مسجد میں غیر مسلم (مشرک) کا داخل ہونا
یہاں ایک اور بات بھی ذکر کرتے جائیں کہ ہمارے بعض لوگ کسی غیر مسلم کو کہیں کسی مسجد میں دیکھ لیں تو وہ سخت سیخ پا و برہم ہوتے ہیں۔ اور سمجھتے ہیں کہ یہ کوئی انہونی ہو گئی ہے۔ ان کی یہ غیرت دراصل مسئلے سے عدم واقفیت کا نتیجہ ہے۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ کسی غیر مسلم و مشرک یعنی ہندو، سکھ اور عیسائی کے مسجد میں داخل ہو جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کیونکہ غیر مسلم کو خود نبی اکرم صلى الله عليه وسلم نے مسجد میں داخل کرنا ثابت ہے۔
اور رہی یہ بات کہ یہ لوگ نجس ہوتے ہیں۔ تو اس میں کوئی شک نہیں لیکن ان کی نجاست حکمی ہوتی ہے، حسی نہیں۔ اور پھر ان کے اہل کتاب یا غیر اہل کتاب ہونے کا بھی کوئی فرق نہیں کیونکہ ہر دو کا داخلہ ثابت ہے۔
غرض اس سلسلہ میں جمہور اہل علم کا مسلک تو یہی ہے جو ابھی ہم نے ذکر کیا ہے۔ البتہ آئمہ و فقہاء کے اقوال میں تھوڑا تھوڑا فرق ہے۔ مثلاً احناف تو مشرکین یا کفار کے مسجد میں داخلے کے مطلقاً جواز کے قائل ہیں۔ امام مالک، فقہاء مالکیہ، بعض اہل ظاہر اور شوافع میں سے مزنی مطلقاً ممانعت کے قائل ہیں۔
عام شافعیہ مسجد حرام (مکہ مکرمہ) اور دیگر مساجد کے مابین فرق کرتے ہیں کہ اس میں کوئی غیر مسلم داخل نہیں ہو سکتا۔ دوسری مساجد میں کوئی داخل ہو جائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ کتابی و غیر کتابی میں فرق ہونا چاہئے کہ جو اہل کتاب میں سے ہو، اس کے داخلے میں مضائقہ نہیں۔ اور غیر اہل کتاب کا داخلہ جائز نہیں ہے۔
فتح الباری560/1 ۔ نیل الاوطار 36,37/1/1
جب کہ جواز و عدم جواز اور قائلین فرق و عدم فرق والے اہل علم کے پاس دلائل موجود ہیں۔ جن کا جائزہ لیا جائے، تو جمہور اہل علم والا پہلا مسلک یعنی جواز ہی ثابت ہوتا ہے۔
چنانچہ اس سلسلہ میں اختلاف رائے کا بنیادی سبب غیر مسلم کی نجاست حکمی یا نجاست حسی میں اختلاف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غیر مسلم کے مسجد میں داخل ہونے کے جواز اور عدم جواز کے بارے میں آئمہ و فقہاء کی آراء مختلف ہیں۔ اور ان میں سے:
مانعین کے دلائل:
امام مالک، فقہاء مالکیہ، بعض اہل ظاہر اور شافعیہ میں سے امام مزنی رحمہم اللہ مشرک و غیر مسلم کے مسجد میں داخلے کو جائز نہیں سمجھتے۔ ان کا استدلال ایک تو اس آیت سے ہے جو سورہ توبہ میں آیت نمبر 28 ہے۔ اور اس میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَٰذَا﴾
اے ایمان والو! مشرکین نجس ہیں۔ اس سال کے بعد دوبارہ وہ کبھی مسجد حرام کے قریب نہ آنے پائیں۔
اور مشرکین چونکہ بیت اللہ شریف کے حج کے لیے اتے تھے، تو اپنے ساتھ غلہ اور دیگر تجارتی سامان بھی لاتے تھے ۔جس سے اہل مکہ کو بہت فائدہ ہوتا تھا ۔لیکن جب ان کے مسجد حرام کے قریب آنے کی ممانت کر دی گئی تو فطرتی بات تھی کہ مسلمانوں کو ان اشیاء کی قلت کا خدشہ اور فقر و فاقہ کا اندیشہ ہوا تو ان کے اس وہم کو دور کرنے کے لیے اس ایت کا اخری حصہ بھی اللہ تعالی نے نازل فرمایا ۔جس میں ارشاد باری تعالی ہے:
﴿وَإِنْ خِفْتُمْ عَيْلَةً فَسَوْفَ يُغْنِيكُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ إِن شَاءَ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ حَكِيمٌ﴾
اور اگر تمہیں فقر و تنگدستی کا خدشہ ہے تو (فکر مند مت ہوئیے) عنقریب تمہیں اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے غنی و مالدار کر دے گا۔ اللہ بڑا علم و حکمت والا ہے۔
اس آیت کے الفاظ:
إنما المشركون نجس
کہ مشرکین نجس ہیں۔
انہیں بنیاد بنا کر کہا گیا ہے کہ کسی مشرک کو مسجد میں داخل کرنا جائز نہیں ہے۔ اور اسی آیت کے ان اور ان سے اگلے الفاظ:
فلا يقربوا المسجد الحرام بعد عامهم هذا
کہ اس کے بعد وہ مسجد حرام کے قریب نہ آئیں۔
سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ دیگر مساجد میں داخل ہوں تو ہوں، مسجد حرام (مکہ مکرمہ) میں ہرگز جائز نہیں ہے۔
اور مانعین کی دوسری دلیل ایک حدیث کا مفہوم ہے، جو کہ صحیح مسلم و ابو داؤد، نسائی، ابن ماجہ اور مسند احمد و بعض دیگر کتب حدیث میں حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ راستہ میں نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کے روبرو ہوئے۔ لیکن ایک طرف کھسک گئے اور جا کر غسل کیا۔ اور پھر حاضر خدمت ہوئے اور عرض کیا کہ میں جنابت سے تھا ۔ (مجھ پر غسل فرض ابھی باقی تھا) تو نبی اکرم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
المسلم لا ينجس
مسلم مع نووی 67/4/2 – صحیح ابی داؤد 211 – صحیح نسائی 258، 259 -المنتقى مع نبل 101،36/1/1-102
مسلمان نجس و ناپاک نہیں ہوتا۔
اور ایسی ہی ایک حدیث صحیحین و سنن اربعہ، مسند احمد اور بعض دیگر کتب میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔ اس میں وہ اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ مدینہ طیبہ کے راستوں میں سے کسی جگہ میرا سامنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہو گیا۔ لیکن میں چپکے سے نکل گیا۔ جا کر غسل کیا اور پھر حاضر خدمت ہوا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:
إين كنت يا أبا هريرة ؟
اے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ تم کہاں تھے؟
تو میں نے عرض کیا:
كنت جنبا فكرهت أن أجا لسك وأنا على غير طهارة
میں جنابت سے تھا، اور مجھے اچھا نہیں لگا کہ میں پاک ہوئے بغیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھوں۔
تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
سبحان الله إن المؤمن لا ينجس
بخاری 285 – مسلم مع نووی 67/4/2 – صحیح ابی داؤد 212 – صحیح ترمذی 100 – صحیح نسائی 260 – ابن ماجه 534
اللہ پاک ہے، بے شک مومن نجس اور ناپاک نہیں ہوتا۔
ان احادیث کا منطوق تو یہ ہے کہ مومن و مسلم ناپاک نہیں ہوتا، جبکہ ان کا مفہوم مخالف یہ بھی بنتا ہے کہ غیر مسلم نجس ہوتا ہے۔ اس مفہوم مخالف کو دلیل بنا کر مالکیہ وغیرہ نے کافر و مشرک کے مسجد میں داخل ہونے کو منع قرار دیا ہے۔
ایسے ہی ان کی چوتھی دلیل وہ حدیث ہے جس میں بنی ثقیف کے وفد کی آمد کا ذکر ہے۔ انہیں جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں بٹھایا تھا، تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو تعجب ہوا تو انہوں نے کہا:
قوم أنجاس
نیل الأوطار 20/1/1، طبع دار التراث
یہ تو نجس لوگ ہیں۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ان الفاظ سے بھی وہ استدلال کرتے ہیں۔ حالانکہ ان کے اس استدلال کا جواب۔ خود اسی حدیث میں ہی موجود ہے۔ جسے ہم آگے چل کر ذکر کرنے والے ہیں۔
اور وہ ایک اور حدیث سے بھی استدلال کرتے ہیں، جو بخاری، مسلم، ابو داؤد، ترمذی، مسند احمد میں حضرت ابو ثعلبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ ہم اہل کتاب کے علاقے میں رہتے ہیں اور انہی کے برتنوں میں کھاتے پیتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إن وجدتم غيرها فلا تأكلوا فيها وإن لم تجدوا فاغسلوها وكلوا فيها
بخاری 5478، 5496، 5488 – مسلم مع نووی 79/13/7 – صحیح ابی داؤد 3252 – صحیح ترمذی 1265 – ابن ماجه 3207 – مسند احمد 193/4، 195 – المنتقى 101/1/1
اگر تمہیں دوسرے برتن مل سکتے ہوں، تو ان کے برتنوں میں مت کھاؤ۔ اور اگر تمہیں دوسرے برتن نہ ملیں تو انہی کے برتنوں کو دھو لو اور ان میں کھا پی لو۔
ابو داؤد اور مسند احمد میں یہ بھی ہے کہ حضرت ابو ثعلبہ رضی اللہ عنہ نے بتایا:
إنهم يأكلون لحم الخنزير ويشربون الخمر
صحیح ابی داؤد 3252 – مسند احمد 193/4، 195 – المنتقى ایضاً
کہ وہ لوگ خنزیر کھاتے اور شراب پیتے ہیں۔
ان کے نزدیک برتنوں کو دھونے کا حکم دیا جانا۔ ان کے نجس ہونے کی وجہ سے ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ بلکہ
قائلین جواز کا مانعین کو جواب اور دلائل جواز:
جمہور اہل علم جو غیر مسلم کے مسجد میں داخلے کا کوئی حرج نہیں سمجھتے، وہ ان مانعین کا یہ جواب دیتے ہیں کہ
➊ پہلی بات تو یہ ہے کہ مشرک کی نجاست سے مراد یہ ہے کہ وہ عقیدے کے اعتبار سے اور حکماً نجس ہے۔ حسی طور پر یا جسمانی طور پر نجس و ناپاک نہیں ہے۔ اور آیت کی اس تاویل کے صحیح ہونے کے لیے ان کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سورہ مائدہ کے شروع میں اور خاص کر اس کی پانچویں آیت میں جن عورتوں سے نکاح جائز ہے، ان کا تذکرہ کیا ہے، اور فرمایا ہے:
﴿وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ﴾
المائدہ : 5
اور ان لوگوں کی پاک دامن عورتیں جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی (تمہارے لیے حلال ہیں)۔
تو اہل کتاب کی عورتوں کا مسلمانوں کے لیے اپنے نکاح میں لینا مباح کہا گیا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ ان سے نکاح کر کے یہ تو ناممکن ہے کہ ایسی عورت کے شوہر کو اس کا پسینہ کبھی نہ لگے گا۔ لیکن اس کے باوجود ایسا کوئی حکم نہیں کہ ایسی عورت کا شوہر محض اس کا پسینہ لگنے سے ہی غسل کرتا پھرے۔ بلکہ اس کے شوہر کو بھی انہی اسباب پر غسل کا حکم ہے۔جن پر ایک مسلمان عورت کے شوہر کو ہے۔
تو معلوم ہوا کہ غیر مسلم کا پسینہ وغیرہ نجس نہیں ہے اور نہ ہی وہ خود نجس العین ہے۔ بلکہ ان کی نجاست حکمی ہے، حسی نہیں۔ اور یہی بات مسلمانوں کے لیے اہل کتاب کے کھانے کے حلال ہونے سے بھی اخذ کی جا سکتی ہے۔ کیونکہ سورہ مائدہ کی آیت نمبر 5 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
﴿وَطَعَامُ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حِلٌّ لَّكُمْ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّهُمْ﴾
اور اہل کتاب کا کھانا تمہارے لیے حلال کیا گیا ہے۔
اور جب ان کی عورتیں حلال ہیں اور کھانا حلال ہے، تو پھر وہ خود نجس العین کیسے ہو سکتے ہیں؟ بلکہ ان کی نجاست حکمی ہے، حسی نہیں۔ اور یہی جواب کہ مشرکین نجس و ناپاک تو ہیں، لیکن ان کی نجاست حکمی ہے، حسی نہیں۔ ان کی دوسری اور تیسری دلیل والی دونوں احادیث کا بھی ہے۔
➋ اب رہا معاملہ وفد ثقیف کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مسجد میں بٹھانے کا، تو وہ واقعہ مانعین کے حق میں نہیں۔ بلکہ ان کے خلاف جاتا ہے۔ کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جب دیکھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنی مسجد میں بٹھایا ہے۔ تو تعجب کیا اور کہا:
قوم أنجاس
یہ نجس لوگ ہیں۔
اگر یہ بات یہیں پر ختم ہو جاتی، تو پھر واقعی مانعین کی کوئی بات بن جاتی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا، بلکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جواب دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ:
إنما أنجاس القوم على أنفسهم
بحوالہ نیل الأوطار 37/1/1
ان کی نجاست کا وبال ان کی اپنی جانوں پر ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد گرامی کے یہ الفاظ اس کی صریح دلیل ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے حسی نجاست کی نفی فرمادی، جو کہ محل نزاع ہے۔ اور واضح فرمادیا کہ ان کی نجاست حکمی و معنوی ہے۔ یعنی عقیدے کی نجاست ہے، حسی اور جسمانی نجاست نہیں۔
➌ اور ہا کفار و مشرکین کے برتنوں کے دھونے کے حکم نبوی سے مانعین کا یہ استدلال کرنا .کہ وہ نجس ہیں لہذا ان کا مسجد میں داخل ہونا جائز نہیں .تو قائلین جواز ان کی اس دلیل کا جواب یہ دیتے ہیں.
کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل کتاب کے علاقے میں رہنے والے صحابہ رضی اللہ عنہم کو ان کے برتن دھو کر استعمال کرنے کا حکم اس لیے نہیں فرمایا تھا کہ وہ برتن ان کی رطوبتوں سے نہیں بچ پاتے۔ اور نہ ہی اس لیے کہ وہ نجس عین ہیں۔ لہذا ان کی رطوبت بھی نجس ہے اور ان کے برتن ناپاک ہیں۔ اس لیے انہیں حکم دیا گیا ہو کہ ان کے استعمال شدہ یا جھوٹے برتنوں کو دھو لیا کرو، ایسا نہیں ہے۔ بلکہ ان کے برتنوں کو استعمال کرنے کے لیے انہیں دھونے کا حکم اس بناء پر فرمایا تھا کہ وہ لوگ اپنے برتنوں میں خنزیر کا گوشت پکاتے اور شراب پیتے تھے۔ جیسا کہ ابو داؤد اور مسند احمد کی روایت میں اس صحابی کے بیان سے واضح ہے:
إنا أرضنا أرض أهل الكتاب وإنهم ليأكلون لحم الخنزير ويشربون الخمر فكيف نصنع بآنيتهم وقدورهم
صحیح ابی داؤد حدیث 3252 – مسند احمد 193/4، 195 – المنتقى 101/1/1
ہم اہل کتاب کے علاقے میں رہتے ہیں، اور وہ لوگ خنزیر کا گوشت کھاتے ہیں اور شراب پیتے ہیں۔ ہم ان کے برتنوں اور ہانڈیوں کو کس طرح استعمال میں لایا کریں؟
تو گویا ان کے برتنوں کو دھونے کا حکم ان لوگوں کے نجس ہونے کی وجہ سے نہیں، بلکہ ان کے نجس و حرام اشیاء کھانے پینے کی وجہ سے تھا۔ تا کہ ان کے برتنوں سے ان حرام اشیاء کے اثرات کو دھو کر زائل کر لیا جائے۔ اس پر مستزاد یہ کہ ابو داؤد، مسند احمد اور مصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں غزوات میں شریک ہوتے تھے اور مشرکین کے برتن و مشکیزے پاتے اور انہیں اپنے استعمال میں لاتے تھے۔
ولا يعيب ذلك عليهم
صحیح ابی داؤد 3251 و المنتقى ایضاً
اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ہمارے لیے معیوب قرار نہیں دیتے تھے۔
اس سے بھی پتہ چلتا ہے کہ مشرکین نجس العین نہیں ہوتے کہ ان کا مسجد میں داخلہ ناجائز ہو۔ اور پھر اگر ان کے برتنوں کو دھونے کا حکم ان لوگوں کے نجس العین ہونے کی وجہ سے ہوتا، تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے برتنوں کے علاوہ دوسرے برتنوں کے عدم وجود کی شرط عائد نہ فرماتے، یعنی إن لم تجدوا غيرها نہ فرماتے کہ اگر تمہیں دوسرے برتن نہ ملیں تب ان کے برتنوں کو دھو کر استعمال کر لو۔ کیونکہ نجاست نہ لگے برتن اور نجاست زائل کر کے پاک کیے گئے برتن میں باہم کوئی فرق ہی نہیں ہے۔ وہ پاک ہے اور یہ پاک کر لیا گیا ہے۔ پھر ان کے برتنوں کے سوا کسی دوسرے برتن کے عدم وجود کا کیا معنی ہوا۔
یہ دراصل ان سے نفرت دلانے کے لیے تھا کہ وہ عقیدتاً اور معنوی طور پر ناپاک نجس ہیں۔ نہ یہ کہ وہ جسماً اور حسی طور پر ناپاک و نجس ہیں۔
فتح الباری 521/9 و نیل الأوطار 102/1/1
➍ اور مانعین کی طرف سے جو سورہ توبہ کی آیت نمبر 28 کے الفاظ:
﴿إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ﴾
اور اسی طرح ارشاد نبوی:
إن المسلم لا ينجس
ور مسلمان نجس نہیں ہوتا۔
اور سبحان اللہ:
إن المؤمن لا ينجس
کہ مومن نجس نہیں ہوتا۔
اس کے مفہوم مخالف سے جو استدلال کیا جاتا ہے کہ کافر و مشرک نجس ہیں، تو مسجد میں کافر و مشرک کے داخلے کو جائز قرار دینے والے اس کا چوتھا جواب یہ بھی دیتے ہیں کہ یہ لوگوں کے دلوں میں ان سے نفرت پیدا کرنے اور ان کی اہانت واضح کرنے کے لیے ہے۔ نہ کہ ان کے نجس العین ہونے کی وجہ سے۔ اور اس کے ان سے نفرت و اہانت کے لیے ہونے کا قرینہ بھی موجود ہے۔ جو کئی ایک احادیث و واقعات سے ظاہر ہے۔ مثلاً:
اولاً: صحیح بخاری و مسلم و دیگر کتب حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں مذکور ہے:
إنه توضأ من مزادة مشركة
بخاری 344 – مسلم مع نووی 190/5/3، 191 – المنتقى مع نبل 102/1/1
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکہ عورت کے مشکیزے سے وضو فرمایا۔
ثانیاً: ایسے ہی امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بارے میں بھی صحیح بخاری میں تعلیقاً اور مصنف عبدالرزاق و شافعی، سنن کبریٰ بیہقی میں موصولاً مروی ہے کہ:
إنه توضأ من جرة نصرانية
بخاری مع الفتح 268/1، 299
انہوں نے ایک نصرانی عورت کے گھڑے سے وضو کیا۔
ثالثاً: ابو داؤد و مسند احمد میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلا و نصاریٰ سے لایا گیا پنیر تناول فرمایا۔
نیل الأوطار 37/1/1
رابعاً: مسند احمد میں حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:
إن يهودية دعت النبى صلى الله عليه وسلم إلى خبز الشعير وإهالة سنخة فأجابها
المنتقى 100/1/1
ایک یہودیہ عورت نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو کی روٹی اور متغیر ہوئے والے چکنے سالن (چربی) کی دعوت دی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی دعوت قبول فرمائی۔
خامساً: واقعہ مشہور ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کی ایک یہودیہ عورت کی بکری کا گوشت کھایا، جو اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدیہ دیا تھا۔
نیل الأوطار 37/1/1 – بخاری حدیث 4249 – فتح الباری 0569/7 طبع دار الریان
سادساً: اہل کتاب عورت سے شادی و مباشرت کو قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے حلال قرار دیا ہے۔
سابعاً: اہل کتاب کے کھانے کو مسلمانوں کے لیے حلال قرار دینا۔ جیسا کہ ان دونوں کی حلت کا ذکر سورہ مائدہ کی آیت نمبر 5 کے حوالے سے گزرا ہے۔
ثامناً: اور صحیح بخاری و مسلم اور ابن خزیمہ سمیت دیگر کتب حدیث میں ملک یمامہ کے حاکم اور قبیلہ بنی حنیفہ کے سردار ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ کا واقعہ مذکور ہے کہ انہیں مسجد نبوی کے ستون کے ساتھ تین دن باندھے رکھا گیا۔
بخاری 468، 469 – مسلم 89، 90/12/6 – صحیح ابی داؤد 2331 – صحیح نسائی 688
یہ تمام حدیث و واقعات اس بات کا قرینہ ہیں کہ جن آیات و احادیث میں کفار و مشرکین کو نجس کہا گیا ہے۔ ان سے معنوی یا عقیدے کی نجاست مراد ہے۔ ان سے ترک موالات کرانا اور نفرت دلانا مقصود ہے۔ نہ یہ کہ وہ حسی و جسمانی طور پر نجس ہیں۔
اہل کتاب اور غیر اہل کتاب میں عدم فرق:
ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ کے واقعہ سے یہ بات بھی واضح ہو گئی ہے کہ اہل کتاب اور غیر اہل کتاب کا اس معاملے میں کوئی فرق نہیں۔ بلکہ وہ دونوں یکساں ہیں کیونکہ ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) میں سے نہیں تھے، بلکہ (اس وقت) ایک عام غیر مسلم مشرک تھے۔
فتح الباری 560/10
امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں باقاعدہ ایک باب باندھا ہے:
باب دخول المشرك المسجد
مسجد میں مشرک کے داخلے کا بیان
اور اس باب کے تحت وہ ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ والی حدیث ہی لائے ہیں۔ جس سے ان کے رجحان کا پتہ چلتا ہے کہ ان کے نزدیک بھی غیر مسلم یعنی کافر و مشرک، اہل کتاب و غیر اہل کتاب مسجد میں داخل ہو سکتا ہے۔ اور امام نووی رحمہ اللہ نے جمہور علماء سلف و خلف سے نقل کیا ہے کہ کافر نجس العین نہیں ہے۔ اور العز بن عبد السلام المعروف بائع الملوک کا بھی یہی قول ہے۔
نیل الأوطار 101/1/1 و 38/1/1
اور مقبلی نے” المنار“ میں سورہ توبہ کی آیت نمبر 28 ﴿إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ﴾ سے کفار کی نجاست پر استدلال کو وہم سے تعبیر کیا ہے۔ اور آگے اس کی وضاحت بھی کی ہے۔ اور بتایا ہے کہ یہ تو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کو ایک نو ایجاد اصلاح پر محمول کرنے والی بات ہے۔ لیکن امام شوکانی رحمہ اللہ نے ان کی اس بات پر کچھ اختلاف کیا ہے۔ بالکل موافقت نہیں کی۔
حوالہ بالا
اور ان کا اختلاف یا عدم موافقت صرف علت یا سبب سے متعلق ہے۔ ورنہ اصل مسئلے میں وہ خود بھی جمہور علماء کے ساتھ، بلکہ ان کے زبردست حامی اور کفار کے نجس نہ ہونے کے قائل ہیں۔
اور امام خطابی رحمہ اللہ نے معالم السنن میں مشرک کے دخول مسجد کے جواز کو اختیار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ بوقت ضرورت مسجد میں داخل ہو سکتا ہے۔ مثلاً اس کا کوئی قرض دار مسجد میں ہوا اور باہر نہ نکل رہا ہو تو وہ اندر جا سکتا ہے۔ ایسے ہی اگر اس نے کوئی کیس قاضی کی عدالت میں دائر کروانا ہو، اور قاضی مسجد میں بیٹھا ہو تو اس کے لیے جائز ہے کہ اپنا حق ثابت کرنے کے لیے مسجد میں چلا جائے۔ اور ایسے دیگر امور کے لیے بھی اس کا مسجد میں داخلہ جائز ہے۔
معالم السنن 125/1/1، طبع دار الكتب العلمية بیروت
اور امام خطابی نے یہ بات ابو داؤد کی اس حدیث کی شرح کے وقت لکھی ہے جو بخاری و مسلم میں بھی ہے۔ جس میں حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک آدمی (جو کہ مشرک و غیر مسلم تھا) اپنے اونٹ پر سوار مسجد نبوی میں آیا اور اپنا اونٹ بٹھا کر پوچھتا ہے کہ تم میں سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کون ہے؟ جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے مابین ٹیک لگائے بیٹھے ہوئے تھے۔ ہم نے اس آدمی سے کہا:
هذا الابيض المتكي
ابو داؤد مع معالم السنن 125/1/1 – صحیح ابی داؤد 96/1
یہی گورے رنگ والے جو ٹیک لگائے بیٹھے ہیں۔
یہی یا ایسی ہی اور حسن درجہ کی سند والی حدیث بھی ابو داؤد میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے۔
صحیح ابی داؤد 96/1، 97 – ابو داؤد مع العود 153/2
جب کہ اسی باب میں ایک تیسری حدیث حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔ جس میں یہودیوں کے مسجد میں آنے کا ذکر ہے ۔جب کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے۔ لیکن وہ ضعیف حدیث ہے۔
ضعیف ابی داؤد ص 45، طبع المكتب الاسلامي بیروت
البتہ نفس مسئلہ چونکہ دیگر احادیث سے ثابت ہے۔ لہذا اس حدیث کی ضرورت ہی کیا ہے؟ محض اس کے ضعف کو واضح کرنا مقصود ہے۔
اب رہا مسئلہ کفار و مشرکین اور یہود و ہنود یا نصاریٰ اور سکھوں کے تعمیر مسجد میں حصہ لینے اور کام کرنے کا، تو معاملہ یہ بھی وہی ہے کہ جب تیار شدہ مسجد میں ان کا داخلہ جائز ہے، تو پھر زیر تعمیر مسجد میں کیونکر ممنوع ہوگا؟
البتہ اتنا ضرور ہے کہ مسئولین یا انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ اس معاملے میں کافی حزم و احتیاط سے کام لیں۔ اور اسی بات کو ترجیح دیں کہ کسی ایسے کنٹریکٹر کو کام دیں، جو خود بھی مسلم ہو، جس کی لیبر بھی مسلمانوں پر مشتمل ہو یا کم از کم تعمیر مسجد کے لیے مسلمان ہوں، خصوصاً انجینئر وغیرہ، نگرانی کرنے والے تو ضرور ہی مسلمان ہوں۔ کیونکہ بعض دفعہ ایسا بھی ہوا ہے۔
اور اس کی زندہ مثال بھی متحدہ عرب امارات کے ایک شہر میں بنائی گئی ایک بہت بڑی جامع مسجد کی شکل موجود ہے۔ جسے کسی متعصب غیر مسلم نے اپنی نگرانی میں تعمیر کروایا۔ تو اس نے اس مسجد کے بڑے ہال پر بنے ہوئے اور دوسرے چھوٹے گنبدوں میں ایسے خبث باطن کا اظہار کیا ہے کہ سورج موجود ہو تو آپ مسجد کے چاروں طرف جدھر بھی گزریں، مسجد کے گنبد کی گولائی اور پینٹنگ ایسی کی ہے کہ سورج کی روشنی سے اس پر عیسائیوں کا مذہبی شعار صلیب یعنی سولی یا کراس بنا رہتا ہے۔ ایسے لوگوں کی ایسی شیطنت سے بچنے کے لیے ایسے لوگوں کو تعمیر مسجد سے دور ہی رکھنا چاہیے۔