نووى 13/7/4 تا 16 – صحیح ابی داؤد 12، 2713 – صحيح الترمذي 831- صحيح النسائي 84 تا 1887 – ابن ماجه 1539- صحيح الجامع 6138،6134 – الفتح الرباني 192/7، 193 – الجنائز ص 68،67 – ( الباني )
یہ حدیث صحیحین و سنن اربعہ، سنن کبری بیہقی، مسند احمد و طیالسی اور المنتقی ابن الجارود میں مروی ہے۔ اور اس کے آخر میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ قیراطان کیا ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مثل الجلين العظيمين وفي رواية الاخرىٰ كل قيراط مثل احد
بڑے بڑے پہاڑوں کے برابر اور دوسری روایت میں ہے کہ ہر قیراط جبل احد کے برابر ہوتا ہے۔
ایسے ہی براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے بھی اسی مفہوم کا ارشاد نبوی سنن نسائی اور مسند احمد میں مروی ہے۔
صحیح نسائی 148/2 حدیث 1833 – صحيح الجامع حديث 6134 – احكام الجنائز ص 68
اور نسائی و مسند احمد میں اسی مفہوم و معنی کا ایک ارشاد نبوی حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔
حواله جات بالا و الفتح الرباني 196/7
اور مسند احمد و بزار اور مسند ابی یعلی میں حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے بھی ایسی ہی ایک حدیث مروی ہے۔
احكام الجنائز للالباني ص 680 – الفتح الرباني 197/7
ان احادیث کے متن و ترجمہ سے صرف نظر کر رہے ہیں تا کہ اختصار بھی ہو جائے اور ویسے بھی ان میں وہی بات آئی ہے جو بخاری و مسلم، سنن اربعہ اور دیگر کتب والی اس دوسری حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور صحیح مسلم و دیگر کتب والی پہلی حدیث ثوبان رضی اللہ عنہ میں آ گئی ہے۔
ان سب کا مجموعی و مرکزی مفہوم اور معنی ایک ہی ہے کہ اگر صرف نماز جنازہ پڑھی تو ثواب ایک قیراط کے برابر ہو جائے گا۔ اور ایک قیراط احد پہاڑ کے برابر ہوتا ہے۔ اور اسی مفہوم کی بعض دیگر احادیث کی تخریج حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کر دی ہے۔ جن کی تفصیل کے لیے فتح الباری جلد سوم (ص192، 198) تک دیکھی جا سکتی ہے، خصوصاً ص196۔
معلوم ہوا کہ مسجد میں جنازہ پڑھنے والے سستی کر جاتے ہیں، اور وہیں سے صرف ایک قیراط ثواب لے کر واپس ہو جاتے ہیں۔ جب کہ جنازگاہ میں جانے والا ساتھ ہی تدفین میں بھی شرکت کر لیتا ہے۔ اور دو قیراط ثواب پاتا ہے۔ اس طرح مسجد میں نماز پڑھنے والے کے ثواب میں کمی واقع ہو گئی۔
آگے امام خطابی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اس کے علاوہ کسی کے جنازے میں شرکت کے لیے جو قدم قدم پر ثواب ملتا ہے۔ مسجد میں جنازہ ہونے کی صورت میں وہ بھی کم ہو جائے گا۔ اور جنازگاہ دور ہوگی تو زیادہ قدم چلے گا۔ اور ثواب بھی زیادہ ہو گا۔ اس طرح یہ احتمال بھی واضح ہو جاتا ہے کہ حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ثابت ہو جانے کی شکل میں مسجد میں نماز پڑھنے پر ثواب کم ہونے کا پتہ دیا گیا ہے، اور کچھ نہیں۔
پانچواں جواب:
اور اس کا پانچواں جواب یہ بھی دیا گیا ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ والی حدیث مسجد میں پڑھی گئی نماز جنازہ کے صحیح نہ ہونے کی تو کوئی دلیل ہی نہیں ہے۔ پھر یہ جواز پر دلالت کرنے والی احادیث کی معارض کیسے ہو سکتی ہے۔
امام طحاوی رحمہ اللہ کا دعوائے نسخ اور اس کا جائزہ:
یہاں تک تو بات تھی دو قسم کی احادیث میں جمع تطبیق اور موافقت و مطابقت پیدا کرنے کی، تاکہ ان کے مابین بظاہر نظر آنے والا تعارض و تناقض یا تضا درفع ہو، اور سابقہ تفصیل سے وہ الحمدللہ رفع ہو گیا ہے۔
اور یہاں یہ بات بھی ذکر کرتے چلیں کہ امام طحاوی رحمہ اللہ نے ترجیح کی بجائے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا والی حدیث جس سے مسجد میں نماز جنازہ کے واضح جواز کا پتہ چلتا ہے وہ منسوخ ہے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری سنت یا آخر الامرین مسجد میں نماز جنازہ کا ترک ہے۔ اور ان کے نزدیک اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر مسجد میں نماز جنازہ کا جواز منسوخ نہ ہوا ہوتا تو پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے مسجد میں نماز جنازہ پڑھنے پر نکیر و اعتراض نہ کرتے۔ اور نکیر کرنا اس بات کا پتہ دیتا ہے کہ انہیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا والی روایت کے برعکس (عدم جواز والی کسی) روایت کا علم ہو چکا تھا۔
اور امام طحاوی کے اس موقف کی کثیر آئمہ فقہاء اور محدثین نے سخت تردید کی ہے۔ انہی میں سے ایک امام بیہقی بھی ہیں۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ:
اگر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو کسی ایسی حدیث کا علم ہوتا جس سے جواز منسوخ سمجھا جاتا تو وہ اس حدیث کو اس دن پیش فرماتے جس دن عام انصار و مہاجرین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ مسجد نبوی میں پڑھی تھی۔ یا پھر اس دن وہ حدیث پیش فرماتے جس دن حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ بھی مسجد میں ہی پڑھی گئی تھی۔ یا پھر جن لوگوں نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے اس عمل پر نکیر کی تھی، انہوں نے ہی ناسخ حدیث پیش کی ہوتی۔
اور تب نہیں تو جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے اس عمل کے جواز میں حضرت بیضاء رضی اللہ عنہا کے دو بیٹوں حضرت سہل اور ان کے بھائی رضی اللہ عنہما کی نماز جنازہ کے سلسلہ میں بتایا کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نماز جنازہ مسجد میں پڑھی تھی تو کم از کم اسی وقت کوئی نسخ کا پتہ دینے والی حدیث بیان کرتا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ بلکہ جن لوگوں کو جواز کا علم نہیں تھا، انہوں نے اعتراض کیا۔ اور جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواز پر دلالت کرنے والے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل مبارک کا حوالہ دیا تو وہ لوگ خاموش ہو گئے۔ اور پھر کوئی معارضہ و اعتراض نہ کیا گیا۔
بحوالہ زاد المعاد 501/1 – اعلام الساجد ص 352،353
اس سے معلوم ہوا کہ امام طحاوی رحمہ اللہ کا دعوائے نسخ غیر صحیح ہے۔
فتاوی عالمگیری میں مسجد میں نماز جنازہ کے سلسلے میں لکھا ہے کہ:
بارش وغیرہ کا عذر ہو تو مطلق مکروہ نہیں۔ اور بلا عذر ہو تو یہ مکروہ ہے۔ جب کہ حاشیہ میں ابن الہمام کے حوالے سے لکھا ہے کہ انہوں نے اس بات کو ترجیح دی ہے کہ یہ کراہت تنزیہی ہے تحریمی نہیں۔ لہٰذا شافعیہ وغیرہ کے کچھ خلاف نہیں ہے۔
فتاوی عالمگیری اردو ترجمہ مولانا سید امیر علی 262/1، طبع ادارہ نشریات اسلام لاہور
غرض مسجد میں کراہت یا ممانعت اور اس کے صحیح نہ ہونے والا قول ضعیف ہے۔ اور صحیح تر بات یہ ہے کہ باہر جنازگاہ میں اور مسجد میں دونوں جگہ ہی جائز ہے۔ البتہ افضل مسجد سے باہر ہی ہے۔
تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: معالم السنن خطابی 271/1/1، دارالکتب العلمیہ – زاد المعاد 501/1، 502، تحقیق الارناؤوط طبع قطر – اعلام المساجد زرکشی ص 351، 353، طبع اوقاف الامارات – فتح الباری 96/3، دار الافتاء – بدایة المجتہد 243،242/1، المعارف الریاض – عون المعبود 477/8، 480، طبع مدنی – الفتح الربانی و شرحہ 247/7، 250، دار الشہاب قاہرہ – الموسوعة الفقیہہ 35/16، 36، طبع اوقاف الکویت